مغربی میڈیا کی ناانصافی
یورپ اور امریکا میں ایک جملہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں،
نائن الیون کے بعد اسلامی ممالک پر امریکی یلغار کی وجہ سے پھوٹنے والی دہشتگردی کی لہر نے پوری دنیا کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا ہے، جس سے خصوصی طور پر مسلم ممالک نہ صرف بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں، بلکہ بعض مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے اور لاکھوں لاشیں اٹھانے کے بعد بھی امن و سکون اور استحکام مسلم ممالک میں عنقا ہو چکا ہے۔
دوسری جانب اس کے مقابلے میں مغرب اس دہشت گردی سے نہ صرف مکمل طور پر محفوظ رہا، بلکہ چند سرپھرے مسلم دہشت گردوں کی آڑ میں دنیا بھر میں اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کر کے مسلمان کی شناخت ایک دہشت گرد کے طور پر متعارف کروائی گئی اور خود یورپ میں مسلمانوں کے اقلیت میں ہونے کے باوجود ہر دہشت گردی کو مسلمانوں کے سر تھوپ کر صرف مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
یورپ اور امریکا میں ایک جملہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں، جب کہ یورپی اور امریکی سیکیورٹی اداروں کی رپورٹس اس الزام کی تصدیق کرنے سے قاصر ہیں، لیکن یورپی اور امریکی ذرایع ابلاغ، غیر مسلم افراد اور گروپوں کی جانب سے کیے جانے والے دہشت گردی کے حملوں کو اس کوریج کا عشر عشیر بھی نہیں دیتے، جس کا مظاہرہ وہ مسلمانوں سے منسلک دہشتگردی کے واقعات کے وقت کرتے ہیں۔
حالانکہ یورپ میں اسقاط حمل سے متعلق ہر پانچ طبی اداروں میں سے ایک پر انتہاپسند عیسائیوں کی جانب سے حملہ ہونا معمول کی بات ہے اور غیر مسلموں کے ہاتھوں روزانہ دسیوں امریکی موت کی بھینٹ چڑھتے ہیں، لیکن اس کو زیادہ ہائی لائٹ نہیں کیا جاتا۔
حقائق یہ ہیں کہ یورپ میں مسلمانوں سے متعلق دہشت گردی کے واقعات کی تعداد انتہائی کم ہے۔ یورپی یونین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے یوروپول کے مطابق یورپ میں گزشتہ 5 برسوں کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں مرتکب مسلمانوں کی تعداد صرف 2 فیصد ہے، جب کہ دہشت گردی کے زیادہ تر حملے علیحدگی پسند گروپوں کی جانب سے کیے گئے۔ 2013ء میں یورپ میں 152 دہشت گردی کے حملے ہوئے، جن میں سے صرف 2 کا محرک مذہب تھا۔
جب کہ 84 حملے لسانی قوم پرست یا علیحدگی پسند نظریات کے حامل افراد کی جانب سے کیے گئے تھے، ان میں فرانس کے ایف ایل این سی (جزیرہ کورسیکا کی آزادی کا حامی گروپ) جیسے گروپ شامل تھے۔ 2013ء کے اواخر میں یونان میں بائیں بازو کے عسکریت پسند عوامی انقلابی فورسز نامی گروپ نے دائیں بازو کی سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے دو ارکان کو قتل کر دیا تھا، جب کہ اٹلی میں ایک انارکسسٹ گروپ ایف اے آئی نے دہشت گردی کے متعدد حملے کیے تھے۔
2011ء میں یورپ میں ہونے والے ایک بدترین حملے میں اینڈرس بریوک نے ناروے میں 77 افراد کو اندھا دھند فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ وہ مسلم دشمن، تارکین وطن مخالف اور عیسائی یورپ کے حامی نظریے کے ایجنڈے کا علم بردار تھا۔امریکا میں بھی مسلمانوں کی جانب سے دہشت گردی کی شرح یورپ جتنی ہی کم ہے۔
ایف بی آئی نے 1980ء سے 2005ء تک امریکی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا مطالعاتی جائزہ لیا، جس میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ دہشتگردی کے 94 فیصد حملوں کا ارتکاب غیر مسلموں نے کیا تھا۔ 42 فیصد حملے لاطینیوں سے متعلق گروپوں نے کیے تھے، جب کہ 24 فیصد حملوں میں انتہاپسند بائیں بازو کے کارکن ملوث تھے۔ 2014ء میں شمالی کیرولینا کی یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے ایک مطالعاتی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ 9/11 کے حملوں کے بعد سے مسلمانوں سے متعلق دہشتگردی نے 37 امریکیوں کی جانیں لیں، جب کہ اسی مدت کے دران ایک لاکھ 90 ہزار سے زاید امریکی قتل کیے گئے۔
ٹرائی اینگل سینٹر آن ٹیررازم اینڈ ہوم سیکیورٹی کے مطابق 9/11 کے بعد سے سیاسی تشدد اور بڑے پیمانے پر فائرنگ کے نتیجے میں 3 سو امریکی مارے گئے، جن میں صرف 33، امریکی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ چیپل ہل پر واقع یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے پروفیسر چارلس کرزمان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر تخمینوں کے مطابق امریکا میں 17 سے 70 لاکھ کے درمیان امریکی مسلمان ہیں۔
لیکن ان کی جانب سے دہشت گردی کی شرح فی 10 لاکھ میں صرف 10 ہے اور 9/11 کے بعد سے ایک لاکھ 80 ہزار امریکیوں کے قتل میں اسلامی دہشت گردی کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ ڈیٹا بیس جائزے پر مبنی دی گلوبل ٹیررازم کی ایک رپورٹ کیمطابق 1970ء اور 2012ء کے درمیان امریکی سرزمین پر ہونیوالے کل دہشتگردی کے حملوں میں سے 2.5 فیصد حملے مسلمانوں کی جانب سے کیے گئے تھے۔ 4.9 فیصد حملے یہودی گروپوں مثلاً جیوش آرمڈ ریزسٹنس، دی جیوش ڈیفنس لیگ، جیوش ایکشن موومنٹ، یونائیٹڈ جیوش انڈر گرائونڈ اور تھنڈر آف زیون کی جانب سے کیے گئے تھے۔
پرنسٹن یونیورسٹی کے لون واچ گروپ کی جانب سے ایف بی آئی اے کے اعداد و شمار پر مبنی معلومات کیمطابق امریکا میں دہشتگردی کی سرگرمیوں میں مسلمانوں سے زیادہ یہودیوں کا ہاتھ رہا ہے۔ انتہاپسند یہودیوں نے دہشتگردی کی سرگرمیوں کا ارتکاب اپنے مذہب کے نام پر کیا ہے۔
امریکی ایف بی آئی اور دیگر امریکی خفیہ اداروں کا یہ معمول بن چکا ہے کہ وہ متوقع دہشتگردوں کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشتگردی کی کارروائیوں پر ترغیب دیتے ہیں اور جب یہ لوگ ایسا کرتے ہیں تو گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کی جانب سے امریکی مسلمانوں کے بارے میں چھان بین اور نگرانی کا سخت نظام موجود ہے۔ ایف بی آئی نے اس بات سے قطع نظر کہ وہ کسی جرم میں ملوث ہیں یا نہیں؟ ان علاقوں کے مکمل نقشے تیار کر رکھے ہیں۔
جہاں مسلمان رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ 9/11 کے بعد نافذ کیا جانے والا پیٹریاٹ ایکٹ اور سخت نگرانی سمیت دیگر پابندیاں ابھی تک مسلمانوں کے علاقوں میں خصوصی طور پر نافذالعمل ہیں۔
صدر اوباما نے وفاقی قومی سیکیورٹی کے پورے نظام کو حکم دیا ہے کہ وہ انسداد دہشتگردی سے متعلق اس مواد سے فوری طور پر چھٹکارا حاصل کریں، جس میں ایجنٹوں کو اسلام پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مغرب میں دیگر دہشتگرد گروپوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی انتہائی کم تعداد دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
لیکن مغرب میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اسلامی قوت کے خوف سے مسلمانوں کے خلاف خوفناک پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور مغربی میڈیا اشاعت اسلام کے کام میں رخنہ اندازی کی غرض سے مقامی افراد میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکانے کے مذموم مقاصد کے تحت چھوٹے سے واقعے کو بھی بنیاد بنا کر مسلمانوں کے پیچھے لٹھ لے کر چڑھ دوڑتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت انگیز اور زہریلا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ زیادہ تر عوام اس کے سحر میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کو قصوروار تصور کرنے لگتے ہیں۔
دوسری جانب اس کے مقابلے میں مغرب اس دہشت گردی سے نہ صرف مکمل طور پر محفوظ رہا، بلکہ چند سرپھرے مسلم دہشت گردوں کی آڑ میں دنیا بھر میں اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کر کے مسلمان کی شناخت ایک دہشت گرد کے طور پر متعارف کروائی گئی اور خود یورپ میں مسلمانوں کے اقلیت میں ہونے کے باوجود ہر دہشت گردی کو مسلمانوں کے سر تھوپ کر صرف مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
یورپ اور امریکا میں ایک جملہ اکثر دہرایا جاتا ہے کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں، جب کہ یورپی اور امریکی سیکیورٹی اداروں کی رپورٹس اس الزام کی تصدیق کرنے سے قاصر ہیں، لیکن یورپی اور امریکی ذرایع ابلاغ، غیر مسلم افراد اور گروپوں کی جانب سے کیے جانے والے دہشت گردی کے حملوں کو اس کوریج کا عشر عشیر بھی نہیں دیتے، جس کا مظاہرہ وہ مسلمانوں سے منسلک دہشتگردی کے واقعات کے وقت کرتے ہیں۔
حالانکہ یورپ میں اسقاط حمل سے متعلق ہر پانچ طبی اداروں میں سے ایک پر انتہاپسند عیسائیوں کی جانب سے حملہ ہونا معمول کی بات ہے اور غیر مسلموں کے ہاتھوں روزانہ دسیوں امریکی موت کی بھینٹ چڑھتے ہیں، لیکن اس کو زیادہ ہائی لائٹ نہیں کیا جاتا۔
حقائق یہ ہیں کہ یورپ میں مسلمانوں سے متعلق دہشت گردی کے واقعات کی تعداد انتہائی کم ہے۔ یورپی یونین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے یوروپول کے مطابق یورپ میں گزشتہ 5 برسوں کے دوران ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں مرتکب مسلمانوں کی تعداد صرف 2 فیصد ہے، جب کہ دہشت گردی کے زیادہ تر حملے علیحدگی پسند گروپوں کی جانب سے کیے گئے۔ 2013ء میں یورپ میں 152 دہشت گردی کے حملے ہوئے، جن میں سے صرف 2 کا محرک مذہب تھا۔
جب کہ 84 حملے لسانی قوم پرست یا علیحدگی پسند نظریات کے حامل افراد کی جانب سے کیے گئے تھے، ان میں فرانس کے ایف ایل این سی (جزیرہ کورسیکا کی آزادی کا حامی گروپ) جیسے گروپ شامل تھے۔ 2013ء کے اواخر میں یونان میں بائیں بازو کے عسکریت پسند عوامی انقلابی فورسز نامی گروپ نے دائیں بازو کی سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے دو ارکان کو قتل کر دیا تھا، جب کہ اٹلی میں ایک انارکسسٹ گروپ ایف اے آئی نے دہشت گردی کے متعدد حملے کیے تھے۔
2011ء میں یورپ میں ہونے والے ایک بدترین حملے میں اینڈرس بریوک نے ناروے میں 77 افراد کو اندھا دھند فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ وہ مسلم دشمن، تارکین وطن مخالف اور عیسائی یورپ کے حامی نظریے کے ایجنڈے کا علم بردار تھا۔امریکا میں بھی مسلمانوں کی جانب سے دہشت گردی کی شرح یورپ جتنی ہی کم ہے۔
ایف بی آئی نے 1980ء سے 2005ء تک امریکی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا مطالعاتی جائزہ لیا، جس میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ دہشتگردی کے 94 فیصد حملوں کا ارتکاب غیر مسلموں نے کیا تھا۔ 42 فیصد حملے لاطینیوں سے متعلق گروپوں نے کیے تھے، جب کہ 24 فیصد حملوں میں انتہاپسند بائیں بازو کے کارکن ملوث تھے۔ 2014ء میں شمالی کیرولینا کی یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے ایک مطالعاتی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ 9/11 کے حملوں کے بعد سے مسلمانوں سے متعلق دہشتگردی نے 37 امریکیوں کی جانیں لیں، جب کہ اسی مدت کے دران ایک لاکھ 90 ہزار سے زاید امریکی قتل کیے گئے۔
ٹرائی اینگل سینٹر آن ٹیررازم اینڈ ہوم سیکیورٹی کے مطابق 9/11 کے بعد سے سیاسی تشدد اور بڑے پیمانے پر فائرنگ کے نتیجے میں 3 سو امریکی مارے گئے، جن میں صرف 33، امریکی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ چیپل ہل پر واقع یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے پروفیسر چارلس کرزمان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر تخمینوں کے مطابق امریکا میں 17 سے 70 لاکھ کے درمیان امریکی مسلمان ہیں۔
لیکن ان کی جانب سے دہشت گردی کی شرح فی 10 لاکھ میں صرف 10 ہے اور 9/11 کے بعد سے ایک لاکھ 80 ہزار امریکیوں کے قتل میں اسلامی دہشت گردی کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ ڈیٹا بیس جائزے پر مبنی دی گلوبل ٹیررازم کی ایک رپورٹ کیمطابق 1970ء اور 2012ء کے درمیان امریکی سرزمین پر ہونیوالے کل دہشتگردی کے حملوں میں سے 2.5 فیصد حملے مسلمانوں کی جانب سے کیے گئے تھے۔ 4.9 فیصد حملے یہودی گروپوں مثلاً جیوش آرمڈ ریزسٹنس، دی جیوش ڈیفنس لیگ، جیوش ایکشن موومنٹ، یونائیٹڈ جیوش انڈر گرائونڈ اور تھنڈر آف زیون کی جانب سے کیے گئے تھے۔
پرنسٹن یونیورسٹی کے لون واچ گروپ کی جانب سے ایف بی آئی اے کے اعداد و شمار پر مبنی معلومات کیمطابق امریکا میں دہشتگردی کی سرگرمیوں میں مسلمانوں سے زیادہ یہودیوں کا ہاتھ رہا ہے۔ انتہاپسند یہودیوں نے دہشتگردی کی سرگرمیوں کا ارتکاب اپنے مذہب کے نام پر کیا ہے۔
امریکی ایف بی آئی اور دیگر امریکی خفیہ اداروں کا یہ معمول بن چکا ہے کہ وہ متوقع دہشتگردوں کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دہشتگردی کی کارروائیوں پر ترغیب دیتے ہیں اور جب یہ لوگ ایسا کرتے ہیں تو گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کی جانب سے امریکی مسلمانوں کے بارے میں چھان بین اور نگرانی کا سخت نظام موجود ہے۔ ایف بی آئی نے اس بات سے قطع نظر کہ وہ کسی جرم میں ملوث ہیں یا نہیں؟ ان علاقوں کے مکمل نقشے تیار کر رکھے ہیں۔
جہاں مسلمان رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ 9/11 کے بعد نافذ کیا جانے والا پیٹریاٹ ایکٹ اور سخت نگرانی سمیت دیگر پابندیاں ابھی تک مسلمانوں کے علاقوں میں خصوصی طور پر نافذالعمل ہیں۔
صدر اوباما نے وفاقی قومی سیکیورٹی کے پورے نظام کو حکم دیا ہے کہ وہ انسداد دہشتگردی سے متعلق اس مواد سے فوری طور پر چھٹکارا حاصل کریں، جس میں ایجنٹوں کو اسلام پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مغرب میں دیگر دہشتگرد گروپوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی انتہائی کم تعداد دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
لیکن مغرب میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اسلامی قوت کے خوف سے مسلمانوں کے خلاف خوفناک پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور مغربی میڈیا اشاعت اسلام کے کام میں رخنہ اندازی کی غرض سے مقامی افراد میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکانے کے مذموم مقاصد کے تحت چھوٹے سے واقعے کو بھی بنیاد بنا کر مسلمانوں کے پیچھے لٹھ لے کر چڑھ دوڑتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت انگیز اور زہریلا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ زیادہ تر عوام اس کے سحر میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کو قصوروار تصور کرنے لگتے ہیں۔