جمہوری مزاج کی پارٹی

مسلمانوں کے مزاج میں جمہوریت نہیں ہے تو اس کے حکمرانوں میں جمہوری مزاج نہیں آسکتا۔

mohsin014@hotmail.com

مسلمانوں کے مزاج میں جمہوریت نہیں ہے تو اس کے حکمرانوں میں جمہوری مزاج نہیں آسکتا۔ یہی وجہ ہے جہاں مسلم ممالک ہیں ان میں کسی بھی ملک میں جمہوریت اس طرح نہیں ہے جس طرح اس کو ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں بھی جمہوری مزاج کسی حد تک ان سیاستدانوں میں ہے جن کی زندگی مغربی ماحول میں گزری۔ پاکستان میں بھی قائداعظم محمد علی جناح جو اصول پسند اور جمہوری مزاج کے تھے، انھیں تو پاکستان بننے کے بعد زندگی نے اتنی مہلت ہی نہیں دی کہ وہ پاکستانی قوم کو بھی جمہوری مزاج میں ڈھالتے۔

ان کے بعد جتنے بھی رہنماؤں کو قیادت کا موقع ملا وہ بھی پاکستان کو ایک جمہوری آئین تک نہ دے سکے۔ چاہے 1952 کا آئین ہو یا 1956 یا 1962 کا آئین۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وہ واحد سیاسی رہنما تھے جنھوں نے پاکستان کے عوام کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پی پی پی کی شکل میں دیا اور انھوں نے 1973 کا آئین بنایا جو پارلیمانی اور جمہوری مزاج کا تھا۔ ان کی اس پارٹی میں آئین اور قانون سے وابستہ افراد کی شرکت زیادہ تھی جو یا تو بیرسٹر تھے یا کم سے کم وکیل، سب کسی حد تک جمہوری مزاج میں ڈھلتے چلے گئے۔

پی پی پی واحد سیاسی پارٹی ہے جو 1967 میں وجود میں آئی، اس جماعت کا یہ ریکارڈ ہے اس نے کبھی کسی غیر جمہوری عمل، غیر جمہوری قانون کی حمایت نہیں کی۔ اس جماعت نے کبھی چور دروازے سے اقتدار حاصل نہیں کیا، ہمیشہ جمہوری جدوجہد کو جاری رکھا۔ اس جمہوریت کی بقا کی خاطر اس پارٹی کے دو قائد ایک باپ ایک بیٹی قربان ہوگئے۔ اس جمہوری جدوجہد میں اس پارٹی کے قائد نے اپنے دو جوان بیٹوں کی قربانی بھی برداشت کی۔ آج تک اس پارٹی سے وابستہ سیاسی کارکن سے لے کر رہنماؤں تک، سب کے مزاج میں جمہوریت نوازی ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو تک یہ پارٹی جمہوری جدوجہد میں صعوبتوں اور مشکلات سے دوچار ہوتی رہی اور محترمہ کے شوہر، ذوالفقارعلی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری نے جب قیادت سنبھالی تو کافی خدشات پیدا ہوئے کہ شاید پارٹی کمزور ہوجائے گی، لیکن آصف علی زرداری نے اس پارٹی کی حکومت بھی بنائی اور پوری پانچ سالہ مدت کو پہلی مرتبہ پاکستان میں مکمل کیا۔ حالانکہ بہت سے غلط فیصلوں کی وجہ سے پی پی پی کو پنجاب میں بہت نقصان ہوا۔

میں نے اپنے سابقہ کالم میں لکھا تھا کہ آصف علی زرداری ملک کی صدارت کے بجائے پارٹی کو پنجاب میں بسنے والا خون رنگ لاتا، پی پی پی جس کی اکثریت پاکستان کے 62 فیصد صوبے میں ہوا کرتی تھی وہ کبھی ختم نہ ہوتی۔ محترمہ کی زندگی میں تو سازش کے ذریعے پنجاب میں اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا، جس کا احساس ہر سیاسی شعور والے انسان کو تھا، ورنہ محترمہ کے زمانے ہی میں پی پی پی پنجاب میں مضبوط ہوسکتی تھی۔ انھوں نے بھی بہت سے غلط فیصلے کیے جس کی وجہ سے پنجاب میں پی پی پی کی مقبولیت کم ہوئی۔ اگر وہ مصطفیٰ کھر کو ساتھ ملا کر رکھتیں تو پی پی پی پنجاب میں کمزور نہ پڑتی۔


بڑا افسوس یہ ہوتا ہے اتنی قربانیاں دینے والی جمہوری مزاج کی پارٹی کی SEATS میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی ہوتی رہی، اس میں پارٹی پالیسی پر توجہ دینا چاہیے تھی۔ سندھ میں بھی صرف دیہی ووٹ رہ گیا ہے، بلوچستان، کے پی کے، پنجاب میں تو کوئی سیٹ نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ آج بھی اگر پی پی پی اپنی پارٹی پالیسی کو بہتر بنائے تو یہ ہر صوبہ، ہر شہر میں مقبول جماعت ہوسکتی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں آصف علی زرداری خود براہ راست وہاں کے معاملات دیکھیں اور اسی طرح شیر پاؤ جیسی شخصیات کو کے پی کے، کے معاملات اور بلوچستان میں تنظیم نو کرکے حالات کو قدرے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

پی پی پی کی مقبولیت کا بحال ہونا ناممکن نہیں، خاص طور پر عمران خان کی تحریک انصاف جس نے مقبولیت پائی مگر ان کی سیاسی ناپختگی سے ان کے ووٹ میں کمی کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ عمران خان ایک اچھے منظم تو ثابت ہوسکتے ہیں مگر اچھے سیاستدان نہیں۔ انھوں نے 22 ویں ترمیم پر جس طرح نوازشریف کی حمایت میں یوٹرن لیا اس سے ان کی ابھرتی ہوئی سیاسی ساکھ بہت متاثر ہوئی ہے، اس طرح نواز شریف کی مقبولیت بھی غیر جمہوری لوگوں میں زیادہ ہے لیکن جمہوری مزاج والے آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے حامی ہیں۔

پی پی پی میں ایک یوتھ پی پی پی بنائی جائے جو 18 سال سے 35 سال تک کے جوانوں پر مشتمل ہو اور اس یوتھ کا پورا اختیار بلاول بھٹو زرداری کو دیا جائے تاکہ وہ شہر شہر، گاؤں گاؤں جا کر نوجوانوں کو دعوت دیں جو سیاست میں آنا چاہتے ہیں، انھیں پی پی پی کا ایسا پلیٹ فارم ملے گا جس کی قیادت بلاول بھٹو زرداری جیسے جوان کے پاس ہو۔ پی پی پی کو اپنی تنظیم نو کرنی ہوگی۔ ہر کوچہ میں اپنے وارڈ آفس بنانے ہوں گے، چاہے وہاں سے جیتے ہو یا ہاریں مگر کم سے کم پاکستان کی دوسری جماعت تو رہیں گے۔ تنظیم نو کے ذریعے لاکھوں جوان اس جماعت میں آنا چاہتے ہیں، انھیں خاص طور پر پنجاب میں، کے پی کے میں اور بلوچستان میں منظم کیا جائے۔

پی پی پی ان تمام کارکنوں کو تمام رہنماؤں کو فرنٹ لائن سے ہٹائیں جن کے نام لوٹ کھسوٹ، سفارش، مال لینے میں بہت لوگوںکی زباں پر ہیں۔ یہ پارٹی پاکستان کی واحد غریب پرور پارٹی تھی، اسے ویسا ہی ہونا ہوگا۔ بے روزگاری، تعلیم، صحت کے معاملات میں ایسی پالسیاں لائے جن سے عام آدمی بغیر مال و زر دیتے ہوئے مستفید ہو۔ اگر اس بات پر توجہ نہ دی تو شاید وہ دن دور نہیں جب پی پی پی کی مقبولیت لاڑکانہ میں بھی نہ رہے گی۔ سردست اس پارٹی کو رشتے داروں کے ذریعے چلانے کی رسم ختم کرنا ہوگی۔ اس پارٹی کے قدیم کارکن بہت قیمتی سرمایہ ہیں، ان سب کو ساتھ لے کر چلا جائے۔


Load Next Story