بحمد للہ محسن پاکستان خیریت سے ہیں

قدرت کو منظور تھا کہ وہ ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہیں اور زندہ سلامت ہمارے درمیان موجود رہیں۔


Abdul Qadir Hassan March 26, 2015
[email protected]

RAWALPINDI: ہمارے انیس بیس کروڑ پاکستانیوں میں اگر کوئی سب سے اہم اور عظیم المرتبت شخصیت ہے تو اس کا نام ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ دنوں علیل ہو گئے اور فوراً ہی اسپتال میں داخل کر لیے گئے مگر جن پاکستانیوں کو ان کی اچانک اور خطرناک علالت کا علم تھا وہ خدا کے حضور میں جھک گئے۔

معلوم نہیں کس پاکستانی کی دعا کو شرف قبولیت بخشا گیا کہ اس کے فضل و کرم سے ڈاکٹر صاحب کے مرض پر قابو پا لیا گیا اب وہ مرض کے خطرات سے محفوظ ہو کر اسپتال سے گھر آ گئے ہیں۔ بخار اتر چکا ہے مگر کمزوری باقی ہے ان پر بیماری کا یہ اچانک حملہ بہت خطرناک تھا جس سے اللہ نے ان کو بچا لیا اور وہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ قدرت کو منظور تھا کہ وہ ہمارا حوصلہ بڑھاتے رہیں اور زندہ سلامت ہمارے درمیان موجود رہیں۔ ان کا وجود مسعود ہی ہمارے لیے ایک حوصلہ ہے۔

محترم و مکرم ڈاکٹر صاحب سے میری نیاز مندی بہت پرانی ہے بلکہ یوں کہیں کہ مجھ پر ان کی شفقت بہت پرانی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جب ایٹم بم بنا لیا تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ایک خط میں مجھے اس کی اطلاع دی۔ میرے لیے ایک بے پناہ خوشی یہ تھی کہ ہم دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ایک ایٹمی طاقت بن گئے ہیں دوسری خوش خبری یہ تھی کہ کسی ملاقات اور پہلے سے رسمی تعارف کے بغیر انھوں نے مجھے نہ معلوم کیوں ایک عام صحافی کو اس قابل سمجھا کہ اپنی اس حیران کن کامیابی کی اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے خط کے ذریعے اطلاع کی۔

اس کے بعد میں ان کی خدمت جلیلہ میں حاضری دیتا رہا اور ان کی پذیرائی کی وجہ سے میں بھی ان کے ادارے کا گویا ایک غیر سرکاری رکن بن گیا۔ ان کا دفتر راولپنڈی میں ائر پورٹ کے قریب تھا اور اسلام آباد جاتے ہوئے اس کے سامنے سے گزرنا ہوتا تھا۔ یوں آتے جاتے بھی ملاقات ہو جاتی تھی میرے لیے ان سے ملاقات کی پیشگی اجازت کی ضرورت ختم ہو گئی تھی۔ ان کے دفتر میں محترم فاروق صاحب ان کے ایک اہم ساتھی تھے جن کے دفتر کا کمرہ میرا ٹھکانہ تھا یا ملاقات کے لیے ویٹنگ روم۔

ڈاکٹر صاحب سے میری لاتعداد ملاقاتیں ہوئیں ان کا ادبی اور صحافتی ذوق میرے تعلق کا مدد گار تھا ورنہ میرے جیسے سائنس سے قطعاً محروم شخص کا اس سرتا پا سائنسی دفتر سے کیا تعلق۔ میں نے ان ملاقاتوں میں ڈاکٹر صاحب سے ایٹم بم یا ان کی کسی دوسری دفاعی سائنسی سرگرمی پر کبھی کوئی بات نہیں کی۔ میں بطور ایک رپورٹر صحافی کے اپنے آپ سے ڈرتا تھا کہ کوئی اہم بات اگر میرے علم میں آ گئی تو میری گپ شپ کی عادت میں میرے منہ سے نہ نکل جائے اس لیے میں نے ڈاکٹر صاحب کی خصوصی مہربانی اور تعلق کو ہی بہت کچھ سمجھ لیا اور اس سے آگے بڑھنے کی جرات نہ کی اس طرح میں محفوظ رہا اور ڈاکٹرصاحب کو کبھی اس سلسلے میں مجھ سے شکوہ پیدا نہیں ہوا۔ وقت گزرتا گیا ڈاکٹر صاحب اپنے کام میں کامیابی کی منزلیں طے کرتے گئے۔

مجھے ان کے قریبی ساتھیوں سے یہ معلوم ہوتا رہا کہ وہ کسی بڑے کام کے آخری تجربے کے وقت مسلسل کچھ پڑھتے رہتے تھے وہ اپنی ہر کامیابی کو اللہ تبارک تعالیٰ کی کرمفرمائی سمجھتے تھے نہ کہ اپنی تعلیم اور تجربے کو اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت کچھ دیا اور ان کے ذریعے اس پاکستانی قوم کو دشمن سے تحفظ دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کو پہلا مسلمان ایٹمی ملک بنا دیا اور اس کے دشمنوں نہایت ہی خطرناک اور طاقت ور دشمنوں سے تحفظ کا ہتھیار دے دیا۔ مثلاً بھارت کی مسلح افواج پاکستان کی سرحدوں پر جمع تھیں کہ صدر ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بھارت پہنچ گئے جہاں ان کا استقبال نوجوان بھارتی وزیراعظم نے کیا۔

انھوں نے ہاتھ ملاتے ہی اسے مختصر ترین الفاظ میں پاکستان کے ایٹم بم کی اطلاع دے دی جس کے فوراً بعد بھارتی فوجیں پاکستان کی سرحدوں سے واپس ہونی شروع ہو گئیں۔ یہ پہلی بار تھا کہ ہم نے اپنے خطرناک دشمن کو اپنے بم کی اطلاع دے دی۔ ابھی تک پاکستان نے باقاعدہ ایٹمی طاقت بننے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنی جنگی پالیسی بدل دی اور براہ راست جنگ کی جگہ تخریب کاری کو اختیار کر لیا جو اب تک جاری ہے اور اس کا جواب بھی ہم اپنی جانوں پر کھیل کر دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اس کارنامے سے پاکستان کے بارے میں پوری دنیا کی پالیسی بدل گئی اور اس میں پاکستان کے خلاف جنگ کو حذف کردیا گیا۔ یہ تو درست ہے کہ ہم کسی بڑے ملک پر حملہ کرنے کا ادارہ نہیں رکھتے ایسا ارادہ ہم نے کبھی نہیں کیا تھا لیکن امریکا اور یورپ کی ناجائز اولاد اسرائیل ہمارے نشانے پر ہے اور یہ ہمارے عرب بھائیوں کا فیصلہ ہو گا کہ وہ اسرائیل کو برداشت کرتے رہیں گے یا نہیں ورنہ ہم تو تیار ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی طاقت کوئی تبرک نہیں کہ اسے سنبھال کر رکھا جائے یہ ایک اسلحہ ہے اور ہم نے اپنے سائنس دانوں کی مہارت کے ذریعہ حاصل کیا ہے اس ضمن میں ہم پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے۔

ہم جلدی میں تھے اس لیے فوری ضرورت کا سامان ہم باہر سے خریدتے تھے اور ڈاکٹر صاحب کو معلوم تھا کہ کون سا پرزہ کس ملک سے ملے گا۔ ہم نے اس کے حصول کے کئی ذرایع تلاش کر لیے تھے۔ اگر ایسے سامان کی ایک کھیپ یورپ وغیرہ کے کسی ہوائی اڈے پر پکڑی بھی جاتی تو کسی دوسرے ذریعے سے وہ کراچی کے ایئر پورٹ پر پہنچ چکی ہوتی۔ مغربی ملکوں کا خیال تھا کہ پاکستان بم نہیں بنا سکے گا لیکن پاکستان کے جانباز سائنس دانوں نے یہ کارنامہ سر انجام دے دیا۔

مجھے نام یاد نہیں آ رہا کہ جب اس بم کا راز کھلا تو امریکا کے ایک نائب وزیر خارجہ نے جو اس وقت پاکستان میں تھے اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر ایک بیان میں کہا کہ امریکا پاکستانی بم تو برداشت نہیں کرے گا۔ یہ اس کی اس شکست کی دھمکی تھی جو اسے پاکستان کے ایٹم بم سے ہو چکی تھی۔

بات ڈاکٹر قدیر خان کی ہو رہی تھی جن کو اللہ نے صحت عطا کی ہے ہم سب پاکستانیوں کی دعا ہے کہ وہ زندہ و سلامت اور صحت مند رہیں وہ پوری قوم کے محسن ہیں بلکہ پاکستانی ایٹم بم کے اعلان کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں نے جشن منایا ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیں کہ اسلامی دنیا کے پاس بھی اب یہ طاقت موجود ہے۔

ڈاکٹر صاحب کو قوم نے 'محسن پاکستان' کا بے ساختہ خطاب دیا ہے اور وہ واقعی اس قوم کے ایسے محسن ہیں جس کا احسان یہ قوم بلکہ مسلم دنیا بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ ان کی صحت یابی پر میں بہت خوش ہوں اس لیے بھی کہ وہ ان کے اپنے بقول بیماری کے شدید ترین 'مہلک خطرے سے' بچ نکلے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں