سیکولرازم پر ہندو توا کا لبادہ
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ آزاد خیال قوتوں نے اراضی کے حصول کے مسودہ قانون کی مخالفت میں گٹھ جوڑ کر لیا ہے
پاکستان میں زیادہ لوگوں کو یاد بھی نہیں ہو گا اور بھارت میں تو ان سے بھی کم لوگوں کو علم ہو گا کہ اس 23 مارچ کو مسلم لیگ کی اس قرارداد کو 75 سال ہو گئے ہیں جب اس نے بھارت کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا۔
اس کو قرارداد لاہور کا نام دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ ''اس ملک میں کوئی آئینی منصوبہ قابل عمل نہیں ہو گا یا مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا جب تک کہ وہ درج ذیل بنیادی اصولوں پر استوار نہیں ہو گا یعنی جغرافیائی بنیادوں پر متصل علاقوں کی حد بندی کی جائے جہاں مسلمان اکثریت رکھتے ہوں جیسے کہ انڈیا کے شمال مغربی اور مشرقی زون ہیں ان کو اکٹھا کر کے آزاد اور خود مختار ریاستوں کی شکل دیدی جائے۔
پاکستان کا لفظ نہ تو قرارداد میں استعمال ہوا اور نہ ہی اس جلسے میں کی جانے والی تقاریر میں لیکن انڈیا کے بڑے بڑے اخبارات میں جو کہ ہندوؤں کی ملکیت میں تھے اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ محمد علی جناح نے اپنی زندگی ہی میں مسلم عوام کے لیے ایک پیغام وضع کیا جس پر انھوں نے بعدازاں تاسف کا اظہار کیا تھا کہ قرارداد میں ''ایسے علاقوں کی تنظیم نو کا ذکر کیوں کیا جو ضروری ہوں'' کیونکہ انھی کی بنیاد پر مسلم اکثریت والی ریاستیں (پنجاب اور بنگال) بھی تقسیم کر دی گئیں۔
ممکن ہے کہ جناح صاحب کو بعد میں احساس ہوا ہو کہ ''آزاد ریاستوں'' کے لفظ کے استعمال کا کس قدر منفی نتیجہ نکلا۔ کیونکہ بعد میں ایک آزاد مشرقی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) کے حامیوں نے یہ دلیل پیش کی کہ شمال مغربی اور مشرقی زون میں دو آزاد ریاستوں کے قیام کا قرارداد پاکستان میں ذکر کیا تھا۔ جناح صاحب نے بعدازاں وضاحت کی کہ ریاست کے بجائے ریاستوں کے لفظ کا استعمال ٹائپنگ کی غلطی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو جو کہ ایک نوجوان لیڈر تھے نے یہ جملہ کسا کہ وہ مستقبل میں اس سٹینو گرافر سے احتیاط برتیں گے۔ تاہم یو پی سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ کے لیڈر خلیق الزمان نے' جنہوں نے کہ قرارداد کی تائید کی تھی' بتایا کہ ریاست (State) کے لفظ کو انھوں نے States (ریاستوں) میں تبدیل کیا تھا لیکن اس سے ان کا کوئی خاص مقصد نہیں تھا۔ قرار داد کے مسودے کی تیاری کے دوران دہلی میں اپریل 1946ء میں ہونیوالے مسلم لیگ کے کنونشن کی جانب سے پاکستان کے مطالبے کا اعادہ کیا گیا۔
انھوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قرار داد کے متن میں سے ''ایسی علاقائی ترتیب'' کے الفاظ نکال دیے جو کہ قرار داد لاہور میں موجود تھے۔میں (کلدیپ نیئر) تقسیم کے خلاف ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ اگر تقسیم ناگزیر تھی تو یہ قرار داد لاہور کی بنیاد پر ہونی چاہیے تھی۔ ان علاقوں کی نشان دہی کی جانی چاہیے تھی جن کا کہ مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ ایک جغرافیائی تقسیم ہونی چاہیے تھی لیکن جو تقسیم ہوئی وہ مذہب کی بنیاد پر تھی۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگ اس مذہبی جنون میں مارے گئے جو اس کے بعد طاری ہوا اور اب بھی اس کی کوئی انتہا نہیں بالخصوص بھارت جہاں کہ اندازاً 16 سے 17 کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ آج سے 18 سال پہلے ہاشم پورہ میں کیا ہوا یہ صرف ایک مثال ہے۔
ملاحظہ کیجیے۔1987ء میں ہاشم پورہ قتل عام میں ملوث مسلح صوبائی کانسٹیبلری کے 16 افسروں اور اہل کاروں کو عدالت نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے یہ کہہ کر بری کر دیا کہ ان کے خلاف کافی ثبوت نہیں ہیں۔ چنانچہ یہ معاملہ دہلی کی ریاستی قانونی خدمات کی اتھارٹی کے سپرد کر دیا گیا تا کہ وہ متاثرین کی بحالی کا کام کرے۔مسلح صوبائی کانسٹیبلری کے 19 افسروں کے خلاف مئی 1987ء میں اتر پریش کے شہر میرٹھ میں 42 افراد کو مبینہ طور پر قتل کرنے کا مقدمہ قائم ہوا۔
ان میں سے 3 ملزم مقدمے کے دوران چل بسے۔ ہلاکتیں میرٹھ شہر میں ہونے والے فساد کے نتیجے میں ہوئیں جب کہ شہر کے علاقے ہاشم پورہ سے بے گناہ لوگوں کو اٹھا لیا گیا تھا۔ اس قسم کے واقعات کا ایسے ملک میں وقوع پذیر ہوناجس نے آزادی کے بعد سیکولر نظریہ اختیار کرنے کا دعویٰ کیا انتہائی قابل مذمت ہے۔ ہمیں اپنی اس ناکامی کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم عوام کے ذہنوں میں سیکولر اقدار راسخ نہیں کر سکے۔ لہٰذا حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی کو متعصب ہندو تنظیم آر ایس ایس کی طرف سے ہدایات جاری کی جاتی ہیں اور بہت سے بیوروکریٹس جو تعصبانہ ماحول میں رہ رہے ہیں وہ اس صورت حال کو مزید خراب کر رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ ہمارے آئین کے دیباچے میں سیکولر ازم کا لفظ اب بھی موجود ہے حالانکہ اس کو خارج کرنے کی بڑی کوششیں کی گئیں لیکن یہ فریب کاری کی کوشش تھی۔ اقلیتیں ڈر اور خوف کے عالم میں رہ رہی ہیں۔
آج فرقہ وارانہ قوتیں دفاعی پوزیشن میں ہیں۔ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ جیسے ہندوتوا کے نظریے پر عمل درآمد کرانا ان کا حق ہے اور وہ آئین کو بھی ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کی کوششیں کر رہی ہیں تا کہ وہ لبرل ہونے کا تاثر قائم رکھ سکیں۔ مودی حکومت نے ملک کی اقدار کو کافی نقصان پہنچایا ہے اور ابھی بھی اس کی مدت مکمل ہونے میں پورے 4 سال کا عرصہ باقی ہے۔
ہریانہ میں سنسکرت زبان اور گیتا کی تدریس لازمی قرار دیدی گئی ہے جو کہ بدشگونی کے مترادف ہے اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ آگے کیا ہو سکتا ہے۔ شاید بی جے پی حالات کا جائزہ لے رہی ہے۔ جب اسے اندازہ ہو گیا کہ اس کے ہندوتوا کے نظریے کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہیں جیسے کہ پہلے اس کی مخالفت میں شور اٹھتا رہا ہے تب یہ پارٹی اس کو نافذ کرنے کے لیے پوری رفتار سے کام کرے گی۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ آزاد خیال قوتوں نے اراضی کے حصول کے مسودہ قانون کی مخالفت میں گٹھ جوڑ کر لیا ہے اور اگلے ہی دن کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی قیادت میں احتجاجی مارچ میں حصہ لیا ہے لیکن جب بھارت کے وجود کے لیے ہی خطرہ پیدا ہو گیا ہو تو وہ اپنے اس لائحہ عمل کے سلسلے میں مصروف ہیں۔
جس سے انتشار پیدا کرنے والی قوتوں کے لیے میدان صاف ہو گیا ہے۔ جب مودی حکومت کے حقیقی عزائم کھل کر سامنے آ چکے ہیں تو آزاد خیال عناصر کا غیر فعال ہونا تعجب خیز ہے۔ کبھی کبھی ایسا نظر آتا ہے کہ وہ بی جے پی کے پروگرام کو ناکام بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں کر رہے ہیں لیکن یہ محض دکھاوا ہوتا ہے۔ اس میں حقیقت کم ہی ہوتی ہے۔
یہ وقت ہے کہ قرار داد پاکستان کے اصل مقاصد پر دوبارہ غور کیا جائے جو کہ بالآخر تقسیم پر منتج ہوئے لیکن یہ تقسیم علاقائی سے زیادہ مذہبی تھی۔ بدقسمتی سے ہم بڑی بے بسی سے پاکستان کو طالبان کے رستے پر چلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہاں بنیاد پرست قوتوں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ ایسے موقع پر بھارت کو سیکولر ازم کی روشن مثال پیش کرنی چاہیے جیسا کہ تحریک آزادی کے موقع پر وعدہ کیا گیا تھا۔
حتٰی کہ قبل ازیں اٹل بہاری واجپائی کی قیادت کے دوران بھی بی جے پی نے ملک کی حقیقی اقدار کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ واجپائی ایک زمانے میں خود آر ایس ایس کے پرچارک تھے لیکن انھیں بھارت کے معاشرے کی رنگا رنگی کا احساس تھا اور وہ اسے ملک کی طاقت تصور کرتے تھے ان کے خیال میں ملک پر کسی ایک مذہب کا غلبہ ملک کی روح کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا لیکن بدقسمتی سے مودی آر ایس ایس کے نظریے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں جو کہ بڑے افسوس کا مقام ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)