دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان
وطن عزیز کو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے دہشتگردی کے بد ترین عفریت کا سامنا ہے
وطن عزیز کو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے دہشتگردی کے بد ترین عفریت کا سامنا ہے جس نے پوری قوم کو اپنی گرفت میں جکڑا ہوا ہے۔ 16 دسمبر 2014ء کے بد ترین سانحہ پشاور کی گونج اب بھی تازہ ہے اور قوم اس صدمے سے باہر نکل ہی نہیں پائی تھی کہ پچھلے دنوں دو عظیم سانحے رونما ہوئے جس میں کئی بے گناہ جانیں ضایع ہوئیں، سانحہ شکارپور اور پشاور میں امامیہ مسجد میں ہونیوالے خودکش حملے میں کافی مماثلت پائی گئی۔
اگرچہ یہ دونوں واقعے فرقہ واریت سے جڑے معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کا واحد مقصد ایک دفعہ پھر دشمن کی طرف سے قوم کی صفوں میں انتشار پھیلانے کی مذموم سازش کا اظہار ہوتا ہے اور امن دشمن قوتوں نے ایک بار پھر وطن عزیز کو خون میں نہلا کر قوم کی صفوں میں موجود اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا عفریت اس وقت ملک میں جاری دہشتگردی کا اہم پہلو ہے اور ایک طویل عرصے سے مختلف کالعدم تنظیمیں نام بدل کر مسلمانوں میں موجود اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوششیں کرنے میں مصروف ہیں۔
سانحہ پشاور کے بعد وفاقی حکومت نے جس نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی تھی اس پر تیزی سے عمل در آمد کرنے کی کوششیں جاری ہیں، کئی مدرسوں کے بیرون ملک سے روابط اور فنڈنگ کا سراغ لگایا جا رہا ہے جس پر وفاقی وزارت داخلہ اور تنظیم وفاق المدارس کے درمیان اختلافات بھی پیدا ہو گئے ہیں، دوسری طرف کئی کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی جاری ہے، غیر قانونی طریقے سے فنڈ ٹرانسفر اور ہنڈی کے کاروبار پر بھی کریک ڈاؤن جاری ہے اور اس سلسلے میں کئی افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جب کہ دوسری طرف غیر قانونی موبائل سمز کو بلاک کرنے کے لیے بائیو میٹرک تصدیق کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
وزارت داخلہ کی طرف سے فوجی عدالتوں کو مقدمات بھیجنے کی منظوری بھی دی جا رہی ہے۔ چاروں صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کی صدارت میں اپیکس کمیٹیوں کے اجلاس بھی جاری ہیں اور ہر صوبے میں اسپیشل ایلیٹ فورس اور ریپڈ ریسپانس فورس کی تشکیل کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں، ملک میں جاری دہشتگردی اب ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور سیکیورٹی اداروں نے بھی اپنی پالیسی میں اس اندرونی دشمن کو تمام بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ بڑا چیلنج تسلیم کیا ہے۔ملک میں جاری دہشت گردی کے پیچھے بہت سے محرکات ہیں جن کا حل اتنا آسان بھی نہیں اور شاید اس کے لیے پوری قوم کو ایک طویل جد وجہد کی ضرورت ہو گی۔
ملک میں جاری فرقہ واریت اور انتہا پسندی بیرون ممالک بیٹھنے والے دہشت گرد گروپ اور ان کی سرگرمیاں بیرونی امداد، کالعدم تنظیمیں، قبائلی علاقے میں موجود دہشت گرد گروپوں کی محفوظ پناہ گاہیں، مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے والے لٹریچر کی اشاعت اور پولیس اور خفیہ اداروں کی مناسب ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے اس کو قابو پانے میں مشکلات وہ اسباب ہیں جن کا سدباب یقیناً قلیل المدتی پالیسیوں سے ممکن نظر نہیں آتا۔ اگرچہ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے 21 ویں ترمیم بھی کر لی گئی ہے جس پر کئی مذہبی جماعتوں کے تحفظات موجود ہیں لیکن اب تک ان عدالتوں کا قیام التوا کا شکار ہے۔
ساتھ ہی ساتھ تفتیش کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان عدالتوں کی افادیت بھی کم ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ نظام موثر نہ ہونے کی وجہ سے کئی مجرم جو سنگین جرائم میں ملوث ہوتے ہوئے بھی عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں جس میں بعض اوقات پولیس افسروں اور اہلکاروں کی ملی بھگت، نا اہلی اور کرپشن کا عمل دخل ہوتا ہے اور پھر ہر صوبے میں پولیس کی نفری مطلوبہ تعداد میں موجود ہی نہیں اور جہاں ہے بھی وہاں پر بھرتیاں اقربا پروری پر ہونے کی وجہ سے نا اہلی اور غفلت کا دور دورہ ہے۔
اگرچہ پاک فوج اور رینجرز ان دہشتگردوں کے خلاف کامیاب کارروائی میں مصروف ہیں لیکن ان گروپوں کی طرف سے شہروں اور عبادت گاہوں پر حملے کا تدارک تو پولیس نے ہی کرنا ہے۔ جہاں تک بیرونی مداخلت کا سوال ہے تو وہ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں بھارتی مداخلت کا پردہ چاک کرنے کے بعد بالکل عیاں نظر آتی ہے۔ افغانستان میں موجود ان دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے ان گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
پاکستان کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ افغان علاقوں میں جا کر ان ٹھکانوں پر بمباری بھی نہیں کر سکتا کیوں کہ اس سے افغانستان کی خود مختاری پر سوالیہ نشان اٹھ سکتا ہے اور ایک نیا پنڈورا بکس کھل سکتا ہے جس کے مضمرات یقیناً ہمارے قومی مفاد میں نہ ہوں گے۔ ہمارے سیکیورٹی ادارے یقیناً اس چیلنج سے بھی آگاہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکا اور افغان دونوں حکومتوں پر مستقل دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ دہشتگردوں کے ان محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کریں کیوں کہ ان ٹھکانوں کو ختم کیے بغیر دہشتگردی کے خلاف اس جنگ کو جو کہ درحقیقت اب ہماری سلامتی کی جنگ بن گئی ہے جیتنا تقریباً ناممکن ہے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف مختلف بار ایسوسی ایشنز کی درخواستوں پر سماعت شروع ہو چکی ہے اور ان درخواستوں پر کوئی بھی متوقع فیصلہ ان عدالتوں کے قیام پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے جس سے یقیناً اداروں کے درمیان محاذ آرائی کا تاثر ملنے کا امکان ہے اس وقت پوری قوم سخت ذہنی کرب سے دو چار ہے کہ آخر اس مسئلے سے کس طرح ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
اگرچہ پوری قوم اس سلسلے میں متحد ہے لیکن اب بھی بہت سے مسائل اور چیلنجز درپیش ہیں جن کو عبور کرنا اتنا آسان بھی نہیں، بقول وزیراعظم نواز شریف کے اس نازک وقت پر پوری قوم اور خاص کر میڈیا کو حکومتی اداروں سے تعاون کی ضرورت ہے لہٰذا کچھ عرصے ریٹنگ پوائنٹس کو چھوڑ کر قوم کو اتحاد کا درس دینے کی اشد ضرورت ہے اور سکیورٹی اداروں کے مورال کو مزید بڑھانا بھی وقت کا اہم تقاضا ہے۔
دہشتگردی کے اس عفریت پر قابو پائے بغیر معاشی اور صنعتی ترقی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ اگرچہ حکومت کا اعلان کردہ نیشنل ایکشن پلان اس سلسلے میں ایک درست اور مربوط قدم ہے مگر اب بھی اس کی موثر عملداری میں کئی رکاوٹیں موجود ہیں۔