’’یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے‘‘
اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی احسان دانش کی شاعری نے انہیں اس تیز رفتار زندگی کی بھیڑ میں گم نہیں ہونے دیا۔
چاہے وہ اپنے گھرمیں ہو یا باہر گلی میں اس کے گرد لوگوں کا ایک ہجوم ہر وقت لگا رہتا تھا۔وہ سب اس کے دوست تھے، جو اپنے اپنے مسائل کے حل کے لئے اس کے پاس آتے۔ کوئی انار کلی میں دوکان خریدنا چاہتا، تو کوئی اپنی بیوی سے لڑ جھگڑ کر وہاں اُس امید پر آتا کہ اب یہی بندہ اس کے گھر جا کر میاں بیوی کی صلح صفائی کراسکتا ہے، تو کوئی ملازمت کی آس لئے بیٹھا ہوتا کہ یہی بندہ اسے کسی نہ کسی کام دھندے پر لگوا سکتا ہے اور ایک آدھا ایسا بھی ہوتا جس نے عشق کی بازی ہاری ہوتی اور وہ ایک ایسے کندھے کی تلاش میں وہاں بیٹھا ہوتا جس پر وہ سر رکھ کر اپنا دکھڑا بیان کرسکے۔
وہ گھنٹوں بیٹھ کر سب کی باری باری سنتا اور ان کی ہر طرح سے مدد کرتا۔ چند میل زدہ کرسیاں، تخت پوش، جائے نماز، چند برتن، کچھ رضائیاں، کبوتر،کتابیں اور دیسی ادویات۔ بادی النظر میں گھر کم اورمکتب، دارالحکمت یا کبوتر خانے کا گماں ہوتا تھا۔ درودیوار رنگ سے بے نیاز مگر سیلن زدہ، ایک دیوار پر مرزا غالب اور آزاد کی تصاویر آویزاں تھیں۔ تخت پوش کے سامنے ایک چھوٹی سی میز جس پر ہاتھ سے لکھی شاعری بکھری ہوتی، اسی دیوار پر ایک چارٹ پر اصول و ضوابط درج تھے جن کے مطابق؛
1۔ کوئی بھی رشتہ دار یا دوست ان تمام اصول و شرائط سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
2۔ فضول اور سست گفتگو میرے نزدیک وقت کا ضیاع ہے۔
3۔ دس منٹس سے زیادہ نہ ٹھہریں یا پھر پہلے سے وقت مقررکرکے ملیں۔
4۔ میری کتب کو مت کھنگالیں۔
5۔ مجھ سے میری ہی کتب تحائف کی صورت میں طلب نہ کریں اور دعوت مشاعرے میں سیکنڈ کلاس دو طرفہ ٹکٹ کے ساتھ 300 صد روپے فی غزل ایڈوانس میں ادا کریں۔
منجانب۔ احسان دانش
حقیقت اس کے برعکس تھی، جس کا دل چاہتا چلا آتا، گھنٹوں گپیں ہانکتا رہتا، سگریٹ نوشی کا دور چلتا اور جس کا دل چاہتا کتاب اُٹھا کر راہ لیتا، اپنا کرایہ اپنی جیب سے دیتا بلکہ دوستوں کا بھی۔
ہاں وہی احسان الحق دانش جسے دنیا ''احسان دانش'' کے نام سے بھی جانتی ہے۔ آپ 1914ء میں قندھلہ بھارت میں ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں غربت و افلاس کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے، جہاں تعلیم کا روشنی کا گزر مشکل تھا مگر سخت مشکلات کے باوجود عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، مگر مزید سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ ان کی زندگی جدوجہد اور مشکلات کا دوسرا نام تھا۔ قصاب کی دوکان ہو، میونسپلٹی میں چوکیداری ہو یا جانوروں کے باڑے کی رکھوالی، چارہ ڈالنا یا پھر مٹی کا تیل بیچنا، انہوں نے تمام کام کئے۔
عشق میں ناکامی کے بعد اپنے ایک حجام دوست کے ساتھ لاہور آگئے، جہاں پانی کے گھڑے بھرنا، صفائی، روٹیاں پکانے پر لگ گئے، ان دنوں سینٹرل بینک کی عمارت کی تعمیر کا کام شروع تھا تو وہاں مزدوری شروع کردی۔ دن بھر اینٹیں ڈھونا اور رات میں لیمپ کی کمزور سی روشنی میں مطالعہ کرنا۔ پھر شملہ پہاڑی پر چوکیدار لگ گئے جہاں کبھی رنگ کی بالٹی اٹھائے رنگ کا کام بھی کررہے ہوتے، تو کبھی مالی کا روپ اپنالیتے۔ ہماری تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسے شاعر ہوں جنہوں نے اس طرح کی زندگی گزاری ہو، اور اِن تمام باتوں کا ذکر اُن کی آب بیتی ''جہان دانش'' میں تفصیل سے ملتا ہے۔
احسان دانش کو اسی لئے ''شاعر مزدور'' کا خطاب بھی دیا جاتا ہے مگر جب انہوں نے رومانوی احساسات کو شاعری کا لباس پہنایا تو جذبات کو حسین مجسم بنا کر اس طرح پیش کیا کہ ہر زندگی خوش رنگ دکھائی دینے لگی۔ اُنہوں نے کچھ یوں محبوب کی بے رخی کا نقشہ کھینچا؛
مگر جب ایک شاعر کی نظر سے دنیا کو دیکھا تو بے اختیار کہا؛
احسان دانش کا ہر شعر اپنے اندر ایک عجب ہی کہانی لئے بیٹھا ہے جیسے؛
جہاں احسان دانش کی شاعری میں سادگی ملتی ہے وہیں ان کی شخصیت میں بھی سادگی کوٹ کوٹ بھری تھی، ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے شاعری کب اور کیسے شروع کی؟ تو انہوں نے جواب دیا، ''جی صاحب اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا کہ مجھ سے کوئی پوچھے گا تو میں یقیناً لکھتا، حقیقت یہ ہے کہ میں تیسری جماعت سے شعر کہنے شروع کئے تھے۔''
آپ کے شعری مجموعوں میں حدیث ادب، درد زندگی، تفسیر فطرت، چراغاں، نوائے کارگر، آتش خاموش، جادہ نو، زخم ہ مرہم، شیرازہ مقامات اور گورستان کے علاوہ نثر کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ انہیں بہت سے انعامات کے ساتھ ساتھ تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
آپ نے 21 مارچ 1982ء کو لاہور میں وفات پائی۔ احسان دانش کا شاعری پڑھنے کا انداز دل پر اثر کرتا، اوراس کی وجہ یہی تھی کہ آپ نے جو بھی لکھا وہ دل سے لکھا، اور جس آواز سے ادا کرتے تھے اس میں بھی وہی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔ ہمارے ملک اور قوم میں جو ناسازگاراس وقت تھے اور جن کی وجہ سے ہمارے ہاں قابلیت اور ذہانتیں دفن ہوجایا کرتی تھیں اور اُبھر نہیں سکتی تھیں آپ نے ان کے خلاف جدوجہد کی اور مقام حاصل کیا۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی احسان دانش کی شاعری نے انہیں اس تیز رفتار زندگی کی بھیڑ میں گم نہیں ہونے دیا اور ان کی یاد آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
وہ گھنٹوں بیٹھ کر سب کی باری باری سنتا اور ان کی ہر طرح سے مدد کرتا۔ چند میل زدہ کرسیاں، تخت پوش، جائے نماز، چند برتن، کچھ رضائیاں، کبوتر،کتابیں اور دیسی ادویات۔ بادی النظر میں گھر کم اورمکتب، دارالحکمت یا کبوتر خانے کا گماں ہوتا تھا۔ درودیوار رنگ سے بے نیاز مگر سیلن زدہ، ایک دیوار پر مرزا غالب اور آزاد کی تصاویر آویزاں تھیں۔ تخت پوش کے سامنے ایک چھوٹی سی میز جس پر ہاتھ سے لکھی شاعری بکھری ہوتی، اسی دیوار پر ایک چارٹ پر اصول و ضوابط درج تھے جن کے مطابق؛
1۔ کوئی بھی رشتہ دار یا دوست ان تمام اصول و شرائط سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
2۔ فضول اور سست گفتگو میرے نزدیک وقت کا ضیاع ہے۔
3۔ دس منٹس سے زیادہ نہ ٹھہریں یا پھر پہلے سے وقت مقررکرکے ملیں۔
4۔ میری کتب کو مت کھنگالیں۔
5۔ مجھ سے میری ہی کتب تحائف کی صورت میں طلب نہ کریں اور دعوت مشاعرے میں سیکنڈ کلاس دو طرفہ ٹکٹ کے ساتھ 300 صد روپے فی غزل ایڈوانس میں ادا کریں۔
منجانب۔ احسان دانش
حقیقت اس کے برعکس تھی، جس کا دل چاہتا چلا آتا، گھنٹوں گپیں ہانکتا رہتا، سگریٹ نوشی کا دور چلتا اور جس کا دل چاہتا کتاب اُٹھا کر راہ لیتا، اپنا کرایہ اپنی جیب سے دیتا بلکہ دوستوں کا بھی۔
ہاں وہی احسان الحق دانش جسے دنیا ''احسان دانش'' کے نام سے بھی جانتی ہے۔ آپ 1914ء میں قندھلہ بھارت میں ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں غربت و افلاس کے گہرے بادل چھائے ہوئے تھے، جہاں تعلیم کا روشنی کا گزر مشکل تھا مگر سخت مشکلات کے باوجود عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، مگر مزید سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ ان کی زندگی جدوجہد اور مشکلات کا دوسرا نام تھا۔ قصاب کی دوکان ہو، میونسپلٹی میں چوکیداری ہو یا جانوروں کے باڑے کی رکھوالی، چارہ ڈالنا یا پھر مٹی کا تیل بیچنا، انہوں نے تمام کام کئے۔
عشق میں ناکامی کے بعد اپنے ایک حجام دوست کے ساتھ لاہور آگئے، جہاں پانی کے گھڑے بھرنا، صفائی، روٹیاں پکانے پر لگ گئے، ان دنوں سینٹرل بینک کی عمارت کی تعمیر کا کام شروع تھا تو وہاں مزدوری شروع کردی۔ دن بھر اینٹیں ڈھونا اور رات میں لیمپ کی کمزور سی روشنی میں مطالعہ کرنا۔ پھر شملہ پہاڑی پر چوکیدار لگ گئے جہاں کبھی رنگ کی بالٹی اٹھائے رنگ کا کام بھی کررہے ہوتے، تو کبھی مالی کا روپ اپنالیتے۔ ہماری تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسے شاعر ہوں جنہوں نے اس طرح کی زندگی گزاری ہو، اور اِن تمام باتوں کا ذکر اُن کی آب بیتی ''جہان دانش'' میں تفصیل سے ملتا ہے۔
احسان دانش کو اسی لئے ''شاعر مزدور'' کا خطاب بھی دیا جاتا ہے مگر جب انہوں نے رومانوی احساسات کو شاعری کا لباس پہنایا تو جذبات کو حسین مجسم بنا کر اس طرح پیش کیا کہ ہر زندگی خوش رنگ دکھائی دینے لگی۔ اُنہوں نے کچھ یوں محبوب کی بے رخی کا نقشہ کھینچا؛
یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج صبا ہو جیسے
زیست یوں بیت رہی ہے دانش
ایک بے جرم سزا ہو جیسے
مگر جب ایک شاعر کی نظر سے دنیا کو دیکھا تو بے اختیار کہا؛
اگرچہ خلد بریں کا جواب ہے دنیا، مگر خدا کی قسم اک خواب ہے دنیا
شکست دل کی حکایت حسرتوں کے بیاں، فسانہ ہائے الم کی کتاب ہے دنیا
احسان دانش کا ہر شعر اپنے اندر ایک عجب ہی کہانی لئے بیٹھا ہے جیسے؛
احسان ایسا تلخ جواب وفا ملا
ہم اس کے بعد پھر کوئی ارمان نہ کرسکے
صرف اشک و تبسم میں الجھے رہے
ہم نے دیکھا ہی نہیں زندگی کی طرف
تیری بے جھجک ہنسی سے نہ ہو کسی کا دل میلا
یہ نگر ہے آئینوں کا یہاں سانس لے سنبھل کر
جہاں احسان دانش کی شاعری میں سادگی ملتی ہے وہیں ان کی شخصیت میں بھی سادگی کوٹ کوٹ بھری تھی، ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے شاعری کب اور کیسے شروع کی؟ تو انہوں نے جواب دیا، ''جی صاحب اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا کہ مجھ سے کوئی پوچھے گا تو میں یقیناً لکھتا، حقیقت یہ ہے کہ میں تیسری جماعت سے شعر کہنے شروع کئے تھے۔''
آپ کے شعری مجموعوں میں حدیث ادب، درد زندگی، تفسیر فطرت، چراغاں، نوائے کارگر، آتش خاموش، جادہ نو، زخم ہ مرہم، شیرازہ مقامات اور گورستان کے علاوہ نثر کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ انہیں بہت سے انعامات کے ساتھ ساتھ تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
آپ نے 21 مارچ 1982ء کو لاہور میں وفات پائی۔ احسان دانش کا شاعری پڑھنے کا انداز دل پر اثر کرتا، اوراس کی وجہ یہی تھی کہ آپ نے جو بھی لکھا وہ دل سے لکھا، اور جس آواز سے ادا کرتے تھے اس میں بھی وہی کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔ ہمارے ملک اور قوم میں جو ناسازگاراس وقت تھے اور جن کی وجہ سے ہمارے ہاں قابلیت اور ذہانتیں دفن ہوجایا کرتی تھیں اور اُبھر نہیں سکتی تھیں آپ نے ان کے خلاف جدوجہد کی اور مقام حاصل کیا۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی احسان دانش کی شاعری نے انہیں اس تیز رفتار زندگی کی بھیڑ میں گم نہیں ہونے دیا اور ان کی یاد آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔