آدم و ابلیس کی جنگ کا آغاز
اللہ نے آدم کو خلق کرکے ابلیس کو حکم دیا کہ وہ اسے سجدہ کرے۔
اللہ نے آدم کو خلق کرکے ابلیس کو حکم دیا کہ وہ اسے سجدہ کرے۔ اس نے آدم کو حقیر اور خود کو افضل کہہ کر انکارکردیا۔ اللہ نے اسے شیطان قرار دے دیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ''میں تیرے اس انسان کو گمراہ کرکے دکھاؤں گا۔''
منظر بدلا۔ ابلیس نے پہلا معرکہ مار لیا، آدم کو حوا کے ذریعے جنت سے نکلوانے میں کامیاب ہوگیا، دونوں اب دنیا میں آگئے۔ ابلیس جو کہ اب شیطان بن چکا تھا، پوری قوت سے آدم کے مقابل آگیا۔ جنگ شروع ہوگئی۔ شیطان تیز اور مکار تھا، انسان کی کمزوریوں سے بھی واقف تھا، اس کے پاس اسے زیر کرنے کے لیے تمام ہتھیار بھی موجود تھے۔ لہٰذا اس نے پے درپے وار کرنا شروع کیے۔
اللہ نے آدم کی مدد کے لیے اسے ہدایات و پیغامات بھجوانے شروع کیے، شیطان کے حربوں سے بھی آگاہ کیا۔ مگر شیطان انسان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ایک ایک کرکے سب کو تیزی سے قابو کرنے لگا اور چند کے سوا سب اس کے ساتھ گروہ در گروہ شامل ہونے لگے۔
میں پریشان تھا، ایسا کیوں ہورہا تھا؟ کیا پیغمبروں کے پیغام کو لوگوں نے قبول نہ کیا، یا لوگ اختیاراً، صحیح غلط جاننے کے باوجود اللہ کے بجائے شیطان کے گروہ میں شامل ہورہے تھے؟ شاید ایسا اس لیے ہورہا تھا کہ شیطان کے پاس انسان کو ورغلانے کے لیے اس کی ہر من پسند شے شارٹ کٹ سے دستیاب تھی۔ وہ ہر کسی کو اس کے مزاج کے مطابق قابو کرتا۔ آوارہ کو آوارگی کے ذریعے اور نیک کو اس کی نیکی کے۔ وہ نیک، بد ہر کسی پر تابڑ توڑ حملے جاری رکھے ہوئے تھا۔ سب کو اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ دوسری طرف اللہ بھی انسان کو اپنی طرف کھینچ اور مسلسل ہدایات پہنچارہا تھا۔
چنانچہ انسان اس کشمکش کا شکار ہوگیا کہ اللہ اور شیطان میں سے کس کی جانب بڑھے، وہ کبھی اللہ اور کبھی شیطان کی جانب لڑھکنے لگا۔ اسے ایک ایسی کشمکش کا سامنا تھا جو اب اس کی آخری سانس تک جاری رہنے والی تھی، جس میں اس کا ہر چھوٹا بڑا عمل اسے ان دونوں میں سے کسی ایک راہ پر آگے بڑھاتے رہنے والا تھا۔ اس کے دل میں پیدا ہونے والا چھوٹے سے چھوٹا خیال، جنبشِ نظر، اٹھتا قدم اسے اللہ کے قریب لے جانے والا تھا یا پھر شیطان کے۔
آدم و ابلیس کے اس جھگڑے کے ساتھ ہی دنیا دو گروہوں میںتقسیم ہوگئی۔ ایک اللہ اور دوسرا شیطان کا۔ پہلے گروہ کا تعلق اس کی خطاؤں، گناہوں کے باوجود دور کہیں سے جاکر بالآخر اللہ سے مل جاتا ہے۔ کیونکہ اس گروہ کے دل میں خوف خدا بہرحال موجود ہوتا ہے جو کبھی کبھار ہی سہی مگر چھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ مگر دوسرے گروہ کا تعلق مکمل طور پر شیطان سے ہوتا ہے، اس کے دل پر شیطان کا غلبہ ہوتا ہے۔ وہ کسی مرحلے پر بھی اللہ کی طرف دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ ''وہ گونگے، بہرے، اندھے ہیں!''
ایسے لوگوں سے بچنے کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کس شخص کا تعلق کس گروہ سے ہے، تاکہ شیطانی گروہ سے بچا اور رحمانی گروہ کی صحبت اختیار کی جاسکے۔ یہ پہچاننے کے لیے کہ کس کا تعلق کس گروہ سے ہے ایک آسان فارمولا ہے۔ وہ یہ کہ دیکھا جائے کہ کسی انسان کے عمل کا خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ اگر اس کا end result لوگوں میں تقسیم، مایوسی اور دوری نکلتا ہو تو اس کا تعلق شیطانی گروہ سے ہے اور اگر اس کا result دو لوگوں کو ملانے، قریب لانے کی صورت میں نکلتا ہو تو اس کا تعلق رحمانی گروہ سے۔ کیونکہ اللہ والوں کا پیغام ہمیشہ سے انسانوں کو جوڑنا، ان میں محبت پیدا کرنا، روشنی پھیلانا رہا ہے اور شیطانی گروہ کا ان میں تقسیم اور عداوت پیدا کرنا۔
چونکہ شیطان کا دعویٰ انسان کو اللہ کا نافرمان ثابت کرنا تھا لہٰذا اس مقصد کے لیے وہ دو طریقوں سے وار کرتا ہے۔ عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اسے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی، وہ انھیں گناہ، ظلم و ناانصافی کی دعوت دیتا ہے اور وہ آسانی سے اسے قبول کرلیتے ہیں۔ مگر نیک، پرہیزگار لوگ اس کے لیے مشکل ہدف ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وہ شیطان کی چالوں سے واقف ہوتے ہیں، اس لیے انھیں وہ عام حربوں سے گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔ لہٰذا انھیں مختلف تکنیک سے قابو کرتاہے ، انھیں وہ پہلے صبر سے بڑی سے چھوٹی نیکیوں کی جانب منتقل کرتا ہے، پھر چھوٹی نیکیوں سے معمولی گناہوں کی طرف اور پھر معمولی گناہوں سے بڑے گناہوںکی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔
اللہ کا ایک نمازی، پرہیزگار بندہ فجر کے وقت سوتا رہ گیا، قریب تھا کہ اس کی نماز قضا ہوجاتی کہ شیطان نے اس کے کان میں آواز دی کہ اٹھ فجر کا وقت نکلا جا رہا ہے ورنہ تیری نماز قضا ہوجائے گی۔ جب شیطان سے پوچھا گیا کہ تونے ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے جواب دیا کہ ''اگر وہ سوتا رہ جاتا اور اس کی نماز قضا ہوجاتی تو وہ اس قدر گریہ و آہ و بکا کرتا، ندامت میں مبتلا ہوتا کہ اللہ سے اور زیادہ قریب ہوجاتا، اسے نماز پڑھنے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ثواب مل جاتا۔ لہٰذا میں نے اسے اس اجر سے محروم کردیا۔''
مجھ پر انکشاف ہوا کہ قرآن صرف نیک، باعمل لوگوں کے لیے ہدایت، نجات اور شفا ہے۔ بے عمل قاری قرآن کے لیے نہیں۔ فقط اسے پڑھتے رہنا بغیر عمل کے ہمیں شیطان کے حملوں سے نہیں بچا سکتا۔ جب تک کہ ہم 'پرہیزگاری اور عمل' کی شرائط پر پورا نہ اتریں۔
منظر بدلا۔ ابلیس نے پہلا معرکہ مار لیا، آدم کو حوا کے ذریعے جنت سے نکلوانے میں کامیاب ہوگیا، دونوں اب دنیا میں آگئے۔ ابلیس جو کہ اب شیطان بن چکا تھا، پوری قوت سے آدم کے مقابل آگیا۔ جنگ شروع ہوگئی۔ شیطان تیز اور مکار تھا، انسان کی کمزوریوں سے بھی واقف تھا، اس کے پاس اسے زیر کرنے کے لیے تمام ہتھیار بھی موجود تھے۔ لہٰذا اس نے پے درپے وار کرنا شروع کیے۔
اللہ نے آدم کی مدد کے لیے اسے ہدایات و پیغامات بھجوانے شروع کیے، شیطان کے حربوں سے بھی آگاہ کیا۔ مگر شیطان انسان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر ایک ایک کرکے سب کو تیزی سے قابو کرنے لگا اور چند کے سوا سب اس کے ساتھ گروہ در گروہ شامل ہونے لگے۔
میں پریشان تھا، ایسا کیوں ہورہا تھا؟ کیا پیغمبروں کے پیغام کو لوگوں نے قبول نہ کیا، یا لوگ اختیاراً، صحیح غلط جاننے کے باوجود اللہ کے بجائے شیطان کے گروہ میں شامل ہورہے تھے؟ شاید ایسا اس لیے ہورہا تھا کہ شیطان کے پاس انسان کو ورغلانے کے لیے اس کی ہر من پسند شے شارٹ کٹ سے دستیاب تھی۔ وہ ہر کسی کو اس کے مزاج کے مطابق قابو کرتا۔ آوارہ کو آوارگی کے ذریعے اور نیک کو اس کی نیکی کے۔ وہ نیک، بد ہر کسی پر تابڑ توڑ حملے جاری رکھے ہوئے تھا۔ سب کو اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ دوسری طرف اللہ بھی انسان کو اپنی طرف کھینچ اور مسلسل ہدایات پہنچارہا تھا۔
چنانچہ انسان اس کشمکش کا شکار ہوگیا کہ اللہ اور شیطان میں سے کس کی جانب بڑھے، وہ کبھی اللہ اور کبھی شیطان کی جانب لڑھکنے لگا۔ اسے ایک ایسی کشمکش کا سامنا تھا جو اب اس کی آخری سانس تک جاری رہنے والی تھی، جس میں اس کا ہر چھوٹا بڑا عمل اسے ان دونوں میں سے کسی ایک راہ پر آگے بڑھاتے رہنے والا تھا۔ اس کے دل میں پیدا ہونے والا چھوٹے سے چھوٹا خیال، جنبشِ نظر، اٹھتا قدم اسے اللہ کے قریب لے جانے والا تھا یا پھر شیطان کے۔
آدم و ابلیس کے اس جھگڑے کے ساتھ ہی دنیا دو گروہوں میںتقسیم ہوگئی۔ ایک اللہ اور دوسرا شیطان کا۔ پہلے گروہ کا تعلق اس کی خطاؤں، گناہوں کے باوجود دور کہیں سے جاکر بالآخر اللہ سے مل جاتا ہے۔ کیونکہ اس گروہ کے دل میں خوف خدا بہرحال موجود ہوتا ہے جو کبھی کبھار ہی سہی مگر چھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ مگر دوسرے گروہ کا تعلق مکمل طور پر شیطان سے ہوتا ہے، اس کے دل پر شیطان کا غلبہ ہوتا ہے۔ وہ کسی مرحلے پر بھی اللہ کی طرف دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ ''وہ گونگے، بہرے، اندھے ہیں!''
ایسے لوگوں سے بچنے کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کس شخص کا تعلق کس گروہ سے ہے، تاکہ شیطانی گروہ سے بچا اور رحمانی گروہ کی صحبت اختیار کی جاسکے۔ یہ پہچاننے کے لیے کہ کس کا تعلق کس گروہ سے ہے ایک آسان فارمولا ہے۔ وہ یہ کہ دیکھا جائے کہ کسی انسان کے عمل کا خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ اگر اس کا end result لوگوں میں تقسیم، مایوسی اور دوری نکلتا ہو تو اس کا تعلق شیطانی گروہ سے ہے اور اگر اس کا result دو لوگوں کو ملانے، قریب لانے کی صورت میں نکلتا ہو تو اس کا تعلق رحمانی گروہ سے۔ کیونکہ اللہ والوں کا پیغام ہمیشہ سے انسانوں کو جوڑنا، ان میں محبت پیدا کرنا، روشنی پھیلانا رہا ہے اور شیطانی گروہ کا ان میں تقسیم اور عداوت پیدا کرنا۔
چونکہ شیطان کا دعویٰ انسان کو اللہ کا نافرمان ثابت کرنا تھا لہٰذا اس مقصد کے لیے وہ دو طریقوں سے وار کرتا ہے۔ عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اسے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی، وہ انھیں گناہ، ظلم و ناانصافی کی دعوت دیتا ہے اور وہ آسانی سے اسے قبول کرلیتے ہیں۔ مگر نیک، پرہیزگار لوگ اس کے لیے مشکل ہدف ثابت ہوتے ہیں کیونکہ وہ شیطان کی چالوں سے واقف ہوتے ہیں، اس لیے انھیں وہ عام حربوں سے گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔ لہٰذا انھیں مختلف تکنیک سے قابو کرتاہے ، انھیں وہ پہلے صبر سے بڑی سے چھوٹی نیکیوں کی جانب منتقل کرتا ہے، پھر چھوٹی نیکیوں سے معمولی گناہوں کی طرف اور پھر معمولی گناہوں سے بڑے گناہوںکی طرف کھینچ لے جاتا ہے۔
اللہ کا ایک نمازی، پرہیزگار بندہ فجر کے وقت سوتا رہ گیا، قریب تھا کہ اس کی نماز قضا ہوجاتی کہ شیطان نے اس کے کان میں آواز دی کہ اٹھ فجر کا وقت نکلا جا رہا ہے ورنہ تیری نماز قضا ہوجائے گی۔ جب شیطان سے پوچھا گیا کہ تونے ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے جواب دیا کہ ''اگر وہ سوتا رہ جاتا اور اس کی نماز قضا ہوجاتی تو وہ اس قدر گریہ و آہ و بکا کرتا، ندامت میں مبتلا ہوتا کہ اللہ سے اور زیادہ قریب ہوجاتا، اسے نماز پڑھنے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ثواب مل جاتا۔ لہٰذا میں نے اسے اس اجر سے محروم کردیا۔''
مجھ پر انکشاف ہوا کہ قرآن صرف نیک، باعمل لوگوں کے لیے ہدایت، نجات اور شفا ہے۔ بے عمل قاری قرآن کے لیے نہیں۔ فقط اسے پڑھتے رہنا بغیر عمل کے ہمیں شیطان کے حملوں سے نہیں بچا سکتا۔ جب تک کہ ہم 'پرہیزگاری اور عمل' کی شرائط پر پورا نہ اتریں۔