زر سے زوال

آسودگی کا سایہ دار درخت بھی۔ آخر یہ کب اور کیسے طرب اور نشاط کو چھوڑ کر عذاب بن جاتا ہے۔


Anis Baqar March 20, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: ''زر سے زوال'' ایک مختصر سا جملہ۔ زر جو قاضی الحاجات بھی ہے اور دنیاوی سربلندی کا ذریعہ بھی، آسودگی کا سایہ دار درخت بھی۔ آخر یہ کب اور کیسے طرب اور نشاط کو چھوڑ کر عذاب بن جاتا ہے۔ جب دولت کم ہوتی ہے تو انسان اس کو ترتیب دیتا ہے اس کو منظم کرتا ہے اس کو آسائش کا ذریعہ بنا لیتا ہے مگر جب ذریعہ آمدنی بے تحاشا ہو اور وہ وقت کو پاش پاش کر کے آگے بڑھتا ہو اور دولت وقت پر غالب آ جاتی ہو تو پھر وہ کیسینو میں اپنا شیطانی گولا گھماتی ہے یا وہ گھر میں بچوں کی ضروریات کو نظرانداز کرتے ہوئے زر کو مقدم جانتے ہیں۔ اور روز مرہ شروع ہو جاتا ہے اور وہی کام کاج، دنیاوی، فرسٹ ورلڈ یعنی ترقی یافتہ دنیا کی پہلی صف میں کھڑے ممالک میں چھوٹے بچوں کے برے احوال ہیں۔

آج سے بیس پچیس برس قبل تو بچہ پیدا کرنے کا رواج کم تھا اس لیے بعض یورپی ممالک میں تو نوجوانوں کی تعداد کم ہو گئی۔ یہاں تک کہ نئی نسل پرانی نسل کو تبدیل کرنے کے قابل نہ تھی اور دوسری دنیا کے دروازے مجبوراً ان ملکوں کو کھولنے پڑے جس کی وجہ سے تہذیبی بحران لاحق ہو گیا۔ یہی حال امریکا اور برطانیہ کا بھی تھا۔ ان کو اپنی ذاتی معیشت کو جاندار رکھنے کے لیے آبادی پر کنٹرول رکھنا تھا سو وہ اس میں کامیاب رہے مگر یہ کامیابی کچھ ضرورت سے زیادہ رہی ہر قسم کے لہو ولعب میں مبتلا سوسائٹی شادی سے گریزاں ہے۔

کیونکہ عورتوں کے حقوق ضرورت سے زیادہ ہیں اس لیے مردوں اور عورتوں نے بغیر شادی کے زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھ لیا ہے چونکہ مرد و زن کے باہمی روابط تو ختم ہونے سے رہے اور نہ قانون ہارمون کو کنٹرول کرسکتا ہے اس لیے مغربی اور جدید دنیا میں آبادی کی شرح نمو سست روی کا شکار ہے اور شادی جیسے زیور سے محروم ہے جب کہ ہمارے دیس کی عورت کو شادی کا بندھن باآسانی موجود ہے کیونکہ یہ رسم ہماری ثقافت اور مذہبی روایات میں گندھی ہوئی ہیں۔ اس لیے لباس سے لے کر زیورات میں عورت کا ظاہری اور اخلاقی حسن تیز تر ہوتا جا رہا ہے مگر مشرقی شادی بیاہ میں کوئی خامی ہے تو وہ جہیز کی لعنت ہے مگر یہ جہیز لعنت اس وقت بنتا ہے جب والدین کے وسائل نہ ہوں اور وہ سود خور یا کسی اور معیوب ادارے سے یا اپنی پراپرٹی فروخت کر کے بچی کی شادی پر مجبور ہوں مگر والدین اگر صاحب حیثیت ہوں اور اپنی بیٹی کو خوشی سے کوئی چیز یا کوئی حصہ دیں تو پھر کوئی حرج نہیں۔

دوسری جانب ہمارے برصغیر میں بعض برادریوں میں مردوں کو لڑکی والوں کو لاکھوں دینے پڑتے ہیں جس کی وجہ سے سماجی بے راہ روی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یوں تو لوگ خود کو مسلمان کہلواتے ہیں مگر ایسے موقعے پر اسلامی روایات کو بھول جاتے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر تکلیف دہ اور منفی روایات کو خواتین کی این جی اوز فنا کرنے کی سعی مسلسل کرتیں بلکہ آزادی نسواں کے غیر ذمے دارانہ رویوں کو فروغ دینے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اسی لیے پاکستانی معاشرے پر این جی او کے اثرات نہایت کم ہیں عام طور پر یہ این جی اوز خصوصاً عورتوں کے محاذ پر نہایت کمزور ہیں اور مذہبی تنظیمیں جو عورتوں کو درس و تدریس میں لے کر چل رہی ہیں۔ انھوں نے خاصا مجمع لگا رکھا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اس ملک کے سماجی اور معاشی حالات سے مربوط ہو کر کام کر رہی ہیں جب کہ مغربی طرز کی این جی اوز نے اپنے لباس سے لے کر اپنی وضع قطع کو بھی مغرب زدہ بنا رکھا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب سوشلسٹ کارکن محلوں میں کلاسیں لیا کرتے تھے ریڈنگ روم ہوتے تھے اور وہ اپنے کو ڈی کلاس کر کے اسٹڈی سرکل چلاتے تھے وہ اپنے آپ کو عام معمولی آدمی کی طرح پیش کرتے تھے اس لیے ان کی باتوں میں وزن تھا۔ گو کہ سوشلسٹ تحریکوں کا زور دنیا میں ٹوٹ گیا اور پاکستان میں بھی وہ زور و شور نہ رہا، مگر جالب اور فیض کا کلام آج بھی پاکستان کے غریبوں کا ترجمان ہے اسی لیے این جی اوز کی خواتین رہنماؤں کی کوئی حیثیت عوام میں نہیں آزادی اور محض آزادی بغیر کسی معاشی اور سماجی ترقی کے بے معنی ہیں اسی لیے ان تنظیموں میں نہ کوئی حرارت ہے اور نہ ہی عوام کے لیے کوئی منزل کا تعین ہے البتہ ان این جی اوز کا ہلکا پھلکا پیغام لوگوں تک پہنچانے میں کسی حد تک آگہی ضرور ہے مگر آگہی میں نہ کوئی جرأت ہے اور نہ قربانی کا تصور۔

بس ایک نمائشی اعداد و شمار کا کھیل ہے بعض سوشل ورکر تنظیمیں کسی محدود پیمانے پر آگہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں اگر آپ غور سے مشاہدہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ان کا اصل مشن غربت کو دور کرنا اور عوام کو سماجی آگہی سے آشنا کرنا نہیں بلکہ مشرقی اور مذہبی تہذیب کے مابین فاصلوں کو کم کرنا ہے۔ گویا تہذیب کے یہ پل ابھی تک عوام کو باشعور نہ بنا سکے۔ اس کی مثال آپ دیکھیں ملالہ جب تک پاکستان میں تھی اور جان کی بازی لگا کر کام کرتی رہی مگر جوں ہی وہ مغربی دنیا کی پناہ میں چلی گئی عوام سے فاصلہ بڑھ گیا۔ غرض اے کلاس (A کلاس) کا طبقہ سی اور ڈی کلاس کے ساتھ مل کر کام نہیں کر سکتا۔

ایک زمانے میں سوچا جاتا تھا کہ اب سیاسی پارٹیوں کا کردار ختم ہونے کو ہے اور اب این جی او کا دور دورہ شروع ہونے کو ہے مگر این جی او سیاسی پارٹی کا کردار ادا کرنے سے قاصر رہی البتہ آفات سماوی کے مواقعے پر امدادی اشیا کی تقسیم میں این جی اوز کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ اس لیے یہ سوچنا کہ این جی او کسی ملک کی قسمت بدل ڈالے گی ایسا ممکن نہیں۔ البتہ بعض معاملات کو چلانے رسم و رواج میں کوئی تغیر لانا بھی کسی این جی او کا طریقہ کار نہیں البتہ سوچ میں تبدیلی پیدا کرنا مناسب ہو سکتا ہے ایسا ممکن نہیں کہ این جی او کے ذریعے کوئی سماجی تبدیلی ہو جائے تو اس کا جواب ہاں میں ممکن نہیں ہے۔ جن ماؤں کو جدید دنیا میں اپنے بچوں کے لیے وقت نہیں ہے اس کا خاندان اور بعد ازاں پورا سماج ذہنی انتشار کا شکار ہو گا اسی لیے جدید دنیا میں ذہنی انتشار کا مرض عام ہوتا جا رہا ہے۔

ایام جوانی میں دماغ پر جہاں شعور کی حکمرانی کا آغاز ہوتا ہے وہی وقت ہارمون کا آغاز مردوں میں داڑھی مونچھوں کا آغاز آواز کا بدلنا اور جنسی جذبات اور عورتوں میں بھی یہی دور تغیر ہے اسی لیے جوانی کی ابتدا تو نہ سہی بلکہ جوانی کے ٹھہراؤ میں ہی رشتہ ازدواج سے منسلک ہونا بہتر ہوتا ہے۔ یہ انسانوں کی انڈسٹری کا پروڈکشن کا دور ہوتا ہے پھر ان کی تعلیم و تربیت کا دور ہوتا ہے اگر بچے کو ماں کی مکمل رفاقت نہ ملے تو وہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے انسانی ذہن کا گو کہ 30 فیصد حصہ ہی بمشکل کھلا ہے پھر بھی کیا کچھ اس میں موجود ہو ممکن ہے کہ دماغ کے بعض حصوں کو دھیان گیان کے ذریعے ٹائم مشین کی شکل دی جا سکتی ہو اور انسان لاکھوں میل کا سفر پل بھر میں طے کرسکتا ہو۔

آج کل اس تصور پر جدید دنیا کام کر رہی ہے کہ دوسرے سیاروں پر قیام کا تصور عام ہو رہا ہے کہ انسان کو سکون کی تلاش ہے ممکن ہے وہاں جانے کے بعد انسان کا روپ و رنگ بدل جائے شکل و صورت ایسی نہ رہے مگر زر کی زیادتی بھی سکون کو برباد کر دیتی ہے۔ اغوا برائے تاوان والے ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور دیگر خطرات۔ پاکستان میں چونکہ ٹارگٹ کلنگ گزشتہ 40 برسوں سے عروج پر ہے اور خصوصاً ڈاکٹروں کی۔ اس لیے اکثر بڑے ڈاکٹر کراچی شہر کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں خاص طور سے امریکا فرار ہو رہے ہیں ایسا ہی ایک کراچی کے کارڈیولوجسٹ میاں بیوی دونوں امراض قلب کے ماہرین امریکا میں مقیم ہیں ان کا لڑکا بہت چھوٹا تھا جب وہ امریکا پہنچے وہاں دادی نانی تو میسر نہ تھیں۔ اس لیے وہاں نینی(Nany)عام طور پر 10 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے بچوں کا خیال رکھتی ہیں وہ تو ان کی نوکری ہوتی ہے کوئی لگاؤ تو ان کو نہیں ہوتا بچہ نینی کی سرپرستی میں جوان ہوا، پہلا کام تو اس نے یہ کیا کہ بڑا ہونے پر میڈیکل چھوڑ کر اس نے فلسفے کو پڑھائی کے لیے پسند کیا اور آدم بیزار ہوگیا۔

ماں باپ چونکہ رات دن زر کی پوجا میں مصروف رہے دوسرا بھائی بہن بھی پیدا نہ ہوا کیونکہ وہ زرپرستی میں رکاوٹ تھا۔ لہٰذا واحد بچے کو جوں جوں شعور ملتا گیا دنیا کی حقیقت اور زر کی اہمیت سامنے آتی گئی تو پھر رفتہ رفتہ اس لڑکے نے اپنا زیادہ وقت یتیم خانے میں گزارنا شروع کر دیا اب وہ 25/26 سال کا ہے اپنی برتھ ڈے یتیم بچوں کے ساتھ مناتا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا تم یہاں سالگرہ کیوں مناتے ہو تو اس کا کہنا تھا میں بھی گھر بار ماں باپ ہونے کے باوجود یتیم ہوں زر ان کی اولاد ہے پیسہ ہر چیز خرید سکتا ہے مگر محبت نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |