مصباح اور آفریدی ایک عہد کا خاتمہ
فلم سازی کی تاریخ کےایک عظیم شاہکار’’لارنس آف عریبیہ‘‘میں شہزادہ فیصل کا کردارادا کرنے والے ایلک گنیزکا ایک مکالمہ ہے
فلم سازی کی تاریخ کے ایک عظیم شاہکار ''لارنس آف عریبیہ'' میں شہزادہ فیصل کا کردار ادا کرنے والے ایلک گنیز کا ایک مکالمہ ہے، ''یہاں اس شخص کی عزت سب سے زیادہ کی جاتی ہے، جو جنگ جتواتا ہے۔''
پہلی جنگ عظیم کے قبائل میں بٹے عرب کے لیے ادا کیا گیا یہ جملہ آج پاکستان میں کھیل کی دن پر صادق آتا ہے، خاص طور پر کرکٹ پر کیونکہ پاکستانیوں کے لیے کرکٹ کسی جنگ سے کم نہیں اور اس میں ملک کی نمایندگی کرنے والے ہر کھلاڑی کو ایک سپاہی سمجھا جاتا ہے۔
ویسے ضروری نہیں کہ یہ جملہ ایک مثالی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہو لیکن ہمارے لیے ایک بہت بڑے مخمصہ کو ضرور حل کرتا ہے کہ آخر شاہد آفریدی کیوں ہر دل عزیز ہیں اور مصباح الحق کو پسند کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے؟شاہد آفریدی نے جتنی دھماکے دار انداز میں بین الاقوامی کرکٹ میں آمد کا اعلان کیا، اس طرح شاید ہی کسی کے کیریئر کا آغاز ہوا۔
پہلی ایک روزہ اننگز اور صرف 37 گیندوں پر تیز ترین سنچری کا عالمی ریکارڈ، وہ بھی 1996ء میں کہ جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ پھر روایتی حریف بھارت کے خلاف ایک روزہ اور ٹیسٹ کرکٹ میں یادگار ترین فتوحات میں نمایاں کردار، یہاں تک کہ 2009ء میں پاکستان ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بنانے والے ''لالا'' ایسی قوم کے لیے بہترین انتخاب تھے جس کو ہیروز کی تلاش ہو۔
جو وسیم اکرم اور وقار یونس کے بعد نئے ہیروز کو ڈھونڈ رہی ہو۔ آخر کیوں نہ یہ قوم شاہد آفریدی سے محبت کرے، بھارت کے خلاف جدید تاریخ میں پاکستان کی جتنی بھی فتوحات ہیں ان میں سے بیشتر میں شاہد آفریدی سب سے نمایاں ہیں۔ جنوری 1999ء میں چنئی ٹیسٹ ہو، 6 سال بعد بنگلور میں بھارت ہی کے خلاف یادگار فتح میں کردار، پھر کانپور میں 46 گیندوں پر 102 رنز کی اننگز، 2006ء کے اوائل میں ہوم گراؤنڈ پر بھارت کے خلاف دو زبردست سنچریاں، جن میں 128 گیندوں پر 156 رنز، پھر ماضی قریب میں ایشیاء کپ 2014ء میں دو شاندار چھکے۔
اس کے علاوہ جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا ظہور ہوا تو 2007ء میں پہلے ہی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شاہد آفریدی ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ یہاں تک 2007ء میں ادھورے رہ جانے والے کام کو 2009ء میں اپنے ہاتھوں سے پورا بھی کیا اور پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بنا دیا۔2011ء کے عالمی کپ میں پاکستان کی قیادت کی اور توقعات سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھاتے ہوئے پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچایا اور چار سال بعد 2015ء میں مایوس کن کارکردگی کے ساتھ پاکستان کوارٹر فائنل میں ہی باہر ہوگیا اور ''لالا'' کا عہد اختتام کو پہنچا۔
ان کی آخری کارکردگی کو ہرگز ان کے پورے عہد کا خلاصہ مت سمجھیے گا کہ جب تک پاکستان کرکٹ زندہ رہے گی، شاہد آفریدی کا نام موجود رہے گا۔ شاہد 398 مقابلوں میں 8 ہزار سے زیادہ رنز، 6 سنچریوں، 39 نصف سنچریوں، 395 وکٹوں اور 127 کیچز کے ساتھ رخصت ہوئے۔ ''لالا'' نے کْل 38 ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی قیادت کی، 19 جیتے اور 18 ہارے، جن میں عالمی کپ 2011ء کا سیمی فائنل بھی شامل تھا۔
جب شاہد آفریدی اپنے عروج پر تھے تو پاکستان کرکٹ میں ایک نئے کھلاڑی کی آمد ہوئی، مصباح الحق۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنے بلند و بالا چھکوں کی وجہ سے معروف مصباح الحق، ایک خاموش طبع، نفیس اور پڑھا لکھا کھلاڑی، قومی کرکٹ کے مزاج کے بالکل برعکس۔ یہی وجہ ہے کہ مصباح اس وقت تک مستقل مقام حاصل نہ کرسکے جب تک کہ ان کے علاوہ پاکستان کے پاس کچھ نہ بچا۔ 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے قومی کرکٹ کی بنیادیں ہلا دیں۔ اس بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹنے کے لیے ایک بلند عزائم رکھنے والی شخصیت کی ضرورت تھی، جو مصباح کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔
انھوں نے 2011ء میں شاہد آفریدی اور کوچ وقار یونس کے درمیان تنازع پیدا ہونے کے بعد ٹیسٹ کے ساتھ ایک روزہ قیادت بھی سنبھالی اور 2015ء کے عالمی کپ کے ساتھ ہی محدود طرز کی کرکٹ کو خیرباد کہہ گئے۔
ایک طرف شاہد آفریدی کا کرشمہ تھا، ان کا شاندار ماضی اور روایتی حریف کے خلاف تاریخی کامیابیاں تو دوسری طرف مصباح کی بدقسمتی کہ وہ ہمیشہ ان مواقع پر ناکام ہوئے جب پاکستان بہت بڑے مقابلے میں بھارت ہی کے مدمقابل تھا۔ 2007ء کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی فائنل میں مصباح کی اننگز پاکستان کو فتح کے بہت قریب لے آئی لیکن ''دو چار ہاتھ جب لب بام رہ گیا'' تب مصباح کی ایک غلطی پاکستان کو عالمی اعزاز سے محروم کرگئی۔
یہی نہیں بلکہ چار سال بعد عالمی کپ 2011ء کے سیمی فائنل میں پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی تو نزلہ ایک مرتبہ پھر مصباح الحق پر گرا، جن کی بیٹنگ کے انداز کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔پاکستان کے کرکٹ شائقین سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں، لیکن بھارت کے خلاف ''جنگ عظیم'' میں شکست کا سبب بننے والے کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہد آفریدی اپنی تمام تر غیر مستقل مزاجی اور غیر منظم طبیعت کے باوجود مقبولِ عام رہے، کیونکہ وہ ''اہم جنگوں کے فاتح'' تھے جب کہ ان کے مقابلے میں مصباح مقبول عام نظریے کے مطابق ایک فتح گر نہیں تھے۔
اس لیے بہرحال، شاہد آفریدی کی عوامی مقبولیت اور مصباح الحق کے بارے میں عوام کے مختلف رویے کی وجوہات تو تھیں اور ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مصباح خوش نصیب ضرور تھے، کیونکہ جاتے جاتے وہ ایک، ایک کرکے کئی داغوں کو دھونے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اگر مستقل مزاجی کے ساتھ خود کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو ''پتھر دل'' بھی نرم کیے جاسکتے ہیں۔ مصباح الحق کے کیریئر کا اختتام ایک اور عالمی کپ میں شکست کے ساتھ ہوا۔
جس میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز مصباح نے بنائے، سب سے زیادہ نصف سنچریاں انھی کی رہیں، سب سے زیادہ چوکے بھی اور سب سے زیادہ چھکے بھی۔ ہوسکتا ہے کہ عوام نے ان کے ''گناہ'' معاف کردیے ہوں، کم از کم عالمی کپ سے اخراج کے بعد پہلے عوامی ردعمل سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے، شاید اس لیے بھی کہ ہمارے ہاں مرنے والا دنیا کا نیک ترین آدمی ہوتا ہے۔بہرحال، مصباح کا ایک روزہ کیریئر 162 مقابلوں، 5 ہزار سے زیادہ رنز اور 42 نصف سنچریوں کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ 87 مقابلوں میں وہ کپتان رہے۔
، 45 جیتے اور 39 ہارے۔ ممکن ہے کہ یہ بہت زیادہ اچھے اعدادوشمار نہ ہوں لیکن جب پاکستان کے کھلاڑی اپنے ہی میدانوں پر کھیلنے سے محروم ہوں، اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے ٹیم کی ساکھ ختم کردی ہو، جب تمام اسٹار کھلاڑی کرکٹ چھوڑ چکے ہوں، اس وقت عالمی اکھاڑے میں ٹیم کو کھڑا رکھنا بھی بڑا کارنامہ تصور کیا جانا چاہیے۔
اس لیے شاہد آفریدی کی طرح مصباح بھی طویل عرصے تک یاد کیے جاتے رہیں گے اور ہوسکتا ہے کہ مستقبل کا مؤرخ انھیں قومی کرکٹ میں وہ مقام عطا کرے جو عبد الحفیظ کاردارکا تھا۔مصباح اب محض ٹیسٹ اور شاہد آفریدی صرف ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کھیلتے نظر آئیں گے، ان دونوں طرز کی کرکٹ میں انھوں نے سب سے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ لیکن ایک روزہ دونوں کا مشترکہ میدان تھا، اسی ایک طرز میں دونوں ایک ساتھ کھیلتے نظر آتے تھے، آگ اور پانی ایک ساتھ۔ بس اب ہمیں یہ دیکھنے کو نہیں ملے گا، پاکستان کرکٹ ایک انوکھے نظارے سے ہمیشہ کے لیے محروم رہ گئی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے قبائل میں بٹے عرب کے لیے ادا کیا گیا یہ جملہ آج پاکستان میں کھیل کی دن پر صادق آتا ہے، خاص طور پر کرکٹ پر کیونکہ پاکستانیوں کے لیے کرکٹ کسی جنگ سے کم نہیں اور اس میں ملک کی نمایندگی کرنے والے ہر کھلاڑی کو ایک سپاہی سمجھا جاتا ہے۔
ویسے ضروری نہیں کہ یہ جملہ ایک مثالی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہو لیکن ہمارے لیے ایک بہت بڑے مخمصہ کو ضرور حل کرتا ہے کہ آخر شاہد آفریدی کیوں ہر دل عزیز ہیں اور مصباح الحق کو پسند کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے؟شاہد آفریدی نے جتنی دھماکے دار انداز میں بین الاقوامی کرکٹ میں آمد کا اعلان کیا، اس طرح شاید ہی کسی کے کیریئر کا آغاز ہوا۔
پہلی ایک روزہ اننگز اور صرف 37 گیندوں پر تیز ترین سنچری کا عالمی ریکارڈ، وہ بھی 1996ء میں کہ جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ پھر روایتی حریف بھارت کے خلاف ایک روزہ اور ٹیسٹ کرکٹ میں یادگار ترین فتوحات میں نمایاں کردار، یہاں تک کہ 2009ء میں پاکستان ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بنانے والے ''لالا'' ایسی قوم کے لیے بہترین انتخاب تھے جس کو ہیروز کی تلاش ہو۔
جو وسیم اکرم اور وقار یونس کے بعد نئے ہیروز کو ڈھونڈ رہی ہو۔ آخر کیوں نہ یہ قوم شاہد آفریدی سے محبت کرے، بھارت کے خلاف جدید تاریخ میں پاکستان کی جتنی بھی فتوحات ہیں ان میں سے بیشتر میں شاہد آفریدی سب سے نمایاں ہیں۔ جنوری 1999ء میں چنئی ٹیسٹ ہو، 6 سال بعد بنگلور میں بھارت ہی کے خلاف یادگار فتح میں کردار، پھر کانپور میں 46 گیندوں پر 102 رنز کی اننگز، 2006ء کے اوائل میں ہوم گراؤنڈ پر بھارت کے خلاف دو زبردست سنچریاں، جن میں 128 گیندوں پر 156 رنز، پھر ماضی قریب میں ایشیاء کپ 2014ء میں دو شاندار چھکے۔
اس کے علاوہ جب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا ظہور ہوا تو 2007ء میں پہلے ہی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شاہد آفریدی ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ یہاں تک 2007ء میں ادھورے رہ جانے والے کام کو 2009ء میں اپنے ہاتھوں سے پورا بھی کیا اور پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی کا عالمی چیمپئن بنا دیا۔2011ء کے عالمی کپ میں پاکستان کی قیادت کی اور توقعات سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھاتے ہوئے پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچایا اور چار سال بعد 2015ء میں مایوس کن کارکردگی کے ساتھ پاکستان کوارٹر فائنل میں ہی باہر ہوگیا اور ''لالا'' کا عہد اختتام کو پہنچا۔
ان کی آخری کارکردگی کو ہرگز ان کے پورے عہد کا خلاصہ مت سمجھیے گا کہ جب تک پاکستان کرکٹ زندہ رہے گی، شاہد آفریدی کا نام موجود رہے گا۔ شاہد 398 مقابلوں میں 8 ہزار سے زیادہ رنز، 6 سنچریوں، 39 نصف سنچریوں، 395 وکٹوں اور 127 کیچز کے ساتھ رخصت ہوئے۔ ''لالا'' نے کْل 38 ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی قیادت کی، 19 جیتے اور 18 ہارے، جن میں عالمی کپ 2011ء کا سیمی فائنل بھی شامل تھا۔
جب شاہد آفریدی اپنے عروج پر تھے تو پاکستان کرکٹ میں ایک نئے کھلاڑی کی آمد ہوئی، مصباح الحق۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں اپنے بلند و بالا چھکوں کی وجہ سے معروف مصباح الحق، ایک خاموش طبع، نفیس اور پڑھا لکھا کھلاڑی، قومی کرکٹ کے مزاج کے بالکل برعکس۔ یہی وجہ ہے کہ مصباح اس وقت تک مستقل مقام حاصل نہ کرسکے جب تک کہ ان کے علاوہ پاکستان کے پاس کچھ نہ بچا۔ 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے قومی کرکٹ کی بنیادیں ہلا دیں۔ اس بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹنے کے لیے ایک بلند عزائم رکھنے والی شخصیت کی ضرورت تھی، جو مصباح کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔
انھوں نے 2011ء میں شاہد آفریدی اور کوچ وقار یونس کے درمیان تنازع پیدا ہونے کے بعد ٹیسٹ کے ساتھ ایک روزہ قیادت بھی سنبھالی اور 2015ء کے عالمی کپ کے ساتھ ہی محدود طرز کی کرکٹ کو خیرباد کہہ گئے۔
ایک طرف شاہد آفریدی کا کرشمہ تھا، ان کا شاندار ماضی اور روایتی حریف کے خلاف تاریخی کامیابیاں تو دوسری طرف مصباح کی بدقسمتی کہ وہ ہمیشہ ان مواقع پر ناکام ہوئے جب پاکستان بہت بڑے مقابلے میں بھارت ہی کے مدمقابل تھا۔ 2007ء کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی فائنل میں مصباح کی اننگز پاکستان کو فتح کے بہت قریب لے آئی لیکن ''دو چار ہاتھ جب لب بام رہ گیا'' تب مصباح کی ایک غلطی پاکستان کو عالمی اعزاز سے محروم کرگئی۔
یہی نہیں بلکہ چار سال بعد عالمی کپ 2011ء کے سیمی فائنل میں پاکستان کو بھارت کے ہاتھوں شکست ہوئی تو نزلہ ایک مرتبہ پھر مصباح الحق پر گرا، جن کی بیٹنگ کے انداز کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔پاکستان کے کرکٹ شائقین سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں، لیکن بھارت کے خلاف ''جنگ عظیم'' میں شکست کا سبب بننے والے کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہد آفریدی اپنی تمام تر غیر مستقل مزاجی اور غیر منظم طبیعت کے باوجود مقبولِ عام رہے، کیونکہ وہ ''اہم جنگوں کے فاتح'' تھے جب کہ ان کے مقابلے میں مصباح مقبول عام نظریے کے مطابق ایک فتح گر نہیں تھے۔
اس لیے بہرحال، شاہد آفریدی کی عوامی مقبولیت اور مصباح الحق کے بارے میں عوام کے مختلف رویے کی وجوہات تو تھیں اور ان سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مصباح خوش نصیب ضرور تھے، کیونکہ جاتے جاتے وہ ایک، ایک کرکے کئی داغوں کو دھونے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اگر مستقل مزاجی کے ساتھ خود کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو ''پتھر دل'' بھی نرم کیے جاسکتے ہیں۔ مصباح الحق کے کیریئر کا اختتام ایک اور عالمی کپ میں شکست کے ساتھ ہوا۔
جس میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز مصباح نے بنائے، سب سے زیادہ نصف سنچریاں انھی کی رہیں، سب سے زیادہ چوکے بھی اور سب سے زیادہ چھکے بھی۔ ہوسکتا ہے کہ عوام نے ان کے ''گناہ'' معاف کردیے ہوں، کم از کم عالمی کپ سے اخراج کے بعد پہلے عوامی ردعمل سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے، شاید اس لیے بھی کہ ہمارے ہاں مرنے والا دنیا کا نیک ترین آدمی ہوتا ہے۔بہرحال، مصباح کا ایک روزہ کیریئر 162 مقابلوں، 5 ہزار سے زیادہ رنز اور 42 نصف سنچریوں کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ 87 مقابلوں میں وہ کپتان رہے۔
، 45 جیتے اور 39 ہارے۔ ممکن ہے کہ یہ بہت زیادہ اچھے اعدادوشمار نہ ہوں لیکن جب پاکستان کے کھلاڑی اپنے ہی میدانوں پر کھیلنے سے محروم ہوں، اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے ٹیم کی ساکھ ختم کردی ہو، جب تمام اسٹار کھلاڑی کرکٹ چھوڑ چکے ہوں، اس وقت عالمی اکھاڑے میں ٹیم کو کھڑا رکھنا بھی بڑا کارنامہ تصور کیا جانا چاہیے۔
اس لیے شاہد آفریدی کی طرح مصباح بھی طویل عرصے تک یاد کیے جاتے رہیں گے اور ہوسکتا ہے کہ مستقبل کا مؤرخ انھیں قومی کرکٹ میں وہ مقام عطا کرے جو عبد الحفیظ کاردارکا تھا۔مصباح اب محض ٹیسٹ اور شاہد آفریدی صرف ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں کھیلتے نظر آئیں گے، ان دونوں طرز کی کرکٹ میں انھوں نے سب سے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ لیکن ایک روزہ دونوں کا مشترکہ میدان تھا، اسی ایک طرز میں دونوں ایک ساتھ کھیلتے نظر آتے تھے، آگ اور پانی ایک ساتھ۔ بس اب ہمیں یہ دیکھنے کو نہیں ملے گا، پاکستان کرکٹ ایک انوکھے نظارے سے ہمیشہ کے لیے محروم رہ گئی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔