انسان پر انسان کے مظالم… نیویارک

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جنگیں عسکری طاقت کے یا پارلیمنٹ کے بجائے انسان کی ذہنی قوت سے لڑی جاتی ہیں،

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جنگیں عسکری طاقت کے یا پارلیمنٹ کے بجائے انسان کی ذہنی قوت سے لڑی جاتی ہیں، ان جنگوں میں عسکری قوت کی اپنی ایک حیثیت متعین ہے لیکن ان سب ڈوروں کا تعلق دماغ سے ہے۔

ہم دنیا میں جاری تمام جنگوں کا اجمالی جائزہ بھی لیں تو ان میں ایک بات مشترک نظر آئی گی کہ جاری جنگوں کے تناظر میں سوچ و نظریے کی وسیع ذہنی سازش نظر آئے گی۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں اور جتنی بھی جنگیں شروع کیں گئی ہیں ان میں فوج پارلیمنٹ کے اداروں سے زیادہ ان کے سرخیل دماغوں سے شروع ہوتی ہے۔

ماہر نفسیات انتھونی جونز کہتے ہیں کہ 'جنگیں، سینیٹ، پارلیمنٹ یا فوجی ہیڈ کوارٹرز میں نہیں بلکہ انسانی ذہنوں میں شروع ہوتی ہیں'۔ وہ کہتے ہیں کہ 'دوسرے کے خلاف جنگ پر نکلنے کا محرک انسان کے اندر بہت گہرائی میں نقش ہے' اور ماہر نفسیات سی جی ژنگ کی زبان میں یہ انسان کے اولیں نقوش یا آرکی ٹائپس میں سے ہے۔ ان کا استدلال اس بات پر ہے کہ جنگ اور دہشتگردی کے تدارک کے لیے نوع انسان کو اوکسی چیز سے زیادہ اپنے شعور اور اپنے جنگی آرکی ٹائپ میں تصفیہ کرانا ہو گا۔

جنگوں یا دہشت گردی میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حیاتیاتی اور نفسیاتی نقطہ نظر سے مردانگی غلبہ، طاقت، جارحیت، نظم و ضبط، علاقہ پرستی، اقتدار کی خواہش اور قانون اور امن کا استحکام ایک دوسرے کے منسلکہ تصورات ہیں، ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ انسانی کشمکش میں یہ تمام تر ٹکرائو ایک سوچ و نظریے کے تحت گروپ بندی کا باعث بنتی ہے اور پھر ان گروپوں کے درمیان اپنی طاقتوں کو تسلیم کرانے کے مینڈیٹ کے تحت ایک ٹکرائو پیدا ہو جاتا ہے۔

گو انسان کی آمد کو پانچ لاکھ سال ہو گئے ہیں لیکن ان تمام برسوں میں ہمیں جو بات مشترکہ نظر آتی ہے وہ یہی ہے کہ سوچ و نظریے کی وجہ سے ہی باہمی افراد، گروپ، قبیلے یا قوموں کے درمیان ٹکرائو شروع ہوتا ہے، ماضی و حال کے تمام واقعات اس بات کے گواہ ہیں، ہمیں اپنے حالیہ تمام تر مسائل کو بھی اسی سوچ کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں کسی قوم کی تاریخی فطرت کو دیکھنے کے بجائے اپنے آپ کو بھی دیکھنا ہو گا کہ ہم اپنی ذاتی زندگی سے لے کر قومی زندگی میں کسی نظریے اور سوچ کو اپنائے ہوئے ہیں اور یہ ذہنی جنگ کا محرک بنتا ہے۔ یہ جذبہ ہمیں جنگوں کے اصل محرک کو سمجھنے اور اس کی نفسیات اور انسانی ذہنی کے پرکھ کے سبب بنے گا۔

ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہاں جہاں انسانی آبادیاں رہی ہیں، وہ تصادم جزو لاینفک کی طرح موجود ہوتا ہے۔ اس تصادم نے انسانی گروپوں، نسلوں، قبیلوں اور شہری ریاستوں سمیت اقوام کے درمیان تعلقات کو متعین کیا ہے۔ فرائیڈ نے اپنے آخری برسوں میں کہا تھا کہ ساری نامیاتی بستی دو متضاد قوتوں، جبلت حیات اور جبلت موت کے درمیان تصادم کے زیر اثر ہے۔


ماہر نفسیات ژنگ کے ہاں انسانی جسم تمام بنیادی کام (وظائف) مخالفانہ نظاموں کی صورت میں ہوتے ہیں جو مثبت اور منفی فیڈبک کے ذریعے توازن میں رہتے ہیں جیسے پیاس مشروب کے خلاف، نیند بیداری کے خلاف۔ سگمنڈ فرائیڈ کہتے ہیں کہ 'انسان شفیق اور دوستانہ ہستیاں نہیں تھے جو صرف حملہ ہونے پر ہی دفاع کرتے رہے ہوں بلکہ جارحیت کی ایک طاقت ور خواہش کو ان کی جبلتی صلاحیت کے حصہ تسلیم کرنا پڑے گا، اسی طرح نطشے انسان کو جنگلی درندے کے طور پر دیکھتا ہے جو مال غنیمت اور فتح کا خواہش مند آوارہ گرد ہے۔

اسی تناظر میں ہمیں انسانی خواہشات نظر آتی ہیں کہ ان کے عوامل میں جارحیت کی ابتدا خود اس کے اپنی ذہنی سوچ کے سبب ممکن ہوئی اور یہی جارحانہ سوچ ہے جس نے نسلیں بڑھانے، دوسری نسلوں کی تباہی، اپنے لیے علاقوں کا حصول، دوسروں کے علاقوں پر قبضہ اور ان کی بیدخلی، اپنے لیے زیادہ سے زیادہ علاقوں کو تصرف لانا، بزور طاقت کمزور کو مفتوح بنانا اور غلبہ حاصل کرنا ہر انسان کے ایک فطری جذبے کے تحت پروان چڑھتا ہے۔

ماہر نفسیات انتھونی جونز کا کہنا ہے کہ 'حیاتیاتی نقطہ نظر سے جارحیت پسندی کا اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے موزوں ترین تولید کو فروغ ملتا ہے اور ایسی جینز آگے منتقل ہوتی ہیں جو آبادی کی بقا کو تواتر دینے کے لیے فائدہ مند ہوں۔' انتھونی اسٹور نے 1970ء میں لکھا تھا کہ کرہ ارض پر آج تک جنم لینے والی تمام انواع میں انسان سب سے زیادہ ظالم اور سفاک ہیں، اگرچہ ہم اخبار یا کسی تاریخ کی کتاب میں انسان پر انسان کے مظالم کی کہانیاں پڑھ کر خوف سے سمٹ جاتے ہیں لیکن اپنے دل کی گہرائیوں میں جانتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک ایسی ہی وحیشانہ امنگیں لیے ہوئے ہے جن کا نتیجہ قتل، تشدد اور جنگ کی صورت میں نکلتا ہے۔

فلسفی پئیرے جوزف نے اسی نقطے کی کچھ اس طرح وضاحت کی کہ 'کسی بھی قوم میں تقریباً ہر نسل جنگ کا تجربہ کر لیتی ہے'۔ پندرہ سو قبل مسیح اور اٹھارہ سو ساٹھ کے درمیان معلوم دنیا میں جنگ کے تیرہ برسوں کے مقابلہ میں امن کا صرف ایک سال رہا جب کہ اٹھارہ سو بیس اور انیس سو ستر کے درمیان دنیا کی بڑی اقوام ہر بیس میں ایک مرتبہ جنگ میں ملوث ہوئیں۔

انسان نے ہزاروں سال قبل پڑھنا لکھنا سیکھا، جب سے اس نے انسان پر انسان کی مظالم کو مرتب کرنا شروع کیا۔ اقوام، نسلوں اور مذہبوں کے درمیان تمام سرحدیں کسی امن سمجھوتے کے بجائے جنگ و جدل کے نتیجے میں قائم ہوئیں اور ایک عالمی معاشرہ مرتب ہونے کے بجائے اقوام کے درمیان مملکتوں کی سرحدیں قائم ہو گئیں، بظاہر ہم دیکھتے ہیں جنگوں اور عدم جارحیت کے لیے جتنے بھی معاہدے کیے جاتے رہے، انھوں نے ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھا اور سبھی جنگوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکے اور کسی نہ کسی صورت میں انسانوں پر انسان کی مسلط کی گئی جنگ حاوی رہی۔

تاریخ دانوں کا یہ ماننا ہے کہ پندرہ سو سال قبل مسیح اور اٹھارہ سو ساٹھ کے درمیان امن کے آٹھ ہزار معاہدے انجام پائے، ہر معاہدے کو ہمیشہ کے لیے نافذ رکھنے کا سوچا گیا لیکن اوسطاً دو برس سے زیادہ قائم نہیں رہے، روسیوں کی پرانی ضرب المثل ہے کہ ''دائمی امن صرف اگلے برس تک قائم رہتا ہے۔''لیکن ان تمام تر محرکات کے باوجود ہم اس بات پر تکیہ کر کے نہیں بیٹھ سکتے کہ ہزاروں سال سے جاری اس جنگ و جدل کے خاتمے کے لیے ان کا کردار بھی ضایع جائے گا، تو ایسا نہیں ہے، امن کا جتنا بھی وقفہ میسر آتا ہے اس کے لیے ہمیں تگ و دو جاری رکھنا چاہیے۔

مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفاد کے لیے اپنا کردار اپنی حد تک اپنے اطمینان کے لیے جاری رکھنا بھی نوع انسانی کا فریضہ ہے، دہشت، جارحیت اور ظلم کے خلاف اس جنگ میں انسان کی تباہی کے لیے جو ہتھیار ہے وہ ذہن ہے اور اس کے بچائو کے لیے جس ہتھیار کو استعمال کیا جا سکتا ہے وہ بھی ذہن ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں ایسے افراد کو کاٹ کر نئے معاشرے کی بنیاد نہیں رکھ سکتے کیونکہ ایسی تمام تر کوشش کا نتجہ جنگ و جدل کی صورت میں نکلتا ہے، لیکن ہم کسی جنگ و جدل سے بچنے کے لیے کسی کی جارحیت کو ہاتھ پیر باندھ کر خود پر مسلط نہیں کر سکتے۔

تاہم ایک اچھی نسل کی آبیاری کے لیے اور انسانوں کو انسان پر ظلم سے روکنے کے لیے تعمیری معاشرے کے قیام کے لیے پیش قدمی کی کوشش کو جاری رکھنا چاہیے۔ یہی عمل ہم انسانوں سے ظالم و سفاکیت کے اثر کو کم کرنے میں ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ امن کا وقفہ کم ہی سہی لیکن اس میں کم از کم اتنا تو ضرور ہو سکتا ہے کروڑوں انسانوں کچھ لمحوں کے لیے ایک اچھی زندگی کا خواب اپنی آنکھوں میں سجا سکیں، کیونکہ خواب کا تعلق بھی انسانی دماغ سے ہے، اس لیے امن کا خواب دیکھنے پر پابندی نہیں ہے۔
Load Next Story