نواب اکبر بگٹی کی تلخ و شیریں یادیں

کراچی آکر میں نے پہلا کام یہ کیا کہ مجید نظامی صاحب کو فیکس کر کے ساری صورتحال سے آگاہ کیا

1986ء کی بات ہے۔ بلوچستان میں شورش، مزاحمت، قومی حقوق کی جدوجہد اور نقل مکانی کی شوریدہ سری عروج پر تھی، امکانات اور خدشات کے گرم بگولوں کا رقص جاری تھا ۔ سردار عطاء اﷲ مینگل، سردار خیر بخش مری، شیر محمد عرف جنرل شیروف، اجمل خٹک اور کئی رہنما بلوچستان اور خیبر پختونخوا (صوبہ سرحد) سے ہجرت کر چکے تھے، میڈیا اس کو خود ساختہ جلاوطنی کہتا تھا۔ ساڑھے گیارہ بجے تھے، نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی کراچی آئے ہوئے تھے، مجھے بلا کر پوچھنے لگے کہ بلوچستان کے سردار اور دیگر بلوچ و پختون قوم پرست رہنما کابل کیوں جا رہے ہیں، میں نے جواب میں کہا کہ آپریشن ایک وجہ ہوسکتی ہے، نظامی صاحب نے ہدایت کی کہ میں کوئٹہ روانہ ہوجاؤں اور نقل مکانی کے اسباب، اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کر کے بلوچستان کی حقیقی سیاسی صورتحال کا جائزہ لوں، وہاں سے سیاسی خبریں، پولیٹیکل ڈائری ارسال کروں۔

کوئٹہ کے بیورو چیف عزیز بھٹی (مرحوم) اس وقت معاونت پر تیار تھے۔ میں بذریعے بولان میل کراچی سے روانہ ہوا ۔ کوئٹہ سٹیشن سے بلوم لگثری ہوٹل پہنچا، صبح ہوئی تو فون کی گھنٹی بجی، ریسپشنسٹ نے اطلاع دی کہ صبا دشتیاری آئے ہیں، دیکھا تو ایک قلندر صفت نوجوان درویش کی صورت وہ اپنے کھدر کے لباس میں ہوٹل کے کاؤنٹر پر کھڑے تھے، میں نے بتایا نہیں تھا اور وہ آگئے۔ صبا کے بچپن اور جوانی کا شجر سایہ دار میرے گھرکے اندر سے نمو پزیر ہوا تھا، اسلامک اسٹڈیزکے لیکچرر تھے، مجھے بلوچستان یونیورسٹی لے گئے اور اپنے ہاسٹل کے چھوٹے سے کمرے میں مہمان بنا لیا، وہاں ممتاز ادبی شخصیت عبداللہ جمالدینی، ان کے ہونہار بیٹے جیئند جمالدینی اور دیگر طلبا سے شرف ملاقات حاصل ہوا۔

لمحوں میں میرا پورا پروگرام اب صبا کے ذہن میں تھا۔ اسی رات کو میں نے وطن جمہوری پارٹی کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کو فون کیا کہ نواب صاحب، میں یہیں آپ کے شہر کوئٹہ میں موجود ہوں،آپ کا انٹرویو کرنا ہے،'' ایک گرجدار آواز نے مجھے حکم دیا کہ ''کہاں ہو ؟'' میں نے جواب دیا ''صبا دشتیاری کے پاس ہوں،'' بے اختیار کہنے لگے ''اس کھدر پوش پروفیسر کے پاس جو لیاری سے آیا ہے۔'' بگٹی مرحوم کا لہجہ پاٹ دار اور فقرے بازی کاٹ دار تھی، پھر ہدایت کی کہ ''ایم پی اے ارجن داس کے گھر فوراً پہنچو، وہ تمہیں میرے پاس لائیگا۔''

ارجن داس ہندو کمیونٹی کے شاندار ہنس مکھ رکن اسمبلی تھے، جناح روڈ پر کسی سے پوچھ کر ارجن داس تک پہنچا مگر رات کے 11 بجے تک انتظار کرتے کرتے میں ناکام و نامراد واپس یونیورسٹی ہاسٹل آگیا، صبح بگٹی صاحب کو کتھا سنائی تو ان کی فون پر برہمی مجھے آج تک یاد ہے، ارجن داس کو کھری کھری سنائیں اور مجھے قدرے شرافت کے دائرے میں سخت ڈانٹا، میں نے معذرت کی اور پھر اسی رات کو ایک بڑے سے عوامی دربار کے ہال میں ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ تحریک استقلال پارٹی کے صوبائی صدر خدائے نور اور نور محمد اچکزئی بھی موجود تھے، شومئی قسمت! مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ ان دنوں بگٹی صاحب خود پر اردو بولنے کی پابندی لگا چکے تھے اور کسی سے اردو میں بات نہیں کرتے تھے، اس خود ساختہ پابندی کی دلچسپ اور سنسنی خیز کہانی آگے آئیگی۔ میں نے ٹیپ آن کیا اور ابھی پہلا سوال ہی اردو میں کر رہا تھا کہ مجھے درمیان میں ٹوکا ''No Urdu''، پھر بلوچی میں فرمایا کہ ''تم کیسے صحافی ہو، پتا نہیں کہ میں اس زبان میں آجکل بات نہیں کرتا۔''

میں نے اپنی خفت مٹاتے ہوئے جلدی سے کہا کہ انٹرویو بلوچی اور گنگا جمنی انگریزی میں ٹھیک رہے گا؟ بے ساختہ مسکرائے، پینترا بدلا اور قہقہہ لگاتے ہوئے بولے'' پنجابی اخبار کا بلوچ رپورٹر! واہ کیا خوب تماشا ہے۔'' یوں پوری گفتگو ریکارڈ ہوئی، بگٹی ان سیاست دانوں میں تھے جن کی کوئی بات آف دی ریکارڈ نہیں ہوتی تھی بلکہ اکثر جو بات آن دی ریکارڈ کہتے اس کی اشاعت کے بعد رپورٹرز کی شامت آجاتی کہ ان کا بیان یا انٹرویو توڑ مروڑ کر کیوں شایع کیا۔وہ اس کے قائل ہی نہ تھے کہ سرخی نکالنے یا خبر و انٹرویو کی ذیلیوں سے رپورٹر کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ مگر وہ اس گناہ میں رپورٹر کو بھی قصوروار ٹھہراتے، میں کئی بار گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا جیسی صورتحال سے گزرا، ایک بار عبداللہ بلوچ کی بیٹی فاطمہ کی شادی میں سردار شیر باز مزاری صاحب نے میری صفائی میں بگٹی صاحب کے گلے شکوے دور کیے۔

کیا بعد المشرقین تھا نواب بگٹی و سردار مزاری کی شخصیات میں۔ ایک تلخ اور دوسرا شیریں ۔ لیکن اکبر بگٹی کا غصہ ہمیشہ عارضی ہوتا، چنانچہ میں نے ان سے بات چیت اور نیوز انٹرویو کے بعد گناہ بے لذت کے حوالے سے کافی مرتبہ بگٹی صاحب کو غضبناک پایا۔اس مرحلہ میں مجھے سینئر صحافی ''پیر و مرشد'' صدیق بلوچ کی مداخلت دوستانہ نے بچایا، بہر کیف جنرل ضیاء الحق کی ملک گیر بادشاہی تھی، بلوچستان کے سیکریٹری اطلاعات ممتاز شاعر عطا شاد تھے، بگٹی صاحب نے کھانا کھلانے کے بعد خدائے نور کو مخاطب کرتے ہوئے طنزاً کہا کہ دو گھنٹے باتیں کی ہیں اس نوجوان نے، اب کراچی جاکر چھوٹی سے نیوز اسٹوری لگا دیگا، اور اس میں بھی جنرل ضیا کا بلیک آؤٹ ہوگا، میں نے روانگی کے لیے اجازت مانگی اور بگٹی صاحب کو صرف اتنا کہا کہ کوشش کرونگا کہ آپ کی پوری بات اخبار کی زینت بن جائے۔


اپنے قیام کے دوران کئی شخصیات سے ملاقات رہی، عطا شاد نے ناشتہ پر گھر بلایا، پھر روزنامہ مشرق کے عالی سیدی سے ملاقات ہوئی، میرے قیام کو صبا دشتیاری اور عالی سیدی نے بہت آسان بنایا، بگٹی کی طرح صبا بھی نذر اجل کردیے گئے، سیدی واقعی ایک انسان دوست جرنلسٹ ہیں۔ ان سے دوستی فلم ایشا کے زمانہ میں ہوئی، یونیورسٹی میں کلاس لینے کے بعد صبا دشتیاری واپس اپنے کمرے میں آئے تو جواں سال ایکٹر حسام قاضی اندر داخل ہوئے، صبا کے اسٹوڈنٹ تھے ۔ ان دنوں ان کے ٹی وی ڈراموں اور سیریل کی دھوم مچی ہوئی تھی، صبا نے تعارف کرایا تو بہت خوش ہوئے ۔ حسام قاضی مجھے ایک رکشہ میں بٹھا کر دوستوں سے ملانے لے گئے۔ کوئٹہ میں، میں نے بڑے ٹی وی اسٹارز کو رکشے میں سفر کرتے، پیدل چلتے، اور فٹ پاتھ پر کرسیاں ڈالے گپ شپ میں مصروف دیکھا۔

کراچی آکر میں نے پہلا کام یہ کیا کہ مجید نظامی صاحب کو فیکس کر کے ساری صورتحال سے آگاہ کیا ۔ اکبر بگٹی صاحب کے گلے شکوے اور ان کے طنز کا حوالہ بھی دیا۔ کچھ ہی دیر بعد فون پر نظامی صاحب نے اجازت دی کہ بگٹی صاحب نے جو کچھ کہا ہے وہ As it is من و عن چھاپ دیں ۔ تیسرے دن قومی افق کے سیاسی ایڈیشن میں وہ پورا انٹرویو چھپا اور اس کے چھپتے ہی دوپہر کو ٹیلیفون آپریٹر جاوید کی آواز آئی '' شاہ جی،اکبر بگٹی بات کریں گے۔ '' ہیلو کی آواز سنتے ہی بگٹی صاحب گرجے ''تم لوگ پاگل تو نہیں ہوگئے، تم کی جگہ اس نے اخبار کا نام لیا۔

میں نے وضاحت کی جس میں پندار صحافت کا بھرم رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کو انٹرویو سے کوئی شکایت تو نہیں۔ موڈ میں تھے، کہنے لگے،''ابھی، اسی وقت ڈیفنس کے ''بگٹی بلک'' میں آجاؤ۔'' مجھے اچھی طرح ملے۔ بہت خوش تھے۔ مگر یہ خوشی عارضی تھی، مجھے مختلف روزناموں کے لیے تفصیلی خبر اور بالمشافہ انٹرویوز کے بعد بھی ندامت اور برگشتہ نواب کے جلال کا سامنا کرنا پڑا ۔ جمہوری وطن پارٹی کے زندہ دل اور یار باش رہنما رؤف ساسولی گواہ ہیں، ان سے پوچھئے کہ بگٹی بلک میں چند سال بعد ہم کس طرح بے آبرو ہوکر نکلے اور دوسرے دن بگٹی صاحب نے خود فون کر کے ہمیں بلایا اور شفقت سے گلے لگاتے ہوئے غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ وہ پہلی بار دروازے تک ہمیں چھوڑنے آئے۔

اب سنیئے اردو بولنے پر اکبر خان بگٹی نے اپنے آپ پر پابندی کیوں لگائی؟ بگٹی صاحب نے قومی اسمبلی کے رکن ہوتے ہوئے اردو بولنے سے کیوں انکار کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ماضی میں قومی اسمبلی میں انگریزی کا بھی بائیکاٹ کرچکے تھے۔ یہ در اصل ایک بڑے اخبار کی خبر کا شاخسانہ تھا۔ ہوا یہ کہ رپورٹر نے ٹیلکس پر کراچی سے بگٹی سے بات چیت کی خبر رومن اردو میں اسلام آباد و دیگر سٹیشنز کو روانہ کی، ٹیلکس کا زمانہ تھا، اس میں گڑبڑ ایک لفظ ''وشیری '' Washeri نے پیدا کی جس پر ہنگامہ برپا ہوگیا۔

میجر صولت رضا نے مجھے رنگ کر کے کہا '' سر، خدا کے لیے اس لفظ کا بلوچی اور سندھی ڈکشنری میں ڈھونڈ کر مطلب بتائیں، جان عذاب میں آ گئی ہے۔'' یار لوگ وشیری کی ایسی بے لغت تعریفیں، تفسیریں اٹھا لائے کہ الامان و الحفیظ۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی، بگٹی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ''یہ بات اپنی وڈیری سے پوچھ لو''۔ بس یہ لفظ وڈیری Waderi ''وشیری'' بن کر چھپ گیا۔ بگٹی اور بے نظیر صاحبہ دونوں نے اس ایک لفظ پر ایک دوسرے سے سخت برہمی کا مظاہرہ کیا، بات کسی اور موقع پر اتنی بڑھی کہ اکبر بگٹی نے اردو بولنے کا بائیکاٹ کردیا۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا


Load Next Story