موازنہ سیاست کا کل اور آج
کراچی کے سیاسی حالات کا موازنہ بہت ضروری یعنی ماضی کا کراچی اور آج کا کراچی،
کراچی کے سیاسی حالات کا موازنہ بہت ضروری یعنی ماضی کا کراچی اور آج کا کراچی، ہم بار بار یہی سنتے ہیں کہ روشنی کا شہر کراچی اب تاریکی میں ڈوب گیا، درحقیقت تاریکی تو پورے ملک میں پھیل گئی، اس تیرگی کو پھیلانے میں سویلین حکومت کا خاصا دخل ہے۔
جنرل ایوب خان سے سیاسی اختلاف جس قدر بھی کیا جائے کوئی حرج نہیں مگر یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ ملک کے دو بڑے ڈیم اسی فوجی حکومت نے بنائے، نہری نظام درست کیا، صنعت کا پہیہ گھومنا شروع ہوا، حالانکہ پہلے مارشل لا کے ابتدائی دور میں صنعت کو دھچکا لگا اور صنعتی بے قاعدگی کی گئی، کراچی چونکہ صنعتی شہر تھا، یہاں مزدور یونینیں خوب پھل پھول رہی تھیں،سیاسی ماحول گرم تھا، سوشلسٹ پارٹیاں اپنا قدم جمائے ہوئے تھیں، ایک تو صنعتی شہر، دوئم ملک کا دارالسلطنت ہونے کے سبب معاشی، سیاسی، سماجی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔
1947 سے لے کر تقریباً 15 برس تک کراچی نے دارالسلطنت کا لطف اٹھایا، امن وامان کی صورت حال نہایت اچھی تھی، بنگلوں کی چہاردیواری بمشکل 4½ فٹ بلند ہوتی تھیں، چوری کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر تھیں، دارالسلطنت اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد بھی شہر کا نظم و نسق قابل دید تھا، اگر کوئی واردات ہوتی تو وہ چاقو کی واردات، غنڈہ گردی نام کو نہ تھی، لیاری میں نیپ کی سیاست تھی، اسٹوڈنٹس میں بی ایس او فعال تھی، گھروں، مکانوں اور دکانوں پر قبضے کا کوئی تصور نہ تھا۔
پیپلز پارٹی کے فعال ہونے پر 1970 کے بعد لیاری میں لسانی اور گروہی سیاست کا آغاز ہوا، ذوالفقار علی بھٹو کے دوران اقتدار میں جب صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ ممتاز علی بھٹو وزیراعلیٰ کی حیثیت سے براجمان ہوئے تو سندھی مہاجر اختلافات منظر عام پر آئے اور پہلی بار اردو بولنے والوں کو یہ محسوس ہوا کہ وہ ملک میں یکہ و تنہا ہیں اور ان کا سیاسی مقام کچھ نہیں ہے۔
کوٹہ سسٹم کا آغاز ہوا جس سے ترقی پسند قوتوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ وہ مہاجر لفظ کو استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے، ان میں ترقی پسندوں کی اکثریت نیشنل عوامی پارٹی میں متحرک تھی، جب چار قومیتوں کا مسئلہ اٹھایا جاتا اور آگے بڑھایا گیا تو اردو داں طبقہ میں بعض دانشوروں صاحب قلم نے پانچویں قومیت کی بات شروع کی، ان میں احمد الطاف انسان، رئیس امروہوی اور ان کا حلقہ احباب پیش پیش تھا، رفتہ رفتہ خصوصاً مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بن جانے نے اس عمل کو تیز کردیا، خصوصاً سندھی قوم پرستوں کے نعرے ''نہ کھپن نہ کھپن بہارین نہ کھپن'' نے اردو بولنے والوں میں منفی ردعمل پیدا کیا۔
جس کو محمود الحق عثمانی جو NAP نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے ان کو بڑے کٹھن دور سے گزرنا پڑا، کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ پارٹی میں اردو بولنے والے ایک واضح حلقے پانچویں قومیت کی باتیں کرنے لگے۔
چونکہ بھٹو صاحب کی حکومت ترقی پسندوں کے اوزار تو رکھتی ہے مگر قوم پرستی اور لسانیت کے سایہ سے باہر نہ نکل سکے، سندھ میں کشیدگی میں اضافہ خصوصاً لاڑکانہ میں آباد اردو بولنے والے شہر چھوڑنے لگے۔ لیاقت آباد میں اردو زبان کے حق میں مظاہرے میں گولی چلی اور لوگ مارے گئے۔ اردو زبان کے معروف شاعر رئیس امروہوی جو کبھی یہ لکھا کرتے تھے:
اے خطہ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام
انھوں نے اردو سندھی بل پر جو کچھ لکھا، کراچی بھڑک اٹھا، ان کا کہنا تھا :
اردو کا جنازہ ہے بڑے دھوم سے نکلے
جس کے نتیجے میں ترقی پسند کراچی میں اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھے اور اردو سندھی تضاد عام ہوا، اس طرح رفتہ رفتہ اردو سندھی بولنے والوں میں تصادم کی راہ ہموار ہوتی گئی اور ترقی پسند تقسیم ہوتے گئے، بنگلہ دیش سے آئے ہوئے گروپوں نے بہاری قومی موومنٹ تشکیل (BQM) دی۔ لئیق اعظم اس کے محرک تھے۔
اس بات کے اثرات نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن جو متحرک طلبا تنظیم تھی اس پر بھی پڑے، عالمی پیمانے پر روس چین کے نظریاتی تصادم نے تو این ایس ایف کو نیم جاں کردیا تھا۔ اردو سندھی تضاد نے مزید کمزور کردیا کیونکہ سندھی بولنے والے کراچی میں بڑی تعداد میں طالب علم تھے، میڈیکل اور انجینئرنگ کے شعبے میں وہاں بھی اس کا احساس ہوا، مرزا جواد بیگ اور کچھ دیگر لوگ کراچی صوبہ کی تحریک کا پرچم اٹھائے تھے مگر عوام نے ان کو کوئی سنجیدہ شخص نہ سمجھا۔
اس موقع کو دیکھتے ہوئے مسٹر امیر حیدر کاظمی جو کبھی این ایس ایف کے صدر ہوتے تھے انھوں نے کراچی صوبہ کی تحریک کی اصولی طور پر حمایت کی۔ قرارداد این ایس ایف میں پیش کی جو مرکزی کمیٹی نے ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کرلی مگر چونکہ این ایس ایف کے روابط مزدور اور کسان دونوں میں تھے اس لیے اس تحریک کو چلانے کے لیے پارٹی کے لوگوں نے عملاً کچھ نہ کیا۔ امیر حیدر کاظمی نے پارٹی چھوڑی تو این ایس ایف رفتہ رفتہ اردو بولنے والوں میں اپنا اثر و رسوخ کھونے لگی۔
ظاہر ہے سیاست ہو یا زمین، کسی چیز میں خلا زیادہ عرصہ نہیں رہتا۔ 1974 سے 1978 تک طلبا کے میدان میں بڑے خلا کی کیفیت رہی، اگر آسمان پر ہوا کا دباؤ کم ہوگا تو پھر کسی اور سمت سے بادل آکر پر کریں گے، چونکہ مشرقی پاکستان اور بعدازاں افغانستان سے مہاجرین کی آمد سے کراچی کی ڈیموگرافی بدلتی رہی، کافی ہاؤس، چائے خانے مباحثوں کے مراکزوں کا خاتمہ زور زبردستی کی سیاست کا رواج عام ہوگیا، یہی دور مہاجر تنظیموں کے نمو کا تھا، قیام پاکستان کے وقت تو مذہبی تنظیمیں پیش پیش نہ تھیں، اس لیے جو نعرے بھارت میں لگائے جاتے تھے۔
ان میں 'نعرہ تکبیر اللہ اکبر' اور ''بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کے رہیں گے پاکستان'' لیکن شہر کراچی میں مذہبی، صوبائی، لسانی فسادات کی چھوٹی اور بڑی شکلیں 1986 کے بعد پیدا ہونے لگیں۔ کراچی کے قدیم اور 1947کے بعد آئے ہوئے باشندوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونے لگا، پاکستان کا سیاسی ماحول تلخی زور زبردستی پر چل پڑا، تعلیمی ادارے چوپٹ ہونے لگے، اسٹوڈنٹس یونین ختم کردی گئیں، جمہوریت کے نام پر آئی ہوئی حکومت ہو یا جمہوریت اور آمریت کا مرکب حکومتیں، طلبا انجمنوں کے تعلیمی اداروں میں انتخابات بند ہی رہے، مار دھاڑ کرنے والی طلبا تنظیمیں جو اسٹیبلشمنٹ کی ہمنوا رہی ہیں ان کی حکومتی سطح پر سرپرستی تو نہ رہی مگر ان کی سفاکی کو نظرانداز کیا جاتا رہا۔
بالآخر حکومتی ایوانوں میں جو لوگ جا کر بیٹھے انھوں نے یہ خیال کبھی نہ کیا کہ کراچی کے قدیم باشندے اور وہ باشعور لوگ جو موازنہ کرکے پاکستان آئے ہیں ان کے مسائل کیسے حل ہوں؟ بھارت ان کے لیے اچھا رہے گا یا پاکستان، ان لوگوں کے مفادات کا سوال نہ کبھی اٹھایا گیا اور نہ ہی اٹھایا جائے گا کیونکہ بھارت کے شہروں اور چھوٹے قصبات کے لوگ بھی تعلیم یافتہ تھے۔ ابتدائی بیوروکریسی بھی جو پاکستان آئی تھی وہ بھی مہاجرین تھے، بعض شہروں اور قصبات میں فسادات نہ ہوئے تھے مثلاً الٰہ باد، فیض آباد، لکھنو، بنارس، حیدرآباد دکن تقریباً پورا صوبہ مگر وہاں سے بھی لوگ آئے۔
مگر مسلمانوں کی نوجوان نسل ان کو یہاں کھینچ لائی، اکثریت بڑے پکے مکانات چھوڑ کر جھگی نشین ہوگئے۔ تقسیم سے پہلے کراچی کی آبادی تو 5 لاکھ پر مشتمل تھی، بھارت سے آئے ہوئے لوگ عام طور پر نرم مزاج مہذب تھے، کیونکہ آتشیں اسلحہ کا رواج بھارت میں موجود نہ تھا اور پھر باڑہ مارکیٹ لنڈی کوتل سے اسلحہ لانا آسان نہ تھا، مگر ڈیمو گرافی اور سیاسی حالات کی تبدیلی نے کراچی شہر کو لوٹ مار کی منڈی میں تبدیل کردیا۔ زمانہ طالب علمی میں مارشل لا کے خلاف جلسے جلوس نکالنا ایک عام سی بات تھی۔
1969 میں جب کراچی کی آبادی 80 لاکھ کے قریب تھی، ایک لاکھ یا 80 ہزار کے جلوس اور محض ہڑتال نہیں بلکہ کرفیو بھی لگ جاتے تھے مگر مسائل پر فیسوں میں کمی کے لیے انسانی جانیں اتنی ارزاں نہ تھیں، نہ بھتہ خوری تھی اور نہ ہی اغوا برائے تاوان کا تصور۔ آپ کو تعجب ہوگا کہ 1970 میں صدر ایمپریس مارکیٹ سے ٹاور تک چندہ جمع کرنے کے لیے این ایس ایف کی کابینہ پیدل چلی، شوروم اور بڑی دکانوں سے 1000 روپے بھی پورے راستے جمع نہ ہوئے، حالانکہ دھونس دے کر رقم لی جاسکتی تھی مگر یہ بھی آداب سیاست نے گوارا نہ کیا اور ایسا لگا کہ ہم بھیک کے مشن پر نکلے تھے۔
اس کے بعد نوکری پیشہ ڈاکٹر انجینئر حضرات سے ہی چندہ لیا جاتا تھا مگر جب سے پیسہ بٹورنے والے حکمراں اور ان کی سیاسی حکمت عملی کا ملک پر راج ہوا اخلاقیات کا سورج ملک میں غروب ہوگیا اور اب ایسا لگتا ہے کہ نئی صبح نہ آئے گی۔
اب ملک میں ضمیر کے سوداگر مل کر مفاہمت اور جمہوریت کے نام پر زرمبادلہ باہر بھیجتے رہیں گے، دبئی سے کیونکر رقم واپس آئے گی، پورے سال بھر میں سمندر پار پاکستانی جو رقم پیٹ کاٹ کر ہمارے ملک کو روانہ کرتے ہیں وہ یہ حکمران بازی گر ایک رات میں ملک سے باہر لے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، جب تک ملک پر باضمیر صاحبان علم کی حکومت نہیں آئے گی ملک میں عمل تطہیر میں کامیابی کے امکانات میں رکاوٹیں آتی رہیں گی۔ ہمارے زوال میں کرپشن کا کلیدی کردار ہے۔