زیست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں

بظاہر یہ ایک عنوان ہے۔ لیکن اس میں پوشیدہ ہیں ہمارے حالات، اس میں موجود ہے ہمارا ماضی و حال اور شاید مستقبل۔

saifuzzaman1966@gmail.com

KARACHI:
بظاہر یہ ایک عنوان ہے۔ لیکن اس میں پوشیدہ ہیں ہمارے حالات، اس میں موجود ہے ہمارا ماضی و حال اور شاید مستقبل۔ اس سے ٹپکتے ہیں اس ماں کے آنسو جو اپنے جوان بیٹے کو کھو چکی، اس بیوی کی آہ و فغاں جس کا شوہر نہیں رہا، ایک بہن جس سے چہیتے بھائی کا لاڈ پیار گیا، اور سب سے بڑھ کر وہ معصوم بچے جن کے ننھے ننھے ہاتھوں سے کمسنی میں ہی ان کے باپ کی انگلی چھوٹ گئی اور وہ زمانے کے بھرے پرے میلے میں حیران و پریشان کھڑے تیزی سے گزرتی اس بھیڑ کو دیکھ رہے ہیں۔

جس میں سب موجود ہیں لیکن نہیں نظر آتے وہ مشفق و مہربان ہاتھ جو انھیں تھامے ہوئے تھے۔ ہر سمت قتل و غارت گری ہے اور اپنے تمام رنگ لیے جلوہ افروز۔ کہیں بم دھماکے ہیں اور ان کی نذر ہوتے بے قصور اور بے بس لوگ۔ کہیں تعصب ہے اور اس کی بھینٹ چڑھتے مستحق، پڑھے لکھے نوجوان جو انتھک محنت کرنے کے باوجود اہل ہوتے ہوئے بھی خودکشی پر مجبور ہیں۔ کہیں دین کا پرچم تھامے ہتھیار بند جو بلادریغ بچوں سے بوڑھوں تک کو گولیوں سے بھون رہے ہیں۔

کہیں جہیز کی لعنت جو گھروں میں بیٹھی پڑھی لکھی شریف اور باکردار لڑکیوں کو بڑھتی ہوئی عمر سے قتل کر رہی ہے۔ کہیں بھتہ خور جو حلال سے کمائی روزی چھین کر غریب دکانداروں کو موت کے منہ میں بھیج رہا ہے۔ اور ٹارگٹ کلنگ ہے ایک "Surprise Death"۔ جنس کی بھوک ہے جسے لے کر جنسی درندے 5 سالہ کمسن بچی سے لے کر 70 سالہ بوڑھی عورت تک کے چیتھڑے اڑا رہے ہیں۔ جنبش قلم کی غلطیاں ہیں جن سے شرفا کو بدنام اور بدنام زمانہ کو فرشتہ ثابت کیا جا رہا ہے۔

غرض کہ زندگی کی شکل و صورت اب ہمسائے سے ادھار لیے زیور سے زیادہ نہیں رہی۔ جو چند گھنٹوں کے لیے ہو یا چند دنوں کے لیے۔ اسے پہن لیں، اوڑھ لیں یا بچھا لیں لیکن وہ آپ کی ملکیت نہیں ہو سکتا اسے لوٹانا ہو گا ہر قیمت پر ہر حال میں۔

کراچی سمیت ملک میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات ہمیں کس اور لیے جا رہے ہیں۔ کون ہے جو لب کشا ہو، اور بتائے کہ اس سفر کی سمت کیا ہے؟ جمہوریت کا جامہ کیا ہے؟ کون ہے؟ جو اسے اوڑھ کر من مانیاں کر رہا ہے۔ بظاہر اس سے خوف آتا ہے۔ راہرو ہے، رہزن ہے، رہبر ہے؟ فیصلہ کون کرے۔ ہمیشہ کی طرح آنے والا وقت! اگر اس پر بھی چھوڑ دیں تو سابقہ تجربات کا کیا کیا جائے؟ ایک حل تو سیدھا سا ہے کہ انھیں لال رنگ کا سرکاری کپڑا پہنا کر، نیلے فیتے میں باندھ کر ایک اجاڑ کمرے میں رکھ دیا جائے جس میں زرد بلب بھی جلتا ہو۔ یا پھر انھیں یادداشت کے گرم و سرد موسموں سے باہر نکالا جائے اور جھاڑ پھونک کر جائزہ لیا جائے کہ وہ تجربات کیسے رہے؟ جن کو آج بنیاد بنا کر بھروسے کی شکل دیں یا آزمودہ کار کہہ کر رد کردیں۔

کون کہتا ہے قاتل سے نرمی برتیں، رہزن سے ہنس کر بات کریں؟ لیکن فطری سچائی ہے کہ قاتل و مقتول زمین بدلنے سے تبدیل نہیں ہو جاتے۔ جرم اپنی ساخت اور حجم میں خطہ انسانی پر یکساں رہتا ہے۔

ملکی پسماندگی، بدحالی، بدامنی، دہشت گردی کو ایک عمارت میں کیسے بند کیا جائے؟ حقیقت کو زبان زدعام ہونا چاہیے۔ مسجد ہو یا مندر، مجرم جہاں پوشیدہ ہے، قاتل جہاں پناہ لیے ہوئے ہے، واجب سزا ہے، واجب القتل ہے۔

دین اور دنیا کی تمام کتابیں اپنی تہذیب و قدریں لیے اسی سچائی سے جڑی ہیں۔ہمیں سوچنا ہو گا۔ چند روزہ اصلاحی پروگرام سے باہر نکل کر۔ اندرون سندھ اکثر علیحدگی پسند جماعتیں قومی پرچم نذرآتش کرتی ہیں۔ ملک سے علیحدگی کا مطالبہ ان کے منشور کا حصہ ہے۔ ملک مخالف نعرے ان کی تحریک ہیں۔ ذرا ماضی میں جھانک لیں تو ایمان تک تازہ ہو جائے گا کہ کیسے ایک دور میں پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے سے روکنا تھا؟ لہٰذا ایم کیو ایم کو بنایا گیا۔ سندھ کے علیحدگی پسند رہنماؤں کی سرپرستی کی گئی۔ کیوں نہ کہہ دیں کہ:


جو چاہیں سو آپ کرے ہیں

ہم کو عبث بدنام کیا

یا پھر تسلیم کر لیں کہ باقی لوگوں کو "Son of Soil" ہونے کی Facility حاصل ہے، کچھ کرنا ممکن نہیں۔ ہم کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ ہم جب بھی افراد کی پکڑ دھکڑ کرتے ہیں تو اس کی زد میں ایک قوم آ جاتی ہے۔ حالانکہ جتنا ضروری ایک مجرم کو سزا دینا ہے اتنا ہی ضروری اس سے جڑی ثقافت کو محفوظ رکھنا۔ خدانخواستہ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ قاتل کی گرفت نہ ہو۔

کسی ٹارگٹ کلر کو اس بنیاد پر رعایت کا مستحق سمجھا جائے، کوئی ظالم بھتہ خور سزا سے محفوظ رہ جائے ہرگز نہیں۔ میرے کہنے کا واحد مقصد ایک مجرم اور ایک قوم کے درمیان وہ فرق ہے جسے روا رکھا جانا چاہیے۔ ممکن ہے کہ آج آپ کو فضا میں ایک بے چین سی بھنبھناہٹ سنائی نہ دے رہی ہو۔ لیکن عین ممکن ہے کہ کل آپ اسے شور کی صورت سنیں۔ لہٰذا احتیاط اتنی ضرور مانع رہے کہ فرسودہ خیالات جنم نہ لیں۔

اگر کوئی غلط سلسلہ بفضل تعالیٰ ختم ہونے جا رہا ہے تو اس کی جگہ ویسے ہی اور لوگ نہ لے لیں جو اپنے پیشروؤں سے مختلف نہ ہوں۔جب کہ اس احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت بھی عام طور پر محسوس کی جا رہی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ ان کا اور ان کی آمدہ نسلوں کا مستقبل محفوظ ہونے جا رہا ہے۔ امن ہو گا تو علاقہ ترقی کرے گا اور علاقے کی ترقی میں ہی ان کی ترقی و عافیت مضمر ہے۔دوسری جانب آپریشن کی زد میں آنے والوں کے لیے بھی یہ ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔

اگر آپ بہ زبان خود امن پسند ہیں، امن کے داعی ہیں، امن کے لیے لڑتے رہے ہیں تو خرابی امن کے ذمے دار آپ کی حفاظت میں کیا کر رہے تھے؟ آپ تو ماشا اللہ ایوانوں میں تشریف رکھتے ہیں، عوام کی ایک بڑی تعداد نے آپ کو اپنا ترجمان مقرر کیا ہے، بلکہ بحیثیت نگہبان منتخب کیا ہے۔

میں موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے اپنی دانست میں کارروائی کو بالکل جائز اور درست مانتا ہوں۔ وقت بھی موزوں ہے، لیکن سمت ایک نہیں چار ہونی چاہئیں۔ جیسا کہ وزیر داخلہ نے فرمایا ''مجرم مجرم ہے۔ وہ PML-N سے ہو یا متحدہ قومی موومنٹ سے۔'' تب ضروری ہو گا کہ گرفتاریاں بھی سبھی اطراف سے کیجیے، چھاپوں کا دائرہ کار بھی بڑھائیے، آپ ضرور واقف ہوں گے کہ دین میں انصاف و عدل کی کیا اہمیت ہے؟ آپ کا عمل کیا ہے؟

آخر میں کچھ صاحبان عقل و خرد سے درخواست ہے کہ آپ کی تنقید، تجزیے و تبصرے مجرم تک محدود رہیں، کوئی تہذیب و تمدن ان کی زد میں آ جائے تو مناسب نہ ہوگا۔
Load Next Story