بھارت کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے کا سفر تیزی سے جاری
مودی کی حکمت عملی ہے کہ پانچ برسوں کے دوران لوگوں کو مختلف اشتعال انگیزیوں میں الجھائے رکھاجائے گا
نریندرمودی نے اقتدارمیں آکر ہندوتوا کے ایجنڈے پر پوری شدت کے ساتھ عمل درآمد شروع کردیا ہے۔
مرکزی کابینہ نے ایک فیصلہ کیا جس میں بظاہر سرکاری ملازمین کو راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس) کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ لیکن درحقیقت اس فیصلے کے ذریعے سرکاری ملازمین سے کہاگیاہے کہ انھیں بہرصورت آرایس ایس میں شامل ہوناہے اور سرگرم ہوناہے۔اس کا آغاز چھتیس گڑھ ریاست سے کیاگیاہے جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی گزشتہ 11برس سے برسراقتدارہے۔ اگرچہ بھارت میں افسرشاہی کا بڑا حصہ آر ایس ایس کے رنگ میں رنگا ہواہے۔ جس پر ہندوتوا کا رنگ نہیں چڑھا، وہ آرایس ایس کی مقامی شاخوں کے احکامات ماننے پر مجبورہے۔
یاد رہے کہ دنیا کے ہرمعاشرے میں سرکاری ملازمین اور افسران پر کسی بھی سیاسی جماعت کا ممبربننے یا اس کے پروگراموں میں شریک ہونے پر پابندی عائد ہوتی ہے حتیٰ کہ سرکاری قوانین کے مطابق وہ عوامی سطح پر اپنی سیاسی رائے کا اظہاربھی نہیں کرسکتے۔ ریاست چھتیس گڑھ میں مئی 2002ء میں کانگریس کی ریاستی حکومت کو باقاعدہ حکم نامہ جاری کرناپڑاتھا کہ آرایس ایس اور اس قسم کی دوسری تنظیموں کی سرگرمیوں میں حصہ لینایا انھیں کسی بھی طورپر تعاون دینا چھتیس گڑھ سول سروس ضابطے کی خلاف ورزی ماناجائے گا۔ اس حکم نامے کا تناظریہ تھا کہ آرایس ایس سرکاری ملازمین کو اپنے ساتھ منسلک ہونے پر مجبور کررہی تھی۔
آرایس ایس کیاہے؟ یہ بھی جان لیجئے۔ بنیادی طورپرایک فرقہ پرست اور اقلیت دشمن تنظیم ہے جس کا مقصد بھارت میں ایک ہندو راشٹر قائم کرناہے، ایسا ہندو راشٹر جس میں اقلیتوں اور نچلی ذاتوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی ہوگی۔ راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس1925ء میں ناگپور میں قائم ہوئی، بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوار تھا۔ یہ ہندو سوائم سیوک سنگھ کے نام سے بیرون ممالک میں سرگرم ہے۔ اس تنظیم کا اہم ترین مقصد بھارت کو ہندو مملکت بناناہے۔ بھارت میں برطانوی حکومت نے ایک بار، اور آزادی کے بعد حکومتِ ہند نے تین بار اس تنظیم کو ممنوع قرار دیا۔
بھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں اس تنظیم کا نام سر فہرست ہے۔1927ء کا ناگپور فساد اولین اور اہم ترین ہے۔ 1948ء میں اسی تنظیم کے ایک رکن نتھورام ونائک گوڑسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا۔1969ء میںاحمد آباد فساد ، 1971ء میں تلشیری فساد اور1979ء میں بہار کے جمشید پور فرقہ وارانہ فساد میں ملوث رہی۔6 دسمبر1992ء کو اسی تنظیم کے اراکین (کارسیوک) نے بابری مسجد میں گھس کر اسے شہید کر دیا۔ حکومتی کمیشنوں نے آر ایس ایس کو 1969ء کے احمدآباد فسادات، 1971ء کے بھیونڈی فسادات،1971ء کے تلشیری فسادات، 1979ء کے جمشیدپور فسادات، 1982ء کے کنیاکماری فسادات اور 1989ء کے بھاگلپور فسادات میں باقاعدہ ملوث قراردیا۔
آرایس ایس کی ہم خیال تنظیموں میںسنگھ پریوارشامل ہے۔ آر ایس ایس کے آدرشوں کے مطابق سرگرم تنظیموں کو عام طور پر 'سنگھ پریوار' کہتے ہیں۔آر ایس ایس کی دوسری ہم خیال تنظیموں میں وشوا ہندو پریشد ، ون بندھو پریشد ، راشٹریہ سیوکا سمیتی ، سیوا بھارتی ، اکھل بھارتی ودیارتھی پریشد ، ونواسی کلیان آشرم ، بھارتی مزدور سنگھ ، ودیا بھارتی وغیرہ بھی ہیں۔مالیگاؤں بم دھماکہ،حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکہ،اجمیر بم دھماکہ،سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ جیسی ملک دشمن سرگرمیوں میں سنگھ پریوار تنظیمیں ملوث پائی گئی ہیں۔
آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت ایک سے زائد مرتبہ بھارت کو ہندو راشٹر قراردے چکے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ''یہاں کا ہرباشندہ بنیادی طورپر ہندو ہے''۔ اس سے اگلاجملہ وہ فی الحال نہیں بول رہے لیکن ان کے ساتھی قراردے چکے ہیں کہ بنیادی طور پر ہر ہندوباشندہ ہے چاہے وہ مسلمان ہو، عیسائی ہو، سکھ ہو، اسے بہرصورت واپس ہندو بنناہوگا۔
آرایس ایس کی ذیلی تنظیم وشواہندوپریشد کے جنرل سیکرٹری اشوک سنگھل نے کہاکہ ہندوستان میں آٹھ سو سال بعد ہندوؤں کا راج قائم ہواہے اور اس عرصے میں پہلی بار ہندوؤں کے لئے فخر کی علامت ایک سوئم سیوک کو وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے کا موقع ملا ہے۔وشواہندوپریشد کہتی ہے اگرمسلمان اس ملک میں عزت چاہتے ہیں تو انھیں ہندو بن کر رہناہوگا۔ بی جے پی کے سبرامینین سوامی کا کہناہے کہ مسلمان تسلیم کرلیں کہ وہ ہندوآباء واجداد کی اولاد ہیں۔ انھوں نے مساجد کو محض عمارتیں قراردے کر کسی بھی وقت مسمار کرنے کی دھمکی دی ہے۔ انھوں نے یہ دھمکی ایک دن میں دو مرتبہ دی۔ ان کا کہناہے کہ بھارت میں رہنے والا ہرمسلمان صرف ہندوستانی ہے جسے کوئی نمایاں مقام نہیں دیاجائے گا۔
نریندرمودی کی حکومت قائم ہوتے ہی آرایس ایس کو سرکاری سطح پر کلیدی حیثیت حاصل گئی۔ مودی سرکار جس ریمورٹ کنٹرول سے چلائی جارہی ہے، وہ آرایس ایس کے مرکز ناگپور میں ہے۔ مودی قدم بہ قدم وہاں سے ہدایات لیتے ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ آرایس ایس کی مرضی کے بغیر نہیں ہورہا۔ حساس شعبوں میں آرایس ایس کے سیوکوں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔گزشتہ دنوں دسہرہ کے موقع پر ناگپور میں منعقد ہونے والی آرایس ایس کی سالانہ تقریب کو دوردرشن پر براہ راست نشر کیا گیا، بالخصوص آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا ڈیڑھ گھنٹہ طویل خطاب بھی پورے ملک میں دکھایاگیا۔ اس پر پورے ملک میں احتجاج ہوا لیکن مودی سرکارنے اس احتجاج کا کوئی اثرنہ لینے کا فیصلہ کیا۔اس کے فوراً بعد آرایس ایس کی طرف سے منظورشدہ ایک شخص کو دوردرشن کا سی ای او بنادیاگیا۔
بی جے پی جن ریاستوں میں حکمران ہے، وہاں ریاستی تعلیمی صلاح کارکمیٹیاں بنادی گئی ہیں، اور ان کے سربراہان آرایس ایس کے لوگ ہیں یا آرایس ایس کے منظورشدہ لوگ۔ فیصلہ کیا گیا ہے گیتا کی تعلیم ہرمذہب کے لوگوں پر لازم ہوگی۔ جب لوگوں نے اس پر اعتراض اٹھایاتو مودی سرکار کے بعض ذمہ داران نے کہا کہ گیتا میں کوئی غیراخلاقی باتیں تو نہیں ہوتیں۔ اس مہم کے مخالفین نے کہا کہ یقینا اس میں ایسا نہیں ہے لیکن پھر قرآن مجید سمیت باقی مذہبی کتب بھی پڑھائی جائیں، ظاہرہے وہ بھی انسانیت کی تعمیر کے لئے ہیں۔ پورے ملک میں مرحلہ وار ہندوانہ نصاب تعلیم رائج کرنے کی طرف پیش رفت جاری ہے۔ نصاب کی تیاری ہرسطح پر ہورہی ہے۔ تاریخ کی کتابیں ازسرنو لکھی جارہی ہیں۔سکولوں، کالجوںکے نصاب اور تاریخ کی کتابوں پر نظرثانی کا کام نہایت تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ کی تشکیل نو کرکے اب اسے مکمل طورپر آرایس ایس کے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔ آرایس ایس کے ہندی ترجمان پنج جانیہ کے سابق ایڈیٹر بلدیو شرما کو نیشنل بک ٹرسٹ کا چیئرمین بنادیا گیا ہے۔
مودی سرکار مسلمانوں کے قتل عام اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو تیزی سے رہاکررہی ہے۔ پہلے انھیں ضمانت پر رہا کیا جاتاہے، اس کے بعد ان کی 'باعزت' رہائی کا بندوبست کیا جاتاہے۔ عشرت جہاں اور سہراب الدین شیخ کے قتل کے الزامات سے اب تک چھ بڑی سرکاری اور سیاسی شخصیات بری کی جاچکی ہیں۔ساتواں نام بھی ان میں شامل ہوجائے گا، وہ ہے: راجستھان کا وزیرداخلہ گلاب سنگھ کٹاریہ۔ گجرات 2002ء میں برطانوی مسلم شہریوں کے قتل کے تمام چھ ملزم بھی بری کردئیے گئے ہیں۔ نرودہ پاٹیا کی ملزمہ 'مایا کو ڈنانی' اور ان کے اسسٹنٹ کرپال سنگھ چھابڑا کو ضمانت پر رہاکردیاگیاہے۔ دوسری طرف مودی سرکار نہیں چاہتی کہ مکہ مسجد، درگاہ اجمیر، سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگاؤں کے ملزموں کے خلاف مقدمات تیزی سے آگے بڑھائے جائیں۔ یہ دہشت گردی کے وہ واقعات ہیں جس میں انتہاپسند ہندوملوث ہیں۔ ان کے خلاف ثبوت وشواہد بہت مضبوط ہیں۔ ان کیسز سے پیچھا چھڑانے کا واحد حل ہے کہ انہیں سردخانے میں رکھاجائے۔
مہاراشٹر میںمسلمانوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے کہ وہ بیل اور سانڈ کو ذبح نہیں کرسکتے۔ یہ پابندی اس وزیراعظم کے دورمیں عائد ہوئی جو مسلمانوں سے اس قدر نفرت کرتاہے کہ وہ بی جے پی کے حامی مسلمان کے ہاتھوں ایسی ٹوپی پہننے کو تیار نہ ہوا جو مسلمان پہنتے ہیں۔ہندوتواکے ایجنڈے کو نافذ کرنے والے یہ بہت سے اقدامات میں سے چندایک ہیں ہیں جو گزشتہ دس گیارہ ماہ کی حکمرانی کا نتیجہ ہیں۔ بی جے پی کی حکومت ہندوتوا کا ایجنڈاآگے بڑھانے کے لئے اپنی سرکاری اور سیاسی حیثیت بھی استعمال کررہی ہے۔ پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کو بھی اس کے لئے استعمال کیاجارہاہے جبکہ حکمران پارٹی کے لیڈر اور کارکن بھی مکمل طورپر سرگرم ہیں۔دھرم، کلچر اور اکثریتی آبادی کے تحفظ کے نعروں سے متاثرہونے والے طبقے کو خوش اور پرجوش رکھنے کے لئے آرایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے لیڈروں کو کھلی چھٹی دیدی گئی ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف جو منہ میں آئے بکیں، جتنی اشتعال انگیزی کرناچاہیں ، کریں۔ ان کی طرف قانون آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھے گا۔
نریندرمودی یہ سب کچھ کرکے بی جے پی کے روایتی ووٹ بنک کو خوش رکھناچاہتے ہیں تاکہ اگلے انتخابات بھی جیتے جاسکیں۔ ان کا روایتی ووٹ بنک تین حصوں پر مشتمل ہے۔
اول: آرایس ایس کے پروگرام اور ایجنڈے سے وابستہ پڑھے لکھے لوگوں کا فکری طبقہ جو اپنی پسند کا راشٹر دیکھنے کی تمنا برسوں سے دل میں پالے ہوئے ہے۔ دوم:مالداروں، صنعت کاروں اوربنیوں کا طبقہ جو ملکی میڈیا کو بھی کنٹرول کرتاہے۔مودی کی کامیابی کے لیے اس طبقے نے تن من دھن قربان کردیا، اس کا ایک ہی خواب ہے کہ مودی کے دورمیں وہ اپنی بزنس ایمپائرز کو مزید بڑا کریں۔ میڈیا انہی دولت مندوں کی ملکیت ہے ، اس لئے وہ اسے اپنے مذموم مقاصد کے لئے بلاخوف وخطراستعمال کررہے ہیں۔ سوم: عوام کا وہ طبقہ جو ایک مخصوص دھرم، کلچر اور کمیونٹی کے مفادات کے حق میں لگائے جانے والے نعروں سے متاثر ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ رائے دہندگان میں ان تینوں طبقات کا حصہ 25فیصد سے بھی کم ہے۔
گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کے ووٹ بنک میں چھ سات فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جو مودی کی طرف سے ترقی اور خوشحالی کے دعووں اور میڈیا کی یلغار سے متاثر ہوئے۔ ان میں ایسے بھی ووٹرز تھے جو عام طورپر گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں لیکن اس بار بی جے پی کے کارکنوں نے انھیں گھروں سے نکال کر پولنگ بوتھوں تک پہنچادیا۔ اضافی ووٹ بنک میں وہ لوگ بھی شامل تھے جوکانگریسی حکومت کی بری کارکردگی سے دل برداشتہ تھے۔ان کے پاس کوئی تیسرا راستہ نہیں تھا، اس لئے انھوں نے اپنا ووٹ یہ سوچ کر بی جے پی کے پلڑے میں ڈال دیا کہ شاید مودی واقعتا ملک وقوم کو ترقی وخوشحالی سے ہمکنار کر سکیں۔ مودی سرکار ان تینوں طبقات کو مطمئن کرناچاہتی ہے جبکہ اسے چھ سات فیصد نئے ووٹروں کو بھی مطمئن کرناہے۔
اول الذکر یعنی ہندوراشٹر کا خواب دیکھنے والوں کے لیے عملی اقدامات، سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور بنیوں کے لئے لوٹ مار کے مواقع جس کا ایک مظہر حالیہ بجٹ ہے۔اراضی کی تحویل کے لئے ایک قانون بھی لایاجارہاہے، یہ قانون بھی اسی کی خوشنودی کے لئے ہے۔ بھارتی عوام ان دنوں چیخ پکارمیں مصروف ہیں کہ اس طبقے کے لئے بجٹ میں بہت کچھ رکھ دیاگیاہے لیکن ہمارے لئے کچھ بھی نہیں۔
رہی بات باقی ماندہ 69فیصد رائے دہندگان کی، جو مودی کے خلاف ہیں، مودی کی حکمت عملی ہے کہ اپنے پانچ برسوں کے دوران ایسے لوگوں کو مختلف اشتعال انگیزیوں میں الجھائے رکھاجائے گا تاکہ وہ مودی سرکارکی ناکامیوں کی طرف دھیان نہ دے سکیں۔ اور مودی سرکار اپنے انتہاپسند اور جرائم پیشہ وزیروں کے ساتھ راج کرتی رہے۔ یادرہے کہ مودی کابینہ میں 13 وزرا ایسے ہیں جن پرکریمنل کیسز ہیں۔ان میں سے 8ایسے وزرا ہیں جو سنگین مقدمات میں ملوث ہیں مثلاً قتل، اغوا، فسادات اور بلوے، انتخابات میں فراڈ۔اوما بھارتی پر قتل کا مقدمہ ہے، اسی طرح وہ مذہبی بنیادپر فسادات اور بلوے کرانے میں ملوث پائی گئیں۔ اسی طرح ان پر انتخابی مہم کے دوران غیرقانونی رقوم بانٹنے کا بھی مقدمہ ہے۔ اوپندر کوشوانا اور رام ولاس پسوان پر رشوت لینے کے مقدمات ہیں۔گوپی ناتھ منڈے اغوا کے مقدمات میں ملوث ہیں۔
مرکزی کابینہ نے ایک فیصلہ کیا جس میں بظاہر سرکاری ملازمین کو راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس) کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دیدی گئی ہے۔ لیکن درحقیقت اس فیصلے کے ذریعے سرکاری ملازمین سے کہاگیاہے کہ انھیں بہرصورت آرایس ایس میں شامل ہوناہے اور سرگرم ہوناہے۔اس کا آغاز چھتیس گڑھ ریاست سے کیاگیاہے جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی گزشتہ 11برس سے برسراقتدارہے۔ اگرچہ بھارت میں افسرشاہی کا بڑا حصہ آر ایس ایس کے رنگ میں رنگا ہواہے۔ جس پر ہندوتوا کا رنگ نہیں چڑھا، وہ آرایس ایس کی مقامی شاخوں کے احکامات ماننے پر مجبورہے۔
یاد رہے کہ دنیا کے ہرمعاشرے میں سرکاری ملازمین اور افسران پر کسی بھی سیاسی جماعت کا ممبربننے یا اس کے پروگراموں میں شریک ہونے پر پابندی عائد ہوتی ہے حتیٰ کہ سرکاری قوانین کے مطابق وہ عوامی سطح پر اپنی سیاسی رائے کا اظہاربھی نہیں کرسکتے۔ ریاست چھتیس گڑھ میں مئی 2002ء میں کانگریس کی ریاستی حکومت کو باقاعدہ حکم نامہ جاری کرناپڑاتھا کہ آرایس ایس اور اس قسم کی دوسری تنظیموں کی سرگرمیوں میں حصہ لینایا انھیں کسی بھی طورپر تعاون دینا چھتیس گڑھ سول سروس ضابطے کی خلاف ورزی ماناجائے گا۔ اس حکم نامے کا تناظریہ تھا کہ آرایس ایس سرکاری ملازمین کو اپنے ساتھ منسلک ہونے پر مجبور کررہی تھی۔
آرایس ایس کیاہے؟ یہ بھی جان لیجئے۔ بنیادی طورپرایک فرقہ پرست اور اقلیت دشمن تنظیم ہے جس کا مقصد بھارت میں ایک ہندو راشٹر قائم کرناہے، ایسا ہندو راشٹر جس میں اقلیتوں اور نچلی ذاتوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی ہوگی۔ راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس1925ء میں ناگپور میں قائم ہوئی، بانی کیشوا بلی رام ہیڑگیوار تھا۔ یہ ہندو سوائم سیوک سنگھ کے نام سے بیرون ممالک میں سرگرم ہے۔ اس تنظیم کا اہم ترین مقصد بھارت کو ہندو مملکت بناناہے۔ بھارت میں برطانوی حکومت نے ایک بار، اور آزادی کے بعد حکومتِ ہند نے تین بار اس تنظیم کو ممنوع قرار دیا۔
بھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں اس تنظیم کا نام سر فہرست ہے۔1927ء کا ناگپور فساد اولین اور اہم ترین ہے۔ 1948ء میں اسی تنظیم کے ایک رکن نتھورام ونائک گوڑسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا۔1969ء میںاحمد آباد فساد ، 1971ء میں تلشیری فساد اور1979ء میں بہار کے جمشید پور فرقہ وارانہ فساد میں ملوث رہی۔6 دسمبر1992ء کو اسی تنظیم کے اراکین (کارسیوک) نے بابری مسجد میں گھس کر اسے شہید کر دیا۔ حکومتی کمیشنوں نے آر ایس ایس کو 1969ء کے احمدآباد فسادات، 1971ء کے بھیونڈی فسادات،1971ء کے تلشیری فسادات، 1979ء کے جمشیدپور فسادات، 1982ء کے کنیاکماری فسادات اور 1989ء کے بھاگلپور فسادات میں باقاعدہ ملوث قراردیا۔
آرایس ایس کی ہم خیال تنظیموں میںسنگھ پریوارشامل ہے۔ آر ایس ایس کے آدرشوں کے مطابق سرگرم تنظیموں کو عام طور پر 'سنگھ پریوار' کہتے ہیں۔آر ایس ایس کی دوسری ہم خیال تنظیموں میں وشوا ہندو پریشد ، ون بندھو پریشد ، راشٹریہ سیوکا سمیتی ، سیوا بھارتی ، اکھل بھارتی ودیارتھی پریشد ، ونواسی کلیان آشرم ، بھارتی مزدور سنگھ ، ودیا بھارتی وغیرہ بھی ہیں۔مالیگاؤں بم دھماکہ،حیدرآباد مکہ مسجد بم دھماکہ،اجمیر بم دھماکہ،سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ جیسی ملک دشمن سرگرمیوں میں سنگھ پریوار تنظیمیں ملوث پائی گئی ہیں۔
آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت ایک سے زائد مرتبہ بھارت کو ہندو راشٹر قراردے چکے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ''یہاں کا ہرباشندہ بنیادی طورپر ہندو ہے''۔ اس سے اگلاجملہ وہ فی الحال نہیں بول رہے لیکن ان کے ساتھی قراردے چکے ہیں کہ بنیادی طور پر ہر ہندوباشندہ ہے چاہے وہ مسلمان ہو، عیسائی ہو، سکھ ہو، اسے بہرصورت واپس ہندو بنناہوگا۔
آرایس ایس کی ذیلی تنظیم وشواہندوپریشد کے جنرل سیکرٹری اشوک سنگھل نے کہاکہ ہندوستان میں آٹھ سو سال بعد ہندوؤں کا راج قائم ہواہے اور اس عرصے میں پہلی بار ہندوؤں کے لئے فخر کی علامت ایک سوئم سیوک کو وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھے کا موقع ملا ہے۔وشواہندوپریشد کہتی ہے اگرمسلمان اس ملک میں عزت چاہتے ہیں تو انھیں ہندو بن کر رہناہوگا۔ بی جے پی کے سبرامینین سوامی کا کہناہے کہ مسلمان تسلیم کرلیں کہ وہ ہندوآباء واجداد کی اولاد ہیں۔ انھوں نے مساجد کو محض عمارتیں قراردے کر کسی بھی وقت مسمار کرنے کی دھمکی دی ہے۔ انھوں نے یہ دھمکی ایک دن میں دو مرتبہ دی۔ ان کا کہناہے کہ بھارت میں رہنے والا ہرمسلمان صرف ہندوستانی ہے جسے کوئی نمایاں مقام نہیں دیاجائے گا۔
نریندرمودی کی حکومت قائم ہوتے ہی آرایس ایس کو سرکاری سطح پر کلیدی حیثیت حاصل گئی۔ مودی سرکار جس ریمورٹ کنٹرول سے چلائی جارہی ہے، وہ آرایس ایس کے مرکز ناگپور میں ہے۔ مودی قدم بہ قدم وہاں سے ہدایات لیتے ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ آرایس ایس کی مرضی کے بغیر نہیں ہورہا۔ حساس شعبوں میں آرایس ایس کے سیوکوں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔گزشتہ دنوں دسہرہ کے موقع پر ناگپور میں منعقد ہونے والی آرایس ایس کی سالانہ تقریب کو دوردرشن پر براہ راست نشر کیا گیا، بالخصوص آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا ڈیڑھ گھنٹہ طویل خطاب بھی پورے ملک میں دکھایاگیا۔ اس پر پورے ملک میں احتجاج ہوا لیکن مودی سرکارنے اس احتجاج کا کوئی اثرنہ لینے کا فیصلہ کیا۔اس کے فوراً بعد آرایس ایس کی طرف سے منظورشدہ ایک شخص کو دوردرشن کا سی ای او بنادیاگیا۔
بی جے پی جن ریاستوں میں حکمران ہے، وہاں ریاستی تعلیمی صلاح کارکمیٹیاں بنادی گئی ہیں، اور ان کے سربراہان آرایس ایس کے لوگ ہیں یا آرایس ایس کے منظورشدہ لوگ۔ فیصلہ کیا گیا ہے گیتا کی تعلیم ہرمذہب کے لوگوں پر لازم ہوگی۔ جب لوگوں نے اس پر اعتراض اٹھایاتو مودی سرکار کے بعض ذمہ داران نے کہا کہ گیتا میں کوئی غیراخلاقی باتیں تو نہیں ہوتیں۔ اس مہم کے مخالفین نے کہا کہ یقینا اس میں ایسا نہیں ہے لیکن پھر قرآن مجید سمیت باقی مذہبی کتب بھی پڑھائی جائیں، ظاہرہے وہ بھی انسانیت کی تعمیر کے لئے ہیں۔ پورے ملک میں مرحلہ وار ہندوانہ نصاب تعلیم رائج کرنے کی طرف پیش رفت جاری ہے۔ نصاب کی تیاری ہرسطح پر ہورہی ہے۔ تاریخ کی کتابیں ازسرنو لکھی جارہی ہیں۔سکولوں، کالجوںکے نصاب اور تاریخ کی کتابوں پر نظرثانی کا کام نہایت تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ کی تشکیل نو کرکے اب اسے مکمل طورپر آرایس ایس کے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے۔ آرایس ایس کے ہندی ترجمان پنج جانیہ کے سابق ایڈیٹر بلدیو شرما کو نیشنل بک ٹرسٹ کا چیئرمین بنادیا گیا ہے۔
مودی سرکار مسلمانوں کے قتل عام اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو تیزی سے رہاکررہی ہے۔ پہلے انھیں ضمانت پر رہا کیا جاتاہے، اس کے بعد ان کی 'باعزت' رہائی کا بندوبست کیا جاتاہے۔ عشرت جہاں اور سہراب الدین شیخ کے قتل کے الزامات سے اب تک چھ بڑی سرکاری اور سیاسی شخصیات بری کی جاچکی ہیں۔ساتواں نام بھی ان میں شامل ہوجائے گا، وہ ہے: راجستھان کا وزیرداخلہ گلاب سنگھ کٹاریہ۔ گجرات 2002ء میں برطانوی مسلم شہریوں کے قتل کے تمام چھ ملزم بھی بری کردئیے گئے ہیں۔ نرودہ پاٹیا کی ملزمہ 'مایا کو ڈنانی' اور ان کے اسسٹنٹ کرپال سنگھ چھابڑا کو ضمانت پر رہاکردیاگیاہے۔ دوسری طرف مودی سرکار نہیں چاہتی کہ مکہ مسجد، درگاہ اجمیر، سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگاؤں کے ملزموں کے خلاف مقدمات تیزی سے آگے بڑھائے جائیں۔ یہ دہشت گردی کے وہ واقعات ہیں جس میں انتہاپسند ہندوملوث ہیں۔ ان کے خلاف ثبوت وشواہد بہت مضبوط ہیں۔ ان کیسز سے پیچھا چھڑانے کا واحد حل ہے کہ انہیں سردخانے میں رکھاجائے۔
مہاراشٹر میںمسلمانوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے کہ وہ بیل اور سانڈ کو ذبح نہیں کرسکتے۔ یہ پابندی اس وزیراعظم کے دورمیں عائد ہوئی جو مسلمانوں سے اس قدر نفرت کرتاہے کہ وہ بی جے پی کے حامی مسلمان کے ہاتھوں ایسی ٹوپی پہننے کو تیار نہ ہوا جو مسلمان پہنتے ہیں۔ہندوتواکے ایجنڈے کو نافذ کرنے والے یہ بہت سے اقدامات میں سے چندایک ہیں ہیں جو گزشتہ دس گیارہ ماہ کی حکمرانی کا نتیجہ ہیں۔ بی جے پی کی حکومت ہندوتوا کا ایجنڈاآگے بڑھانے کے لئے اپنی سرکاری اور سیاسی حیثیت بھی استعمال کررہی ہے۔ پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کو بھی اس کے لئے استعمال کیاجارہاہے جبکہ حکمران پارٹی کے لیڈر اور کارکن بھی مکمل طورپر سرگرم ہیں۔دھرم، کلچر اور اکثریتی آبادی کے تحفظ کے نعروں سے متاثرہونے والے طبقے کو خوش اور پرجوش رکھنے کے لئے آرایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے لیڈروں کو کھلی چھٹی دیدی گئی ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف جو منہ میں آئے بکیں، جتنی اشتعال انگیزی کرناچاہیں ، کریں۔ ان کی طرف قانون آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھے گا۔
نریندرمودی یہ سب کچھ کرکے بی جے پی کے روایتی ووٹ بنک کو خوش رکھناچاہتے ہیں تاکہ اگلے انتخابات بھی جیتے جاسکیں۔ ان کا روایتی ووٹ بنک تین حصوں پر مشتمل ہے۔
اول: آرایس ایس کے پروگرام اور ایجنڈے سے وابستہ پڑھے لکھے لوگوں کا فکری طبقہ جو اپنی پسند کا راشٹر دیکھنے کی تمنا برسوں سے دل میں پالے ہوئے ہے۔ دوم:مالداروں، صنعت کاروں اوربنیوں کا طبقہ جو ملکی میڈیا کو بھی کنٹرول کرتاہے۔مودی کی کامیابی کے لیے اس طبقے نے تن من دھن قربان کردیا، اس کا ایک ہی خواب ہے کہ مودی کے دورمیں وہ اپنی بزنس ایمپائرز کو مزید بڑا کریں۔ میڈیا انہی دولت مندوں کی ملکیت ہے ، اس لئے وہ اسے اپنے مذموم مقاصد کے لئے بلاخوف وخطراستعمال کررہے ہیں۔ سوم: عوام کا وہ طبقہ جو ایک مخصوص دھرم، کلچر اور کمیونٹی کے مفادات کے حق میں لگائے جانے والے نعروں سے متاثر ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ رائے دہندگان میں ان تینوں طبقات کا حصہ 25فیصد سے بھی کم ہے۔
گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کے ووٹ بنک میں چھ سات فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہ وہ لوگ تھے جو مودی کی طرف سے ترقی اور خوشحالی کے دعووں اور میڈیا کی یلغار سے متاثر ہوئے۔ ان میں ایسے بھی ووٹرز تھے جو عام طورپر گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں لیکن اس بار بی جے پی کے کارکنوں نے انھیں گھروں سے نکال کر پولنگ بوتھوں تک پہنچادیا۔ اضافی ووٹ بنک میں وہ لوگ بھی شامل تھے جوکانگریسی حکومت کی بری کارکردگی سے دل برداشتہ تھے۔ان کے پاس کوئی تیسرا راستہ نہیں تھا، اس لئے انھوں نے اپنا ووٹ یہ سوچ کر بی جے پی کے پلڑے میں ڈال دیا کہ شاید مودی واقعتا ملک وقوم کو ترقی وخوشحالی سے ہمکنار کر سکیں۔ مودی سرکار ان تینوں طبقات کو مطمئن کرناچاہتی ہے جبکہ اسے چھ سات فیصد نئے ووٹروں کو بھی مطمئن کرناہے۔
اول الذکر یعنی ہندوراشٹر کا خواب دیکھنے والوں کے لیے عملی اقدامات، سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور بنیوں کے لئے لوٹ مار کے مواقع جس کا ایک مظہر حالیہ بجٹ ہے۔اراضی کی تحویل کے لئے ایک قانون بھی لایاجارہاہے، یہ قانون بھی اسی کی خوشنودی کے لئے ہے۔ بھارتی عوام ان دنوں چیخ پکارمیں مصروف ہیں کہ اس طبقے کے لئے بجٹ میں بہت کچھ رکھ دیاگیاہے لیکن ہمارے لئے کچھ بھی نہیں۔
رہی بات باقی ماندہ 69فیصد رائے دہندگان کی، جو مودی کے خلاف ہیں، مودی کی حکمت عملی ہے کہ اپنے پانچ برسوں کے دوران ایسے لوگوں کو مختلف اشتعال انگیزیوں میں الجھائے رکھاجائے گا تاکہ وہ مودی سرکارکی ناکامیوں کی طرف دھیان نہ دے سکیں۔ اور مودی سرکار اپنے انتہاپسند اور جرائم پیشہ وزیروں کے ساتھ راج کرتی رہے۔ یادرہے کہ مودی کابینہ میں 13 وزرا ایسے ہیں جن پرکریمنل کیسز ہیں۔ان میں سے 8ایسے وزرا ہیں جو سنگین مقدمات میں ملوث ہیں مثلاً قتل، اغوا، فسادات اور بلوے، انتخابات میں فراڈ۔اوما بھارتی پر قتل کا مقدمہ ہے، اسی طرح وہ مذہبی بنیادپر فسادات اور بلوے کرانے میں ملوث پائی گئیں۔ اسی طرح ان پر انتخابی مہم کے دوران غیرقانونی رقوم بانٹنے کا بھی مقدمہ ہے۔ اوپندر کوشوانا اور رام ولاس پسوان پر رشوت لینے کے مقدمات ہیں۔گوپی ناتھ منڈے اغوا کے مقدمات میں ملوث ہیں۔