ذمے دار جمہوریت کا علمبردار لی کیوان

جدید سنگاپور کا معمار رخصت ہوا، عظمت اس پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے۔

budha.goraya@yahoo.com

جدید سنگاپور کا معمار رخصت ہوا، عظمت اس پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے۔ دوست کیا، دشمن بھی، لی کیوان کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہیں 'اس کی واحد خوبی ،وہ راست گو، پاک باز تھا، جس کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آئے، ناکامیوں اورمایوسیوں کی یلغار میں بھی نااُمید نہ ہوا، جس نے مختلف عقائد ، مذاہب سے تعلق رکھنے والی نسلوں اور قومیتوں کے چوں چوں کے مربے کو ایک متحرک، تعلیم یافتہ اور خوشحال قوم کے سانچے میں ڈھال کردکھایا،آج کا سنگا پور، ایشیا نہیں عالمی سطح پر خوشحالی اور ترقی کا استعارہ بن چکا ہے جس کے پاس قدرتی وسائل توکیا، فالتومٹی اور ریت بھی نہیں ہے ۔

آنجہانی لی کیوان نے اپنے جذبہ صادق سے انہونی کو مجسم حقیقت میں متشکل کردکھایا۔آج لی کیوان کا سنگاپور معاشی اور اقتصادی معجزہ ہے جہاں رشوت ستانی اور چوربازاری کا کوئی تصور نہیں کیاجاسکتا ۔

سو فیصدرشوت سے پاک سنگاپور جہاں سرکاری اورنجی شعبے کے کامیاب تال میل سے خوشحالی اور سماجی ترقی کی نئی رفعتوں کو حاصل کرلیا گیا ہے۔دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کا محبوب سنگارپور،جہاں شب وروز کا کوئی تصورنہیں، مستعد و متحرک قوم، جس کا اسٹاک ایکسچینج دن،رات 24/7بیدار اورہوشیار رہتا ہے جہاں وقت کو انسان نے اپنے تابع کرلیا ہے جہاں عالمی نظام الاوقات کے مطابق مختلف خطوں میں جاری لین دین اور خریدو فروخت کا سلسلہ ہمہ وقت جاری وساری رہتا ہے۔

آج کا سنگاپور چھوٹا سا جزیرہ نہیں جس کی بندرگاہ ناگفتہ بہ حالت میں تھی جسے صرف دوسال کے اتحاد کے بعد ملائیشیا نے اپنے ساتھ رکھنا پسند نہیں کیا تھا کیونکہ کثیرالنسلی ومذہبی تقسیم کی وجہ سے ہونیو الے فسادات نے ملائیشیاکی قومی وحدت کو لرزا دیا تھا۔

ملائیشیاسے توہین آمیز علیحدگی لی کیوان کے لیے اتھاہ مایوسی کا لمحہ تھا لیکن لی کیوان نے اپنی کمزوری کو طاقت میں بدلنے کا فیصلہ کرلیا۔ قدرتی وسائل کی عدم موجودگی میں اس کے پاس صرف افرادی قوت کا' خزانہ 'تھا جسے اعلی تعلیم یافتہ مستعد ومتحرک اورمنظم قوت کار میں بدل دیا گیا۔ دُنیا کی مصروف ترین بندرگاہ ،سامان رسد کی تیزترین ترسیل کا سب سے بڑا مرکز سنگاپور،جو مختلف قوموں، نسلوں اور عقائد میں بٹے اوربکھرے سماج کودنیا کی سب سے منظم معاشرے میں بدل چکاہے ۔

1960 سے 1980کی دودہائیوں میں فی کس قومی آمدنی میں 15 سو فیصد اضافہ ہوا تھا۔قدرتی وسائل سے مالامال ایشیائی اور افریقی ممالک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے بھوک بھنگڑے ڈالتی ہے ان کے عوام خط غربت سے نیچے بدحالی اورمفلوک الحالی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جب کہ قانون کی حکمرانی کی وجہ سے قدرتی وسائل نہ ہونے کے باوجود صرف انسانی محنت کے سہارے سنگاپور خوش حالی کامینارہ نور بناہوا ہے ۔

اکل کھرے لی کیوان نے بڑی صاف گوئی سے واضح کیا کہ باوقار خوشحالی کی منزل پانے کے لیے بے لگام آزادیوں کی قربانی دینا پڑتی ہے ۔وہ کیمونزم کاشدید ناقد اور مخالف تھا لیکن سماج سدھارکے لیے اس نے آہنی گرفت سے کام لیا اور آج خوشحال سنگارپور کے باسی بلاتفریق رنگ ونسل ،آہوں اور سسکیوں کے ساتھ اسے خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔

خیالی دنیا میں رہنے والے مغربی جمہوریت کے پیش کار فلسفی آنجہانی لی کیوان کو آمر مطلق قرار دیتے رہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ سات بار منتخب ہونے والاوزیراعظم تھا جس کے انتخاب پر دھاندلی یا بے ضابطگی کاالزام عائد نہیں کیاجاسکتا۔ اسے یہ منفرد مقام بھی حاصل تھا کہ وہ رضاکارانہ طور پر عملی سیاست سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد علامتی 'سینئر وزیر' کے طورپر کابینہ میں قوم کی رہنمائی کرتا رہا۔

لی کیوان نے سنگارپور کو ذمے دار سرمایہ دارانہ نظام کی تجربہ گاہ بنادیا تھا جہاں کسی قسم کے استحصال کی ذرابرابر بھی گنجائش نہیں تھی۔کوئی سول سوسائٹی موجود نہیںہے۔ محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزدوریونینزبھی ناپید ہیںکیونکہ یہ سارے کام حکومت انجام دیتی ہے ۔


قانون کی حکمرانی نے رشوت کے ساتھ ساتھ استحصال کوبھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے ورنہ سنگاپور بھی دیگربرطانوی نوآبادیوں کی طرح رشوت کی دلدل میں غرق تھا۔ لی کیوان نے آہنی عزم و استقلال سے رشوت اور بے ایمانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ قانون کی حکمرانی کا تصور آج ساری دنیا کے لیے مشعل راہ ہے۔

لی کیوان کبھی مرعوب ہوا نہ احساس کمتری کو قریب پھٹکنے دیا ۔وہ ایساعملیت پسند تھا کہ قومی اہداف کے حصول کے لیے ذاتی پسند ناپسند کو شخصی اَناسے بلند ہوکر بروئے کار رہا تمام کامیابیوں اور کامرانیوں کے باوجود وہ خبط عظمت کا شکار نہ ہوا ،زندگی سادگی سے گذاری ،نمودونمائش اور ذاتی تشہیر سے کوسوں دور خوشحال سنگاپور کے لیے خواب دیکھتا اور انھیں عملی صورت میں مجسم اورمتشکل کرتا رہا۔

بابائے قوم ہونے کے باوجود عام شہریوں کے لیے بنائے گئے سستے فلیٹ میں قیام پذیررہا ۔کوئی پہرہ ، خاردار تار اور رکاوٹیں اس گلی میں کچھ بھی نہیں تھا بابائے قوم کے فلیٹ کوشناخت کرنابھی مشکل ہوتاکہ رضاکار مشتاق راہگیروں کورکنے نہیں دیتے تھے، اس کالم نگار کابھی اس کوچے سے گذرہوا تھا۔قبلہ شاہ جی، سیدوالا تبار عباس اطہر کے ہمراہ، ہم علاج اور شفا کی تلاش میں سنگاپور کے ساحلوں پر جااترے تھے۔

اپنے شاہ جی، اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھردے ،موڈ میں ہوتے تو چٹکلے چھوڑتے ،لی کیوان کے فلیٹ کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے 'اینوںکی فائدہ ہویا سنگاپور دی خوشحالی دا، آپ تے' ڈبے 'وچ رہندااے، گلی دے باہر اپنا بت تے لوادیندا، یہ طالب علم اس بلیغ طنز پر مسکراتا رہا۔

لی کیوان نے اپنے لیے نفی ذات کا فلسفہ اپنایا کبھی کامیابیوں کا چرچا کیا نہ کوئی نیا فلسفہ بیان کیا لیکن سنگاپور میں شخصی اور انفرادی زندگیوں پر ایسے مثبت اور دیرپااثرات مرتب کیے کہ شخصی انفرادیت جو متنو ع معاشرتی زندگی کا حسن سمجھ جاتی ہے یہ شخصی آزادیاں محدود ہوکر رہ گئیں لیکن لی کیوان تمام تر تنقید کے باوجود خودنمائی اور خودستائی کے بجائے سادگی سے اپنے موقف پرڈٹے رہے۔

'آج ہمارا معیار زندگی، تہذیب وتمدن کے پیمانے اور خوشحالی اقوام عالم کے لیے مشعل راہ ہے، یہ صرف اس لیے ممکن ہوا کہ سرکارنے عوام کے ذہنوں میں راسخ کردیا کہ کیسے مہذب طریقے اپنانے ہیں،بول چال میں ٹھہراؤ کیسے پیداکرنا ہے یہاں تک کہ آہستگی سے فلش کیسے استعمال کیا جاتا ہے چیونگم استعمال نہیں کرنی، درودیوار کو لوک فن کار مصوروں سے کیوںکر بچاناہے'لی کیوان اپنے ناقدوں کو بتاتے تھے ۔

یہ لی کیوان تھے جنہوں نے صرف تین دہائیوں میں ایسے منظم سماج کی بنیادڈالی جس میں بچے فطری شرارتیں بھول گئے تھے۔ قبلہ شاہ صاحب کے ہمراہ یہ کالم نگار صبح سویرے ناشتے سے زیادہ دل لگی کے لیے ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں ڈیرہ لگا لیتا تھا۔ یہ شاہ جی نے محسوس کیا کہ سنگاپور کے بچے بھی سنجیدہ طبع ہوگئے ہیں۔ فطری شرارتیں نہیں کرتے۔ وہاں درجنوں بچے موجود ہوتے لیکن مجال ہے کہ کوئی شور شرابا ہوتا ،شرارتوں کا تو کیا کہنا۔

لی کیوان کبھی مغربی فلسفہ جمہوریت سے مرعوب نہ ہوا۔ اس نے کھل کر کہا یورپی جمہوری معیارات ایشیائی بلغمی مزاج کو راس نہیں ہیں۔ ہمیں بے لگام طرز جمہور کے بجائے قانون اور نظم و ضبط کی پابند ذمے دار جمہوریت کی ضرورت ہے ۔

لی کیوان نے ایک کامیاب وکامران ہیروکی طرح موت کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنی ساری زندگی کی جدوجہد کو چند جملوں میں سمودیا،

'دم واپسیں' وقت آخر میں نے خوشحال اور باوقار سنگار پور کی منزل پائی اور اس کے لیے اپنی زندگی کوتج دیا،میں کامیاب و کامران رخصت ہورہا ہوں۔۔۔ سات بار وزیراعظم منتخب ہونے والا لی کیوان رخصت ہوا تو عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر اس پر برس رہی ہے۔ اپنے کیا پرائے، ساری دنیا اس کی عظمت کے گیت گا رہی ہے اے کاش ہمیں بھی لی کیوان مل جاتا ہے۔
Load Next Story