کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال
ولی بابر سمیت کئی ہائی پروفائل قتل کی وارداتوں میں ایم کیو ایم کے کارکنوں پر الزامات لگے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور ایم کیو ایم کے صوبائی حکومت میں شمولیت کے امکانات پیدا ہوگئے۔
پھر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے حالات کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے ایم کیو ایم سے معذرت کرلی اور ایم کیو ایم نے بھی فوری طور پر سندھ حکومت میں شمولیت سے انکار کیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے تین دن تک قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ پھر ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جرائم کے خاتمے کی آڑ میں متحدہ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ صولت مرزا ہر جماعت میں ہیں، ایسا نہ ہو کہ نواز شریف اور ہم اٹک جیل میں اکٹھے ہوں۔
سونامی گزر گیا تو کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ اگر ایم کیو ایم کے دفاتر پر سونامی گزرا تو پھر کراچی میں ہر سیاسی جماعت کے دفاتر محفوظ نہیں رہیں گے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ کراچی میں امن وامان کی بحالی اور جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کے لیے ہمارا تعاون حاضر ہے۔
انھوں نے کہا کہ کریمنل کسی بھی سیاسی جماعت کے ہیڈ کوارٹر سے بھی گرفتار ہو جائے تو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ اس کا تعلق اسی جماعت سے ہے۔ کریمنل لوگوں کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ انھوں نے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کراچی آپریشن کے لیے غیر جانبدار مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جائے اور تمام سیاسی جماعتوں کے گند صاف کیے جائیں۔
جب تین سال قبل سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی کی صورتحال کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے مقدمے کی سماعت کی تھی تو عدالت کے سامنے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کے وکلاء، انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ اعلیٰ پولیس افسران اور رینجرز کے سربراہ بھی پیش ہوئے تھے اور سرکاری وکلاء نے کراچی کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹیں پیش کی تھیں۔
فاضل عدالت نے اپنے طویل فیصلے میں لکھا کہ کراچی میں سرگرمِ عمل سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز موجود ہیں اور پولیس میں سیاسی بنیادوں پر تقرریاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح کراچی کے مضافاتی علاقوں میں لینڈ مافیا موجود ہے جو کریمنلز سے جڑی ہوئی ہے۔ اس وقت کے آئی جی پولیس واجد درانی نے اپنے بیان میں اقرار کیا تھا کہ پولیس میں 60 فیصد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہیں اور ان کے پاس گریڈ 17 اور اوپر کے گریڈوں کے عہدوں پر تقرریوں اور تبادلوں کا اختیار نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کی اس رپورٹ پر نہ تو وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومتوں نے توجہ دی اور نہ ہی کراچی کے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی سیاسی جماعتوں نے اس رپورٹ کی اہمیت کو محسوس کیا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے ایک دفعہ پھر اپنے بیانات میں اس الزام کو غلط قرار دیا کہ ان کی جماعتیں مسلح طریقوں پر عمل کر کے اپنے اہداف حاصل کرتی ہیں، مگر کراچی کی صورتحال خراب ہوتی ہی چلی گئی۔ پہلے سیاسی کارکن ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، پھر لسانی بنیادوں پر قتل کا سلسلہ جاری رہا۔
اس کے ساتھ ہی خودکش حملوں ، ریموٹ کنٹرول کے ذریعے بموں اور بھتے کے لیے دستی بموں کے استعمال کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مزید براں اقلیتی فرقوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہوئے، فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگیٹ کلنگ کے سلسلے کا آغاز ہوا جو کسی طور تھم نہ سکا۔ یوں تو پورا کراچی ہی اس صورتحال کا شکار رہا مگر اورنگی ٹاؤن، کراچی سینٹرل اور کراچی ایسٹ میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ بڑھ گئی۔
ولی بابر سمیت کئی ہائی پروفائل قتل کی وارداتوں میں ایم کیو ایم کے کارکنوں پر الزامات لگے۔ دوسری جانب لیاری میں پیپلز پارٹی پر پیپلز امن کمیٹی کی سرپرستی کے سنگین الزامات عائد ہوئے۔ یہ بھی کہا گیا کہ امن کمیٹی نے پیپلز پارٹی کو انتخابات میں ٹکٹ دینے پر مجبور کیا مگر پیپلز پارٹی نے بعد میں اپنے ان کارکنوں کو پارٹی سے نکال دیا جو امن کمیٹی کے عہدیدار تھے اور امن کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیدیا۔ سندھ حکومت کی ہدایت پر لیاری میں آپریشن ہوا ۔
جب کراچی آپریشن شروع ہوا تو رینجرز اور پولیس نے لیاری میں ایک مربوط آپریشن کیا۔ تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے کراچی پریس کلب اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنے دیے۔ اب لیاری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں حالات نسبتاً بہتر ہوتے جارہے ہیں۔
ایم کیو ایم کی قیادت کو اس بات کا اقرار کرنا چاہیے کہ انھوں نے صورتحال کا حقیقی طور پر ادراک نہیں کیا، یوں ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کو نوبت آگئی، مگر یہاں بھی کراچی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ایم کیو ایم نے اردو بولنے والی برادری کو قومیت کے سیکولر نعرے پر متحد کیا تھا۔ اردو بولنے والوں کی اکثریت پہلے مسلم لیگ ،پھر جماعتِ اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان جیسی رجعت پسند جماعتوں کی حامی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم نے طالبان کے خلاف ہمیشہ سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ گذشتہ 20 برسوں سے مذہبی انتہاپسند تنظیمیں اردو بولنے والوں میں سرائت کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ کراچی کی مضافاتی پٹی جو گھگھر پھاٹک سے شروع ہوتی ہے اور بلوچستان کے سرحدی علاقے حب تک جاتی ہے، اس کے بارے میں شبہ کیا جارہا ہے کہ یہاںں طالبان موجود ہیں۔ پھر ایم کیو ایم کے مضبوط علاقوں اورنگی ٹاؤن، فیڈرل بی ایریا، شاہ فیصل کالونی وغیرہ میں بھی مدارس کا جال بچھ گیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی یہ بات درست ہے کہ ایم کیو ایم کو طاقت کے ذریعے کچلا گیا تو پھر انتہاپسند تنظیموں کو تقویت ملے گی۔
اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایم کیو ایم کو سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع دیا جائے اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے مگر تمام آپریشن قانون کے دائرے میں ہونے چاہئیں اور ان سے کسی بھی طرح کی انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو۔ آصف زرداری کی ایم کیو ایم سے یکجہتی کی حکمت عملی سیاسی دانائی پر مبنی ہے۔ ایم کیو ایم کو بھی سندھ حکومت میں شامل ہونا چاہیے۔
آصف زرداری کو سندھ حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ کراچی میں بے روزگاری کے خاتمے ،خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے حکومتِ سندھ اپنی پالیسی میں ترمیم کرے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت بھی کراچی کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کرے۔ کراچی میں ماس ٹرانزٹ منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوجانا چاہیے۔ ایم کیو ایم ایک سیکولر جمہوری جماعت کے طور پر جمہوری نظام کے استحکام میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
پھر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے حالات کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے ایم کیو ایم سے معذرت کرلی اور ایم کیو ایم نے بھی فوری طور پر سندھ حکومت میں شمولیت سے انکار کیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے تین دن تک قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ پھر ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جرائم کے خاتمے کی آڑ میں متحدہ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ صولت مرزا ہر جماعت میں ہیں، ایسا نہ ہو کہ نواز شریف اور ہم اٹک جیل میں اکٹھے ہوں۔
سونامی گزر گیا تو کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ اگر ایم کیو ایم کے دفاتر پر سونامی گزرا تو پھر کراچی میں ہر سیاسی جماعت کے دفاتر محفوظ نہیں رہیں گے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ کراچی میں امن وامان کی بحالی اور جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کے لیے ہمارا تعاون حاضر ہے۔
انھوں نے کہا کہ کریمنل کسی بھی سیاسی جماعت کے ہیڈ کوارٹر سے بھی گرفتار ہو جائے تو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ اس کا تعلق اسی جماعت سے ہے۔ کریمنل لوگوں کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ انھوں نے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کراچی آپریشن کے لیے غیر جانبدار مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جائے اور تمام سیاسی جماعتوں کے گند صاف کیے جائیں۔
جب تین سال قبل سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی کی صورتحال کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے مقدمے کی سماعت کی تھی تو عدالت کے سامنے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کے وکلاء، انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ اعلیٰ پولیس افسران اور رینجرز کے سربراہ بھی پیش ہوئے تھے اور سرکاری وکلاء نے کراچی کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹیں پیش کی تھیں۔
فاضل عدالت نے اپنے طویل فیصلے میں لکھا کہ کراچی میں سرگرمِ عمل سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز موجود ہیں اور پولیس میں سیاسی بنیادوں پر تقرریاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح کراچی کے مضافاتی علاقوں میں لینڈ مافیا موجود ہے جو کریمنلز سے جڑی ہوئی ہے۔ اس وقت کے آئی جی پولیس واجد درانی نے اپنے بیان میں اقرار کیا تھا کہ پولیس میں 60 فیصد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہیں اور ان کے پاس گریڈ 17 اور اوپر کے گریڈوں کے عہدوں پر تقرریوں اور تبادلوں کا اختیار نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کی اس رپورٹ پر نہ تو وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومتوں نے توجہ دی اور نہ ہی کراچی کے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی سیاسی جماعتوں نے اس رپورٹ کی اہمیت کو محسوس کیا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے ایک دفعہ پھر اپنے بیانات میں اس الزام کو غلط قرار دیا کہ ان کی جماعتیں مسلح طریقوں پر عمل کر کے اپنے اہداف حاصل کرتی ہیں، مگر کراچی کی صورتحال خراب ہوتی ہی چلی گئی۔ پہلے سیاسی کارکن ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، پھر لسانی بنیادوں پر قتل کا سلسلہ جاری رہا۔
اس کے ساتھ ہی خودکش حملوں ، ریموٹ کنٹرول کے ذریعے بموں اور بھتے کے لیے دستی بموں کے استعمال کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مزید براں اقلیتی فرقوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہوئے، فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگیٹ کلنگ کے سلسلے کا آغاز ہوا جو کسی طور تھم نہ سکا۔ یوں تو پورا کراچی ہی اس صورتحال کا شکار رہا مگر اورنگی ٹاؤن، کراچی سینٹرل اور کراچی ایسٹ میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ بڑھ گئی۔
ولی بابر سمیت کئی ہائی پروفائل قتل کی وارداتوں میں ایم کیو ایم کے کارکنوں پر الزامات لگے۔ دوسری جانب لیاری میں پیپلز پارٹی پر پیپلز امن کمیٹی کی سرپرستی کے سنگین الزامات عائد ہوئے۔ یہ بھی کہا گیا کہ امن کمیٹی نے پیپلز پارٹی کو انتخابات میں ٹکٹ دینے پر مجبور کیا مگر پیپلز پارٹی نے بعد میں اپنے ان کارکنوں کو پارٹی سے نکال دیا جو امن کمیٹی کے عہدیدار تھے اور امن کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیدیا۔ سندھ حکومت کی ہدایت پر لیاری میں آپریشن ہوا ۔
جب کراچی آپریشن شروع ہوا تو رینجرز اور پولیس نے لیاری میں ایک مربوط آپریشن کیا۔ تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے کراچی پریس کلب اور وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنے دیے۔ اب لیاری کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہاں حالات نسبتاً بہتر ہوتے جارہے ہیں۔
ایم کیو ایم کی قیادت کو اس بات کا اقرار کرنا چاہیے کہ انھوں نے صورتحال کا حقیقی طور پر ادراک نہیں کیا، یوں ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے کو نوبت آگئی، مگر یہاں بھی کراچی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ایم کیو ایم نے اردو بولنے والی برادری کو قومیت کے سیکولر نعرے پر متحد کیا تھا۔ اردو بولنے والوں کی اکثریت پہلے مسلم لیگ ،پھر جماعتِ اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان جیسی رجعت پسند جماعتوں کی حامی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم نے طالبان کے خلاف ہمیشہ سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ گذشتہ 20 برسوں سے مذہبی انتہاپسند تنظیمیں اردو بولنے والوں میں سرائت کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ کراچی کی مضافاتی پٹی جو گھگھر پھاٹک سے شروع ہوتی ہے اور بلوچستان کے سرحدی علاقے حب تک جاتی ہے، اس کے بارے میں شبہ کیا جارہا ہے کہ یہاںں طالبان موجود ہیں۔ پھر ایم کیو ایم کے مضبوط علاقوں اورنگی ٹاؤن، فیڈرل بی ایریا، شاہ فیصل کالونی وغیرہ میں بھی مدارس کا جال بچھ گیا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی یہ بات درست ہے کہ ایم کیو ایم کو طاقت کے ذریعے کچلا گیا تو پھر انتہاپسند تنظیموں کو تقویت ملے گی۔
اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایم کیو ایم کو سیاسی جماعت کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع دیا جائے اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے مگر تمام آپریشن قانون کے دائرے میں ہونے چاہئیں اور ان سے کسی بھی طرح کی انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو۔ آصف زرداری کی ایم کیو ایم سے یکجہتی کی حکمت عملی سیاسی دانائی پر مبنی ہے۔ ایم کیو ایم کو بھی سندھ حکومت میں شامل ہونا چاہیے۔
آصف زرداری کو سندھ حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ کراچی میں بے روزگاری کے خاتمے ،خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے حکومتِ سندھ اپنی پالیسی میں ترمیم کرے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت بھی کراچی کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کرے۔ کراچی میں ماس ٹرانزٹ منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوجانا چاہیے۔ ایم کیو ایم ایک سیکولر جمہوری جماعت کے طور پر جمہوری نظام کے استحکام میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔