دَم لگا کے ہیا

باڈی بلڈرز بھی عام سے انسان ہیں اور کچھ خاص چیزیں کرنے سے کسی بھی انسان کی ایسی باڈی بن سکتی ہے۔


Wajahat Ali Abbasi March 23, 2015
[email protected]

QUETTA: طاقت کے اظہار کی چاہ انسان میں آج سے نہیں تب سے ہے جب شاید پہیہ بھی نہیں گھوما تھا، جانوروں سے بچنے اپنے دشمنوں سے لڑنے یا پھر صرف خود کو یہ محسوس کروانے کے لیے کہ میں طاقت ور ہوں انسان بڑے سے بڑے پتھر اٹھانے کی کوشش کرتا تاکہ اسے اٹھانے سے جسم کے عضلات مضبوط ہوں، جیسے پہیہ چلا تو گاڑی بنی ویسے ہی پتھر اٹھانے کا شوق آگے چل کر بنا باڈی بلڈنگ۔

یورپ میں 1880 سے 1953 کے بیچ میں ''اسٹرانگ مین'' کے ٹائٹل کے لیے مقابلے شروع ہوئے اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ انسان کے جسم میں کتنی مسلز مضبوط ہیں بلکہ یہ دیکھا جاتا تھا کہ کون کتنا وزن اٹھا سکتا ہے، عموماً ان مقابلوں کو جیتنے والوں کے پیٹ باہر اور ٹانگیں موٹی ہوتی تھیں۔

1930 میں یوگین سینڈو نامی جرمن ریسلر کو ''فادر آف ماڈرن باڈی بلڈنگ'' قرار دیا گیا جو ہر مقابلے سے پہلے لوگوں کو اپنی مسلز مختلف پوز میں دکھاتے اور لوگ پرجوش ہوکر تالیاں بجاتے۔ یہاں سے شروع ہوا وہ سلسلہ جس میں باڈی دکھانا اور کس کی کتنی مسلز ہیں اور کتنے تناسب سے ہیں ایک مقابلے کی شکل اختیار کرگیا۔

باڈی بلڈنگ کیا ہوتی ہے، کیسے کرتے ہیں؟ عام لوگوں کو پتہ نہیں تھا، یہ کچھ مخصوص لوگ کرتے اور باقی لوگ انھیں حیرت سے دیکھتے لیکن باڈی بلڈنگ عام ہوئی 1975 میں وہ بھی ایک امریکن ڈاکومنٹری کی وجہ سے۔ یہ ڈاکومنٹری جس کا نام ''پمپنگ آئرن'' تھا، اس کے بنانے والوں نے ایک باڈی بلڈر کے ساتھ ایک مہینہ گزارا جو دنیا کے سب سے بڑے باڈی بلڈنگ مقابلے ''مسٹر اولمپیا'' میں آٹھویں بار حصہ لینے جا رہا تھا، باڈی بلڈر کا نام تھا آرنلڈ شیوارزنگر اور اس کی خاص بات یہ تھی کہ آرنلڈ سات بار یہ مقابلہ جیت چکے تھے اور اب آخری بار اس میں حصہ لینے جا رہے تھے اور اسی لیے یہ مقابلہ ان کے لیے جیتنا ضروری تھا۔

ڈاکومنٹری کے آنے سے یہ ہوا کہ عام امریکنوں کو یہ پتہ لگ گیا کہ باڈی بلڈرز بھی عام سے انسان ہیں اور کچھ خاص چیزیں کرنے سے کسی بھی انسان کی ایسی باڈی بن سکتی ہے۔

امریکا میں کچھ ہی برسوں میں شہر میں ایک دو جم ہونے کے بجائے ہر گلی میں جم ایسے کھل گئے جیسے پاکستان کے ہر شہر کے محلے میں پان کی دکان ملتی ہے، لوگ چاہے پروفیشنل باڈی بلڈنگ مقابلے میں حصہ نہ بھی لیں تو بھی وہ ایسی ورزش کرنے اور خوراک لینے لگے جیسے پروفیشنل باڈی بلڈرز۔

امریکا سے نکل کر دنیا بھر میں باڈی بلڈنگ پھیل گئی اور پچھلے تیس برسوں میں اسے باقاعدہ اسپورٹس کا درجہ دے دیا گیا ہے اس وقت صرف امریکا میں باڈی بلڈنگ Supplements کا بزنس چار بلین ڈالر سے زیادہ کا ہے، ایک پروفیشنل باڈی بلڈر کو ایک دن میں تقریباً ایک درجن انڈے ایک سے دو چکن یا پھر اتنی ہی مقدار میں مچھلی لینی ہوتی ہے، اوپر سے پروٹین شیک اور مزید ڈائٹری سپلیمنٹ کے علاوہ چار پانچ گھنٹے ورزش کرنی ہوتی ہے، ایسے میں پاکستان میں کوئی عام لڑکا باڈی بلڈنگ کیسے افورڈ کرسکتا ہے، ہمارے یہاں ویسے ہی مہنگائی بہت ہے، اوپر سے گھر کی ذمے داریوں، خاندان کی کفالت کے علاوہ اپنی غذا پر تیس چالیس ہزار روپے ماہانہ خرچ کرنا اور نوکری کے ساتھ ورزش کے لیے چار سے پانچ گھنٹے نکالنا ہمارے یہاں بیشتر لوگوں کے لیے ناممکن ہے اسی لیے پاکستان میں باڈی بلڈنگ کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔

دنیا بھر میں پروفیشنل باڈی بلڈرز صرف باڈی بلڈنگ کرتے ہیں، ان کو باقاعدہ "Nike"اور "Adidas"جیسے برانڈز اسپانسر کرتے ہیں، ملینز آف ڈالرز دیتے ہیں تاکہ وہ پوری توجہ اور محنت سے اپنے آپ کو Train کریں اور مقابلہ جیت کر آئیں، جب دنیا کے ٹاپ ٹین باڈی بلڈرز سب سے بڑے مقابلے میں حصہ لینے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو جیتتا ایک پاکستانی ہے، وہ پاکستانی جس کے پاس ہارنے والے باڈی بلڈرز جتنے وسائل نہیں ہیں۔

عاطف انور کراچی میں رہنے والا لڑکا میلبورن آسٹریلیا میں ''آرنلڈ کلاسیک 100'' یعنی سو کلو سے زیادہ وزن رکھنے والے باڈی بلڈرز کا مقابلہ جیت گیا، باقی نو لڑکے جو ہارے، سوچ بھی نہیں سکتے کہ عاطف آج کیسے ان کے برابر آکر کھڑا ہوا ہے۔

عاطف ایک غریب گھرانے کا لڑکا ہے جو زندگی کا پہیہ چلانے کے لیے ایک نہیں دو نوکریاں کرتا ہے، گھر کی ذمے داریوں کے علاوہ چھوٹے بہن بھائیوں کے اخراجات بھی اسے پورے کرنے ہوتے ہیں ایسے میں کسی بھی اور کام میں دماغ لگانا بہت مشکل کام ہے لیکن عاطف کا یقین تھا ہمت مرداں مدد خدا۔

عاطف کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں مہینے میں غذا اور سپلیمنٹس کے لیے تیس سے چالیس ہزار روپے چاہیے ہوتے ہیں جو وہ افورڈ نہیں کرپاتے، ایسے میں ان کی مدد پاکستان میں باڈی بلڈنگ کے کچھ شوقین اور بعض جم کے مالکان مل کر کرتے ہیں، جس ماہ ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے وہ یہ دعا کرتے گزارتے ہیں کہ ان کی مسلز کو زیادہ نقصان نہ پہنچے۔

صبح اٹھ کر عاطف آٹھ بجے سے دس بجے تک جم جاتے ہیں، جم سے نکلتے ہی اپنی جاب پر پہنچتے ہیں اور چار بجے وہاں سے فارغ ہوکر دوسری جاب یعنی ایک جم میں کوچنگ چار سے آٹھ بجے تک اور پھر وہاں سے ڈائریکٹ اپنی جم جہاں دو سے تین گھنٹے ورزش، عاطف پہلے مسٹر کراچی بنے پھر مسٹر سندھ اور اس کے بعد مسٹر پاکستان جس کے بعد انھوں نے دنیا بھر میں پاکستان کی نمایندگی شروع کردی۔ گوکہ پاکستان میں باڈی بلڈنگ فیڈریشن موجود ہے لیکن وہ اپنے ہی باڈی بلڈرز کو سپورٹ نہیں کرتی، بس وعدے کرتے ہیں جو پاکستان کے دوسرے وعدوں کی طرح بھی پورے نہیں ہوتے۔

عاطف جب ساؤتھ ایشین چیمپئن بن کر واپس آئے اور فیڈریشن کو انعام کے طور پر ملنے والے ایک فلیٹ کے وعدے کی یاد دہانی کروائی تو جواب ملا کہ آپ تو صرف ساؤتھ ایشیا میں جیتے ہیں فلیٹ ملے گا جب آپ ایشیا میں جیتیں گے، ایسا وعدہ جو ایشیا میں جیتنے کے بعد ''ورلڈ'' پر چلا گیا۔

عاطف کے مطابق انسان کے پیدا ہونے سے قبر میں جانے تک مشکلات آتی رہتی ہیں، یا تو آپ مشکلات کو دیکھ کر ہار مانتے جائیں یا پھر اللہ کا نام لے کر آگے بڑھتے جائیں۔

عاطف آج دنیا کا چیمپئن بن کر دنیا میں کہیں بھی جاکر ملینز آف ڈالرز کماسکتا ہے لیکن وہ پاکستان واپس آیا تاکہ پاکستان میں باڈی بلڈنگ کو فروغ دے سکے، پاکستان کا نام روشن کرسکے، ہمیں عاطف پر فخر ہے وہ صرف ہمارا چیمپئن ہی نہیں ہیرو بھی ہے جو پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں