سازِ حیات خاموش ہے

یوں تو ان کی تمام شاعری ہی مقبول ہوئی مگر چند غزلیں ہر باذوق کو ازبر ہوگئی تھیں۔

najmalam.jafri@gmail.com

ہر آن بڑھتا ہی جاتا ہے رفتگاں کا ہجوم
ہوا نے تاک لیے ہیں چراغ سب میرے

وطن عزیز میں یوں تو ہرگھڑی ہلچل اور بے اطمینانی کی کیفیت ہے، اور کوئی خبر بھی ''اچھی خبر'' نہیں ہوتی مگر شاید ہم اب اس کے عادی ہوچکے ہیں۔ سیاست سے ہٹ کر ادب میں کبھی کبھار اچھی خبریں کسی کتاب کی اشاعت یا ادبی کانفرنس کی صورت میں مل جاتی ہیں مگر گزشتہ ہفتے ادبی سطح پر ایک بری خبر اردو کی معروف و مقبول شاعرہ ادؔا جعفری کی رحلت کی ملی۔ ادؔا جعفری سے میں زندگی میں کبھی باقاعدہ نہیں ملی کیونکہ میں نے شعر و ادب سے بے حد لگاؤ کے باوجود ادبی گروہ بندیوں اور دیگر کچھ اور وجوہات کے باعث خود کو ہمیشہ گوشہ نشین ہی رکھا۔

ایسا نہیں کہ میں ادبی محافل، شعری نشستوں یا مشاعروں میں جاتی ہی نہیں مگر وہ جو تعلقات عامہ (پی آر شپ) والی بات ہے، اس میں یا تو دلچسپی نہیں یا اس کی صلاحیت ہی نہیں۔ مگر مطالعے کے ذریعے سب سے واقفیت حاصل ضرور کرتی ہوں (جو یکطرفہ ہی ہوتی ہے) ۔ادا جعفری جب شہرت کے بام عروج پر تھیں تو ہم اسکول کی ابتدائی جماعتوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ادا جعفری کے بارے میں تبادلہ خیال اور ایک دوسرے کو ان کے اشعار سناتے ضرور سنا تھا۔ مطلب یہ کہ اسکول کے زمانے میں ہی یہ نام ہمارے لیے اجنبی نہ تھا۔ میٹرک تک آتے آتے ہمارے اندر ادبی جراثیم کی موجودگی کا اورکسی کو اندازہ ہو یا نہ ہو (سوائے ہمارے بھائی جان کے) مگر ہمیں خود ہونے لگا تھا۔کیونکہ ایک پیریڈ جو لائبریری کے لیے مخصوص ہوتا تھا وہ پرائمری کی حد تک کہانیاں پڑھنے اور میٹرک تک آتے آتے شعرا کے مجموعے اور ناول پڑھنے میں صرف ہوتا تھا۔

یوں بزم ادب کی تقریبات بالخصوص بیت بازی میں ہمیشہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے۔ جب ہم کالج پہنچے تو ہم نے ادا جعفری کے کلام اور حالات زندگی میں باقاعدہ دلچسپی لینا شروع کی اور اس وقت تک ان کے جو مجموعہ کلام منظر عام پر آچکے تھے ان کو نہ صرف پڑھ ڈالا بلکہ ان کے اشعار اپنی نوٹ بک میں درج بھی کرنے لگے۔ بلاملاقات کسی شخصیت (خاص کر ادبی شخصیت) سے واقفیت کا بہترین ذریعہ ان کی تحریر اور اشعار پڑھنا ہے۔ آج جو لوگ غالب، اقبال، میر اور سرسید وغیرہ پر اتنا کچھ لکھتے ہیں توکیا یہ سب ان سے ملاقات کرچکے ہیں؟

بہرحال ادا جعفری کو ہم نے پڑھتے سنا ہے دور سے دیکھا ہے مگر ان سے واقفیت ان کے پہلے مجموعہ کلام ''میں ساز ڈھونڈتی رہی'' سے لے کر ''سفر باقی ہے'' جو ان کی کلیات ''موسم موسم'' میں یکجا ہیں کا مطالعہ کرکے حاصل کی جس کا حاصل یہ ہے کہ مجھے ادا جعفری نسائی جذبات و احساسات کو باوقار انداز میں پوری شعری نزاکتوں اور روایات میں سموکے پیش کرتی نظر آئیں۔ ان کی شاعری جس وقت منظر عام پر آئی اس وقت افق شاعری پر کئی اور شاعرات بھی نمودار ہوچکی تھیں کچھ پہلے ہی موجود تھیں مگر ادا جعفری نے ان کے درمیان نہ صرف اپنی الگ پہچان بنائی بلکہ نسائی لہجے کو جداگانہ رنگ و آہنگ بھی دیا۔

اگرچہ خواتین کے لیے ایک عرصے تک شاعری شجر ممنوعہ رہی مگر میرا خیال ہے کہ معلوم تاریخ سے بھی قبل ہر دور میں جہاں مردوں نے اپنے احساسات کو قلم بند کیا وہاں عورتوں نے بھی ضرور کیا ہوگا (ہر علاقے اور زبان کے لوک گیت ایسی ہی گمنام خواتین کے فن کا ثبوت ہیں) مگر حالات اور معاشرتی رویوں کے باعث نہ جانے کتنی شاعرات کبھی منظر عام پر نہ آسکی ہوں گی۔ آج جب ہر طرف خواتین کی کارکردگی کا چرچا ہے۔


ہر میدان میں وہ اپنا لوہا منوا رہی ہیں میں خود کئی ایسی شاعرات سے واقف ہوں جو بے حد عمدہ شعر کہتی ہیں نجی محفلوں میں اپنے اشعار سناتی ہیں اور خوب داد وصول کرتی ہیں مگر کوئی ادبی تنظیم ان کے نام اور کام سے ذرا بھی واقف نہیں بعض کے اردگرد کا ماحول تو ایسا ہے کہ وہ اپنے اشعار کسی اور کے کہہ کر سناتی ہیں اور جب پسند کیے جاتے ہیں تو خود ہی مطمئن ہوجاتی ہیں کہ ان کے اشعار قابل توجہ ہیں جب کہ انھوں نے کبھی کسی سے مشورہ سخن بھی نہیں کیا ہوتا۔ مگر ادا جعفری اس لحاظ سے خوش قسمت رہی ہیں کہ آج سے 70، 75 برس قبل اپنے نام سے (عزیز جہاں بدایونی) اپنا کلام پیش کیا اور آنے والی خواتین کے لیے مشعل راہ بنیں۔

ایک زمانہ تھا کہ ہر طرف ادا جعفری کا تذکرہ عام تھا صرف خواتین ہی نہیں حضرات کی بھی پسندیدہ شاعرہ تھیں مشاعروں میں ان کی موجودگی مشاعرے کی کامیابی سمجھی جاتی تھی۔ محترم جمیل الدین عالی نے انھیں ''جدید اردو شاعری کی خاتون اول'' قرار دیا ہے اور یہ اعزاز ہمیشہ ان کے پاس رہے گا۔ادا جعفری صرف نرم و گداز جذبوں کی شاعرہ نہ تھیں بلکہ وہ مصنفہ اور محقق بھی تھیں ان کی تحقیقی صلاحیت کی گواہی ''غزل نما'' ہے جس میں انھوں نے کلاسیکی غزل گو شعرا کے کلام پر بھرپور تحقیق کی ہے جس کے نتیجے میں کلاسیکی شعرا کا ایک معتبر اور مستند انتخاب اردو زبان کے خزانے میں اضافے کا سبب بنا۔

اس کتاب کے آغاز میں وہ لکھتی ہیں ''ممکن ہے شاعری ہی شجرہ ممنوعہ ہو، شاعری کا نصیب بہرحال سوزوگداز و اضطراب ہے۔ فردوس بریں اس کے لیے مناسب مقام نہیں ہوسکتا۔'' غرض انھوں نے پہلے انسان کو ہی پہلا شاعر قرار دیا۔ ''غزل نما'' اردو ادب میں ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ہمارے یہاں بہت سے اشعار زبان زدخاص و عام ہیں مگر اکثر لوگ ان کے اصل خالق سے واقف نہیں ادا جعفری نے ان مشہور اشعار کے تخلیق کاروں کو بھی دریافت کیا۔

ادا جعفری نہ صرف حقوق نسواں کی علمبردار تھیں بلکہ انھوں نے اس فرض کو اپنے کلام اور تحریروں میں بھی بھرپور انداز میں ادا کیا۔ نسائی حسرتوں، جذبات و احساسات کے بیان میں ان کا تجربہ و مشاہدہ بھی بہت کام آیا۔ شاید انسان کی کچھ محرومیاں ہی ہوتی ہیں جو اسے کسی عظیم کام کی طرف مائل کرتی ہیں، بچپن میں والد کی شفقت سے محرومی نے عزیز جہاں کو اپنی شفیق والدہ اور نانا کی رہنمائی نے ابتدا ہی سے کتابوں سے رشتہ استوار کرنے میں مدد دی مطالعے کے باعث الفاظ کی پہچان، مطالب کی نزاکتوں سے وہ بہت کم عمری ہی میں آشنا ہوگئی تھیں اور شاید نو دس برس کی عمر میں شعر کہنے لگیں۔

یوں تو ان کی تمام شاعری ہی مقبول ہوئی مگر چند غزلیں ہر باذوق کو ازبر ہوگئی تھیں۔ ان کی نظمیں بھی ان کے دور اور احساسات کی بھرپور عکاس ہیں۔ ان کی مشہور نظم ''مسجد اقصیٰ'' ان میں بطور خاص قابل ذکر ہے جس کے بارے میں انھوں نے خود لکھا کہ ''میری نظم مسجد اقصیٰ مسلم حکمرانوں کی بے ضمیری کا نوحہ ہے۔'' اپنی خودنوشت سوانح حیات ''جو رہی سو بے خبری رہی'' میں انھوں نے بے حد سادگی اور دھیمے الفاظ میں اپنی داستان حیات کو سمیٹا ہے۔ ادا جعفری اردو ادب کا وہ سرمایہ تھیں جنھیں عزت و شہرت کے علاوہ قدر شناسی کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔

ان کا پہلا مجموعہ ''میں ساز ڈھونڈتی رہی'' تقریباً 26 برس کی عمر میں منظر عام پر آگیا تھا، اس کے بعد کئی مجموعے شایع ہوکر مقبول ہوئے جن میں ''غزالاں تم تو واقف ہو، حرف شناسائی، ساز سخن بہانہ ہے' اور 'شہر درد' کے علاوہ 'سفر باقی ہے' جو اب ان کی کلیات ''موسم موسم'' میں شامل ہیں۔ شاعری کے علاوہ ان کے مضامین اور خودنوشت بھی اعلیٰ پائے کی ادبی تحقیقات ہیں۔ ادا جعفری کی تقریباً چھ کتابیں اب تک شایع ہوچکی ہیں۔

بنیادی طور پر وہ اگرچہ غزل کی شاعرہ تھیں مگر انھوں نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کی خاص کر آزاد نظم اور ہائیکو میں۔ ان کی ادبی خدمات کا بھرپور اعتراف نہ صرف قارئین ادب نے کیا بلکہ حکومت پاکستان اور مختلف ادبی تنظیموں نے بھی کیا۔ جس میں آدم جی ادبی ایوارڈ، تمغہ حسن کارکردگی کے علاوہ پاکستان رائٹرز گلڈ کا ایوارڈ بھی شامل ہے جب کہ یو اے ای اور یورپی ممالک کے کئی ادبی اداروں نے بھی ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اعزازات سے نوازا۔

زندگی کے آخری ایام میں وہ ادبی دنیا سے بے خبری کی حالت میں رہیں اور اسی حالت میں گزشتہ ہفتے کراچی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ ادا جعفری اگرچہ اس جہان فانی سے عالم جاودانی کے سفر پر روانہ ہوگئیں مگر انھوں نے اپنے بعد آنے والی شاعرات اور خواتین تخلیق کاروں کے راستے کے تمام اندھیرے اپنے چراغ جان سے روشن کردیے۔ وہ جو ''افق ادب'' پر ساز ڈھونڈتی ہوئی طلوع ہوئی تھی آج اس کا ساز حیات خاموش ہے اور وہ شہر درد سے سفر باقی تمام کرتی ہوئی جہان امن کے سفر پر روانہ ہوگئی۔
Load Next Story