سورج گرہن کے اثرات
حقیقت میں بے چاری ٹیم اس قابل ہی نہیں تھی جب کہ میڈیا اورملٹی نیشنل کےمفادات نےعوام کی توقعات کو آسمان پرپہنچا دیا۔
ISLAMABAD:
بیس مارچ کے مکمل سورج گرہن کے اثرات پاکستانی کرکٹ ٹیم پر اس طرح پڑے کہ اس نے ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ سے ہی اسے نکال باہر کیا۔ ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے ہم لوگ گروپ ایڈیٹر ایاز خان صاحب کے کمرے میں بیٹھے تھے جہاں ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چوہدری بھی موجود تھے۔ ایاز صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ پاکستان بھارت میں کون جیتے گا۔ میں نے جواب میں کہا کہ دل نہیں چاہتا کہ پاکستان کے ہارنے کی پیشن گوئی کروں۔ اس طرح کروڑوں پاکستانی عوام کے دل ٹوٹ جائیں گے۔ زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ اس صورت حال میں خاموش ہی رہا جائے۔
حقیقت میں بے چاری ٹیم اس قابل ہی نہیں تھی جب کہ میڈیا اور ملٹی نیشنل کے مفادات نے عوام کی توقعات کو آسمان پر پہنچا دیا۔ ابتدائی شکستوں کے بعد پاکستانی عوام کو بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ ہماری ٹیم کہاں کھڑی ہے لیکن بعد کی نسبتاً کمزور ٹیموں سے جیت نے ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیا کہ ہم ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی غیر حقیقت پسندانہ تجزیے بنے۔ ٹیم کی ناقص کارکردگی بھی اس وقت کُھل کر سامنے آ گئی جب پاکستانی ٹیم آسٹریلیا سے 6 وکٹوں سے ہار گئی۔ہار کی وجہ ناقص بیٹنگ اور فیلڈنگ بنی۔ ہاتھ میں آئے آسان دو کیچ چھوڑ دیے گئے۔
بیٹنگ ہماری مایوس کن رہی۔ ہمارا کم سے کم اسکور تین سو کے قریب ہونا چاہیے تھے جب کہ ہم سوا دو سو بھی نہیں کر سکے۔ اتنا بڑا میچ اور اتنا کم اسکور وہاب ریاض کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی جس کا آسٹریلوی بیٹسیمنوں نے بھی اعتراف کیا لیکن بات پھر وہی آ جاتی ہے ایک اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا۔ ناقص فیلڈنگ 'ناقص بیٹنگ اور چلے ہیں ورلڈ کپ جیتنے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ سے باہر ہونے پر شدید صدمے سے دوچار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم نے اس کرکٹ ٹیم سے ورلڈ کپ جیتنے کی امیدیں لگا لیں جو اس قابل ہی نہیں تھی۔ تو اس پر غم و غصہ بے معنی ہے۔ اگر آپ نے اپنے غصے کا اظہار کرنا ہے تو کرکٹ بورڈ پر کریں ۔
پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ گلی محلے کی سطح پر بے شمار ایسے کھلاڑی ہیں جو ذرا سی محنت سے ہیرا بن سکتے ہیں۔ کرکٹ کا جنون گلی محلے کی سطح پر نظر آتا ہے۔ لیکن ان بے چاروں کے پاس نہ سفارش ہے نہ پیسہ نہ پہنچ۔ زندگی کے ہر شعبے کی طرح یہ ٹیلنٹ بھی ضایع ہو رہا ہے۔ پاکستان دنیائے کرکٹ میں صرف اسی وقت مقام حاصل کر سکتا ہے جب کرکٹ کے معاملات کرکٹر کے ہاتھوں میں ہوں اور کرکٹ کو گلی محلے شہر ڈویژن اور صوبے کی سطح پر آرگنائز کیا جائے۔ اتنی بڑی تعداد میں ایسے ایسے جوہر قابل سامنے آئیں گے کہ آپ کو یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جائے گا کہ کسے رکھیں اور کسے نہ رکھیں۔
ایک اور بڑا مسئلہ ہماری قوم کا کرکٹ کے حوالے سے انتہائی جذباتی ہونا ہے جو ایک لحاظ سے جہالت کی ضمن میں آ جاتا ہے۔ ہار پر ٹی وی توڑنا، سوگ منانا، کرکٹ کا جنازہ نکالنا جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ اس جہالت میں اچھے خاصے پڑھے لکھے سمجھدار لوگ بھی مبتلا ہیں۔ عام پاکستانی کا تو کہنا ہی کیا جن کی اکثریت نیم خواندہ یا ان پڑھ ہے۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ آپ اپنی ٹیم کی طرفداری ضرور کریں لیکن اس میں اس حد سے نہ گزر جائیں جس میں میرٹ کو ہی نظرانداز کر دیں کیونکہ ٹیم وہی جیتے گی جو اچھا کھیلے گی۔ اس میں دعائیں اور معجزے اکثر کام نہیں آتے۔ میرے خیال میں تو ہمیں اس ٹیم کا ساتھ دینا چاہیے جو اچھا کھیلے۔
یہی حال ہمارا بسنت کے حوالے سے ہے۔ اس کو بھی ہم نے اسلامی غیر اسلامی کے خانے میں بانٹ رکھتا ہے۔ حالانکہ بسنت ایک موسمی تیوہار ہے۔ ہزاروں سال سے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے انداز سے منایا جا رہا ہے۔ جب سردی کا اختیام اور بہار کا آغاز ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں پتنگیں بھی اڑائی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں پتنگ اڑانے پر پابندی لگ گئی ہے۔ بہانہ دھاتی دوڑ کا بنایا گیا ہے کہ اس سے انسانی جان خطرے میں پڑتی ہے۔ حکومتی رٹ دھاتی ڈور پر آ کر فیل ہو گئی ہے۔ اندازہ لگائیں حکومتی گڈ گورننس کا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے جو لاکھوں پر مشتمل ہیں ان چند سو شرپسندوں کا قلع قمع نہیں کر سکتی جو دھاتی ڈور کا کاروبار کر کے انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ کہیں یہ ملی بھگت تو نہیں، حکمرانوں اور مذہبی شدت پسندوں کی کہ نہ دھاتی ڈور کا خاتمہ ہو گا نہ پتنگ اڑانے پر پابندی ہٹے گی۔
...ایم کیو ایم کے لیے آنے والی احتیاط طلب تاریخیں۔ 26,25,24,23 مارچ ہیں
... ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں انڈیا کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن یہ جیت آسان نہیں ہو گی۔
بیس مارچ کے مکمل سورج گرہن کے اثرات پاکستانی کرکٹ ٹیم پر اس طرح پڑے کہ اس نے ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ سے ہی اسے نکال باہر کیا۔ ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے ہم لوگ گروپ ایڈیٹر ایاز خان صاحب کے کمرے میں بیٹھے تھے جہاں ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چوہدری بھی موجود تھے۔ ایاز صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ پاکستان بھارت میں کون جیتے گا۔ میں نے جواب میں کہا کہ دل نہیں چاہتا کہ پاکستان کے ہارنے کی پیشن گوئی کروں۔ اس طرح کروڑوں پاکستانی عوام کے دل ٹوٹ جائیں گے۔ زیادہ بہتر تو یہی ہے کہ اس صورت حال میں خاموش ہی رہا جائے۔
حقیقت میں بے چاری ٹیم اس قابل ہی نہیں تھی جب کہ میڈیا اور ملٹی نیشنل کے مفادات نے عوام کی توقعات کو آسمان پر پہنچا دیا۔ ابتدائی شکستوں کے بعد پاکستانی عوام کو بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ ہماری ٹیم کہاں کھڑی ہے لیکن بعد کی نسبتاً کمزور ٹیموں سے جیت نے ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا کر دیا کہ ہم ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی غیر حقیقت پسندانہ تجزیے بنے۔ ٹیم کی ناقص کارکردگی بھی اس وقت کُھل کر سامنے آ گئی جب پاکستانی ٹیم آسٹریلیا سے 6 وکٹوں سے ہار گئی۔ہار کی وجہ ناقص بیٹنگ اور فیلڈنگ بنی۔ ہاتھ میں آئے آسان دو کیچ چھوڑ دیے گئے۔
بیٹنگ ہماری مایوس کن رہی۔ ہمارا کم سے کم اسکور تین سو کے قریب ہونا چاہیے تھے جب کہ ہم سوا دو سو بھی نہیں کر سکے۔ اتنا بڑا میچ اور اتنا کم اسکور وہاب ریاض کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی جس کا آسٹریلوی بیٹسیمنوں نے بھی اعتراف کیا لیکن بات پھر وہی آ جاتی ہے ایک اکیلا چنا کیا بھاڑ جھونکے گا۔ ناقص فیلڈنگ 'ناقص بیٹنگ اور چلے ہیں ورلڈ کپ جیتنے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ سے باہر ہونے پر شدید صدمے سے دوچار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم نے اس کرکٹ ٹیم سے ورلڈ کپ جیتنے کی امیدیں لگا لیں جو اس قابل ہی نہیں تھی۔ تو اس پر غم و غصہ بے معنی ہے۔ اگر آپ نے اپنے غصے کا اظہار کرنا ہے تو کرکٹ بورڈ پر کریں ۔
پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ گلی محلے کی سطح پر بے شمار ایسے کھلاڑی ہیں جو ذرا سی محنت سے ہیرا بن سکتے ہیں۔ کرکٹ کا جنون گلی محلے کی سطح پر نظر آتا ہے۔ لیکن ان بے چاروں کے پاس نہ سفارش ہے نہ پیسہ نہ پہنچ۔ زندگی کے ہر شعبے کی طرح یہ ٹیلنٹ بھی ضایع ہو رہا ہے۔ پاکستان دنیائے کرکٹ میں صرف اسی وقت مقام حاصل کر سکتا ہے جب کرکٹ کے معاملات کرکٹر کے ہاتھوں میں ہوں اور کرکٹ کو گلی محلے شہر ڈویژن اور صوبے کی سطح پر آرگنائز کیا جائے۔ اتنی بڑی تعداد میں ایسے ایسے جوہر قابل سامنے آئیں گے کہ آپ کو یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جائے گا کہ کسے رکھیں اور کسے نہ رکھیں۔
ایک اور بڑا مسئلہ ہماری قوم کا کرکٹ کے حوالے سے انتہائی جذباتی ہونا ہے جو ایک لحاظ سے جہالت کی ضمن میں آ جاتا ہے۔ ہار پر ٹی وی توڑنا، سوگ منانا، کرکٹ کا جنازہ نکالنا جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ اس جہالت میں اچھے خاصے پڑھے لکھے سمجھدار لوگ بھی مبتلا ہیں۔ عام پاکستانی کا تو کہنا ہی کیا جن کی اکثریت نیم خواندہ یا ان پڑھ ہے۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ آپ اپنی ٹیم کی طرفداری ضرور کریں لیکن اس میں اس حد سے نہ گزر جائیں جس میں میرٹ کو ہی نظرانداز کر دیں کیونکہ ٹیم وہی جیتے گی جو اچھا کھیلے گی۔ اس میں دعائیں اور معجزے اکثر کام نہیں آتے۔ میرے خیال میں تو ہمیں اس ٹیم کا ساتھ دینا چاہیے جو اچھا کھیلے۔
یہی حال ہمارا بسنت کے حوالے سے ہے۔ اس کو بھی ہم نے اسلامی غیر اسلامی کے خانے میں بانٹ رکھتا ہے۔ حالانکہ بسنت ایک موسمی تیوہار ہے۔ ہزاروں سال سے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے انداز سے منایا جا رہا ہے۔ جب سردی کا اختیام اور بہار کا آغاز ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں پتنگیں بھی اڑائی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں پتنگ اڑانے پر پابندی لگ گئی ہے۔ بہانہ دھاتی دوڑ کا بنایا گیا ہے کہ اس سے انسانی جان خطرے میں پڑتی ہے۔ حکومتی رٹ دھاتی ڈور پر آ کر فیل ہو گئی ہے۔ اندازہ لگائیں حکومتی گڈ گورننس کا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے جو لاکھوں پر مشتمل ہیں ان چند سو شرپسندوں کا قلع قمع نہیں کر سکتی جو دھاتی ڈور کا کاروبار کر کے انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ کہیں یہ ملی بھگت تو نہیں، حکمرانوں اور مذہبی شدت پسندوں کی کہ نہ دھاتی ڈور کا خاتمہ ہو گا نہ پتنگ اڑانے پر پابندی ہٹے گی۔
...ایم کیو ایم کے لیے آنے والی احتیاط طلب تاریخیں۔ 26,25,24,23 مارچ ہیں
... ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں انڈیا کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن یہ جیت آسان نہیں ہو گی۔