سانحہ یوحنا آباد اور مسیحی برادری

زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ان کے ساتھ برابری کا سلوک نہ کیا جاتا ہو۔


Shakeel Farooqi March 24, 2015
[email protected]

لاہور کے مسیحی آبادی والے علاقے یوحنا آباد میں گزشتہ دنوں دو گرجا گھروں پر ہونے والے خودکش حملے کی ہلاکت خیزی پر ہر آنکھ ابھی تک اشکبار اور ہر دل سوگوار ہے۔ اس جاں سوز حملے میں 15 انمول انسانی جانیں چلی گئیں جن میں دو پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ پولیس اور رضاکاروں کی موجودگی حملہ آوروں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ورنہ تو جانی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوسکتا تھا کیونکہ دونوں گرجا گھروں میں دعائیہ تقریب میں لوگوں کی کافی بڑی تعداد اکٹھا تھی۔ مشتعل لوگوں نے دو مشکوک افراد کو جنھیں پولیس نے اپنی تحویل میں لیا ہوا تھا طاقت کے زور پر چھڑا کر بری طرح زدوکوب کیا اور پھر انھیں زندہ جلادیا۔ جمہوریت کے دور میں Mobo Cracy کی یہ بدترین مثال تھی۔

مسیحی برادری نے گرجا گھروں پر ہونے والے اس حملے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جس کے بعد دھرنے بھی دیے گئے اور توڑپھوڑ بھی ہوئی۔ احتجاج کرنے والوں میں کچھ شرپسند عناصر بھی شامل ہوگئے جنھوں نے نجی اور سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچانے کے علاوہ روزی کمانے کے لیے آنے والے دو بے قصور انسانوں کو زندہ جلا کر دیکھتے ہی دیکھتے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ یہ انتہائی قابل مذمت حرکت تھی جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہی ہوگا۔سچ پوچھیے تو یہ ظالمانہ اقدام بھی مسیحی عبادت گاہوں پر حملے جتنا ہی قابل مذمت ہے۔

بدقسمتی سے وطن عزیز میں پرتشدد مظاہروں کے ذریعے گھیراؤ جلاؤ اور سڑکیں بلاک کرکے نظام زندگی کو درہم برہم کردینے کی جو روایت قائم ہوگئی ہے اسے ممکنہ طور پر جلد ازجلد سختی کے ساتھ ختم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں نہ صرف کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ جاتا ہے بلکہ خواہ مخواہ ملک و قوم کی جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے۔ اس طرح کے ردعمل سے مظلوموں کو انصاف ملنا تو دور کی بات ہے، ظلم کے شعلوں کو مزید ہوا ملتی ہے اور ملک دشمن عناصر کو بیٹھے بٹھائے کھل کر کھیلنے کا موقع میسر آتا ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ملک و قوم کے مفاد میں سڑکوں کی ناکہ بندی اور دھرنوں کے اقدام پر قانوناً مستقل پابندی عائد کردی جائے۔

جوزف کالونی گوجرہ، کوٹ رادھا کشن اور یوحنا آباد کا تازہ ترین سانحہ انسانیت اور ملک دشمن تخریبی عناصر کا وہ گھناؤنا حربہ ہے جو وہ ایک عرصہ دراز سے وطن عزیز میں استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد محب وطن اور امن پسند مسیحی برادری کو اشتعال دلا کر اس مملکت خداداد میں پروان چڑھنے والی بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا اور قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں، سکھوں، مسیحیوں اور پارسیوں سمیت تمام مذاہب کے ماننے والوں کو نہ صرف برابر کے حقوق حاصل ہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ان کے تعلقات انتہائی گہرے اور خوشگوار ہیں۔ مگر یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ اسلام امن و سلامتی کا درس دیتا ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو نہ صرف آئین اور قانون کی رو سے مکمل آزادی حاصل ہے بلکہ ہمارے معاشرے میں بھی ان کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ان کے ساتھ برابری کا سلوک نہ کیا جاتا ہو۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک سابق ممبر قومی اسمبلی اور ہوٹل انڈسٹری کے ممتاز نمایندے نے تو ریڈیو پاکستان کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ''آپ ہمیں اقلیتی برادری کا فرد نہ کہیں بلکہ مراعات یافتہ طبقے کا ایک ممبر کہیں۔'' آنجہانی چیف جسٹس اے آر کارنیلیئس اور رانا بھگوان داس کے مقام و عظمت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑنے والے مایہ ناز کھلاڑی والیس میتھائس کا تعلق بھی مسیحی برادری سے تھا اور منفرد گلوکار ایس بی جون کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے۔

دفاع وطن کے لیے گراں قدر قربانیاں پیش کرنے والوں میں بھی ہمارے مسیحی سپوت کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ مادر وطن کو اپنے معرض وجود میں آنے سے لے کر اب تک جب بھی ضرورت پڑی افواج پاکستان میں شامل اس دھرتی کے بہادر اور جان فروش بیٹوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کے شانہ بہ شانہ بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا اور وقت ضرورت اپنی جانیں اپنی دھرتی ماں پر نچھاور کردیں۔ جہاد کشمیر 1948 کے دوران پانڈو کے مقام پر سبز و سفید ہلالی پرچم لہراتے ہوئے مسیحی یونس ولد قیصر بھی قافلہ مجاہدین میں جان عزیز کا نذرانہ پیش کرنے والوں میں برابر کے شریک تھے۔ جہاد کشمیر ہو یا 1965 کی پاک بھارت جنگ، یا 1971 کا معرکہ یا 2003 سے لے کر آج تک جاری شورش، مسیحی جاں باز اپنے مسلم اہل وطن سرفروشوں کے شانہ بہ شانہ ہر معرکے میں شریک ہیں اور ارض پاک پر اپنا سب کچھ قربان کردینے والے وطن کے سجیلے جوانوں میں کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں۔

تعلیم پاکستان، تعمیر پاکستان اور دفاع پاکستان میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے بہادر جوانوں اور افسروں کا کردار ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر کرنل مارون کورڈوزا کی زیر کمان 33TOC ڈلیوری یونٹ نے 25 کیولری کے جاں بازوں کے ساتھ مل کر اپنے دشمن بھارت کے 600 ٹینکوں کی بھاری تعداد کو پچھاڑنے کی ایک ناقابل فراموش داستان رقم کی تھی۔ اس کے بعد 1971 کی پاک بھارت جنگ میں لاہور قصور کے محاذ پر جو اٹھارہ یونٹ اپنی دھرتی کے دفاع کے لیے دشمن کے مقابلے کے لیے سینہ سپر تھے ان میں سے 9 یونٹوں کے کمانڈنگ آفیسرز کا تعلق بھی مسیحی برادری سے تھا۔ اس کے علاوہ بھی پاک فوج میں شامل مسیحی نوجوانوں اور افسرانوں کی ایک طویل فہرست ہے جس کا یہ مختصر کالم متحمل نہیں ہوسکتا۔

ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے وقت فضائیہ کے جن افسران نے اپنی خدمات پیش کیں ان میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مسیحی افسران بھی شامل تھے۔ پاکستان کی فضائیہ کی بنیادوں کو مضبوط اور مستحکم کرنے والوں میں ایئرکموڈور بلونت کمار داس جیسے عظیم اور جذبہ وطن سے سرشار مسیحی بھی شامل تھے۔ پاکستان ایئرفورس میں ستارہ جرأت سے نوازے جانے والے 70 افسران میں سے 7 افسران کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔1971 کی پاک بھارت جنگ میں اپنی بے مثل ہمت و شجاعت کی ناقابل فراموش داستان رقم کرنے والے اسکواڈرن لیڈر سیسل چوہدری کا شمار بھی ان ہی عظیم فرزندان پاکستان میں ہوتا ہے ۔اعظم معراج نے اپنی خوبصورت کتاب بعنوان ''سبز و سفید ہلالی پرچم کے محافظ و شہدا'' میں مسیحی برادری کے ان سپوتوں کی داستانیں بڑی تفصیل سے رقم کی ہیں۔ پیراماؤنٹ بکس (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے زیر اہتمام شایع ہونے والی یہ انتہائی دلچسپ اور معلومات افزا خوبصورت کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں