تاریخ اور ہم
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا<br />
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
ابھی پرسوں اترسوں ہم نے اسی کالم میں ریختہ فاؤنڈیشن کے جشن ریختہ کا ذکر کرتے کرتے دلی شہر کے اگلے پچھلے زمانوں کا ذکر شروع کر دیا تھا۔ وہ ذکر ہم نہ کرتے یہ سوچ کر کہ رات گئی بات گئی۔
وہ زمانے گزر گئے اب زمانہ اور ہے اور دلی شہر کا رنگ اور ہے۔ یا یوں کہہ لو کہ اب یاں کی زمیں اور ہے فلک اور ہے۔ مگر ہمارے دوست ڈاکٹر الوک بُھلہ نے ہمیں جشن ریختہ کے بیچ سے اٹھایا اور کہا کہ ذرا اس شہر کو بھی دیکھو۔ اور کونسا شہر۔ بتایا کہ یہاں دارا شکوہ کی لائبریری تھی اور وہ خونیں دروازہ ہے جہاں مغل شہزادوں کے سر قلم ہوئے تھے۔ اور یہ جو فصیل نظر آ رہی ہے یہ پرانے قلعہ کی فصیل ہے۔
یہ چند اشارے کافی تھے۔ ہمیں یاد آتا گیا کہ اس نگر میں کیا کیا کچھ ہو چکا ہے۔ اسی حساب سے شعر یاد آتے گئے' کوئی میر کا' کوئی غالب کا' کوئی آتش کا اور آتش کے مصرعہ پر آ کر اٹک گئے ع
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
لیجیے اب یہ پورا شعر سن لیجیے ؎
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
اس پر ہمارے ایک کرمفرما نے ہمیں فون کیا اور عجب بات کہی کہ یہ سارے عبرت انگیز شعر دلی جا کر ہی کیوں یاد آئے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی تو یہ شعر یاد آ سکتے تھے۔
بلکہ واقعہ یوں ہے کہ دلی شہر نے تو اپنی لمبی تاریخ میں کتنے مسلمان سلاطین کو کروفر سے حکومت کرتے اور عبرت بھرے حالات میں رخصت ہوتے دیکھا۔ تب ایسے شعروں کا مستحق ٹھہرا۔ ہمارے پاکستان نے تو اپنی مختصر تاریخ میں ایسے شعروں کا اپنے آپ کو مستحق ٹھہرا لیا۔ آتش کی جس غزل کا ایک مصرعہ آپ نے بار بار دہرایا ہے اس غزل کے اس شعر کو ذرا دھیان میں لائیے ؎
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
ارے دلی نے تو ایسے شعروں کا استحقاق حاصل کرنے کے لیے کتنی صدیاں اچھے برے حالات میں بسر کیں۔ پاکستان نے تو ابھی ایک صدی بھی پوری نہیں کی ہے کہ اس شعر پر وہ بکمال خوبی اپنا حق جتا سکتا ہے۔
ارے واہ' کیا خوب ہمیں احساس دلایا ہے کہ اپنی تاریخ بھی مختصر ہوتے ہوئے دنیائے اسلام کے کتنے ایسے شہروں سے برابری کا دعوے کرتی نظر آتی ہے جو ایک لمبی تاریخ گزارنے کے بعد ایسے شعروں کی اہل ٹھہری ہے۔ یہاں تو اپنی زمین روز کوئی نیا گل کھلاتی ہے اور روز آسماں ایسا رنگ بدلتا ہے کہ زیر آسماں یار و اغیار حق دق رہ جائے۔
دیکھئے عبرت کا سامان تو اس عالم آب و گل میں بہت ہے اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مگر حاصل کرنے والے کا دامن بھی تو کشادہ ہونا چاہیے۔ اب یہ ہماری قسمت کہ پاکستان نے اپنی مختصر تاریخ میں اتنا سامان عبرت سمیٹ لیا ہے کہ ملک اور قومیں اتنا سرمایہ حاصل کرنے میں صدیاں گزار دیتی ہیں۔
مگر ذرا دوسرے زاویے سے دیکھو تو نقشہ کچھ اور ہی نظر آئے گا۔ یہ سارا سامان عبرت ہمارے آپ کے لیے ہے مگر آتے جاتے اقتدار کی دوڑ میں جو شامل ہیں ان کا معاملہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ع
حاصل نہ کیجیے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
بلکہ معاملہ ان کے ساتھ یہ نظر آتا ہے کہ اس عالم گزراں میں جتنا کچھ حاصل کر سکتے ہو حاصل کر لو۔ سوائے درس عبرت کے۔
ذرا اپنی تاریخ کو اول وقت سے اب تک کے وقت کو دھیان میں لائیے۔ آنے والے کس دھوم دھڑکے سے آئے اور اس گمان کے ساتھ کہ بس اب سدا ہمارا سکہ چلے گا۔ مگر پتہ چلا کہ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔ اور جانے والے کس تیزی سے گئے کہ آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور اٹھائے بھی گئے۔
اصل میں واقعہ یوں ہے کہ نشوں میں سب سے بڑھ کر نشہ اقتدار ہے۔ اس نشہ میں آدمی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ زمانہ کیا کیا کھیل کھیل رہا ہے اور آگے چل کر کیا کھیل کھیلے گا۔ یہ جو ہمیں اپنی شاعری میں عبرت بھرے شعر اس کثرت سے نظر آتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردو شاعری کے عروج کا زمانہ وہ ہے جب مغلیہ اقتدار ڈول رہا تھا۔
شاعروں کو ان کا شعری وجدان بہت کچھ بتا رہا تھا۔ مگر ان کے عصر میں جو مغلیہ تخت و تاج کے وارث تھے اور تیزی سے آ جا رہے تھے اور ان کے حصے میں جتنا بھی اقتدار آیا تھا اس کا نشہ بھی ان کے لیے بہت تھا۔ سو اس عہد کے بارے میں جتنا بھی پتہ چلتا ہے شاعروں کے ذریعہ پتہ چلتا ہے۔ لگتا ہے کہ میر و غالب کو سب کچھ پتہ تھا۔ مگر انھوں نے جن فرماں رواؤں کے عہد میں سانس لیا تھا انھیں کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔
مگر ہاں آخری مغلیہ فرماں روا شاعر بھی تھا۔ یعنی شہنشاہ اورنگ زیب بے شک زمانے کی چال سے اور آسماں کے بدلتے رنگ سے بے خبر ہو مگر اس کے آخری وارث بہادر شاہ ظفر کو سب کچھ پتہ تھا۔ تو اس کی شاعری ڈوبتے سورج کا اچھا خاصا نوحہ ہے۔ میر و غالب کے عبرت بھرے شعر تو ہم پڑھتے ہی رہتے ہیں' اس شاعر کی غزل کے بھی چند شعر سن لیجیے ؎
جہاں چٹیل ہے میداں اور سراسر ایک خارستاں
کبھی یاں قصر و ایواں تھے چمن تھے اور شجر یاں تھے
جہاں ہیں سنگ ریزے' تھے یاں یاقوت کے تودے
جہاں کنکر پڑے ہیں اب' کبھی رلتے گہر یاں تھے
جہاں سنسان اب جنگل ہے اور ہے شہر خاموشاں
کبھی کیا کیا تھے ہنگامے یہاں اور شور و شر یاں تھے
ظفرؔ احوال عالم کا کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
کہ کیا کیا رنگ اب ہیں اور کیا کیا پیش تر یاں تھے
اس استعاراتی بیان سے ہٹ کر کہیں کہیں سیدھا بیان بھی ہے وہ بھی سن لیجیے ؎
دمدموں میں دم نہیں اب خیر مانگو جان کی
اے ظفرؔ بس ہو چکی شمشیر ہندوستان کی
اس کے بعد اس شاعر اور اس فرماں روا کے پاس کہنے کے لیے کیا رہ گیا تھا سوائے عالم جلاوطنی سے آتی ہوئی اس صدائے دردناک کے کہ ؎
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
وہ زمانے گزر گئے اب زمانہ اور ہے اور دلی شہر کا رنگ اور ہے۔ یا یوں کہہ لو کہ اب یاں کی زمیں اور ہے فلک اور ہے۔ مگر ہمارے دوست ڈاکٹر الوک بُھلہ نے ہمیں جشن ریختہ کے بیچ سے اٹھایا اور کہا کہ ذرا اس شہر کو بھی دیکھو۔ اور کونسا شہر۔ بتایا کہ یہاں دارا شکوہ کی لائبریری تھی اور وہ خونیں دروازہ ہے جہاں مغل شہزادوں کے سر قلم ہوئے تھے۔ اور یہ جو فصیل نظر آ رہی ہے یہ پرانے قلعہ کی فصیل ہے۔
یہ چند اشارے کافی تھے۔ ہمیں یاد آتا گیا کہ اس نگر میں کیا کیا کچھ ہو چکا ہے۔ اسی حساب سے شعر یاد آتے گئے' کوئی میر کا' کوئی غالب کا' کوئی آتش کا اور آتش کے مصرعہ پر آ کر اٹک گئے ع
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
لیجیے اب یہ پورا شعر سن لیجیے ؎
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
اس پر ہمارے ایک کرمفرما نے ہمیں فون کیا اور عجب بات کہی کہ یہ سارے عبرت انگیز شعر دلی جا کر ہی کیوں یاد آئے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی تو یہ شعر یاد آ سکتے تھے۔
بلکہ واقعہ یوں ہے کہ دلی شہر نے تو اپنی لمبی تاریخ میں کتنے مسلمان سلاطین کو کروفر سے حکومت کرتے اور عبرت بھرے حالات میں رخصت ہوتے دیکھا۔ تب ایسے شعروں کا مستحق ٹھہرا۔ ہمارے پاکستان نے تو اپنی مختصر تاریخ میں ایسے شعروں کا اپنے آپ کو مستحق ٹھہرا لیا۔ آتش کی جس غزل کا ایک مصرعہ آپ نے بار بار دہرایا ہے اس غزل کے اس شعر کو ذرا دھیان میں لائیے ؎
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
ارے دلی نے تو ایسے شعروں کا استحقاق حاصل کرنے کے لیے کتنی صدیاں اچھے برے حالات میں بسر کیں۔ پاکستان نے تو ابھی ایک صدی بھی پوری نہیں کی ہے کہ اس شعر پر وہ بکمال خوبی اپنا حق جتا سکتا ہے۔
ارے واہ' کیا خوب ہمیں احساس دلایا ہے کہ اپنی تاریخ بھی مختصر ہوتے ہوئے دنیائے اسلام کے کتنے ایسے شہروں سے برابری کا دعوے کرتی نظر آتی ہے جو ایک لمبی تاریخ گزارنے کے بعد ایسے شعروں کی اہل ٹھہری ہے۔ یہاں تو اپنی زمین روز کوئی نیا گل کھلاتی ہے اور روز آسماں ایسا رنگ بدلتا ہے کہ زیر آسماں یار و اغیار حق دق رہ جائے۔
دیکھئے عبرت کا سامان تو اس عالم آب و گل میں بہت ہے اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مگر حاصل کرنے والے کا دامن بھی تو کشادہ ہونا چاہیے۔ اب یہ ہماری قسمت کہ پاکستان نے اپنی مختصر تاریخ میں اتنا سامان عبرت سمیٹ لیا ہے کہ ملک اور قومیں اتنا سرمایہ حاصل کرنے میں صدیاں گزار دیتی ہیں۔
مگر ذرا دوسرے زاویے سے دیکھو تو نقشہ کچھ اور ہی نظر آئے گا۔ یہ سارا سامان عبرت ہمارے آپ کے لیے ہے مگر آتے جاتے اقتدار کی دوڑ میں جو شامل ہیں ان کا معاملہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ع
حاصل نہ کیجیے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو
بلکہ معاملہ ان کے ساتھ یہ نظر آتا ہے کہ اس عالم گزراں میں جتنا کچھ حاصل کر سکتے ہو حاصل کر لو۔ سوائے درس عبرت کے۔
ذرا اپنی تاریخ کو اول وقت سے اب تک کے وقت کو دھیان میں لائیے۔ آنے والے کس دھوم دھڑکے سے آئے اور اس گمان کے ساتھ کہ بس اب سدا ہمارا سکہ چلے گا۔ مگر پتہ چلا کہ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔ اور جانے والے کس تیزی سے گئے کہ آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور اٹھائے بھی گئے۔
اصل میں واقعہ یوں ہے کہ نشوں میں سب سے بڑھ کر نشہ اقتدار ہے۔ اس نشہ میں آدمی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ زمانہ کیا کیا کھیل کھیل رہا ہے اور آگے چل کر کیا کھیل کھیلے گا۔ یہ جو ہمیں اپنی شاعری میں عبرت بھرے شعر اس کثرت سے نظر آتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اردو شاعری کے عروج کا زمانہ وہ ہے جب مغلیہ اقتدار ڈول رہا تھا۔
شاعروں کو ان کا شعری وجدان بہت کچھ بتا رہا تھا۔ مگر ان کے عصر میں جو مغلیہ تخت و تاج کے وارث تھے اور تیزی سے آ جا رہے تھے اور ان کے حصے میں جتنا بھی اقتدار آیا تھا اس کا نشہ بھی ان کے لیے بہت تھا۔ سو اس عہد کے بارے میں جتنا بھی پتہ چلتا ہے شاعروں کے ذریعہ پتہ چلتا ہے۔ لگتا ہے کہ میر و غالب کو سب کچھ پتہ تھا۔ مگر انھوں نے جن فرماں رواؤں کے عہد میں سانس لیا تھا انھیں کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔
مگر ہاں آخری مغلیہ فرماں روا شاعر بھی تھا۔ یعنی شہنشاہ اورنگ زیب بے شک زمانے کی چال سے اور آسماں کے بدلتے رنگ سے بے خبر ہو مگر اس کے آخری وارث بہادر شاہ ظفر کو سب کچھ پتہ تھا۔ تو اس کی شاعری ڈوبتے سورج کا اچھا خاصا نوحہ ہے۔ میر و غالب کے عبرت بھرے شعر تو ہم پڑھتے ہی رہتے ہیں' اس شاعر کی غزل کے بھی چند شعر سن لیجیے ؎
جہاں چٹیل ہے میداں اور سراسر ایک خارستاں
کبھی یاں قصر و ایواں تھے چمن تھے اور شجر یاں تھے
جہاں ہیں سنگ ریزے' تھے یاں یاقوت کے تودے
جہاں کنکر پڑے ہیں اب' کبھی رلتے گہر یاں تھے
جہاں سنسان اب جنگل ہے اور ہے شہر خاموشاں
کبھی کیا کیا تھے ہنگامے یہاں اور شور و شر یاں تھے
ظفرؔ احوال عالم کا کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے
کہ کیا کیا رنگ اب ہیں اور کیا کیا پیش تر یاں تھے
اس استعاراتی بیان سے ہٹ کر کہیں کہیں سیدھا بیان بھی ہے وہ بھی سن لیجیے ؎
دمدموں میں دم نہیں اب خیر مانگو جان کی
اے ظفرؔ بس ہو چکی شمشیر ہندوستان کی
اس کے بعد اس شاعر اور اس فرماں روا کے پاس کہنے کے لیے کیا رہ گیا تھا سوائے عالم جلاوطنی سے آتی ہوئی اس صدائے دردناک کے کہ ؎
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں