پتھر سے شیر کی آزادی
سقراط ایک روز اسکول سے آیا تو گھر کے صحن میں سیدھا باپ کے پاس چلا گیا
سقراط ایک روز اسکول سے آیا تو گھر کے صحن میں سیدھا باپ کے پاس چلا گیا جہاں اس کا باپ فوارے کے لیے شیر کا سر بنا رہا تھا وہ اپنے کام میں اتنا محو تھا کہ اسے یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ سقراط کب آیا اور کب اس کے پاس بیٹھ کر اسے کام کرتے ہوئے دیکھنے لگا۔
اس کا باپ چوکور، نوکیلی اور تیز میخوں سے کام لے رہا تھا ایک کے بعد ایک دوسرا نازک اوزار سنبھال لیتا تھا، شیر کا منہ اور چپٹی ناک بن چکی تھی اب خوفناک آنکھوں کا مرحلہ تھا جنہیں وہ بڑی مہارت سے تراش رہا تھا۔ سقراط کو یاد آیا کہ ابھی چند روز پہلے سنگ مرمر کا ایک گو ل ٹکڑا یہاں پڑا تھا اس کے با پ نے اسے تراش کر شیر کی شکل دے دی ہے۔
سرفرونس کس نے کچھ دیر کے لیے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے ہتھوڑی ہاتھ سے رکھی تو سقراط کو پوچھنے کا موقع مل گیا ''آپ کو یہ اندازہ کس طرح ہو جاتا ہے تیشہ کہاں کہاں رکھیں اور اس پر کتنی چوٹ لگائیں۔'' سر فرونس کس کے پاس اس سوال کا صحیح جواب شاید تھا ہی نہیں یا پھر ابھی اتنی فرصت نہیں تھی اس نے پسینہ صاف کیا اور پھر اوزار سنبھال لیے۔
سقراط کو یہ اچھا نہیں لگا کہ وہ سوال کرے اور اس کا باپ جواب نہ دے اس نے پھر اپنا سوال دہرایا ''بتائیے نا آپ کو کیسے اندازہ ہو جاتا ہے' اس سے پہلے تو تم نے یہ سوال کبھی نہیں کیا' اس کے باپ نے کہا 'مجھے شیر کی چپٹی ناک دیکھ کر یہ خیال آیا' تم ابھی چھوٹے ہو جب یہ فن میں تمہیں سکھاؤں گا تو اس سوال کا جواب تمہیں خود مل جائے گا کیا یہ فن میں ابھی نہیں سیکھ سکتا نہیں ابھی تم اسکول جاؤ، ورزش کرو کشتی لڑو، تلوار چلانا سیکھو جب تمہارے بازو مضبو ط ہو جائیں گے تو یہ فن میں تمہیں خود سکھاؤں گا جس طرح تمہارے دادا نے مجھے سکھایا تھا۔
سقراط بولا میں بڑے ہونے تک جواب کا انتظار نہیں کر سکتا تو بڑا ضدی ہے جس بات کے پیچھے پڑ جاتا ہے پوچھے بغیر دم نہیں لیتا اس نے ایک مرتبہ پھر اوزار ہاتھ سے رکھ دیے اور کہا یوں سمجھو سب سے پہلے تمہیں شیر پتھر میں دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ محسو س کرو کہ شیر پتھر کے اندر قید ہے اور یہ طے کر و کہ تمہیں اسے آزاد کرانا ہے اب جتنی اچھی طرح تم شیر کو دیکھ سکو اتنے ہی یقین کے ساتھ تمہیں یہ بات معلوم ہو گی کہ تمہیں تیشہ کہاں رکھنا ہے اورکتنی سخت چو ٹ لگانی ہے یہ سب آتا ہے مشق اور تربیت سے۔ ابھی تم پتھر توڑ دو گے اور اس کے اندر چھپے ہوئے شیر کو بھی نقصان پہنچاؤ گے''۔
پاکستان بنانے کے پیچھے دراصل اس خو شی اور مسر ت کی تلاش تھی جس کے لیے ہم صدیوں سے بھٹکتے پھر رہے تھے مارے مارے پھر رہے تھے ایسا ملک جہاں ہمیں آزادی، اختیار اور خوشحالی حاصل ہو جہاں ہم جی بھر کر خو ش ہو سکیں جو ہر انسان کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے لیکن پاکستان بننے کے 67 سال بعد بھی ہم اسی خو شی، مسرت، آزادی اور اختیار کے لیے بھٹکتے پھرتے رہے ہیں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
کسی چیز کو حاصل کرنے کی خو اہش میں کامیابی کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہوتی ہے کہ اس چیز کی ساری صورت آپ کے ذہن میں پہلے ہی سے نقش ہو تا کہ آپ کو اس کو حقیقت کا رنگ دینے میں دشواری نہ ہو جس طرح سقراط کے باپ نے سقراط کو سمجھاتے ہو ئے کہا تھا کہ سب سے پہلے شیر پتھر میں دیکھنا پڑتا ہے اور یہ محسو س کرنا پڑتا ہے کہ شیر پتھر کے اند ر قید ہے اور تمہیں اسے آزاد کرانا ہے ۔
اسے ہماری بدنصیبی ہی کہیں گے کہ ہمارے بانی قائدین کے ذہن میں پہلے ہی سے یہ خاکہ موجود ہی نہیں تھا کہ نئی ریاست کو چلانے کے لیے دنیا کے کس ملک کو مثال بنا یا جائے گا آیا نئی ریاست میں امریکا کی طر ح نظام اور لوگوں کو اختیار اور آزادی حاصل ہو گی یا یورپ کی طرح یا سعودی عرب کی طرح یا بر طانیہ کی طرح۔ ظاہر ہے اگر آپ کوئی نئی صورت کو تشکیل دے رہے ہیں تو آپ کو کوئی نہ کوئی تو آئیڈیل بنانا ہی پڑتا ہے کارل سینڈبرگ کہتا ہے ''سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے''۔ یاد رہے خواب تصویر والے ہوتے ہیں تحریر والے نہیں۔
ظاہر ہے جب بانی قائدین کے ذہن خاکے سے ہی خالی تھے تو اسی لیے عوام بھی اپنے ذہن میں کوئی مثال یا آئیڈیل یا خواب نہیں بسا سکے اسی لیے جب عوام نے ملک کو حاصل کر لیا تو انھیں یہ معلوم ہی نہ تھا کہ اب انھیں کرنا کیا ہے اور نہ ہی انھیں کوئی گائیڈ یا را ہ دکھانے والا موجود تھا، اس کی وجہ سے وہ لوگ جن کا نہ کوئی جدوجہد پاکستان میں کردار تھا اور نہ ہی انھوں نے کسی قسم کی قربا نیاں دی تھیں۔
ان موقع پر ست اور مفاد پرست لوگوں نے کنفیوژن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے ملک کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے لوٹنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ مذہبی قوتوں کو بھی اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا سنہری موقع مل گیا اور وہ اس موقع کو غنیمت جان کر پاکستان کے دستور میں متعدد بارودی سرنگ نصب کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بیچارے عوام یہ سب کچھ خاموش تماشائی بن کر دیکھتے رہے اور وہ نا معلوم منزلوں کے مسافر بن گئے اس وقت عوام نے اپنے آپ کو نئے ملک کی حکمرانی کے قابل ہی نہیں سمجھا اس کی سب سے بڑی وجہ نفسیاتی تھی چونکہ وہ بر صغیر میں انگریزوں کے غلام تھے۔
اس لیے ان کی نفسیات غلامانہ بن کے رہ گئی تھی اور جب انھیں ہو ش آیا تو اس وقت تک وقت ان سے بہت آگے نکل گیا تھا اس لیے وہ ہاتھ پاؤں مارے بغیر ایک مرتبہ پھر خاموش تماشائی بن گئے۔ پاکستان میں برطانیہ کے سابق ہائی کمشنر سر ہنری سائنٹ نے تاریخی حوالے سے ایک پالیسی رپورٹ جاری کی ہے وہ تصدیق کرتے ہیں کہ ''قدیم داخلی مسائل ملک کے ابتدائی برسوں کی یادگار ہیں'' ان ہی امراء نے ملک میں ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں آبادی کا بڑا حصہ فرسٹریشن اور تھکاوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ ہم تمام لوگ ایک بیما ر معاشرے کے نہ صر ف شہر ی ہیں بلکہ اس کی پیداوار بھی ہیں اور کوئی بیمار معاشرہ صحت مند لوگوں کو جنم نہیں دے سکتا۔
ہمیں بچپن سے بتایا جاتاہے کہ ہمارے دشمن یہود و ہنود ہیں جو ہمہ وقت مسلمانوں کو تباہ کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں جب کہ ہم روزانہ یہ باور کروانے والوں کو ان ہی سے شرف ملاقات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان کی اولاد ان کے ہی ملکوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اپنا علاج کروانے ان ہی کے ملکوں میں جاتے ہیں۔ اقتدار حاصل کر نے کے لیے ان ہی سے خفیہ خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں عہد و پیمان کرتے ہیں اور ہمارے سامنے انھیں بر ابھلا کہنے لگ جاتے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں ہمارے پاس صرف دو راستے ہیں ایک تو یہ کہ ہم یہ ہی دوغلی اور بیمار زندگی یوں ہی بسر کرتے رہیں دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم دنیا کے دیگر ممالک کے لوگوں کی طرح اپنے تمام عذابوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی خوشیوں، مسرت، آزادی، خوشحالی، ترقی کے تمام دشمنوں کو مار بھگائیں اور ساتھ ساتھ ہمارے ذہنوں میں آیندہ کے لیے ایک مکمل خاکہ ہونا لازمی ہے ایک آئیڈیل ہونا ضروری ہے اور اپنے ذہن میں موجود تمام تعصبات کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے تب ہی ہم اس شیر کو جو پتھر میں قید ہے آزاد کروا سکیں گے۔
اس کا باپ چوکور، نوکیلی اور تیز میخوں سے کام لے رہا تھا ایک کے بعد ایک دوسرا نازک اوزار سنبھال لیتا تھا، شیر کا منہ اور چپٹی ناک بن چکی تھی اب خوفناک آنکھوں کا مرحلہ تھا جنہیں وہ بڑی مہارت سے تراش رہا تھا۔ سقراط کو یاد آیا کہ ابھی چند روز پہلے سنگ مرمر کا ایک گو ل ٹکڑا یہاں پڑا تھا اس کے با پ نے اسے تراش کر شیر کی شکل دے دی ہے۔
سرفرونس کس نے کچھ دیر کے لیے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے ہتھوڑی ہاتھ سے رکھی تو سقراط کو پوچھنے کا موقع مل گیا ''آپ کو یہ اندازہ کس طرح ہو جاتا ہے تیشہ کہاں کہاں رکھیں اور اس پر کتنی چوٹ لگائیں۔'' سر فرونس کس کے پاس اس سوال کا صحیح جواب شاید تھا ہی نہیں یا پھر ابھی اتنی فرصت نہیں تھی اس نے پسینہ صاف کیا اور پھر اوزار سنبھال لیے۔
سقراط کو یہ اچھا نہیں لگا کہ وہ سوال کرے اور اس کا باپ جواب نہ دے اس نے پھر اپنا سوال دہرایا ''بتائیے نا آپ کو کیسے اندازہ ہو جاتا ہے' اس سے پہلے تو تم نے یہ سوال کبھی نہیں کیا' اس کے باپ نے کہا 'مجھے شیر کی چپٹی ناک دیکھ کر یہ خیال آیا' تم ابھی چھوٹے ہو جب یہ فن میں تمہیں سکھاؤں گا تو اس سوال کا جواب تمہیں خود مل جائے گا کیا یہ فن میں ابھی نہیں سیکھ سکتا نہیں ابھی تم اسکول جاؤ، ورزش کرو کشتی لڑو، تلوار چلانا سیکھو جب تمہارے بازو مضبو ط ہو جائیں گے تو یہ فن میں تمہیں خود سکھاؤں گا جس طرح تمہارے دادا نے مجھے سکھایا تھا۔
سقراط بولا میں بڑے ہونے تک جواب کا انتظار نہیں کر سکتا تو بڑا ضدی ہے جس بات کے پیچھے پڑ جاتا ہے پوچھے بغیر دم نہیں لیتا اس نے ایک مرتبہ پھر اوزار ہاتھ سے رکھ دیے اور کہا یوں سمجھو سب سے پہلے تمہیں شیر پتھر میں دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ محسو س کرو کہ شیر پتھر کے اندر قید ہے اور یہ طے کر و کہ تمہیں اسے آزاد کرانا ہے اب جتنی اچھی طرح تم شیر کو دیکھ سکو اتنے ہی یقین کے ساتھ تمہیں یہ بات معلوم ہو گی کہ تمہیں تیشہ کہاں رکھنا ہے اورکتنی سخت چو ٹ لگانی ہے یہ سب آتا ہے مشق اور تربیت سے۔ ابھی تم پتھر توڑ دو گے اور اس کے اندر چھپے ہوئے شیر کو بھی نقصان پہنچاؤ گے''۔
پاکستان بنانے کے پیچھے دراصل اس خو شی اور مسر ت کی تلاش تھی جس کے لیے ہم صدیوں سے بھٹکتے پھر رہے تھے مارے مارے پھر رہے تھے ایسا ملک جہاں ہمیں آزادی، اختیار اور خوشحالی حاصل ہو جہاں ہم جی بھر کر خو ش ہو سکیں جو ہر انسان کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے لیکن پاکستان بننے کے 67 سال بعد بھی ہم اسی خو شی، مسرت، آزادی اور اختیار کے لیے بھٹکتے پھرتے رہے ہیں مارے مارے پھر رہے ہیں۔
کسی چیز کو حاصل کرنے کی خو اہش میں کامیابی کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہوتی ہے کہ اس چیز کی ساری صورت آپ کے ذہن میں پہلے ہی سے نقش ہو تا کہ آپ کو اس کو حقیقت کا رنگ دینے میں دشواری نہ ہو جس طرح سقراط کے باپ نے سقراط کو سمجھاتے ہو ئے کہا تھا کہ سب سے پہلے شیر پتھر میں دیکھنا پڑتا ہے اور یہ محسو س کرنا پڑتا ہے کہ شیر پتھر کے اند ر قید ہے اور تمہیں اسے آزاد کرانا ہے ۔
اسے ہماری بدنصیبی ہی کہیں گے کہ ہمارے بانی قائدین کے ذہن میں پہلے ہی سے یہ خاکہ موجود ہی نہیں تھا کہ نئی ریاست کو چلانے کے لیے دنیا کے کس ملک کو مثال بنا یا جائے گا آیا نئی ریاست میں امریکا کی طر ح نظام اور لوگوں کو اختیار اور آزادی حاصل ہو گی یا یورپ کی طرح یا سعودی عرب کی طرح یا بر طانیہ کی طرح۔ ظاہر ہے اگر آپ کوئی نئی صورت کو تشکیل دے رہے ہیں تو آپ کو کوئی نہ کوئی تو آئیڈیل بنانا ہی پڑتا ہے کارل سینڈبرگ کہتا ہے ''سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے''۔ یاد رہے خواب تصویر والے ہوتے ہیں تحریر والے نہیں۔
ظاہر ہے جب بانی قائدین کے ذہن خاکے سے ہی خالی تھے تو اسی لیے عوام بھی اپنے ذہن میں کوئی مثال یا آئیڈیل یا خواب نہیں بسا سکے اسی لیے جب عوام نے ملک کو حاصل کر لیا تو انھیں یہ معلوم ہی نہ تھا کہ اب انھیں کرنا کیا ہے اور نہ ہی انھیں کوئی گائیڈ یا را ہ دکھانے والا موجود تھا، اس کی وجہ سے وہ لوگ جن کا نہ کوئی جدوجہد پاکستان میں کردار تھا اور نہ ہی انھوں نے کسی قسم کی قربا نیاں دی تھیں۔
ان موقع پر ست اور مفاد پرست لوگوں نے کنفیوژن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئے ملک کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے لوٹنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ مذہبی قوتوں کو بھی اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا سنہری موقع مل گیا اور وہ اس موقع کو غنیمت جان کر پاکستان کے دستور میں متعدد بارودی سرنگ نصب کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بیچارے عوام یہ سب کچھ خاموش تماشائی بن کر دیکھتے رہے اور وہ نا معلوم منزلوں کے مسافر بن گئے اس وقت عوام نے اپنے آپ کو نئے ملک کی حکمرانی کے قابل ہی نہیں سمجھا اس کی سب سے بڑی وجہ نفسیاتی تھی چونکہ وہ بر صغیر میں انگریزوں کے غلام تھے۔
اس لیے ان کی نفسیات غلامانہ بن کے رہ گئی تھی اور جب انھیں ہو ش آیا تو اس وقت تک وقت ان سے بہت آگے نکل گیا تھا اس لیے وہ ہاتھ پاؤں مارے بغیر ایک مرتبہ پھر خاموش تماشائی بن گئے۔ پاکستان میں برطانیہ کے سابق ہائی کمشنر سر ہنری سائنٹ نے تاریخی حوالے سے ایک پالیسی رپورٹ جاری کی ہے وہ تصدیق کرتے ہیں کہ ''قدیم داخلی مسائل ملک کے ابتدائی برسوں کی یادگار ہیں'' ان ہی امراء نے ملک میں ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جس میں آبادی کا بڑا حصہ فرسٹریشن اور تھکاوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ ہم تمام لوگ ایک بیما ر معاشرے کے نہ صر ف شہر ی ہیں بلکہ اس کی پیداوار بھی ہیں اور کوئی بیمار معاشرہ صحت مند لوگوں کو جنم نہیں دے سکتا۔
ہمیں بچپن سے بتایا جاتاہے کہ ہمارے دشمن یہود و ہنود ہیں جو ہمہ وقت مسلمانوں کو تباہ کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں جب کہ ہم روزانہ یہ باور کروانے والوں کو ان ہی سے شرف ملاقات کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ان کی اولاد ان کے ہی ملکوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اپنا علاج کروانے ان ہی کے ملکوں میں جاتے ہیں۔ اقتدار حاصل کر نے کے لیے ان ہی سے خفیہ خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں عہد و پیمان کرتے ہیں اور ہمارے سامنے انھیں بر ابھلا کہنے لگ جاتے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں ہمارے پاس صرف دو راستے ہیں ایک تو یہ کہ ہم یہ ہی دوغلی اور بیمار زندگی یوں ہی بسر کرتے رہیں دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم دنیا کے دیگر ممالک کے لوگوں کی طرح اپنے تمام عذابوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی خوشیوں، مسرت، آزادی، خوشحالی، ترقی کے تمام دشمنوں کو مار بھگائیں اور ساتھ ساتھ ہمارے ذہنوں میں آیندہ کے لیے ایک مکمل خاکہ ہونا لازمی ہے ایک آئیڈیل ہونا ضروری ہے اور اپنے ذہن میں موجود تمام تعصبات کا خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے تب ہی ہم اس شیر کو جو پتھر میں قید ہے آزاد کروا سکیں گے۔