پاکستان نہ بنتا اگر opinion
اگر لیگ کی تعاون کی پیش کش قبول کرلی گئی ہوتی تو عملی مقاصد کے اعتبار سے مسلم لیگ کانگریس میں ضم ہوجاتی۔
پاکستان نہ بنتا اگر تین واقعات پیش نہ آتے۔ تینوں واقعات ہندو لیڈر شپ بالخصوص جواہر لال نہرو کی ضد کے سبب پیش آئے۔ بیس، تیس اور چالیس کی دہائی میں یہ سب کچھ ہوا۔ پاکستان کو وجود میں آنا تھا اسی لیے کانگریس کی قیادت کی جانب سے ایسے اقدامات کیے گئے۔ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو قائم ہونے والا ملک ایک معجزہ ہی ہے۔ ہم نے ان دلچسپ اور انوکھے واقعات کو تین بھارتی مصنفین کی کتابوں سے اخذ کیا ہے۔ مولانا آزاد، جسونت سنگھ اور مولانا وحیدالدین تاریخ سے مخاطب ہیں۔
''مسٹر محمد علی جناح انگلینڈ جانے سے پہلے کانگریس میں شامل تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ کانگریس کا سالانہ اجلاس ہو رہا تھا۔ مہاتما گاندھی اور دوسرے لیڈروں کے ساتھ مسٹر محمد علی جناح بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ وہ اپنی باری پر کھڑے ہوئے تو عام مزاج کے مطابق انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز اسٹیج پر بیٹھی ممتاز شخصیتوں کے نام سے کرنا چاہا۔ چنانچہ انھوں نے کہا: مسٹر گاندھی۔ یہ سن کر بعض کانگریسی بگڑ گئے۔ انھوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی کہو۔ ہم گاندھی نہیں سن سکتے۔ جناح ایک لمحے کے لیے رکے۔ اس کے بعد انھوں نے دوبارہ تقریر شروع کی اور پھر یہی کہا کہ مسٹر گاندھی۔ اب مذکورہ کانگریسی دوبارہ اپنی مانگ کے لیے کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی کہو۔ اس کے بعد جناح صاحب نے اپنی تقریر روک دی۔ وہ خاموشی کے ساتھ اسٹیج سے اترے اور اپنے گھر واپس آگئے۔''
''ہند پاک ڈائری'' نامی کتاب میں آگے چل کر مولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں کہ ''یہ بحران نہایت آسانی سے ٹل سکتا تھا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ مہاتما گاندھی کھڑے ہوکر کہتے کہ جناح صاحب مجھ سے سینئر ہیں۔ ان کو حق ہے کہ وہ مجھے مسٹر گاندھی کے لفظ سے خطاب کریں۔ اگر گاندھی بروقت ایسا کرتے تو یہ تعطل فوراً ختم ہوجاتا اور اجلاس کی کارروائی معمول کے مطابق جاری رہتی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ مسٹر محمد علی جناح اس واقعے کے بعد جلد ہی لندن چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ واپس آئے۔ اب انھوں نے کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ میں شرکت کرلی۔ جلد ہی وہ مسلم لیگ کے سب سے بڑے قائد بن گئے۔''
قائداعظم عمر میں گاندھی جی سے سات سال چھوٹے تھے لیکن وہ ہندوستان کی سیاست میں سینئر تھے۔ اس ایک واقعے نے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک بڑا رہنما عطا کردیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ''اگر لیگ کے پاس درجن بھر گاندھی اور نہرو ہوتے اور کانگریس کے پاس ایک جناح ہوتا تو پاکستان نہ بنتا۔'' اب جسونت سنگھ کی کتاب ''جناح۔ اتحاد سے تقسیم تک'' سے ایک خوب صورت اقتباس اور پھر ایک اہم واقعہ۔ بھارت کے سابق وزیر خارجہ کس طرح دو اہم شخصیات کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ آئیے دیکھیں۔
''گاندھی اور جناح کا موازنہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ دونوں تحریک آزادی کے دو مرکزی نشان تھے۔ کاٹھیاوار کے گاندھی بھی جناح کی طرح بیرسٹر بن کر آئے تھے۔ گاندھی کی سیاست احتجاج کی سیاست تھی جب کہ جناح کو قانون کا ماہر ہونے کے سبب ایک راہ پر چلنا زیادہ پسند تھا۔ گاندھی کی عدم تعاون کی تجویز کو نہرو کے سوا سب نے مسترد کردیا جن میں جناح بھی شامل تھے۔ بعد میں کلکتہ کے اجلاس میں تجویز اکثریت سے منظور کرلی گئی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ گاندھی اور جناح کے درمیان کھلا ٹکراؤ صرف وقت کی بات رہ گئی تھی۔''
مسلم لیگ نے اپنی اڑان یوپی سے بھری۔ اگر نہرو ایک غلطی نہ کرتے تو لیگ اس قدر مقبولیت حاصل نہ کرتی۔ آئیے دیکھیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب ''آزادی ہند'' میں کیا کہتے ہیں۔
''جواہر لال نہرو میرے عزیز ترین دوستوں میں سے ہیں۔ انھوں نے 37 میں ایک بھول کی۔ پورے ہندوستان میں مسلم لیگ کو بڑی ناکامی جھیلنی پڑی سوائے ممبئی اور یوپی کے۔ اس وقت یوپی میں چوہدری خلیق الزماں اور نواب اسمٰعیل خان مسلم لیگ کے لیڈر تھے۔ دونوں نے کانگریس سے تعاون کا وعدہ کیا۔ انھیں توقع تھی کہ نئی حکومت میں مسلم لیگ کا بھی کچھ حصہ ہوگا۔ الیکشن کے بعد دونوں کو وزیر بنانے کے بجائے نہرو نے خط لکھ دیا کہ کسی ایک کو وزارت میں لیا جاسکتا ہے چنانچہ دونوں نے نہرو سے معذرت کرلی۔''
مولانا ابوالکلام آزاد آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ''اگر لیگ کی تعاون کی پیش کش قبول کرلی گئی ہوتی تو عملی مقاصد کے اعتبار سے مسلم لیگ کانگریس میں ضم ہوجاتی۔ جواہر لال کے اس عمل نے یوپی میں لیگ کو نئی زندگی عطا کردی جس نے انجام کار پاکستان بنوایا۔ لیگ کو وزارت میں شامل نہ کرکے انھوں نے بہت بڑی غلطی کی۔ میں نے انھیں خبردار بھی کیا کہ ان کے اس فعل کے نتیجے میں مسلم لیگ میں ایک نئی جان آجائے گی۔ میں نے دیکھا کہ نہرو نے ضد پکڑ لی ہے تو میں نے گاندھی جی سے صلاح مانگی تو وہ مجھ سے متفق ہوگئے لیکن بعد میں نہرو کی بات مان گئے۔''
اب دیکھیں کہ اس واقعے کو مولانا وحید کس طرح بیان کرتے ہیں۔
یوپی کابینہ میں جو مسلمان وزیر ہوگا وہ مسلم لیگ کا ہوگا۔ یہ دونوں پارٹیوں کا معاہدہ تھا۔ کانگریس بھاری اکثریت سے جیت گئی اور نہرو فتح کے جوش میں کہہ گئے کہ ہم خود اپنی پسند کی وزارت بنائیں گے اور لیگ کا کوئی آدمی شامل نہیں کریں گے۔ 1936 میں کانگریس اور مسلم لیگ ایک دوسرے کے قریب آچکے تھے اور بظاہر بٹوارے کا معاملہ ٹل گیا تھا۔ نہرو کی ضد کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم لیگی رہنما بھڑک اٹھے اور دوبارہ کانگریس سے دور ہوگئے۔ یہاں تک کہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔''
یہ تھے بیس اور تیس کے عشرے کے دو واقعات۔ آئیے دیکھیں کہ چالیس کی دہائی کا یہ واقعہ کیا دُہائی دے رہا ہے۔ پہلے جسونت سنگھ کو دیکھتے ہیں۔
''ہندوستان کو آزادی دینے کے لیے برطانیہ کی کابینہ کا اعلیٰ سطح وفد انڈیا آیا۔ کیبنٹ مشن کا کام آسان نہیں تھا۔ لیگ کا مطالبہ تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں کو خودمختاری حاصل ہونی چاہیے۔ تجویز تھی کہ ہندوستان کو تین گروپوں میں بانٹا جائے (یہ تقریباً آج کے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش ہی کی طرح کی تقسیم تھی) جب کہ خارجہ، دفاع اور مواصلات مرکز کے پاس ہوں۔ یہ ایک ڈھیلے ڈھالے وفاق کی اسکیم تھی۔ مسلم لیگ نے اسے قبول کرلیا کہ اس طرح مسلمانوں کو پورا پنجاب اور بنگال مل رہے تھے۔ 10 جولائی کو نہرو کی پریس کانفرنس وقت کے تقاضوں کے خلاف تھی۔ نہرو کو شک کا فائدہ نہیں دیا جاسکتا۔ کانگریس کے صدر نے کہا کہ آزادی کے بعد ہر معاملے کو ہم طے کریں گے اور پابند نہیں ہوں گے۔''
مولانا آزاد اپنی کتاب India Wins freedom میں اس بیان کے حوالے سے یوں لکھتے ہیں۔
''جواہر لال کا بیان میرے سر پر بم کی طرح گرا۔ جناح نے لیاقت سے کہا کہ وہ لیگ کی کونسل کی میٹنگ طلب کریں۔ مجھے یہ بات صاف صاف کہہ دینی چاہیے تھی کہ نہرو کا یہ بیان غلط تھا۔ جناح نے پاکستان کا مطالبہ دہرایا کہ اب ان کے سامنے پاکستان کا ہی ایک راستہ رہ گیا ہے۔ اگر کانگریس اسکیم بدل سکتی ہے تو پھر اقلیتیں ان کے رحم و کرم پر ہوں گی۔ جب انگریز کے اقتدار میں کانگریس اس طرح بار بار بدل سکتی ہے تو حکومت ان کے ہاتھ آئے تو وہ اقلیتوں کا کیا حشر کرے گی۔ میں اس نئی صورتحال سے انتہائی پریشان تھا۔ ہم اگر کہتے کہ یہ صدر کانگریس کی ذاتی رائے ہے تو نہرو کا وقار داؤ پر لگ جاتا۔ نہرو کو کانگریس کا صدر بنانا میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔''
تین بھارتی مصنفین کی تین کتابوں کا جائزہ ہم نے پیش کیا۔ تین عشروں میں تین واقعات نے مسلمانوں کو تقسیم کی جانب دھکیلا۔ یہ کانگریسی اعلیٰ قیادت کی غلطیاں تھیں یا کاتب تقدیر کا فیصلہ کہ پاکستان کو قائم ہی ہونا تھا۔ ایک طرف قلم کاروں کا اپنے قائد کے لیے عقیدت مندانہ نظریہ ہوتا ہے تو دوسری طرف لکھاریوں کا تعصب پر مبنی رجحان۔ ہم نے نسبتاً اعلیٰ ظرف بھارتی مصنفین کی تحریریں پیش کی ہیں کہ صورتحال واضح ہو۔ عقیدت کچھ بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ واقعات پیش نہ آتے تو پاکستان نہ بنتا۔