قرارداد پاکستان کا پس منظر
ہماری اکانومی کی نوعیت اس سے قطعاً مختلف ہوگئی جو قرارداد لاہور مرتب کرتے وقت پیش نظر تھی۔
پیرمحمد علی راشدی نے پچاس برس قبل ایک قومی روزنامے میں قرارداد پاکستان کے بارے میں جن معروضات کوپیش کیا،ان کے منتخب حصے کوہم پیش کررہے ہیں۔ان کے بقول'' قرارداد لاہور آخری نتیجہ تھی ان واقعات کا'':۔
(1) اکتوبر 1937ء کے آخر میں کراچی مسلم لیگ کانفرنس میں یہ قرارداد منظور ہوئی کہ چونکہ ہندو اب کوئی سمجھوتہ نہیں کررہے ہیں لہٰذا مرکزی مسلم لیگ کو کوئی ایسا آئینی مسودہ تیار کرنا چاہیے جس کے تحت مسلمان اپنے علاقوں کے لیے علیحدہ اپنا مرکز بناسکیں۔
(2) اس کے ایک مہینہ بعد آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک کمیٹی بنائی جس کے چیئرمین سید عبداللہ ہارون تھے۔ یہ خاکسار اس کمیٹی کا سیکرٹری بنا۔ اس کمیٹی کے کچھ ممبر تو پہلے روز ہی مقرر کردیئے گئے تھے اور باقی چند ایک لوگ بعد میں ''کو آپٹ'' (Co-Opt) ہوئے۔ ممبروں کے نام جہاں تک میرا حافظہ کام کررہا ہے یہ تھے:
(1) سرشاہنواز خان آف ممدوٹ (2) مولانا غلام رسول مہر(3) مولانا عرفان اللہ(4) ڈاکٹر سید عبداللطیف(5) سید رضوان اللہ(6) ڈاکٹر افضل قادری (7) سید اختر حسین۔
(3) اس وقت تک علیحدہ مسلم فیڈریشن کے بارے میں سکیموں کے چند خاکے تو شائع ہوچکے تھے مگر اصول تقسیم'' کے مختلف پہلوؤں کا باقاعدہ جائزہ نہیں لیا گیا تھا۔ اب لیگ مرکز کی طرف سے حکم ہوا کہ یہ کمیٹی اسی مسئلہ کا بھی جائزہ لے اور یہ بتائے کہ برصغیر کے اندر مسلمانوں کی ایسی علیحدہ ریاست بن سکتی ہے یا نہیں اور اگر بن جائے تو اس کو کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے یا نہیں۔
(4) یہ کمیٹی آخر 1938ء سے مارچ 1940ء تک مختلف سکیموں پر غور کرتی رہی۔
(5) میرے اپنے سپرد یہ ڈیوٹی بھی کردی گئی کہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے لیے لاہور میں انتظام کروں تاکہ اگر علیحدگی کی کوئی سکیم بنتی ہے تو اس کا ابتدائی اعلان وہاں سے ہوسکے۔
(6) شروع فروری 1940ء میں ہماری کمیٹی نے دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے سامنے بذریعہ سرعبداللہ ہارون یہ نکات پیش کیے:۔
(الف) علیحدہ ریاست بن سکتی ہے اور وہ ریاست کامیابی سے چلائی جاسکتی ہے۔
(ب) اس کی حدود اس طریقہ سے مقرر ہوں کہ زیادہ سے زیادہ مسلم آبادی کو اس سکیم کا فائدہ پہنچ سکے۔ (مفصل سکیم چند روز کے اندر تیار ہوکر ورکنگ کمیٹی کے سامنے آنے والی تھی)
چند روز بعد یہ سکیم لیگ مرکز کو تو بھیج دی گئی مگر اس کو اخبارات میں مصلحتاً شائع نہیں کیا گیا۔ بعد میں یہ سکیم ''پاکستان ایشو'' (PAKISTAN ISSUE) میں کسی صاحب نے حیدر آباد دکن سے شائع کردی۔
(7) اس سکیم کی خصوصیات یہ تھیں:۔
٭ مغربی پاکستان کی حدود آگرہ تک جائیں!
٭ دہلی اور مغربی یو۔پی کے چند اضلاع
٭ مغربی پاکستان میں رہیں!
٭ راجپوتانہ سارا پاکستان میں شامل ہو!
٭ مشرق میں سارا بنگال، سارا آسام، اور بہار کے چند اضلاع پاکستان کو ملیں! اس سکیم کے تحت ہندوستان کی مسلم آبادی کا تین چوتھائی حصہ پاکستان میں آکر محفوظ ہوجاتا تھا اور اس ریاست کے اندر مسلم آبادی کا تناسب 65 فیصد کے قریب بیٹھتا تھا۔ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بین المملکتی سطح پر انتظامات ہونے تھے۔ تبادلہ آبادی کا کوئی سوال نہیں اٹھتا تھا (کیونکہ) اس سکیم کے تحت پیدا ہونے والی پوزیشن اس قدر متوازن رکھی گئی تھی کہ کسی کو کسی پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ ہوتی)
(8) سکیم پیش کرنے کے وقت ہم نے صاف طور سے مرکز کو بتا دیا تھا کہ مجوزہ اسلامی ریاست کا دفاع اور مسلمان قوم کی اکثریت کا تحفظ، صرف اس صورت میں ہی ہونا ممکن ہوگا۔ اگر اس ساری سکیم کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ بصوتر دیگر بڑی دشواریاں پیدا ہوجائیں گی۔
(9) جب لاہور والا اجلاس قریب آگیا تو اس سکیم کو سامنے رکھ کر دہلی میں ایک قرارداد کا خاکہ تیار ہوا جس کے تیار کرنے میں اس خاکسار اور چند ایک اور بزرگوں کا بھی ہاتھ تھا۔
(10) حضرت قائداعظمؒ نے یہ خاکہ میرے سپرد کیا کہ وہ لاہور لے جاکر سرسکندر حیات مرحوم کودکھاؤں اور ان کی رضا مندی حاصل کروں تاکہ وہ آنے والے اجلاس میں پیش ہوکر بالاتفاق رائے منظور ہوسکے۔
(11) سرسکندر نے اس خاکہ پر غور کرنے کیلئے ان اصحاب کو اپنے یہاں بلایا:
(1) مولانا غلام رسول مہر(2) ڈاکٹر شیخ محمد عالم (3) میر مقبول محمود اور (4) یہ خاکسار۔
ہم نے وہاں پر اس خاکہ کو قرارداد کی صورت دی۔
(12) یہ مسودہ میں نے واپس دہلی آکر قائداعظم علیہ الرحمۃ کی خدمت میں پیش کردیا، جس پر لاہور میں اجلاس سے ایک روز پہلے آخری طور پر، ورکنگ کمیٹی نے غور کیا اوراس کومنظور کیا۔ ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس ''ممدوٹ ولا'' میں ہوا۔
(13) شام کواجلاس کی سبجیکٹ کمیٹی میں یہ مسودہ پیش ہوا۔ اس وقت یکایک مجھے خیال آیا کہ مسودہ میں ایک خلا رہ گیا ہے۔ جس کو اسی وقت پورا کردینا چاہیے۔ وہ خلا یہ تھا کہ ہم نے اپنی سکیم میں تو یہ سفارش کی تھی کہ ہمارے موجودہ صوبوں کے علاوہ کچھ اور علاقے بھی ہندوستان سے کاٹ کر ہمارے حوالے کیے جائیں (مثلاً دہلی، آگرہ، مغربی یو۔پی کے بعض اضلاع، راجپوتانہ، بہار اور آسام کے کچھ اضلاع وغیرہ) مگر قرارداد کے اندراس چیز کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی، لہٰذا میں نے ایک ترمیم لکھ کر قائداعظمؒ کے سامنے رکھ دی جس کے الفاظ یہ تھے:
''SUBJECT TO SUCH TERRITORIAL READJUSTMENTS AS MAY BE FOUND NECESSARY''
''یعنی ضروری علاقائی حد بندی کے روّو بدل کے ساتھ!''
قائداعظمؒ کو میں نے ترمیم کا مقصد بتادیا اور انہوں نے میرا نقطۂ نظر منظور فرما کر ترمیم کو مسودہ قرارداد میں شامل کردیا۔ یہ الفاظ آپ کو آج بھی قرارداد لاہور کے اندرنظر آئیں گے۔
(14) دوسرے روز یہ قرارداد کھلے اجلاس میں پیش ہوئی اور منظور ہوگئی۔
(15) اب اس قرارداد کی بنیاد ان چیزوں پر تھی:۔
(الف) کہ پاکستان ہماری پیش کردہ سکیم کے مطابق بنے گا۔
(ب) ہماری اپنی اکثریت والے صوبوں کی قطع و برید نہیں ہوگی۔
(ج) ہماری سرحدیں ایک طرف آگرہ تک جائیں گی اور دوسری طرف بہار سے آکرملیں گی۔
(د) ہمارے قبضہ میں نہ صرف ہمارے اپنے موجودہ صوبے آئیں گے بلکہ ان کے علاوہ کئی اور علاقے اور ریاستیں بھی ہمارے حصے میں آئیں گی۔
(ھ) اقلیت،آزادی اورآبادی کے ردوبدل کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔
(و) برصغیر کا آئندہ نقشہ اس قدر متوازن ہوگا کہ دفاع آسان ہوجائے گا۔ ہندوستان اس قدر بڑا، اور پاکستان اس قدر چھوٹا نہیں رہ جائے گا کہ ایک کی دوسرے پر مستقل دھونس جاری رہے گی اور پاکستان کا دفاع ایک نازک مسئلہ بن جائے گا۔
(ز) چونکہ اتنے نئے علاقے ہماری حدود کے اندر آنے والے تھے جن میں کچھ دیسی ریاستیں بھی واقع تھیں لہٰذا اس مجموعہ اضداد کو چلانے کے لیے دفاعی نوعیت کا نظام ہونا ضروری ہوگا۔
(ح) کشمیر یا جوناگڑھ کے الحاق وغیرہ پر کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوگا۔
قرارداد لاہور کے اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے آپ اگر اس پاکستان پرنظرڈالیں جو آخری طور پر ہماری قسمت میں لکھا گیا تو آپ بلاشبہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ چیز اس تصور سے قطعاً مختلف ہے جس تصور پر قرارداد لاہور کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ہمارے پاس کوئی اور علاقہ تو نہیں آیا مگر ہمارے اپنے علاقوں پر بھی آرا چل گیا۔ کشمیر اور جوناگڑھ کا مسئلہ ایک عقدہ لاینحل بن گیا۔ ہمارے دفاع کا مسئلہ سخت پیچیدہ ہوگیا۔ اپنے مقابلہ میں ہم کو کمزور پاکر ہندوستان کی خُو بدل گئی۔ ہر دوسرے تیسرے سال ہندوستان والے ہماری سرحدوں پر اپنی فوجیں لاکر ہم کو ڈرانے لگے۔ ہماری ''اکانومی (ECONOMY) کی نوعیت اس سے قطعاً مختلف ہوگئی جو قرارداد لاہور مرتب کرتے وقت ہمارے پیش نظر تھی۔
(1) اکتوبر 1937ء کے آخر میں کراچی مسلم لیگ کانفرنس میں یہ قرارداد منظور ہوئی کہ چونکہ ہندو اب کوئی سمجھوتہ نہیں کررہے ہیں لہٰذا مرکزی مسلم لیگ کو کوئی ایسا آئینی مسودہ تیار کرنا چاہیے جس کے تحت مسلمان اپنے علاقوں کے لیے علیحدہ اپنا مرکز بناسکیں۔
(2) اس کے ایک مہینہ بعد آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک کمیٹی بنائی جس کے چیئرمین سید عبداللہ ہارون تھے۔ یہ خاکسار اس کمیٹی کا سیکرٹری بنا۔ اس کمیٹی کے کچھ ممبر تو پہلے روز ہی مقرر کردیئے گئے تھے اور باقی چند ایک لوگ بعد میں ''کو آپٹ'' (Co-Opt) ہوئے۔ ممبروں کے نام جہاں تک میرا حافظہ کام کررہا ہے یہ تھے:
(1) سرشاہنواز خان آف ممدوٹ (2) مولانا غلام رسول مہر(3) مولانا عرفان اللہ(4) ڈاکٹر سید عبداللطیف(5) سید رضوان اللہ(6) ڈاکٹر افضل قادری (7) سید اختر حسین۔
(3) اس وقت تک علیحدہ مسلم فیڈریشن کے بارے میں سکیموں کے چند خاکے تو شائع ہوچکے تھے مگر اصول تقسیم'' کے مختلف پہلوؤں کا باقاعدہ جائزہ نہیں لیا گیا تھا۔ اب لیگ مرکز کی طرف سے حکم ہوا کہ یہ کمیٹی اسی مسئلہ کا بھی جائزہ لے اور یہ بتائے کہ برصغیر کے اندر مسلمانوں کی ایسی علیحدہ ریاست بن سکتی ہے یا نہیں اور اگر بن جائے تو اس کو کامیابی سے چلایا جاسکتا ہے یا نہیں۔
(4) یہ کمیٹی آخر 1938ء سے مارچ 1940ء تک مختلف سکیموں پر غور کرتی رہی۔
(5) میرے اپنے سپرد یہ ڈیوٹی بھی کردی گئی کہ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے لیے لاہور میں انتظام کروں تاکہ اگر علیحدگی کی کوئی سکیم بنتی ہے تو اس کا ابتدائی اعلان وہاں سے ہوسکے۔
(6) شروع فروری 1940ء میں ہماری کمیٹی نے دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے سامنے بذریعہ سرعبداللہ ہارون یہ نکات پیش کیے:۔
(الف) علیحدہ ریاست بن سکتی ہے اور وہ ریاست کامیابی سے چلائی جاسکتی ہے۔
(ب) اس کی حدود اس طریقہ سے مقرر ہوں کہ زیادہ سے زیادہ مسلم آبادی کو اس سکیم کا فائدہ پہنچ سکے۔ (مفصل سکیم چند روز کے اندر تیار ہوکر ورکنگ کمیٹی کے سامنے آنے والی تھی)
چند روز بعد یہ سکیم لیگ مرکز کو تو بھیج دی گئی مگر اس کو اخبارات میں مصلحتاً شائع نہیں کیا گیا۔ بعد میں یہ سکیم ''پاکستان ایشو'' (PAKISTAN ISSUE) میں کسی صاحب نے حیدر آباد دکن سے شائع کردی۔
(7) اس سکیم کی خصوصیات یہ تھیں:۔
٭ مغربی پاکستان کی حدود آگرہ تک جائیں!
٭ دہلی اور مغربی یو۔پی کے چند اضلاع
٭ مغربی پاکستان میں رہیں!
٭ راجپوتانہ سارا پاکستان میں شامل ہو!
٭ مشرق میں سارا بنگال، سارا آسام، اور بہار کے چند اضلاع پاکستان کو ملیں! اس سکیم کے تحت ہندوستان کی مسلم آبادی کا تین چوتھائی حصہ پاکستان میں آکر محفوظ ہوجاتا تھا اور اس ریاست کے اندر مسلم آبادی کا تناسب 65 فیصد کے قریب بیٹھتا تھا۔ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بین المملکتی سطح پر انتظامات ہونے تھے۔ تبادلہ آبادی کا کوئی سوال نہیں اٹھتا تھا (کیونکہ) اس سکیم کے تحت پیدا ہونے والی پوزیشن اس قدر متوازن رکھی گئی تھی کہ کسی کو کسی پر زیادتی کرنے کی جرأت نہ ہوتی)
(8) سکیم پیش کرنے کے وقت ہم نے صاف طور سے مرکز کو بتا دیا تھا کہ مجوزہ اسلامی ریاست کا دفاع اور مسلمان قوم کی اکثریت کا تحفظ، صرف اس صورت میں ہی ہونا ممکن ہوگا۔ اگر اس ساری سکیم کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ بصوتر دیگر بڑی دشواریاں پیدا ہوجائیں گی۔
(9) جب لاہور والا اجلاس قریب آگیا تو اس سکیم کو سامنے رکھ کر دہلی میں ایک قرارداد کا خاکہ تیار ہوا جس کے تیار کرنے میں اس خاکسار اور چند ایک اور بزرگوں کا بھی ہاتھ تھا۔
(10) حضرت قائداعظمؒ نے یہ خاکہ میرے سپرد کیا کہ وہ لاہور لے جاکر سرسکندر حیات مرحوم کودکھاؤں اور ان کی رضا مندی حاصل کروں تاکہ وہ آنے والے اجلاس میں پیش ہوکر بالاتفاق رائے منظور ہوسکے۔
(11) سرسکندر نے اس خاکہ پر غور کرنے کیلئے ان اصحاب کو اپنے یہاں بلایا:
(1) مولانا غلام رسول مہر(2) ڈاکٹر شیخ محمد عالم (3) میر مقبول محمود اور (4) یہ خاکسار۔
ہم نے وہاں پر اس خاکہ کو قرارداد کی صورت دی۔
(12) یہ مسودہ میں نے واپس دہلی آکر قائداعظم علیہ الرحمۃ کی خدمت میں پیش کردیا، جس پر لاہور میں اجلاس سے ایک روز پہلے آخری طور پر، ورکنگ کمیٹی نے غور کیا اوراس کومنظور کیا۔ ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس ''ممدوٹ ولا'' میں ہوا۔
(13) شام کواجلاس کی سبجیکٹ کمیٹی میں یہ مسودہ پیش ہوا۔ اس وقت یکایک مجھے خیال آیا کہ مسودہ میں ایک خلا رہ گیا ہے۔ جس کو اسی وقت پورا کردینا چاہیے۔ وہ خلا یہ تھا کہ ہم نے اپنی سکیم میں تو یہ سفارش کی تھی کہ ہمارے موجودہ صوبوں کے علاوہ کچھ اور علاقے بھی ہندوستان سے کاٹ کر ہمارے حوالے کیے جائیں (مثلاً دہلی، آگرہ، مغربی یو۔پی کے بعض اضلاع، راجپوتانہ، بہار اور آسام کے کچھ اضلاع وغیرہ) مگر قرارداد کے اندراس چیز کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی، لہٰذا میں نے ایک ترمیم لکھ کر قائداعظمؒ کے سامنے رکھ دی جس کے الفاظ یہ تھے:
''SUBJECT TO SUCH TERRITORIAL READJUSTMENTS AS MAY BE FOUND NECESSARY''
''یعنی ضروری علاقائی حد بندی کے روّو بدل کے ساتھ!''
قائداعظمؒ کو میں نے ترمیم کا مقصد بتادیا اور انہوں نے میرا نقطۂ نظر منظور فرما کر ترمیم کو مسودہ قرارداد میں شامل کردیا۔ یہ الفاظ آپ کو آج بھی قرارداد لاہور کے اندرنظر آئیں گے۔
(14) دوسرے روز یہ قرارداد کھلے اجلاس میں پیش ہوئی اور منظور ہوگئی۔
(15) اب اس قرارداد کی بنیاد ان چیزوں پر تھی:۔
(الف) کہ پاکستان ہماری پیش کردہ سکیم کے مطابق بنے گا۔
(ب) ہماری اپنی اکثریت والے صوبوں کی قطع و برید نہیں ہوگی۔
(ج) ہماری سرحدیں ایک طرف آگرہ تک جائیں گی اور دوسری طرف بہار سے آکرملیں گی۔
(د) ہمارے قبضہ میں نہ صرف ہمارے اپنے موجودہ صوبے آئیں گے بلکہ ان کے علاوہ کئی اور علاقے اور ریاستیں بھی ہمارے حصے میں آئیں گی۔
(ھ) اقلیت،آزادی اورآبادی کے ردوبدل کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔
(و) برصغیر کا آئندہ نقشہ اس قدر متوازن ہوگا کہ دفاع آسان ہوجائے گا۔ ہندوستان اس قدر بڑا، اور پاکستان اس قدر چھوٹا نہیں رہ جائے گا کہ ایک کی دوسرے پر مستقل دھونس جاری رہے گی اور پاکستان کا دفاع ایک نازک مسئلہ بن جائے گا۔
(ز) چونکہ اتنے نئے علاقے ہماری حدود کے اندر آنے والے تھے جن میں کچھ دیسی ریاستیں بھی واقع تھیں لہٰذا اس مجموعہ اضداد کو چلانے کے لیے دفاعی نوعیت کا نظام ہونا ضروری ہوگا۔
(ح) کشمیر یا جوناگڑھ کے الحاق وغیرہ پر کوئی جھگڑا پیدا نہیں ہوگا۔
قرارداد لاہور کے اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے آپ اگر اس پاکستان پرنظرڈالیں جو آخری طور پر ہماری قسمت میں لکھا گیا تو آپ بلاشبہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ چیز اس تصور سے قطعاً مختلف ہے جس تصور پر قرارداد لاہور کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ہمارے پاس کوئی اور علاقہ تو نہیں آیا مگر ہمارے اپنے علاقوں پر بھی آرا چل گیا۔ کشمیر اور جوناگڑھ کا مسئلہ ایک عقدہ لاینحل بن گیا۔ ہمارے دفاع کا مسئلہ سخت پیچیدہ ہوگیا۔ اپنے مقابلہ میں ہم کو کمزور پاکر ہندوستان کی خُو بدل گئی۔ ہر دوسرے تیسرے سال ہندوستان والے ہماری سرحدوں پر اپنی فوجیں لاکر ہم کو ڈرانے لگے۔ ہماری ''اکانومی (ECONOMY) کی نوعیت اس سے قطعاً مختلف ہوگئی جو قرارداد لاہور مرتب کرتے وقت ہمارے پیش نظر تھی۔