اس آگ سے میرے وطن کو بچا سکو تو بچا لو
پہلے ہی اس سرزمین پر بہت لہو گرچکا اب ہمیں امن چاہیے جو زندگی کی علامت ہے۔
چند سال قبل عرب دنیا میں عوامی بیداری کی ایک لہر نے جنم لیا۔ اِس بیداری نے دہائیوں سے مسلط کئی عرب حکمرانوں کو گھر بھیج دیا۔ یہ بنیادی طور پر اُن حکمرانوں کے خلاف عوامی تحریکیں تھیں جو ان کے مسلسل کئی سالوں سے روا رکھے گئے معاشرتی جبر کا نتیجہ تھیں۔
سوشل میڈیا نے آزادی اظہار کے جن نئے تصورات کو جنم دیا ان کے نتیجے میں ان تحریکوں کا جنم لینا ایک فطری عمل تھا اور دوسری طرف یہ بات بہت واضح تھی کہ اکیسویں صدی میں بہرحال آمر اور عوام دشمن حکومتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے مگر بد قسمتی سے جب یہی تحریک شام میں پہنچی تو اسے پر تشدد تحریک میں تبدیل کردیا گیا۔ دنیا بھر سے لوگ حکومت سے لڑنے کے لیے شام پہنچنے لگے جب تحریک میں عوامی احتجاجات کی جگہ بارود نے لے لی تو تبدیلی کی منزل کہیں کھو گئی اور شامی عوام کی جمہوریت کے لیے جدوجہد بین الاقوامی سیاست کی نظر ہو گئی۔
اِس جنگ کے آغاز سے ہی معاملہ دو حصے میں تقسیم ہوگیا۔ روس نے خلاف توقع شام کے خلاف پیش کی جانے والی ایسی تمام قراردادوں کو ویٹو کردیا جس میں اقوام متحدہ کو کسی بھی کارروائی کا مینڈیت دیا جانا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ روس خطے میں بڑھتے ہوئے امریکی اثرات کو روکنا چاہتا تھا اور ساتھ ساتھ خطے میں موجود اپنی گرم پانی کی بندرگاہ کو بچانا چاہتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شام کا بحران طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا جس کے اثرات پورے خطے پر پڑھنے لگے۔
اب ایک طرح یہ روس اور امریکہ کی جنگ ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، ترکی اور قطر کی ایران اور حزب اللہ سے جنگ ہے۔ اِس جنگ نے اُس وقت اور خطرناک صورت حال اختیار کرلی جب اِس میں فرقہ واریت کا عنصر بھی شامل ہوگیا کیونکہ ترکی، سعودی عرب اور قطر سنی ہیں اور ایران و حزب اللہ شیعہ ہیں۔ یہ تقسیم انتہائی خطرناک تھی اور استعمار کی بہت عرصے سے خواہش تھی کہ مشرق وسطی کی تقسیم فرقہ ورانہ بنیادوں پر کی جائے تاکہ مسلمان باہم دست و گریبان رہیں اور صیہونیت کو تحفظ ملے اور اگر آپ اس پوری جنگ میں غور کریں تو شیعہ سنی سب کا نقصان ہوا ہے مگر جس کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے وہ اسرائیل ہے اور اس پوری جنگ میں جو لوگ اس بین الاقوامی سیاست کی بھینٹ چڑھے وہ شام کے عوام تھے۔ چاہےان کا تعلق حکومت کے زیرِ اثر علاقوں سے ہویا باغیوں کے زیراثر علاقوں سے ہو۔
شام میں جاری اِس تنازعے نے سب سے پہلے عراق میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا۔ یہ آگ اس قدر شدید تھی کہ بغداد جسے دارالسلام کہا جاتا ہے جو اسلامی تہذیب کی علامت تھا اس میں ایک دن میں تیس تیس دھماکے ہوئے۔ عراق کو شیعہ عراق اور سنی عراق میں تقسیم کی باتیں چلائی گئیں اور ایک سال پہلے داعش کی صورت میں ایک دہشت گرد گروہ اُٹھا اور اس نے عراق کے ایک بہت بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ کون کون سے ممالک اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ اس تنازع میں بھی سب سے زیادہ نقصان عراقی عوام کا ہوا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، لاکھوں بچے یتیم ہوئے پھر چاہے اُن لوگوں کا تعلق شیعہ مسلک سے ہو یا سنی مسلک سے، کیونکہ بنیادی طور انسانیت پر ظلم ہوا۔
اس کے ساتھ ساتھ بحرین کی عوامی تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور اب یمن میں آگ و خون کی حولی کھیلی جارہی ہے۔ یمن کی کل آبادی کا 60 فیصد حوثی ہیں اور اب تقریباً یمن کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں۔ اس جنگ میں پچھلے ایک دو روز میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ سعودی عرب نے اس جنگ میں براہ راست شمولیت اختیار کرلی ہے۔ سعودی عرب کی پوزیشن اس وقت بہت عجیب ہے ایک طرف اسے داعش کا سامنا ہے جو اگرچہ سنی ہیں مگر وہ آل سعود کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور وہ ہر جگہ ابوبکر بغدادی کو خلیفہ بناناچاہتے ہیں اور دوسری طرف سے حوثی قبائل ہیں جن کے پاس عوامی طاقت ہے اور اب فوجی طاقت بھی انہی کے پاس ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یمن کی جنگ کو بھی شیعہ سنی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ اگرچہ یمن کے حوثی زیدی شیعہ ہیں یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں ایران کی مدد حاصل ہے۔ یہ تنازع مشرق وسطی میں فرقہ واریت کی آگ پر تیل کا کام کرے گا اور افسوس یہ کہ ایک بار پھر مسلمان کی چلائی گولی سے مسلمان ہی مارا جا رہا ہے۔
اب ہم وطن عزیز کی طرف آتے ہیں۔ ہمیں مکمل طور پر خود کو اس جنگ سے الگ کرنا ہے کیونکہ خدا نخواستہ اگر کسی ایک فریق کی حمایت کی گئی تو پھر وطن عزیز کے حالات کو خراب ہوتے وقت نہیں لگےگا۔ سوویت یونین اور امریکہ کی جنگ میں کود کر جتنا نقصان ہم نے اُٹھایا ہے اتنا نقصان خود ان دونوں کا نہیں ہوا۔ اس لیے ضرورت تو اب یہ ہے کہ ہم ایسی غلطی ہرگز نہ کریں۔ ہم پہلے ہی حالت جنگ میں ہیں۔ دشمن ہمارے بچوں کو قتل کررہا ہے۔ ہماری مساجد تک محفوظ نہیں ہیں اس لیے مشرق وسطی میں ہمارا صرف یہ کردار ہونا چاہیے کہ ہم تمام اسلامی ممالک پر یہ واضح کردیں کہ لڑائی سے دشمن کا فائدہ ہورہا جبکہ مسلمان کا خون پانی کی طرح مسلمان کے ہاتھوں سے بہایا جارہا۔ اس لیے ان مسائل کا حل فقط بات چیت میں ہے۔
میری تمام مذہبی قائدین، سیاسی رہنماوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کے تمام دوستوں سے گزارش ہوگی کہ اس خطرے سے قوم کو آگاہ کریں اور اس آنے والی آگ سے وطن عزیز کو بچائیں کیونکہ پہلے ہی اس سرزمین پر بہت لہو گرچکا اب ہمیں امن چاہیے جو زندگی کی علامت ہے۔
[poll id="317"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
سوشل میڈیا نے آزادی اظہار کے جن نئے تصورات کو جنم دیا ان کے نتیجے میں ان تحریکوں کا جنم لینا ایک فطری عمل تھا اور دوسری طرف یہ بات بہت واضح تھی کہ اکیسویں صدی میں بہرحال آمر اور عوام دشمن حکومتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے مگر بد قسمتی سے جب یہی تحریک شام میں پہنچی تو اسے پر تشدد تحریک میں تبدیل کردیا گیا۔ دنیا بھر سے لوگ حکومت سے لڑنے کے لیے شام پہنچنے لگے جب تحریک میں عوامی احتجاجات کی جگہ بارود نے لے لی تو تبدیلی کی منزل کہیں کھو گئی اور شامی عوام کی جمہوریت کے لیے جدوجہد بین الاقوامی سیاست کی نظر ہو گئی۔
اِس جنگ کے آغاز سے ہی معاملہ دو حصے میں تقسیم ہوگیا۔ روس نے خلاف توقع شام کے خلاف پیش کی جانے والی ایسی تمام قراردادوں کو ویٹو کردیا جس میں اقوام متحدہ کو کسی بھی کارروائی کا مینڈیت دیا جانا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ روس خطے میں بڑھتے ہوئے امریکی اثرات کو روکنا چاہتا تھا اور ساتھ ساتھ خطے میں موجود اپنی گرم پانی کی بندرگاہ کو بچانا چاہتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شام کا بحران طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا جس کے اثرات پورے خطے پر پڑھنے لگے۔
اب ایک طرح یہ روس اور امریکہ کی جنگ ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، ترکی اور قطر کی ایران اور حزب اللہ سے جنگ ہے۔ اِس جنگ نے اُس وقت اور خطرناک صورت حال اختیار کرلی جب اِس میں فرقہ واریت کا عنصر بھی شامل ہوگیا کیونکہ ترکی، سعودی عرب اور قطر سنی ہیں اور ایران و حزب اللہ شیعہ ہیں۔ یہ تقسیم انتہائی خطرناک تھی اور استعمار کی بہت عرصے سے خواہش تھی کہ مشرق وسطی کی تقسیم فرقہ ورانہ بنیادوں پر کی جائے تاکہ مسلمان باہم دست و گریبان رہیں اور صیہونیت کو تحفظ ملے اور اگر آپ اس پوری جنگ میں غور کریں تو شیعہ سنی سب کا نقصان ہوا ہے مگر جس کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے وہ اسرائیل ہے اور اس پوری جنگ میں جو لوگ اس بین الاقوامی سیاست کی بھینٹ چڑھے وہ شام کے عوام تھے۔ چاہےان کا تعلق حکومت کے زیرِ اثر علاقوں سے ہویا باغیوں کے زیراثر علاقوں سے ہو۔
شام میں جاری اِس تنازعے نے سب سے پہلے عراق میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکایا۔ یہ آگ اس قدر شدید تھی کہ بغداد جسے دارالسلام کہا جاتا ہے جو اسلامی تہذیب کی علامت تھا اس میں ایک دن میں تیس تیس دھماکے ہوئے۔ عراق کو شیعہ عراق اور سنی عراق میں تقسیم کی باتیں چلائی گئیں اور ایک سال پہلے داعش کی صورت میں ایک دہشت گرد گروہ اُٹھا اور اس نے عراق کے ایک بہت بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ کون کون سے ممالک اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ اس تنازع میں بھی سب سے زیادہ نقصان عراقی عوام کا ہوا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، لاکھوں بچے یتیم ہوئے پھر چاہے اُن لوگوں کا تعلق شیعہ مسلک سے ہو یا سنی مسلک سے، کیونکہ بنیادی طور انسانیت پر ظلم ہوا۔
اس کے ساتھ ساتھ بحرین کی عوامی تحریک کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور اب یمن میں آگ و خون کی حولی کھیلی جارہی ہے۔ یمن کی کل آبادی کا 60 فیصد حوثی ہیں اور اب تقریباً یمن کے اکثر علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں۔ اس جنگ میں پچھلے ایک دو روز میں یہ تبدیلی آئی ہے کہ سعودی عرب نے اس جنگ میں براہ راست شمولیت اختیار کرلی ہے۔ سعودی عرب کی پوزیشن اس وقت بہت عجیب ہے ایک طرف اسے داعش کا سامنا ہے جو اگرچہ سنی ہیں مگر وہ آل سعود کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور وہ ہر جگہ ابوبکر بغدادی کو خلیفہ بناناچاہتے ہیں اور دوسری طرف سے حوثی قبائل ہیں جن کے پاس عوامی طاقت ہے اور اب فوجی طاقت بھی انہی کے پاس ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یمن کی جنگ کو بھی شیعہ سنی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ اگرچہ یمن کے حوثی زیدی شیعہ ہیں یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں ایران کی مدد حاصل ہے۔ یہ تنازع مشرق وسطی میں فرقہ واریت کی آگ پر تیل کا کام کرے گا اور افسوس یہ کہ ایک بار پھر مسلمان کی چلائی گولی سے مسلمان ہی مارا جا رہا ہے۔
اب ہم وطن عزیز کی طرف آتے ہیں۔ ہمیں مکمل طور پر خود کو اس جنگ سے الگ کرنا ہے کیونکہ خدا نخواستہ اگر کسی ایک فریق کی حمایت کی گئی تو پھر وطن عزیز کے حالات کو خراب ہوتے وقت نہیں لگےگا۔ سوویت یونین اور امریکہ کی جنگ میں کود کر جتنا نقصان ہم نے اُٹھایا ہے اتنا نقصان خود ان دونوں کا نہیں ہوا۔ اس لیے ضرورت تو اب یہ ہے کہ ہم ایسی غلطی ہرگز نہ کریں۔ ہم پہلے ہی حالت جنگ میں ہیں۔ دشمن ہمارے بچوں کو قتل کررہا ہے۔ ہماری مساجد تک محفوظ نہیں ہیں اس لیے مشرق وسطی میں ہمارا صرف یہ کردار ہونا چاہیے کہ ہم تمام اسلامی ممالک پر یہ واضح کردیں کہ لڑائی سے دشمن کا فائدہ ہورہا جبکہ مسلمان کا خون پانی کی طرح مسلمان کے ہاتھوں سے بہایا جارہا۔ اس لیے ان مسائل کا حل فقط بات چیت میں ہے۔
میری تمام مذہبی قائدین، سیاسی رہنماوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کے تمام دوستوں سے گزارش ہوگی کہ اس خطرے سے قوم کو آگاہ کریں اور اس آنے والی آگ سے وطن عزیز کو بچائیں کیونکہ پہلے ہی اس سرزمین پر بہت لہو گرچکا اب ہمیں امن چاہیے جو زندگی کی علامت ہے۔
[poll id="317"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔