خوف نفرت تعصب ہیجان اور افراتفری
یہ پاکستان کے ہر اہم ادارے سے اتنی دیر تک محبت کرتی ہے جب تک وہ ان کے ایجنڈے کے مطابق کام کرتا ہے
میرے سامنے ایک غیرملکی سفارت خانے اور اس کے ایک ملکی امدادی ادارے کے وہ تازہ ترین اشتہارات ہیں جن میں پاکستان بھر میں کام کرنے والی این جی اوز سے درخواستیں طلب کی گئیں ہیں تا کہ ان کو مختلف پروجیکٹ کے لیے فنڈز فراہم کِئے جائیں۔ ہر شعبہ کے حوالے سے درخواست دینے کی علیحدہ آخری تاریخ ہے۔ سفارت خانے کا پبلک افیئرز آفس تعلیمی شعبے میں درخواستیں مانگ رہا ہے تواس کا امدادی ادارہ کاروباری مہارتیں پیدا کرنے اور خواتین کو معاشی طور پر خود مختار کرنے کے لیے فنڈز مہیا کرنے پر تیار ہے۔
یہ صرف ایک سفارت خانے کی بات نہیں، پاکستان میں موجود ہر مغربی ملک کے سفارت خانے نے اعلانیہ یا خاموشی سے پاکستان میں اپنے مقصد کی این جی اوز کو رقم فراہم کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ آپ درخواست جمع کرائیں۔ آپ کی این جی او کے مقاصد اگر ان سفارت خانوں کے مقاصد کو پورا کرتے ہوں تو آپ پر ڈالروں، پاؤنڈوں اور یوروز کی بارش شروع ہو جائے گی۔ سفارت خانوں کے علاوہ پوری دنیا میں ڈونرز کا ایک جال بچھا ہوا ہے، کئی سو فاؤنڈیشن ہیں جو پاکستان میں لوگوں کو اپنے ایجنڈے کے مطابق سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔
پاکستان میں یہ تمام ڈونرز علی الاعلان اخبارات میں بھی اور انٹرنیٹ پر بھی درخواستیں طلب کرتے ہیں، اس کے بعد ملک بھر سے سرمائے کی طلب میں حواس باختہ لوگ اپنی این جی اوز رجسٹرڈ کرواتے ہیں۔ پھر ان تمام ڈونرز کے مطابق پراجیکٹ ترتیب دیتے ہیں، اس کے بعد اپنی درخواستیں جمع کرواتے ہیں اور انھیں کروڑوں کے حساب سے سرمایہ فراہم ہو رہا ہے۔ مثلاً یورپی کمیشن نے پراجیکٹ کے لیے امداد کی زیادہ سے زیادہ شرح سات لاکھ پچاس ہزار یورو رکھی ہے جب کہ کسی بھی این جی او کو کم سے کم ملنے والی امداد پانچ لاکھ یورو ہے۔ یہ تمام امداد کس قسم کی این جی اوز کو دی جاتی ہے۔
یہ ہے اصل سوال اور اس سوال کے جواب میں ہی وہ راز پنہاں ہے جس نے پاکستان کے معاشرے کو خوف، نفرت، تعصب اور افراتفری کا شکار کر رکھا ہے۔ سب سے زیادہ امداد Advocacy یعنی وکالت، حمایت اور (Awareness) یعنی آگاہی اور شعور کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کو دی جاتی ہے۔ یہ شعور اور وکالت بھی جن شعبوں میں دی جاتی ہے، ان میں سب سے پہلے نمبر پر حقوق نِسواں اور پھر اقلیتوں کے حقوق والی تنظیمیں آتی ہیں۔ آگاہی اور شعور کی بہترین مثال یہ ہے کہ آپ بھوکے کو بار بار اس بات کا احساس دلائیں کہ تمہیں بھوک لگتی ہے، تم کھاؤ گے نہیں تو تمہاری صحت خراب ہو جائے گی اور تم مر جاؤ گے، لیکن اسے کبھی روٹی فراہم نہ کرو۔ کیونکہ روٹی فراہم کرنا ان تمام این جی اوز کے نزدیک محتاجی کو عام کرنا ہے، جسے وہ اپنے زبان میں (Dependence) کہتی ہیں۔
اس لیے وہ کہتی ہیں کہ اگر لوگوں کو اپنے حقوق اور محرومی کا شعور دے دیا جائے تو وہ خود آگے بڑھ کر اسے حاصل کر لیتے ہیں۔ گزشتہ تیس سال سے یہ سفارت خانے اور ڈونرز اس ملک میں اربوں روپے کا سرمایہ ان این جی اوز کو فراہم کر چکے ہیں اور اس تمام سرمایہ کاری پر حکومتِ پاکستان کو کسی بھی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی وہ ایسی کسی قسم کی فنڈنگ کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان گزشتہ تیس سالوں سے اس وافر سرمائے کی فراہمی نے ان تمام این جی اوز کے کرتا دھرتا افراد کو ملا کر ایک سول سوسائٹی تخلیق کر دی ہے جو ایسے وقت میں سڑکوں پر نکلتی ہے جب ان تمام ڈونرز کا ایجنڈ انھیں نکلنے پر مجبور کرتا ہے۔
یہ ان تمام افراد اور اداروں کے خلاف آواز بلند کرتی ہے جو اس ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ پاکستان کے ہر اہم ادارے سے اتنی دیر تک محبت کرتی ہے جب تک وہ ان کے ایجنڈے کے مطابق کام کرتا ہے لیکن جیسے ہی ان اداروں کا کوئی بھی عمل ان کے ایجنڈے سے مختلف ہو جائے تو یہ این جی اوز پاکستان کی سلامتی تک داؤ پر لگاتے ہوئے پاکستان کے ہر ادارے کی تضحیک کرتی ہے اور انھیں پاکستان کی تباہی اور بربادی کا ذمے دار قرار دیتی ہے۔
یہ سول سوسائٹی شعور اور وکالت کے نام پر لوگوں میں خوف، نفرت، تعصب اور ہیجان کیسے پیدا کرتی ہے۔ اس کا اندازہ اس کے کام کرنے کے طریق ِکار سے ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں روزانہ ہزاروں ایف آئی آر درج ہوتی ہیں جن میں ہزاروں بے گناہ مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ ان میں کئی بے گناہ افراد جھوٹے گواہوں اور انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے پھانسی کے گھاٹ تک بھی جا پہنچتے ہیں، لیکن یہ سول سوسائٹی صرف توہین رسالت کے ایسے مجرم کے لیے سڑکوں اور چوراہوں پر آئے گی جو کسی اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔
توہین رسالت کے زیادہ تر مقدمے مسلمانوں کے خلاف درج ہوتے ہیں لیکن عیسائیوں یا ہندووں کے مسئلے کو خصوصاً اچھالنا دراصل اس پوری کمیونٹی کے اندر خوف، نفرت، تعصب اور ہیجان پیدا کرنا ہوتا ہے۔ تا کہ ان کا بچہ اس بات پر یقین کر لے کہ یہ زیادتی صرف ان کے ساتھ ہو رہی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے تمام رفاہی تعلیمی ادارے قومی ملکیت میں لے لیے تھے۔ اس سے پہلے مسلمان رفاہی ادارے بھی ملک بھر میں تعلیمی ادارے چلاتے تھے اور عیسائی مشنری بھی، لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد استثناء ہے کہ کسی مسلمان رفاہی ادارے کو اس کے تعلیمی ادارے واپس نہیں کیے گئے لیکن تمام عیسائی مشنری تنظیموں کو ان کے تعلیمی ادارے واپس کر دیے گئے اور آج یہ ادارے اس ملک میں اپنی مرضی کی تعلیمی پالیسی اور مخصوص نصابِ تعلیم کے تحت چل رہے ہیں۔
اس سول سوسائٹی نے کبھی عیسائی اقلیت کے ساتھ اس بہترین سلوک کا ذکر تک نہیں کیا، اس لیے کہ کہیں اس اقلیت میں یہ احساس پیدا نہ ہو جائے کہ تمہیں مسلمانوں سے بھی بہتر سلوک سے نوازا گیا۔ اس لیے بھی کہ ایسا کرنے سے ''آگاہی اور وکالت'' کے اس ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ملک میں بھٹہ کے مزدور ہر رنگ نسل اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور بدترین غلامی کا شکار ہیں۔ اکثر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جب انھیں مالکان اپنے تشدد کی انتہا پر پہنچتے ہوئے زندہ جلا دیتے ہیں۔ خوفزدہ یہ لوگ کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ لیکن مسئلہ اچھالنا ہو تو کسی بھی اقلیت کو سامنے رکھ کر اچھالا جاتا ہے۔
توہین قرآن پر گوجرانوالہ میں ایک شخص کو ڈنڈے مار کر مار دیا گیا لیکن کوئی سول سوسائٹی حرکت میں نہ آئی، کیونکہ اس کے منہ پر داڑھی تھی اور وہ مسلمان تھا۔ اس شخص کے کیس کو اچھالنے سے ان کا ''آگاہی اور وکالت'' کا ایجنڈا پورا نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان کی عدالتوں میں روز خواتین بھاک کر شادی کرتی ہیں۔ میری عدالت میں چار جوڑوں نے پسند کی شادی کی۔ چاروں عورتوں کو ان کے آشناؤں نے بیچ دیا اور وہ بچیاں بدترین زندگی گزار رہی ہیں۔ ان چار مردوں کے خلاف کوئی سول سوسائٹی کبھی نہیں اٹھے گی کہ اس سے عورتوں کے حقوق کی وکالت کا ایجنڈا پورا نہیں ہوتا۔ ایجنڈا تو اس وقت پورا ہوتا ہے اگر لڑکی والدین سے نفرت کر کے بھاگے۔
پاکستان سارے کا سارا غربت و افلاس کی تصویر ہے، کچی آبادیوں کی ایک قطار ہے جس میں ہر رنگ نسل، زبان اور مذہب کے لوگ آباد ہیں لیکن سول سو سائٹی کو یہ سب بلا رنگ نسل و مذہب نظر نہیں آتا۔ کسی مخصوص مذہب کے حوالے سے ہیجان پھیلانا ان کا خاصہ ہے۔ گوجرہ میں گھر جلائے جائیں تو سول سوسائٹی کا احتجاج سالوں پر محیط ہوتا ہے، لیکن بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں250 انسان جل جائیں تو ایک پلے کارڈ بھی مجرموں کے خلاف نظر نہیں آتا۔ اس لیے کہ اس سے ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہوتی۔
گزشتہ تیس سالوں سے اس سول سوسائٹی نے اقلیت کے ذہنوں میں ہتھوڑے مارنے کی طرح بار بار یہ بات ذہن نشین کروائی ہے کہ ظلم صرف تم پر ہوتا ہے۔ اٹھارہ کروڑ لوگ تمہارے خون کے پیاسے ہیں۔ تمہیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہو گی اور دیکھو پوری دنیا کی عالمی طاقتیں تمہارے ساتھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزارہ قبیلے کے مسلمان سو کے قریب لاشیں ساتھ رکھ کر احتجاج کرتے ہیں اور صبر کا دامن نہیں چھوڑتے، لیکن یوحنا آباد کے لوگ جنھیں سول سوسائٹی نے اپنے پراپیگنڈے سے خوف، نفرت، تعصب اور ہیجان کا شکار کیا ہے وہ دو انسانوں کو زندہ جلا دیتے ہیں۔ مقدمہ کس کے خلاف درج ہونا چاہیے؟۔
یہ صرف ایک سفارت خانے کی بات نہیں، پاکستان میں موجود ہر مغربی ملک کے سفارت خانے نے اعلانیہ یا خاموشی سے پاکستان میں اپنے مقصد کی این جی اوز کو رقم فراہم کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ آپ درخواست جمع کرائیں۔ آپ کی این جی او کے مقاصد اگر ان سفارت خانوں کے مقاصد کو پورا کرتے ہوں تو آپ پر ڈالروں، پاؤنڈوں اور یوروز کی بارش شروع ہو جائے گی۔ سفارت خانوں کے علاوہ پوری دنیا میں ڈونرز کا ایک جال بچھا ہوا ہے، کئی سو فاؤنڈیشن ہیں جو پاکستان میں لوگوں کو اپنے ایجنڈے کے مطابق سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔
پاکستان میں یہ تمام ڈونرز علی الاعلان اخبارات میں بھی اور انٹرنیٹ پر بھی درخواستیں طلب کرتے ہیں، اس کے بعد ملک بھر سے سرمائے کی طلب میں حواس باختہ لوگ اپنی این جی اوز رجسٹرڈ کرواتے ہیں۔ پھر ان تمام ڈونرز کے مطابق پراجیکٹ ترتیب دیتے ہیں، اس کے بعد اپنی درخواستیں جمع کرواتے ہیں اور انھیں کروڑوں کے حساب سے سرمایہ فراہم ہو رہا ہے۔ مثلاً یورپی کمیشن نے پراجیکٹ کے لیے امداد کی زیادہ سے زیادہ شرح سات لاکھ پچاس ہزار یورو رکھی ہے جب کہ کسی بھی این جی او کو کم سے کم ملنے والی امداد پانچ لاکھ یورو ہے۔ یہ تمام امداد کس قسم کی این جی اوز کو دی جاتی ہے۔
یہ ہے اصل سوال اور اس سوال کے جواب میں ہی وہ راز پنہاں ہے جس نے پاکستان کے معاشرے کو خوف، نفرت، تعصب اور افراتفری کا شکار کر رکھا ہے۔ سب سے زیادہ امداد Advocacy یعنی وکالت، حمایت اور (Awareness) یعنی آگاہی اور شعور کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کو دی جاتی ہے۔ یہ شعور اور وکالت بھی جن شعبوں میں دی جاتی ہے، ان میں سب سے پہلے نمبر پر حقوق نِسواں اور پھر اقلیتوں کے حقوق والی تنظیمیں آتی ہیں۔ آگاہی اور شعور کی بہترین مثال یہ ہے کہ آپ بھوکے کو بار بار اس بات کا احساس دلائیں کہ تمہیں بھوک لگتی ہے، تم کھاؤ گے نہیں تو تمہاری صحت خراب ہو جائے گی اور تم مر جاؤ گے، لیکن اسے کبھی روٹی فراہم نہ کرو۔ کیونکہ روٹی فراہم کرنا ان تمام این جی اوز کے نزدیک محتاجی کو عام کرنا ہے، جسے وہ اپنے زبان میں (Dependence) کہتی ہیں۔
اس لیے وہ کہتی ہیں کہ اگر لوگوں کو اپنے حقوق اور محرومی کا شعور دے دیا جائے تو وہ خود آگے بڑھ کر اسے حاصل کر لیتے ہیں۔ گزشتہ تیس سال سے یہ سفارت خانے اور ڈونرز اس ملک میں اربوں روپے کا سرمایہ ان این جی اوز کو فراہم کر چکے ہیں اور اس تمام سرمایہ کاری پر حکومتِ پاکستان کو کسی بھی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی وہ ایسی کسی قسم کی فنڈنگ کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان گزشتہ تیس سالوں سے اس وافر سرمائے کی فراہمی نے ان تمام این جی اوز کے کرتا دھرتا افراد کو ملا کر ایک سول سوسائٹی تخلیق کر دی ہے جو ایسے وقت میں سڑکوں پر نکلتی ہے جب ان تمام ڈونرز کا ایجنڈ انھیں نکلنے پر مجبور کرتا ہے۔
یہ ان تمام افراد اور اداروں کے خلاف آواز بلند کرتی ہے جو اس ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ پاکستان کے ہر اہم ادارے سے اتنی دیر تک محبت کرتی ہے جب تک وہ ان کے ایجنڈے کے مطابق کام کرتا ہے لیکن جیسے ہی ان اداروں کا کوئی بھی عمل ان کے ایجنڈے سے مختلف ہو جائے تو یہ این جی اوز پاکستان کی سلامتی تک داؤ پر لگاتے ہوئے پاکستان کے ہر ادارے کی تضحیک کرتی ہے اور انھیں پاکستان کی تباہی اور بربادی کا ذمے دار قرار دیتی ہے۔
یہ سول سوسائٹی شعور اور وکالت کے نام پر لوگوں میں خوف، نفرت، تعصب اور ہیجان کیسے پیدا کرتی ہے۔ اس کا اندازہ اس کے کام کرنے کے طریق ِکار سے ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں روزانہ ہزاروں ایف آئی آر درج ہوتی ہیں جن میں ہزاروں بے گناہ مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ ان میں کئی بے گناہ افراد جھوٹے گواہوں اور انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے پھانسی کے گھاٹ تک بھی جا پہنچتے ہیں، لیکن یہ سول سوسائٹی صرف توہین رسالت کے ایسے مجرم کے لیے سڑکوں اور چوراہوں پر آئے گی جو کسی اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔
توہین رسالت کے زیادہ تر مقدمے مسلمانوں کے خلاف درج ہوتے ہیں لیکن عیسائیوں یا ہندووں کے مسئلے کو خصوصاً اچھالنا دراصل اس پوری کمیونٹی کے اندر خوف، نفرت، تعصب اور ہیجان پیدا کرنا ہوتا ہے۔ تا کہ ان کا بچہ اس بات پر یقین کر لے کہ یہ زیادتی صرف ان کے ساتھ ہو رہی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے تمام رفاہی تعلیمی ادارے قومی ملکیت میں لے لیے تھے۔ اس سے پہلے مسلمان رفاہی ادارے بھی ملک بھر میں تعلیمی ادارے چلاتے تھے اور عیسائی مشنری بھی، لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد استثناء ہے کہ کسی مسلمان رفاہی ادارے کو اس کے تعلیمی ادارے واپس نہیں کیے گئے لیکن تمام عیسائی مشنری تنظیموں کو ان کے تعلیمی ادارے واپس کر دیے گئے اور آج یہ ادارے اس ملک میں اپنی مرضی کی تعلیمی پالیسی اور مخصوص نصابِ تعلیم کے تحت چل رہے ہیں۔
اس سول سوسائٹی نے کبھی عیسائی اقلیت کے ساتھ اس بہترین سلوک کا ذکر تک نہیں کیا، اس لیے کہ کہیں اس اقلیت میں یہ احساس پیدا نہ ہو جائے کہ تمہیں مسلمانوں سے بھی بہتر سلوک سے نوازا گیا۔ اس لیے بھی کہ ایسا کرنے سے ''آگاہی اور وکالت'' کے اس ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ملک میں بھٹہ کے مزدور ہر رنگ نسل اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور بدترین غلامی کا شکار ہیں۔ اکثر ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جب انھیں مالکان اپنے تشدد کی انتہا پر پہنچتے ہوئے زندہ جلا دیتے ہیں۔ خوفزدہ یہ لوگ کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ لیکن مسئلہ اچھالنا ہو تو کسی بھی اقلیت کو سامنے رکھ کر اچھالا جاتا ہے۔
توہین قرآن پر گوجرانوالہ میں ایک شخص کو ڈنڈے مار کر مار دیا گیا لیکن کوئی سول سوسائٹی حرکت میں نہ آئی، کیونکہ اس کے منہ پر داڑھی تھی اور وہ مسلمان تھا۔ اس شخص کے کیس کو اچھالنے سے ان کا ''آگاہی اور وکالت'' کا ایجنڈا پورا نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان کی عدالتوں میں روز خواتین بھاک کر شادی کرتی ہیں۔ میری عدالت میں چار جوڑوں نے پسند کی شادی کی۔ چاروں عورتوں کو ان کے آشناؤں نے بیچ دیا اور وہ بچیاں بدترین زندگی گزار رہی ہیں۔ ان چار مردوں کے خلاف کوئی سول سوسائٹی کبھی نہیں اٹھے گی کہ اس سے عورتوں کے حقوق کی وکالت کا ایجنڈا پورا نہیں ہوتا۔ ایجنڈا تو اس وقت پورا ہوتا ہے اگر لڑکی والدین سے نفرت کر کے بھاگے۔
پاکستان سارے کا سارا غربت و افلاس کی تصویر ہے، کچی آبادیوں کی ایک قطار ہے جس میں ہر رنگ نسل، زبان اور مذہب کے لوگ آباد ہیں لیکن سول سو سائٹی کو یہ سب بلا رنگ نسل و مذہب نظر نہیں آتا۔ کسی مخصوص مذہب کے حوالے سے ہیجان پھیلانا ان کا خاصہ ہے۔ گوجرہ میں گھر جلائے جائیں تو سول سوسائٹی کا احتجاج سالوں پر محیط ہوتا ہے، لیکن بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں250 انسان جل جائیں تو ایک پلے کارڈ بھی مجرموں کے خلاف نظر نہیں آتا۔ اس لیے کہ اس سے ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہوتی۔
گزشتہ تیس سالوں سے اس سول سوسائٹی نے اقلیت کے ذہنوں میں ہتھوڑے مارنے کی طرح بار بار یہ بات ذہن نشین کروائی ہے کہ ظلم صرف تم پر ہوتا ہے۔ اٹھارہ کروڑ لوگ تمہارے خون کے پیاسے ہیں۔ تمہیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہو گی اور دیکھو پوری دنیا کی عالمی طاقتیں تمہارے ساتھ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزارہ قبیلے کے مسلمان سو کے قریب لاشیں ساتھ رکھ کر احتجاج کرتے ہیں اور صبر کا دامن نہیں چھوڑتے، لیکن یوحنا آباد کے لوگ جنھیں سول سوسائٹی نے اپنے پراپیگنڈے سے خوف، نفرت، تعصب اور ہیجان کا شکار کیا ہے وہ دو انسانوں کو زندہ جلا دیتے ہیں۔ مقدمہ کس کے خلاف درج ہونا چاہیے؟۔