نظریہ پاکستان سے استحصالِ پاکستان تک
تنکوں کی طرح بکھرے ہوئے میرے ہم وطنوں ایک قوم بن جاؤ۔
وہ کیسے عظیم لیڈر تھے جنہوں نے 23 مارچ 1940 کے دن اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا نظریہ غیور عوام کے سامنے پیش کیا۔ آنکھوں میں کتنی آرزوئیں سمائیں تھیں اور کتنی ہمت کرکے انہوں نے خود کو غلامی سے نجات حاصل کرنے کا اقدام اٹھایا۔
شاید ان کی سوچ تھی کہ اب ایسا وطن بنائیں گے جہاں نہ سوچوں پر پہرا ہوگا، نہ ناخواندگی کے اندھیرے ہونگے، نہ ظالم سامراج ہوگا، ایسا وطن جہاں امیر اور غریب کو اس کی دھرتی ماں! اُس کی اپنی ریاست، اُس کے جان و مال، عزت و آبرو کو تحفظ دے گی۔ اُن کو یہ یقین تھا کہ اگر کوئی ظالم ظلم کرے گا تو یہ ماں نہ صرف مظلوم کے آنسو پونچھے گی بلکہ ظالم کا قلع قمع بھی کرے گی۔
اُنہوں نے اِس خواب کو حقیقت میں لانے کی جستجو کی اور ایسی کی کہ اقوامِ عالم کو دنگ کردیا، کچھ کا یہ خیال تھا کہ یہ ان لوگوں کا خواب ہے، کیا خواب بھی کبھی حقیقت ہوا کرتے ہیں؟ انہوں نے اپنے خدا پر یقین کیا اورمضبوط عزم سے راستے کی ہر رکاوٹ کو روندتے ہوئے، اپنے بچوں کی قربانی دے کر، اپنا مال و اسباب گنواکر، اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو اپنا وہ نظریہ جس کے لیے انہوں نے محنت کی اور قربانیوں کا ثمر مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں نکلا۔
وہ تحفہ جو ہمارے آباواجداد نے مملکتِ پاکستان کی صورت میں دیا ہم نے بخوشی اسے تسلیم تو کرلیا لیکن اِس کو سمجھ نہ سکے۔ ہم سمجھ ہی نہیں پائے جس نظریہ کی وجہ سے یہ وطن وجود میں آیا ہے اُس کی کتنی اہمیت ہے۔ صرف 67 سال میں ہی ہم نے اُن بزرگوں کو اور اُن کی تحریک کو بھلا دیا۔ قومیں تو ہزاروں سالوں تک اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں، اُن کے افکار اور نظریات کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرتی ہیں۔ مگر ہمارا تو معاملہ ہی مختلف ہے، شاید اِس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ نظریہ کی ضرورت تو ترقی کرنے کا جنون رکھنے والوں کو ہوتی ہے اور بھلا ہمارا ترقی سے کیا تعلق؟ ہمیں تو بنا بنایا ملک مل گیا، جب ہم نے محنت ہی نہیں کی تو ہمیں کیا قدر ہوگی۔ اور یہی تو وجہ ہے کہ نہ ہم اسے کھارہے ہیں بلکہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ لوٹ کر کھارہے اور خوب دلجوئی کے ساتھ اِس کا استحصال کررہے ہیں۔
جہاں تک میرا خیال ہے تو یہاں اکثر لوگوں کی یہی سوچ ہے کہ بھیا! اس نظریہ وظریہ کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ یہ فلاسفروں اور اسکالرز کی باتیں ہیں، ہاں بلکہ سیاستدانوں کو ایسے الفاظ استعمال کرنا آتے ہیں۔ ہم کیا جانیں؟ لیکن ایسے لوگ یاد رکھیں کہ جو نسلیں اپنے نظریات کو بھول جاتی ہیں، وہ پہلے تباہ ہوتی ہیں اور پھر دھیرے دھیرے مٹ جاتی ہیں۔
اربابِ اختیار و اقتدار خدارا نظریہ پاکستان کو اُجاگر کریں، سوچیں اگر وطن نہیں ہوگا تو کہاں اور کس پر حکومت کریں گے۔ کیا نظریہ پاکستان کی اہمیت صرف اتنی ہی ہے کہ صرف سال میں ایک دن 23 مارچ کو ملک میں چھٹی کردی جائے، کچھ تقریبات منعقد کرادی جائیں اور 24 مارچ کو سب بھول بھال کر اپنے کاموں میں مصروف ہوجائیں؟
لوگوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ نظریہ آپ کے بزرگوں کی بھی یاد ہے، اُن کا خواب ہے، اپنی نسلوں تک اسے منتقل کریں۔ اب کچھ کہیں گے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں جی! جو کچھ کرے حکومت کرے، کیوں کہ وسائل تو صرف حکومت کے پاس ہیں۔ تو جناب! نظریہ وسائل سے نہیں ارادے سے پھیلتا ہے۔ جس فرسودہ نظام سے آپ تنگ ہیں، اس فرسودہ نظام کو اسی نظریہ پاکستان کو اپنی طاقت بنا کر اجاگر کریں کہ اِسی طرح بدلا لیا جاسکتا ہے۔
اب سوال اُٹھتا ہے کہ صرف نظریہ سے کیسے نظام بدل سکتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے وقت بھی تو ایک فرسودہ نظام قائم تھا جسے اسی نظریہ کی طاقت نے اُکھاڑ پھینکا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نظریہ کے مطلب سے ہی ناواقف ہیں، اور جب صورتحال یہ ہوگی تو اِس کی اہمیت کو کیسے سمجھیں گے۔ ہم اسے انگریزی زبان کے زریعہ سمجھتے ہیں جو یقینی طور پر ہمارا المیہ ہے، لمحہ فکریہ ہے، کہ یہ کیسا وقت آگیا ہے کہ جن انگریزوں سے ہمارے بڑوں نے جنگیں کیں آج اُنہی کی زبان سے اُن سے نجات دلانے والے نظریہ کو سمجھیں گے۔
جناب! جبرِ مشیعت ہے، کیا کیجئے مجبوری ہے کیونکہ ہمارے نظام تعلیم میں انگلش کا عمل دخل بہت زیادہ ہے، اُردو تو صرف نام کو ہی رہ گئی ہے۔ جناب نظریہ کو انگریزی میں Theory کہتے ہیں۔ اسے اس طرح سمجھئے! جیسے آج کل Computer کا دور دورا ہے اور ہر کام میں اِس کا استعمال لازم ہے، اس کی بڑی اہمیت ہے لیکن یہ جو موصوف Computer جی ہیں انہیں بنانے والے نے سب سے پہلے ایک Theory پیش کی کہ اگر ان اصولوں پر عمل کیا گیا تو ہم یہ Machine بنالیں گے۔
پاکستان بھی ایک Theory کے تحت بنا، ہم نے پاکستان تو Accept کیا پر اس کی Theory کو فضول سمجھ کے پروموٹ ہی نہیں کیا، اگر کیا جاتا اور اس پر مزید تحقیق کی جاتی تو پھر غوروفکر کے بعد ایک جامع طریقہ سے اسے رائج کیا جاتا تو آج ہم ترقی کے اُس مقام پر ہوتے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
یونان دنیا کی قدیم تہذیبوں میں شمار کی جاتی ہے، یہ وہ تہذیب ہے کہ جس نے دنیا کو پارلیمانی نظام دیا۔ آج جو دنیا میں انصاف کا نظام کورٹس کی شکل میں ہے یہ بھی وہاں سے ہی آیا ہے اور تو اور دنیا کو علم فلسفہ کی اونچائیوں سے اسی قوم نے روشناس کرایا اور سقراط جیسا دانا انسان معاشرہ کو دیا۔ سکندر اعظم جیسا فاتح دیا جو یونان سے فتوحات کرتے کرتے آپ کے ملک کے شہر جہلم تک آن پہنچا۔ یہ تھا کل کا یونان اور آج کا یونان ان ملکوں کی فہرست میں کھڑا ہے جو تباہی کے دھانے پر ہیں۔ کیونکہ جب تک یونانی اپنے نظریات پر عمل کرتے رہے اور اُس کو پھیلانے کا کام کررہے تھے اُس وقت وقت وہ دنیا پر چھائے رہے، لیکن جیسے جیسے نظریات سے دور ہوتے گئے تباہی قریب آتی گئی اور آج وہ وقت آگیا ہے کہ وہی ملک کس طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
ہم تو یونان جیسے ملک سے بھی بدترصورت حال سے دوچار ہیں۔ ہم سے بڑا بھی کوئی ظالم ہوگا کہ اپنا ہی استحصال کررہے ہیں۔ جس قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان بنایا ہم ان کا یومِ پیدائش اور یومِ وفات گھر میں سوکر مناتے ہیں، جس لیاقت علی خان نے اپنی ساری جمع پونجی اس پاکستان کو دے دی اُسے ہم نے گولی مارکر اُن کو پاکستان بنانے کی سزا دی اور یہ بتایا کہ بس بہت ہوا آپ لوگوں نے پاکستان بنانا تھا سو بنا لیا باقی ہم سمبھال لیں گے۔
ماضی میں جو ہوا اُس پر دُکھ اور افسوس اپنی جگہ لیکن اگر ہم اپنا حال اور مستقبل بہتر کرنا چاہتے ہیں تواِس کے لیے ضرورت ہے نظریہ پاکستان پر یکجا ہونے کی، ہم میں سے ہر پاکستانی یہ کوشش کرے کہ وہ اپنے قریب دوستوں، رشتے داروں ،گلی ،محلہ میں ترویج نظریہ پاکستان کرے۔ پاکستان پر تنقید کرنے کے بجائے اِس کے مثبت حالات کو بیان کریں۔ تنکوں کی طرح بکھرے ہوئے میرے ہم وطنوں ایک قوم بن جاؤ۔ پھر جگا دو نظریہ پاکستان اپنے دلوں میں، سوچوں میں، ادراک میں، فکر میں، شعور میں، شاید یہی ایک راستہ ہے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
شاید ان کی سوچ تھی کہ اب ایسا وطن بنائیں گے جہاں نہ سوچوں پر پہرا ہوگا، نہ ناخواندگی کے اندھیرے ہونگے، نہ ظالم سامراج ہوگا، ایسا وطن جہاں امیر اور غریب کو اس کی دھرتی ماں! اُس کی اپنی ریاست، اُس کے جان و مال، عزت و آبرو کو تحفظ دے گی۔ اُن کو یہ یقین تھا کہ اگر کوئی ظالم ظلم کرے گا تو یہ ماں نہ صرف مظلوم کے آنسو پونچھے گی بلکہ ظالم کا قلع قمع بھی کرے گی۔
اُنہوں نے اِس خواب کو حقیقت میں لانے کی جستجو کی اور ایسی کی کہ اقوامِ عالم کو دنگ کردیا، کچھ کا یہ خیال تھا کہ یہ ان لوگوں کا خواب ہے، کیا خواب بھی کبھی حقیقت ہوا کرتے ہیں؟ انہوں نے اپنے خدا پر یقین کیا اورمضبوط عزم سے راستے کی ہر رکاوٹ کو روندتے ہوئے، اپنے بچوں کی قربانی دے کر، اپنا مال و اسباب گنواکر، اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو اپنا وہ نظریہ جس کے لیے انہوں نے محنت کی اور قربانیوں کا ثمر مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں نکلا۔
وہ تحفہ جو ہمارے آباواجداد نے مملکتِ پاکستان کی صورت میں دیا ہم نے بخوشی اسے تسلیم تو کرلیا لیکن اِس کو سمجھ نہ سکے۔ ہم سمجھ ہی نہیں پائے جس نظریہ کی وجہ سے یہ وطن وجود میں آیا ہے اُس کی کتنی اہمیت ہے۔ صرف 67 سال میں ہی ہم نے اُن بزرگوں کو اور اُن کی تحریک کو بھلا دیا۔ قومیں تو ہزاروں سالوں تک اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں، اُن کے افکار اور نظریات کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرتی ہیں۔ مگر ہمارا تو معاملہ ہی مختلف ہے، شاید اِس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ نظریہ کی ضرورت تو ترقی کرنے کا جنون رکھنے والوں کو ہوتی ہے اور بھلا ہمارا ترقی سے کیا تعلق؟ ہمیں تو بنا بنایا ملک مل گیا، جب ہم نے محنت ہی نہیں کی تو ہمیں کیا قدر ہوگی۔ اور یہی تو وجہ ہے کہ نہ ہم اسے کھارہے ہیں بلکہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ لوٹ کر کھارہے اور خوب دلجوئی کے ساتھ اِس کا استحصال کررہے ہیں۔
جہاں تک میرا خیال ہے تو یہاں اکثر لوگوں کی یہی سوچ ہے کہ بھیا! اس نظریہ وظریہ کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ یہ فلاسفروں اور اسکالرز کی باتیں ہیں، ہاں بلکہ سیاستدانوں کو ایسے الفاظ استعمال کرنا آتے ہیں۔ ہم کیا جانیں؟ لیکن ایسے لوگ یاد رکھیں کہ جو نسلیں اپنے نظریات کو بھول جاتی ہیں، وہ پہلے تباہ ہوتی ہیں اور پھر دھیرے دھیرے مٹ جاتی ہیں۔
اربابِ اختیار و اقتدار خدارا نظریہ پاکستان کو اُجاگر کریں، سوچیں اگر وطن نہیں ہوگا تو کہاں اور کس پر حکومت کریں گے۔ کیا نظریہ پاکستان کی اہمیت صرف اتنی ہی ہے کہ صرف سال میں ایک دن 23 مارچ کو ملک میں چھٹی کردی جائے، کچھ تقریبات منعقد کرادی جائیں اور 24 مارچ کو سب بھول بھال کر اپنے کاموں میں مصروف ہوجائیں؟
لوگوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ نظریہ آپ کے بزرگوں کی بھی یاد ہے، اُن کا خواب ہے، اپنی نسلوں تک اسے منتقل کریں۔ اب کچھ کہیں گے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں جی! جو کچھ کرے حکومت کرے، کیوں کہ وسائل تو صرف حکومت کے پاس ہیں۔ تو جناب! نظریہ وسائل سے نہیں ارادے سے پھیلتا ہے۔ جس فرسودہ نظام سے آپ تنگ ہیں، اس فرسودہ نظام کو اسی نظریہ پاکستان کو اپنی طاقت بنا کر اجاگر کریں کہ اِسی طرح بدلا لیا جاسکتا ہے۔
اب سوال اُٹھتا ہے کہ صرف نظریہ سے کیسے نظام بدل سکتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے وقت بھی تو ایک فرسودہ نظام قائم تھا جسے اسی نظریہ کی طاقت نے اُکھاڑ پھینکا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نظریہ کے مطلب سے ہی ناواقف ہیں، اور جب صورتحال یہ ہوگی تو اِس کی اہمیت کو کیسے سمجھیں گے۔ ہم اسے انگریزی زبان کے زریعہ سمجھتے ہیں جو یقینی طور پر ہمارا المیہ ہے، لمحہ فکریہ ہے، کہ یہ کیسا وقت آگیا ہے کہ جن انگریزوں سے ہمارے بڑوں نے جنگیں کیں آج اُنہی کی زبان سے اُن سے نجات دلانے والے نظریہ کو سمجھیں گے۔
جناب! جبرِ مشیعت ہے، کیا کیجئے مجبوری ہے کیونکہ ہمارے نظام تعلیم میں انگلش کا عمل دخل بہت زیادہ ہے، اُردو تو صرف نام کو ہی رہ گئی ہے۔ جناب نظریہ کو انگریزی میں Theory کہتے ہیں۔ اسے اس طرح سمجھئے! جیسے آج کل Computer کا دور دورا ہے اور ہر کام میں اِس کا استعمال لازم ہے، اس کی بڑی اہمیت ہے لیکن یہ جو موصوف Computer جی ہیں انہیں بنانے والے نے سب سے پہلے ایک Theory پیش کی کہ اگر ان اصولوں پر عمل کیا گیا تو ہم یہ Machine بنالیں گے۔
پاکستان بھی ایک Theory کے تحت بنا، ہم نے پاکستان تو Accept کیا پر اس کی Theory کو فضول سمجھ کے پروموٹ ہی نہیں کیا، اگر کیا جاتا اور اس پر مزید تحقیق کی جاتی تو پھر غوروفکر کے بعد ایک جامع طریقہ سے اسے رائج کیا جاتا تو آج ہم ترقی کے اُس مقام پر ہوتے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
یونان دنیا کی قدیم تہذیبوں میں شمار کی جاتی ہے، یہ وہ تہذیب ہے کہ جس نے دنیا کو پارلیمانی نظام دیا۔ آج جو دنیا میں انصاف کا نظام کورٹس کی شکل میں ہے یہ بھی وہاں سے ہی آیا ہے اور تو اور دنیا کو علم فلسفہ کی اونچائیوں سے اسی قوم نے روشناس کرایا اور سقراط جیسا دانا انسان معاشرہ کو دیا۔ سکندر اعظم جیسا فاتح دیا جو یونان سے فتوحات کرتے کرتے آپ کے ملک کے شہر جہلم تک آن پہنچا۔ یہ تھا کل کا یونان اور آج کا یونان ان ملکوں کی فہرست میں کھڑا ہے جو تباہی کے دھانے پر ہیں۔ کیونکہ جب تک یونانی اپنے نظریات پر عمل کرتے رہے اور اُس کو پھیلانے کا کام کررہے تھے اُس وقت وقت وہ دنیا پر چھائے رہے، لیکن جیسے جیسے نظریات سے دور ہوتے گئے تباہی قریب آتی گئی اور آج وہ وقت آگیا ہے کہ وہی ملک کس طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
ہم تو یونان جیسے ملک سے بھی بدترصورت حال سے دوچار ہیں۔ ہم سے بڑا بھی کوئی ظالم ہوگا کہ اپنا ہی استحصال کررہے ہیں۔ جس قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان بنایا ہم ان کا یومِ پیدائش اور یومِ وفات گھر میں سوکر مناتے ہیں، جس لیاقت علی خان نے اپنی ساری جمع پونجی اس پاکستان کو دے دی اُسے ہم نے گولی مارکر اُن کو پاکستان بنانے کی سزا دی اور یہ بتایا کہ بس بہت ہوا آپ لوگوں نے پاکستان بنانا تھا سو بنا لیا باقی ہم سمبھال لیں گے۔
ماضی میں جو ہوا اُس پر دُکھ اور افسوس اپنی جگہ لیکن اگر ہم اپنا حال اور مستقبل بہتر کرنا چاہتے ہیں تواِس کے لیے ضرورت ہے نظریہ پاکستان پر یکجا ہونے کی، ہم میں سے ہر پاکستانی یہ کوشش کرے کہ وہ اپنے قریب دوستوں، رشتے داروں ،گلی ،محلہ میں ترویج نظریہ پاکستان کرے۔ پاکستان پر تنقید کرنے کے بجائے اِس کے مثبت حالات کو بیان کریں۔ تنکوں کی طرح بکھرے ہوئے میرے ہم وطنوں ایک قوم بن جاؤ۔ پھر جگا دو نظریہ پاکستان اپنے دلوں میں، سوچوں میں، ادراک میں، فکر میں، شعور میں، شاید یہی ایک راستہ ہے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔