مغرب کی ترقی کے ثمرات
مغرب نے جو ترقی کی ہے اس کے ثمرات بھی تو بے شمار ہیں جن سے پوری دنیا فیض حاصل کر رہی ہے۔
مغرب نے جو ترقی کی ہے اس کے ثمرات بھی تو بے شمار ہیں جن سے پوری دنیا فیض حاصل کر رہی ہے۔ وہاں تو بچوں کو ماں باپ کی مارپیٹ سے بھی تحفظ حاصل ہے، ذرا سا ظلم ہوا ادھر پولیس حاضر۔ لہٰذا اسلام کے سنہری دور میں اگر ایسی ترقی نہ ہوسکی (کسی بھی سبب) تو مغرب کی اس ترقی کی مخالفت تو نہیں کرنی چاہیے۔
یہ تاثرات ہمارے ایک قاری کے تھے جو انھوں نے ہمارے ایک شایع ہونیوالے کالم کو پڑھنے کے بعد بیان کیے۔ کچھ ایسا ہی تاثر راقم کے چند طلبا کی جانب سے بھی آیا چنانچہ آج کا قلم اسی حوالے سے اٹھانے کی جسارت کی ہے۔
اس تاثر کے دو پہلو ہیں نمبر ایک یہ کہ مغرب کی ترقی کے ثمرات سے آج تیسری دنیا کے لوگ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور نمبر دو یہ کہ مغرب میں بچوں کو بھی اس قدر تحفظ یا انصاف حاصل ہے کہ والدین بھی سرزنش نہیں کرسکتے۔
آئیے اس سلسلے میں حقیقی صورت حال کیا ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ جرمنی میں (خود ان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) بچوں سے جنسی اور ریپ وغیرہ کے سالانہ 3000,000 واقعات ہوتے ہیں۔ کینیڈا میں 32فیصد لڑکے لڑکیاں اپنوں کے ہاتھوں جسمانی اور جنسی دہشت گردی کا شکار ہیں، امریکا میں روزانہ 4 سے زائد بچے Child Abuse اور neglect کے باعث ہلاک ہوتے ہیں۔
امریکن ہیومن ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق خواتین محرمات سے سیکس کے واقعات میں 25 فیصد انکل، 15 فیصد والد، 12 فیصد بھائی، 8 فیصد سوتیلے باپ ملوث ہوتے ہیں۔ Russel لکھتا ہے کہ زیادہ تر واقعات میں دونوں فریق ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں گویا گھر کے اندر بھی عزت محفوظ نہیں۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق 60 فیصد ریپ کرنیوالے ایک دن کے لیے بھی جیل نہیں جاتے، 40 فیصد کیس کی رپورٹ ہوتی ہے۔ جس میں سے 10 فیصد گرفتار ہوتے ہیں ان میں سے محض تین فیصد (ریپ کرنیوالے) ایک دن کے لیے جیل جاتے ہیں یوں 97 فیصد سڑکوں پر آزادی سے گھومتے ہیں۔
یورپین ایجنسی فار فنڈامینٹل رائٹس(FRA)کی رپورٹ کے مطابق 15 سے 20 سال کی فیمیل کو سائبرنیٹ کے ذریعے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ 15 سال کی عمر والی لڑکیوں کی شرح 11 فیصد ہے۔ 15 سال سے قبل ہی کسی بالغ مرد کی جانب سے جنسی دہشت گردی کا نشانہ بننے والی لڑکیوں کی تعداد (یورپی یونین میں)21 ملین ہے۔
20 فیصد لڑکیوں کو شکایت ہے کہ ان کے سابق یا موجودہ دوستوں نے ان کا جنسی استحصال کیا۔ عورتوں کی آدھی سے زائد آبادی (53 فیصد) جسمانی اور جنسی تشدد کے خوف کے باعث بعض مقامات اور بعض حالات کا سامنا کرنے سے گریز کرتی ہیں۔
راقم نے یہاں صرف بچوں اور بچیوں کے حوالے سے مختصراً تصویر پیش کی ہے ورنہ تو صرف FRAکی خواتین کے خلاف جرائم (وہ بھی صرف یورپ میں) کم و بیش ایک سو چالیس صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ترقی یافتہ معاشرے میں بچوں اور خواتین کے حقوق کو کس قدر تحفظ حاصل ہے اور کس قدر جلد انھیں انصاف ملتا ہے؟آئیے اب مغربی ترقی کے ثمرات کے دیگر پہلوؤں پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ امریکا کے تحت شایع ہونے والی کتاب Abnormal Psychology کیمطابق امریکا میں ہر سال 31000 افراد خودکشی کرتے ہیں، ہر سترہ منٹ بعد ایک امریکی خودکشی کرتا ہے، 50 فیصد نوجوان خودکشی کی کوشش کے کسی نہ کسی واقعے سے واقف ہوتے ہیں۔ خودکشی کرنیوالے لوگ نہایت ممتاز حیثیت کے مالک مثلاً اداکار، سیاسی رہنما اور امیر لوگ ہوتے ہیں۔ امریکا میں ہر چار میں سے ایک نوجوان خودکشی کی کوشش کرتا ہے۔
15 سے 24 سال کے امریکیوں میں موت کا تیسرا بڑا سبب خودکشی ہے۔ مذکورہ کتاب میں خود کشی سے متعلق جن ممالک کے اعداد و شمار کا چارٹ پیش کیا گیا ہے ان میں ایک بھی اسلامی ملک شامل نہیں ہے جن ملکوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ پایاگیا ہے وہ زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔
ایک اور دوسرا رخ دیکھیے اس ترقی کے ظاہری ثمرات سے کون فیض یاب ہو رہا ہے؟ اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام کی ایک رپورٹ کیمطابق دنیا کے 68 فیصد وسائل کو استعمال کرنے والی 20 فیصد امیر ترین آبادی ہے۔ دنیا کی 80 فیصد آبادی دنیا کے وسائل کا نصف سے بھی کم استفادہ کرتی ہے۔ کیونکہ اس ترقی کے ثمرات بغیر دولت کے ممکن نہیں۔
جیرڈ ڈائمنڈ لکھتا ہے کہ جب معاشرے اپنی ترقی کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں تو پھر ان کا تیز رفتار زوال شروع ہوجاتا ہے، سادہ معاشرے برباد نہیں ہوتے۔ترقی کی اس رفتار اور دولت کے حصول کو بڑھانے کے لیے برازیل کے ایمیزون جنگلات کو (جوکہ دنیا کے پھیپھڑے کے نام سے مشہور ہیں) کاٹ دیا گیا جس سے لکڑی اور دولت تو حاصل ہوگئی مگر وہاں پانی کی قلت ہوگئی۔ بارشیں کم ہوکر صرف10 فیصد رہ گئیں۔
اس قسم کی ترقی کے ثمرات کے باعث صرف برازیل ہی نہیں آسٹریلیا، چین، جنوبی افریقہ اور مغربی امریکا میں بھی قحط سالی کا مسئلہ ابھر کر سامنے آگیا۔ بھارت، نیپال، شمالی چین، روس، وسطی یورپ، سوڈان اور صومالیہ میں شدید سیلاب آئے۔
اقوام متحدہ کے ادارے IPCC کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جدید صنعتی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے مسلسل پیدا ہونے والی حرارت پر قابو نہیں پایا گیا تو دنیا کا کوئی شخص موسم کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکے گا، ماحولیاتی تبدیلی کے یہ خطرناک اثرات ناقابل تلافی ہوں گے جن میں خوراک کی پیداوار میں شدید کمی بھی شامل ہے جب کہ آلودگی کے باعث امراض اور ہلاکتیں الگ ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے کی یہ رپورٹ 32 جلدوں پر مشتمل ہے راقم نے تو یہاں محض32 الفاظ ہی لکھے ہوں گے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ رپورٹ کیمطابق صرف یورپ اور امریکا کے ممالک 76 فیصد ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کے ذمے دار ہیں اس کے بعد چین نے ترقی کا علم بلند کیا اور اس نے اپنی ترقی کے نتیجے میں 26 فیصد آلودگی پیدا کرنے کا جرم بھی اپنے نام لکھوالیا۔
ان ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کے نتیجے میں جو آلودگی پوری دنیا میں نقصانات پہنچا رہی ہے اس کی بدولت پاکستان میں بھی قدرتی آفات کا سلسلہ بڑھا ہے اور اس کے نقصانات کا جو حصہ ہمارے جی ڈی پی میں ہے وہ تعلیمی بجٹ سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ آئیے ایک بار پھر غور کریں، میں بھی اور آپ بھی!