کوئی پتھر سے نہ مارے …

جب بھی ہم آئینہ لے کر شہر میں نکلتے ہیں، لوگوں کے ہاتھ میں پتھر ہی ہوتے ہیں ۔


انیس منصوری March 22, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: جب بھی ہم آئینہ لے کر شہر میں نکلتے ہیں، لوگوں کے ہاتھ میں پتھر ہی ہوتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آئینہ توڑ دینے سے اُن کے چہرے بدل جائینگے ۔ لیکن ہم بھی ہر بار نیا آئینہ لے کر ان کے درمیان موجود ہوتے ہیں، وہ ہر بار آئینہ توڑ کر یہ سمجھتے ہیں کہ اب ساری عمر انھیں کوئی ان کے چہروں کی وہ لکیریں نہیں دکھائے گا جس کی وجہ سے ہم ایک عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں ۔

مگر خالد علیگ بھائی نے کہا تھا کہ ہم بھی نہیں بدلیں گے یا تو ہمارے ہاتھوں میں قلم ہو گا یا پھر ہاتھ قلم ہو جائیگا۔ اب جب تک ہمارے ہاتھ سلامت ہیں تب تک ہر صورت میں اپنے ہاتھوں میں قلم رکھینگے۔ اور اُن لوگوں کو آئینہ دیکھاتے رہینگے جو جو خود اپنے چہروں پر نقاب لگائے بیٹھے ہیں ۔

ہمارا مزاج ہی نہیں کہ جس طرف کی ہوا چلے اُس طرف ہی دوڑ لگا دیں ۔ کیونکہ ہمیں یقین ہیں کہ یہاں اکثر طوفان آتے نہیں بلکہ اپنی چائے کی پیالی میں کھولتے ہوئے پانی کو ہی طوفان سمجھا جاتا ہے۔ اپنی خیالات اور خواہشات کو خبر کا نام دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب ہوائیں تیز چلتی ہیں تو پھر اپنے ساتھ بہت کچھ لے کر بھی جاتی ہیں۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب سابق صدر پرویز مشرف کو ایک مبینہ ''ناں'' کرنے پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ہیرو بنایا گیا ، اور ہم نے اسے ایک بہت بڑے گیم کا حصہ قرار دیا تو لوگوں نے ہمیں آمر کے ساتھی کا خطاب دے دیا۔ کچھ معلومات جب سامنے آئی اور ہماری بات ٹھیک ثابت ہونے لگی تو ہمیں یہ کہہ کر چُپ کرا دیا گیا کہ میاں خاموش ہو جائو ۔ ہمیں نا جانے کیا کیا کہا گیا ۔ لیکن بعد میں وہ تمام راز سامنے آگئے ۔

ایک گروپ یہ شور مچاتے ہی تھک نہیں رہا تھا کہ اب ہر طرف انصاف کا بول بالا ہو گا اب ہر طرف امن ہی امن ہو گا۔ اور اُس وقت جب ہم نے یہ لکھا کہ یہ سب فسانہ ہے اور اس کے پس پردہ ایک سیاسی ٹارگٹ کو حاصل کیا جارہا ہے تو ہمیں دشمن قرار دیا گیا ۔

لیکن جو لوگ اُس وقت آئینہ دکھانے پر سیخ پا ہو جاتے تھے اب وہ ہی لوگ اُس دور کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اب وہ ہی لوگ کسی اور کے جاں نثار ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ یہاں ایک ماحول بنایا جاتا ہے ۔ایک ٹولہ یہ ثابت کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ پورا پاکستان اُسی سراب کے دھوکہ میں آجائے جو وہ دکھا رہے ہیں اور پھر ہوتا بھی ایسا ہی ہے لوگ دنوں میں نہیں بلکہ منٹوں میں فرشتے بن کر ہمارے سامنے لائے جاتے ہیں ۔ اور پھر کام نکلنے پر وہ سب ایک دھوکہ محسوس ہوتا ہے ۔

طاہر القادری کی آمد اور عمران خان کے دھرنوں پر یہاں ہر منٹ ایک کمنٹری چل رہی ہوتی تھی۔ لوگ اپنی خواہشات کو مستقبل میں ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے اور جب ہم یہ بتانے کی کوشش کرتے تھے کہ یہ سب ایک ایک بہت بڑے کھیل کا حصہ ہے تو ہمیں گالیوں سے نوازا جاتا تھا ۔

ہمارے موبائل فون پر روزانہ ایسے پیغامات کی بھرمار ہوتی تھی جس میں ہمیں غدار ِوطن ، بوسیدہ نظام کا حامی اور نا جانے کیا کیا کہا جاتا تھا ۔ ہم کہتے رہے کہ یہ آنکھوں کا دھوکہ ہے تو ہمیں سوشل میڈیا پر برا بھلا کہا جا رہا تھا ۔ ہمیں حکومت کا لفافہ صحافی کہا جاتا تھا ۔ مگر ہم نے اُس وقت بھی اپنے ہاتھوں سے آئینہ گرنے نہیں دیا ۔

ایک بار پھر ہوائیں کسی اور طرف چلائی جارہی ہیں ۔ سمندر سے آتی ہوئی ہوائیں ہمیشہ دور دور تک موسم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس بار بھی کچھ ایسی ہی کوشش کی جارہی ہے ۔ جس کھیل کا آغاز ابھی نظر آرہا ہے اس کے لیے میدان آج سے دو سال پہلے تعمیر کیا جاچکا تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی پچ کو بھی ہموار کیا گیا ۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ اس وقت جو ٹیمیں منظر پر ہیں وہ ہی اس کھیل کا حصہ ہیں تو وہ غلطی پر ہے ۔ اصل کھیل تو کچھ دن بعد شروع ہوگا ۔

جس میں ایک بار پھر ہار اور جیت سے زیادہ اپنی بقا کا کھیل کھیلا جائیگا۔ MQM کے مرکز پر چھاپہ ، گرفتاریاں ، الطاف حسین کے خلاف FIR یا پھر صولت مرزا کا بیان یہ سب بہت پرانی باتیں ہیں بس مسئلہ ہے کہ پرانے گانوں کو REmix کیا جا رہا ہے۔ اس پر ہر کوئی اپنی اپنی طرف سے اندازہ لگا رہا ہے ۔ مگر لگتا یوں کہ سب نے اپنے اپنے ذائقے کا چشمہ لگا یا ہوا ہے اُس سے سب ایک دوسرے کو انجانے میں ایک کھائی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ آئیے کھیل کو آسان لفظوں کے درمیان چھپُے مفہوم سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

آخر کیوں ۔؟ آخر کیوں سابق صدر آصف علی زرداری بار بار یہ فرما رہے ہیں کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں MQM کے ساتھ ہیں ۔ کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی دوست نہیں ہوتا۔ جب اُس وقت کہ شیخ رشید نے بھی یہ کہا کہ اس وقت متحدہ کے ساتھ کھڑا ہونا مشکل ہے۔تو کیا یہ مان لیا جائے کہ زرداری صاحب دوستوں کے دوست ہیں اس لیے وہ اُن کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ ہائے کاش بات اتنی ہی افسانوی ہوتی توکتنا اچھا ہوتا ۔ سینیٹ کے الیکشن سے بہت پہلے زرداری صاحب نے کہا تھا کہ ہمیں بتا دیا جائے کہ اسٹبلیشمنٹ کہاں کھڑی ہے ۔یہ بہت مشکل ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ آخر اسٹیبلشمنٹ کسے کہا جارہا ہے ۔

ا گر عمومی تعریف لی جائے تو اسٹیبلشمنٹ اُسے ہی کہا جاتا ہے جس کا ذکر آج کل mqm کر رہی ہے تو پھر سوچنا یہ ہے کہ کیا دونوں کا مقابلہ ایک ہی طاقت سے ہے اس لیے یہ اتحاد کیا جارہا ہے ۔ یا پھر پیپلز پارٹی یہ سب دوستی میں کر رہی ہے ۔ آخر دونوں جماعتوں کے خدشات کو تھوڑی دیر کے لیے ٹھیک مان لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں کو اتنا مشکل وقت کیوں دیا جا رہا ہے۔؟ کچھ لوگ اس کھچڑی میں وفاق کی دال بھی ڈال دینا چاہتے ہیں اور اُن کا کہنا یہ ہے کہ اصل نشانہ وہی ہے ۔

میںاپنی گلی کے نکڑ پر موجود پان والے کی بات سے زیادہ متفق نہیں جو بضد ہے کہ جس طرح مسلم لیگ (ن) کو مشکل وقت دے کر تحریک انصاف کو جگہ دی گئی اسی طرح کراچی میں جگہ دینے کی تیاری ہے۔

اب پچھلی ساری باتوں کو ایک لڑی میں ڈالنے کا وقت آچکا ہے ۔ MQM پر لگائے گئے تمام کے تمام الزامات میں کوئی نئی بات نہیں یہ باتیں تمام لوگ جانتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ زرداری صاحب کیوں اس وقت اُن کے ساتھ کھڑے ہیں دوم یہ کہ اصل ہدف کون ہے تیسری بات یہ کہ کون سا ماڈل کراچی کے لیے تیار کیا جارہا ہے ۔اور چوتھی بات یہ کہ اس نئے تجربہ کی مدت کتنی ہے ۔

خیر کراچی میں امن ہونا چاہیے ۔ جرائم کو جس طرح سے ختم کرنے کی انتظامی حکمت عملی اپنائی گئی ہے وہ اب تک ٹھیک ہے مگر سیاسی چال پر تھوڑا سا نہیں بلکہ زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے جہاں انھیں اتنی کامیابی ملتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔

دوسری طرف MQM کے متعلق جو امیج بنایا گیا ہے اُس کی بہ نسبت انھوں نے اب بہت زیادہ سیاسی شعور کا مظا ہرہ کیا ہے۔ اور لگتا یوں ہے ہوائوں کے برخلاف سیاسی جیت ہوائوں کے مخالف چلنے والوں کی ہو گی ۔کیوں کہ ایسا ماحول ان کے لیے زیادہ اچھا ہوتا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں