عورتوں کی فلاح کا قافلہ

کیا ہندوستان، کیا پاکستان، جنوب سے لے کر وسط تک، لگتا ہے پورا ایشیا عورتوں کے معاملے میں عہد بربریت میں جی رہا ہے۔


عابد میر March 24, 2015
[email protected]

ہندوستان کے دارالخلافہ دلی میں ہونے والے مشہور زمانہ ریپ کیس کے مرکزی ملزمان سے گفتگو پہ مبنی بی بی سی کی ڈاکومنٹری دیکھ کر 'شائننگ انڈیا' کے چہرے سے نقاب یوں سرکتا ہے، جیسے پاکستان میں انتخابات سیاست دانوں کے چہروں سے نقاب کھینچ دیتے ہیں۔ یہ مختصر دورانیے کی فلم دیکھیے (جسے ہندوستان میں دکھانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے) تو اسٹار پلس کے ڈراموں کی چمکتی دنیا اور ہندوستانی فلموں کا رعب داب اپنی وقعت کھو دیتا ہے۔ عامر خان لاکھ 'رانگ نمبر' کی نشان دہی کریں، مگر اس سماج کی اکثریت اب تک رانگ نمبر ہی کے گرد بندھی ہے۔

کالج کی طالبہ کو ریپ کے بعد چلتی گاڑی سے پھینک کر قتل کرنے والے جب اپنے اعترافی بیانات کے بعد کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے اس طرح کے واقعات کا سبب خواتین کی بے پردگی کو قرار دیتے ہیں، تو بے اختیار ہمیں اپنے ہاں کا وہ رجعت پسند ملا یاد آتا ہے، جو عورت کو چار دیواری میں قید رکھنے کی باتیں تو فرفر سنا ڈالتا ہے، مگر مردوں کو نظریں نیچے رکھنے والی آیات بھولے سے بھی اس کی زباں پہ نہیں آتیں۔

ان مجرموں کے اعترافی بیانات سنتے ہوئے مجھے کوئی دس برس قبل کوئٹہ کا غلام مرتضیٰ عرف 'گوگا' یاد آیا، جس نے اپنے مالک سے چپقلش کی بنا پر اس کی چھ سالہ بیٹی کو ریپ کرکے قتل کردیا اور پھر اس قتل کے واقعے کے خلاف ہونے والے احتجاج میں بھی پیش پیش رہا۔ بعد از گرفتاری، اس کا اعترافی بیان بھی کچھ اسی نوعیت کا تھا۔ اس کی 'شرافت' یہ تھی کہ اسے افسوس ریپ پر نہیں، بلکہ 'خون ناحق' پر تھا۔ جیسے دلی ریپ کیس کے مرکزی مجرم کا اہم ترین اعلامیہ یہ تھا کہ 'اگر لڑکی مزاحمت نہ کرتی تو ہم صرف ریپ کرتے، قتل نہ کرتے۔'

کیا ہندوستان، کیا پاکستان، جنوب سے لے کر وسط تک، لگتا ہے پورا ایشیا عورتوں کے معاملے میں عہد بربریت میں جی رہا ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے مرد بھی عورت کی آزادی کے سوال پہ گڑبڑا جاتے ہیں۔ ہاں، یہ نعمت ہے کہ پاکستان میں 'سیونگ فیس' پر پابندی نہیں لگی۔ یہ اور بات عورتوں پہ تیزاب پھینکنے والوں پہ بھی کوئی پابندی نہیں۔ ایک عالمی ایوارڈ پاکستان کے نام کرنے والی شرمین عبید چنائے کے لیے اگرچہ طنز وتحقیر کا رویہ رکھنے والوں کی اکثریت سہی، پر اسی ملک میں ان کے ہم فکر انھیں سراہنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ عہد بربریت میں بھی آخر انسان تو ہوتے تھے نا... جنھیں اس بربریت کا نشانہ بننا ہوتا تھا۔

اور بات بلوچستان کی ہو تو اس معاملے میں جانیے کہ ہم گویا قبل از مسیح کی آبادی ہیں۔ جب پورا سماج بطور مجموعی پستی کی انتہا پر ہو، تو ایک عورت کی آزادی کی بات کرے کون اور سنے کون۔ پھر ایک عشرے سے اس سماج کا مہا بیانیہ ہی تبدیل ہوچکا ہے۔ عورت کو رہنے دیں ایک طرف، آپ علم کی، ادب کی، سیاست کی بات کریں تو 'کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے' والا جواب تیار ملے گا۔ گویا جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوتا، تمام تر سماجی معاملات کو معطل سمجھا جائے۔

چلیے انھیں رہنے دیں جن کی سرگرمیوں کا مرکز و محور ہی جدا ہے، سیاست کی بات کرتے ہیں، سیاست دانوں کی بات کرتے ہیں۔ بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں ایک بھی عورت جنرل نشستوں پہ کامیاب ہو کے نہیں آئی (ہاں ہاں، ایک نام موجود ہے، لیکن ان کی مستقل بدلتی وفاداریاں ہی عوام سے ان کی وفاداری کو مشکوک بنا دیتی ہیں، باقیوں کی کامیابی سے ہم آپ سبھی واقف ہیں)۔ ابھی حال ہی میں ایک سادہ لوح ہاری خاتون مائی جوری کو این جی اوز کے نام پہ استعمال کرکے سرداروں کے مدمقابل لایا گیا تو یہ سردار اس گھرانے کے درپے آزار ہوگئے۔

این جی اوز والے تو اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپس ہوئے، اور پھر حکمران جماعت میں جا کر پناہ لی، خاتون کی زندگی اجیرن ہوگئی، جب تک کہ اس کے پورے خاندان نے پھر سے سرداروں کی غلامی قبول نہ کرلی۔ ان 'سیاسی سرداروں' کے مدمقابل کوئی خاتون آجائے تو ان کے پاس مقابلے کے لیے ایک ہی ہتھیار ہوتا ہے، قبائلی روایات، غیرت کے طعنے۔ ان کی ڈھٹائی کا یہ عالم کہ اسلام آباد میں انھیں خواتین کی کسی تقریب میں بلائیے تو خواتین کے حقوق پہ بڑھ چڑھ کے بولتے ہوئے تھکیں گے نہیں۔ جمہوریت کی برکت دیکھیے، یہی سیاسی سردار، اپنی سیاست بچانے کو اب اپنے گھر کی خواتین کو اسی سیاسی عمل میں لانے پہ مجبور ہوئے ہیں، جسے وہ قبائلی روایات کے برخلاف، غیرت کا مسئلہ قرار دیتے تھے۔

یہ تو بھلا ہو آمر مشرف کا، جس نے جانے کس ترنگ میں آکر اسمبلیوں میں خواتین کو کوٹا بڑھا دیا، تو آج بلوچستان اسمبلی میں دوچار عام خواتین بھی نظر آجاتی ہیں۔ گویا اگر خواتین کی مخصوص نشستیں نہ ہوں، تو موجودہ اسمبلی ٹرین کے 'مردانہ ڈبے' کا منظر پیش کرے۔ صوبائی اسمبلی تو ایک طرف، بلدیاتی انتخابات کے ہزاروں کونسلرز میں ایک بھی خاتون منتخب نہیں ہوسکی۔ سیاسی جماعتیں خواتین کو مخصوص نشستیں دیتے ہوئے بھی ایسا رویہ اپناتی ہیں گویا احسان عظیم کر رہی ہوں۔

اب تو یہ عالم ہے کہ مخصوص نشستیں بھی اپنے ہی گھر کی خواتین کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئی ہیں۔ جنھیں کچن سے نکال کر محض ووٹ کے لیے باپردہ لایا جاتا ہے، اور پھر اسی چاردیواری میں لاکر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں اس وقت بھی بعض ایسی گھریلو خواتین ممبر اسمبلی ہیں، جنھیں اسمبلی کے معنی بھی نہیں آتے، جنھیں ایم پی اے کے اختیارات تک کا علم نہیں۔ کوئی آزاد میڈیا والا، کوئی عورتوں کے حقوق کا حامی ان کی باز پرس نہیں کرتا۔

ادھر ہم ایسے عورتوں کے حقوق کے نظریاتی حامیوں کا حال بھی کچھ قابل رشک نہیں۔ عورتوں کے حقوق پہ بڑھ چڑھ کے بولیں گے، لکھیں گے، بحثیں کریں گے، جلسے جلوسوں کی قیادت کریں گے، مگر اپنے گھر کی خواتین کی ان جلسوں میں شرکت ممنوع ہوگی۔ گھڑا گھڑایا نہایت 'سائنسی' جواز بھی موجود، یہ تبدیلی مشینی نہیں ہوتی بھائی، اسے ارتقائی انداز میں دیکھنا ہوگا۔ لیجیے، سماجی تبدیلی کے لیے تو انقلاب چاہیے، لیکن گھریلو تبدیلی کے لیے اصلاح پسندی۔ کیا ترقی پسند، کیا رجعت پرست، یہ قبائلی سماج کے ہر فرد کے اندر کا خوف ہے۔

عزت، غیرت، انا، ناک نیچے ہونے کا ڈر۔ کچھ کھوجانے کا ڈر۔ عورت کے راہ کھو دینے کا ڈر۔ سو، ہم خود تو یورپ میں پڑھنے کے خواب دیکھتے ہیں، لیکن اپنی بچیوں کو خواتین کے لیے مخصوص اداروں میں ہی بھجوانے میں ہی احتیاط سمجھتے ہیں۔ ہم سب، بالخصوص ہم لکھنے والے، سماجی تبدیلی تو مشینی انداز میں چاہتے ہیں، لیکن اپنی خواتین سے ہم معذرت خواہ ہیں کہ وہ اپنی حالت میں تبدیلی کے لیے ذرا سماجی ارتقا کا انتظار کریں۔ ارتقا، آخر کبھی تو انقلاب کے دہانے پہنچے گا... صد شکر کہ وہ دل دوز مناظر دیکھنے کو ہم نہ ہوں گے۔

رہی عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والی سماجی تنظیمیں،اور این جی اوز ..... تو صاحب ان کا تو ذکر ہی رہنے دیں۔ ہمارے ہاں اول تو ایسی تنظیموں میں اکثریت مردوں کی ہی ہوتی ہے، جو یوں بڑھ چڑھ کر عورتوں کے حقوق پہ تقریریں کریں گے کہ بے اختیار ان پہ پیار آجائے، لیکن انھی اداروں میں خواتین کا سب سے زیادہ استحصال انھی افراد کے ہاتھوں ہو رہا ہوتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے نام پہ پیسے بٹورنے والی یہ تنظیمیں سب سے زیادہ مجرم ہیں، سب سے زیادہ ناقابل اعتبار ہیں، سب سے زیادہ منافق ہیں۔ ان سے تو دوری ہی بھلی۔

تو پھر خواتین جائیں کہاں؟... کہیں نہ جائیں، بلکہ مل جائیں۔ آپس میں مل جائیں، خواتین کی آزادی اور برابری کی جدوجہد میں عملی (محض نظری نہیں) طور پر شامل مردوں کے ساتھ مل جائیں۔ سماجی تبدیلی کے حقیقی قافلے سے جڑ جائیں، کہ انسانی فلاح کی کوئی سرگرمی مجرد طور پر ممکن ہی نہیں، انسانی فلاح تو بنی نوع انسان کی مانند ایک قافلے کا تسلسل ہے۔ سو، قافلے سے جڑے رہنے میں ہی بھلائی ہے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے رہنے میں ہی عافیت ہے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں