ایک ہندو کا مقدمہ
ہم سا بدنصیب کون ہو گا کہ ہمارے رہنما جس کے خلاف ساری عمر لڑتے رہے وہ ہی چیزیں ہم نے اپنا لی ہے۔
لاہور:
یہاں صرف باتیں وہ بتائی جاتی ہیں جن سے اپنی دکان میں رش لگتا ہو اور اپنا مال بکتا ہو جب کہ باقی باتوں کو ضعیف قرار دے کر کناروں میں پھنسا دیا جاتا ہے کہ کہیں یہ ہماری آمدنی کم نہ کریں اُن فرمودات کا ہمیں بتایا جاتا ہے جن سے نئی دکانیں کھلتی ہوں لیکن وہ سبق نہیں بتایا جاتا جن کے لیے ہمارے حقیقی رہنماؤں نے لمبی جدوجہد کی۔
ہم سا بدنصیب کون ہو گا کہ ہمارے رہنما جس کے خلاف ساری عمر لڑتے رہے وہ ہی چیزیں ہم نے اپنا لی ہے۔ اور پھر اس جہالت پر فخر کرتے ہیں آئیے آج کے دور کے مطابق اپنے قائد کے ایک بہت مشہور کیس اور اس میں اُن کے جان دار دلائل پر بات کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ تقاریر (یا تحریر) کے قابل گرفت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ چند فقروں کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے پڑھنے سے نہیں کیا جا سکتا۔ قائد اعظم نے ہندوستان کی تاریخ کے ایک بہت بڑے مقدمے میں مزید کہا تھا کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ حکومت کے خلاف جذبات اکسائے جا رہے تھے یا اُن شکایات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو حکومت کے کارندوں اور اُن کے بنائے ہوئے سسٹم سے ہے۔
آئیے اس معاملہ کو سمجھتے ہیں۔ اس خطے کے ایک ایسے شخص کے متعلق جس کے خیالات اور عمل نے اس خطے پر بہت اثر ڈالا۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا میں موجود اس وقت ''ہندو توا'' کی تحریک کا آغاز بھی بال گنگا دھرتلک (بی جے تلک) نے ہی کیا۔ تلک 23 جولائی 1856ء میں مہاراشٹرا میں پیدا ہوئے اور پھر اپنی قانون کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انھوں نے سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ابتدائی طور پر کانگریس سے وابستہ تھے۔
جب برٹش حکومت نے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تو ہندؤوں میں اس حوالے سے بڑی بے چینی پائی جاتی تھی۔ کانگریس نے ایک قرارداد کے ذریعہ اس کی مخالفت کی لیکن تلک کا کہنا یہ تھا کہ اس معاملے کا حل قرارداد نہیں بلکہ ایک تحریک ہے۔ انھوں نے ''سودیشی تحریک'' کا آغاز کیا۔ اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ برطانوی مال کا بائیکاٹ کیا جائے اور اس طرح سے انھیں مالی نقصان پہنچایا جائے۔
یقینی طور پر یہ فارمولہ اُس وقت کے ہند و سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کے لیے بہت ہی مفید تھا۔ اور بڑے گروپس جیسے ٹاٹا اور برلا وغیرہ نے اس کی پس پردہ بہت حمایت کی۔ اور پھر اس کا انھوں نے مالی فائدہ بھی حاصل کیا۔ اسی تحریک کے دوران تلک نے مذہبی جذبات کا سہارا لیا۔ اور انھوں نے اپنے پرانے ہندو کلچر کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اُن سالوں میں کالی دیوی کی پوجا کے دوران ''دھرتی ماتا'' سے وفاداری کی قسمیں بھی کھائی گئیں۔ کہا جاتا ہے اس تحریک کی شدت تھی جو 1906ء میں مسلم لیگ کے قیام کی بھی ایک وجہ بنی۔
تلک کے نظریات میں تشدد بھی شامل تھا ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتا ب میں لکھا ہے کہ ایک بار جب ایک دیسی ساختہ بم سے ایک انگریز جج کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تو تلک نے کہا تھا کہ یہ بم ایک ایسا تعویز ہے جو سامراجی عذاب سے نجات دلائے گا۔ اُن کا موقف تھا کہ انگریزوں پر اس طرح کے حملے کرنے والے خود کو مشکل میں ڈال کر ہم سب کی بہتری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ برطانیہ نے جب حملہ کرنے والوں کو دہشت گرد کہا تو تلک نے انھیں انقلاب کا داعی قرار دیا۔
تلک کا موقف ہمیشہ یہ رہا کہ برٹش حکومت سونے کی چڑیا کو کھا رہی ہے اور یہ بات ریکارڈ پر بھی موجو د ہے کہ ہر سال انڈیا سے تاج برطانیہ کو دس کروڑ پونڈ بھیجے جاتے تھے۔ تلک کا کہنا تھا کہ انھیں کمزور کرنے کے لیے اپنے پیروں پر کھڑا ہو نا ہو گا۔ اور تعلیم ضرور حاصل کرنا ہو گی۔
وقت کے ساتھ ساتھ سودیشی تحریک کمزور ہونے لگی لیکن ہندو نوجوانوں میں تلک کے خیالات پروان چڑھ رہے تھے۔ اس لیے انھوں نے ''ہوم رول لیگ'' کی بنیاد رکھی۔
نئی تنظیم کو مضبوط کرنے کے لیے انھوں نے خاص طور پر مہاراشٹر میں لیکچر دینے کا آغاز کیا اس حوالے سے انھوں نے 31 مئی 1916ء کو بیل گاؤں اور یکم جون کو احمد نگر میں تقریر کی اور اسی کو وجہ بنا کر اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایا گیا۔ تلک کے لیے بڑے بڑے ہندو وکیل میدان میں آ گئے۔ آپ کو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اُس وقت ہنددوں کے ایک بڑے لیڈر نے قائد اعظم کا انتخاب کیا۔ اب قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک ہندو لیڈر کے لیے غداری کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔
ہمارے یہاں آج بھی اکثر ہی غداری کے مقدموں کی آوازیں آتی رہتی ہے اس لیے ضرور تھا کہ اس مقدمہ کو سمجھا جائے۔ عدالت میں غداری کے مقدمے کے لیے جو نکات پیش کیے گئے وہ بہت دلچسپ ہیں۔ اس میں تقریر کے اہم نکات یہ تھے۔ تلک نے کہا کہ برٹش حکومت، ہندوستان کے باشندوں کو مسلسل غلامی میں رکھنا چاہتی ہے برطانیہ یہاں کے باشندوں کو تعلیم سے محروم رکھنا چاہتی ہے تا کہ یہاں کے مقامی لوگ حکومت چلانے کے قابل نہ ہو سکیں۔ یہاں کی نوکر شاہی کا ایک ہی مقصد ہے کہ کس طرح اُن کو تنخواہ ملتی رہے۔
تلک کے مخالف وکیل یعنی استغاثہ نے اپنی بحث ''حکومت وقت'' کی تعریف سے شروع کی اور کہا کہ حکومت ان تمام اداروں پر مشتمل ہوتی ہے جو حکومتی فرائض انجام دیتے ہیں اور عدالتیں بھی حکومت وقت میں ہی آئیں گی۔
قائداعظم نے اپنی بات شروع کرتے ہوئے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ استغاثہ کی تعریف کے مطابق سرکاری ملازم حکومت وقت کا نمایندہ ہے اس لیے حکومت ہے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کیا عدالت اور فوج پر تنقید بغاوت کے زمرے میں آئیگی۔؟ قائد اؑعظم کا موقف تھا کہ اگر کوئی سسٹم کو بدلنا چاہتا ہے تو اس سے پہلے وہ اس پر تنقید نہیں کرے گا تو اپنی بات کو آگے کیسے لے کر جائے گا۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی اس عدالت میں ایک موقع پر استغاثہ نے طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''تلک کہتے ہیں کہ مرہٹہ پیشواؤں کے دور میں زیادہ امن تھا جب کہ ایسا نہیں ہے''۔ قائد اعظم نے فوراً سوال کیا ''آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے'' جواب آیا کہ برٹش انڈیا کی تاریخ میں لکھا ہے۔ قائد اعظم نے فوراً جواب دیا کہ اپنی لکھی ہوئی تاریخ پڑھی ہے۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے مسٹر تلک کے خلاف فیصلہ دیا اور یہ مقدمہ پھر ہائی کورٹ گیا جہاں تلک کو باعزت بری کر دیا گیا اور وہاں بھی مقدمہ قائد اعظم نے ہی لڑا تھا۔ اس میں قائد کا موقف تھا کہ جب تک حکومت کے قانونی حق کو چیلنج نہ کیا جائے اور تنقید صرف حکومتی اداروں تک محدود ہو تو سخت سے سخت اور بلاجواز اعتراض بھی بغاوت کے زمرے میں نہیں آئیں گے۔ 9 نومبر 1916ء کو ایک جج نے لکھا کہ شکایات اور بغاوت میں فرق ہونا چاہیے اور کچھ جملوں سے غداری کا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔ پوری تقریر کو حالات اور سیاق و سباق کے مطابق دیکھنا چاہیے۔
مقدمہ کی وجہ سے قائد اعظم نہ صرف مسلمانوں کے بلکہ ہنددوں کے بھی اہم لیڈر کے طور پر منظر پر آئے، اس مقدمہ کی پورے انڈیا میں بہت گونج تھی۔ خیر بات یہ ہے کہ جہاں ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر فتویٰ لگاتے ہیں اور جہاں ہم اپنے لوگوں کی شکایات کو غداری کہہ دیتے ہیں اُس پر قائد کی سوچ کے مطابق رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے، چاہے ان شکایات کرنے والوں کا تعلق بلوچستان سے ہو، سندھ سے، خیبر پختونخوا سے یا پھر پنجاب سے۔ شکایات دور کریں۔
مقدموں سے کچھ نہیں ہو گا۔ ہم سب ایک ہیں اور ہمیں ایک دوسروں پر بھروسہ کرنا ہو گا، اعتماد کی کمی اور دوریاں بڑھانے سے مسئلے کا حل نہیں نکلے گا جب کہ نفرتوں کے ناسور جڑ پکڑتے جا رہے ہیں۔ شاید دور سے یہ غدار لگتے ہوں لیکن ان کی شکایت سن کر بڑے ہونے کا مظاہرہ مستقبل کے کئی غداری کے مقدموں سے دور رکھ سکتا ہے۔ بات چھوٹی سی ہے پر یہ سمجھنا ہو گا کہ کون شکایت کر رہا ہے اور کون غدار ہے۔