زاویہ نگاہ کا فرق
اس لیے ایک کالم نگار کو پرعزم، بے خوف، سنجیدہ، قابل اعتماد، غیر متعصب اور غیر جانب دار ہونا چاہیے
اپنے گزشتہ کالم میں ''میں'' نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ہمارے یہاں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا کلچر سرے سے موجود ہی نہیں ہے، آپ مختلف الخیال سیاسی اور دینی جماعتوں کے پروگراموں میں شرکت کر کے ان کا نقطہ نظر سن کر دیکھ لیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارے یہاں ہر ایک نے اپنی الگ دنیا بنائی ہوئی ہے، وہ دوسری دنیا سے آشنا ہی نہیں یا آشنا ہونا ہی نہیں چاہتا۔
اپنے مخالف کے نظریات کو سمجھنا اور اگر دلائل مضبوط ہوں تو انھیں تسلیم کرنا بہت دور کی بات ہے وہ انھیں سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ہر ایک اپنی ہی بانسری بجا رہا ہے۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ سچ وہی ہے جسے وہ سچ سمجھتے ہیں۔
حالانکہ درست رویہ یہ ہے کہ اپنے مخالف نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں کی بات سنی جائے، اگر دلائل مضبوط ہوں تو انھیں تسلیم بھی کیا جائے۔ اس طرز عمل کی بدولت آدمی اپنی سوچ کے خول سے باہر نکلتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ وہ سوچتا ہے وہ پورا سچ یا حتمی حقیقت نہیں ہے، اس طرح کسی معاملے کا پوری طرح ادراک حاصل ہوتا ہے ۔
جس سے درست عمل کی راہیں متعین کرنے میں مدد ملتی ہے اور اس طرح ہم کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ میں نے جب کالم نگاری کا آغاز کیا تو کوشش کی کہ جب کسی معاملے پر لکھا جائے تو اس سے متعلق جو بھی نقطہ نظر ہوں انھیں بھی سامنے لایا جائے تا کہ معاملے کا صحیح ادراک حاصل ہو سکے اور اس ادراک کے نتیجے میں عمل کی صحیح راہیں متعین کی جا سکیں۔
اس تحریری اللوں کو جہاں پسند کیا گیا وہاں ناراضگی کا اظہار بھی دیکھنے میں آیا۔ اس ضمن میں مجھے متعدد ای میلز موصول ہوئی ہیں، اس تحریر میں ایک ای میلز کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ ای میلز مجھے طارق محمود کی جانب سے موصول ہوئی ہے، جو ایک نجی کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ایک دینی جماعت سے بھی تعلق رکھتے ہیں، وہ لکھتے ہیں:
''میں نے آپ کی متعدد تحریریں پڑھیں ہیں، آپ نے اپنی بیشتر تحریروں میں دینی اور سیکولر قوتوں کے مابین جو فکری اور نظریاتی تصادم اور کشمکش ہے اسے اپنا موضوع بنایا ہے یہ ایک اچھی علمی کاوش ہے لیکن ساتھ اپنے اندر ایک ایسی خامی لیے ہوئے ہیں جس کا شاید آپ کو ادراک نہیں ہے، میری دینی جماعت سے وابستگی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس سے آپ کو ضرور آگاہ کروں اس لیے یہ ای میل آپ کو ارسال کر رہا ہوں۔
صحافت کے طالب علم ضرور یہ بات جانتے ہوں گے کہ ایک کالم نگار کی بنیادی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں غیر جانب داری کے ساتھ مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اس کا جائزہ لیتا ہے اور کسی کے ایجنڈے کی تکمیل سے گریز کرتے ہوئے پورے سیاق و سباق کے ساتھ عوام الناس کے سامنے پیش کر دیتا ہے، ایک اچھے کالم نگار کا مقصد عوام الناس کو حالات سے باخبر رکھنا نہیں ہے بلکہ عوام میں شعور کی بیداری، رائے عامہ کی تشکیل، عوامی مسائل اور مشکلات کا حل، محکوم اور مظلوم لوگوں کی ترجمانی اس کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔
اس لیے ایک کالم نگار کو پرعزم، بے خوف، سنجیدہ، قابل اعتماد، غیر متعصب اور غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ آپ کی تحریروں کو پڑھ کر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آپ دینی اور سیکولر قوتوں کے نظریات پیش کر رہے ہیں اور اس تحریر کے ذریعے آپ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ دینی قوتیں بھی صحیح ہیں اور سیکولر قوتیں بھی غلط نہیں ہیں لیکن درحقیقت آپ جان بوجھ کر سیکولر قوتوں کے دلائل، استدلال اور تشریح کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ سیکولر قوتوں کا نقطہ نظر مضبوط اور دینی قوتوں کا نقطہ نظر کمزور دکھائی دیتا ہے، آپ کے اس طرز تحریر سے آپ کی غیر جانب داری واضح ہو جاتی ہے۔
آپ کا یہ طرز تحریر نہ صرف عدل و انصاف کے منافی ہے بلکہ اسے اگر علمی بددیانتی کا نام دیا جائے تو یہ بھی غلط نہ ہو گا۔ آپ اپنی بعض تحریروں میں اس بات کا اعتراف کرتے رہیں کہ آپ کا دینی علم بہت محدود ہے جب آپ کو اس بات کا خود ادراک ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ پھر آپ اس حساس موضوع پر کیوں قلم اٹھاتے ہیں، آپ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہر علم میں کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے اور اسے جانچنے کے اپنے اصول اور پیمانے ہوتے ہیں۔
دینی معاملات میں صحیح اور غلط کا تعین الہامی ہدایات کی روشنی میں کیا جاتا ہے اس میں دیکھا جاتا ہے کہ کسی معاملے میں اﷲ اور اس کے رسولؐ کے کیا احکامات ہیں اور انھیں ایمان کا درجہ حاصل ہوتا ہے، اس سے انکار گناہ یعنی جرم کے زمرے میں آتا ہے جب کہ سیکولر نقطہ نظر میں صحیح اور غلط کا تعین عقلی بنیادوں پر کیا جاتا ہے یعنی کسی بھی معاملے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد ہی اس کے صحیح یا غلط ہونے کا تعین کیا جاتا ہے۔
دین میں جو بات فہم سے بالاتر ہوتی ہے وہ ماورائے عقل سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے آپ کی جانب سے سیاست، معیشت، تعلیم، معاشرت اور قانون کے معاملات میں دونوں قوتوں کی فکر کا موازنہ کرنا اور تقابلی جائزے کے ساتھ کوئی نتیجہ اخذ کرنا علمی نقطہ نظر سے ہی غلط ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی پروفیسر کو پہلوان سے مقابلے کے لیے اکھاڑے میں اتار دیا جائے، ظاہر ہے یہ منطقی اعتبار سے ہی غلط ہو گا۔ اسی طرح کسی پہلوان کو پروفیسر کی جگہ تدریس کے لیے کھڑا کر دیا جائے تو یہ عمل بھی غلط ہو گا کیوں کہ دونوں کا میدان ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ سیکولرازم میں کوئی بھی معاملہ ہو وہ جمہوری رویہ کے تابع ہوتا ہے اس کے برعکس مذہب میں معاملات الہامی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں، جمہوریت کے فیصلے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
انھیں مستقل اور دائمی اچھائی یا برائی سے موسوم نہیں کیا جاتا انھیں متناسب Relative شرائط کے ساتھ دیکھا جاتا ہے، ایسے میں مذہب کا ان احکامات سے ٹکراؤ لازمی ہے جو مستقبل اور دائمی ہیں۔ آپ اپنی تحریر میں دینی اور سیکولر قوتوں کے مابین جو نظریاتی تصادم ہے اسے عقلی بنیادوں پر جانچتے ہیں، ایک عام قاری کیوں کہ دین کا فہم اور ادراک پوری طرح نہیں رکھتا اور دوسرے وہ الہامی ہدایات کی حکمت سمجھنے سے بھی قاصر ہوتا ہے نتیجے میں وہ عقلی دلائل سے متاثر ہو جاتا ہے جو اسے فکری انتشار میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یا اس کے مزاج کو سیکولر بنا دیتا ہے۔
علوم الاسلامیہ سے ناواقفیت کے باعث کسی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اسلامی تعلیمات کی صحیح ترجمانی کر سکے۔ اس لیے آخر میں یہ درخواست کروں گا کہ آپ جب دینی اور سیکولر قوتوں کے مابین کسی معاملے پر فکری کشمکش یا تصادم کو موضوع بحث بنانا چاہتے یا دین کے کسی معاملے پر اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں تو پہلے دین کا فہم پوری طرح حاصل کریں۔
دینی اور سیکولر قوتوں کے فکری تصادم کا موازنہ کرنے اور تقابلی جائزے کے ذریعے اس سے نتائج اخذ کرنے کے بجائے انھیں الگ الگ دائرے میں رکھیں کیوں کہ دونوں کا فکری میدان اور میدان عمل بالکل الگ الگ ہیں۔ یہ عدل و انصاف کا تقاضا بھی ہے اور ذہنی الجھن سے نجات بھی۔ امید ہے کہ آپ میری گزارشات پر ضرور غور فرمائیں گے۔''
یہ ہیں وہ خیالات جو طارق محمود نے میری کالم نگاری سے متعلق تحریر فرمائے ہیں، اس کے جواب میں میرا کیا نقطہ نظر ہے اس کا جواب میں اپنی اس تحریر کے ابتدائی حصے میں پہلے ہی پیش کر چکا ہوں، کون درست ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔ میں اپنی ذاتی رائے میں طارق محمود کے خیالات اور اپنی تحریروں کو زاویہ نگاہ کا فرق سمجھتا ہوں۔ محترم کا میری تحریروں کو عدل و انصاف کے منافی اور اسے علمی بددیانتی قرار دینا کسی لحاظ سے بھی درست نہیں ہے۔