جھوٹا کون بھارتی فنکار یا سیاستدان

اب تو تقسیم کو بہت وقت گزرچکا، اب تو ہمیں سب بھول بھال کر ایک نئے سفر کا آغاز کرنا چاہیے۔

بھارت سے جو بھی فنکار پاکستان آیا وہ بھارت جا کر پاکستان کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتا ہوا نظر آیا۔ فوٹو: ایکسپریس

بالی ووڈ فلموں کے معروف فنکار نصرالدین شاہ نے ایک بھارتی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ
''پاکستان میں بھارتی فنکاروں کو بہت عزت اور پیار دیا جاتا ہے لیکن بھارت میں پاکستانیوں کو دشمن سمجھنے کے لیے اکسایا جاتا ہے''۔

نصیر الدین شاہ کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر کافی بحث و مباحثہ ہورہا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں نصیر الدین شاہ کے بیان پر کوئی مزید تبصرہ کروں کچھ مزید بھارتی فنکاروں کے بیانات قارئین کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔ مثلاً بھارتی فلموں کے ایک اور معروف فنکار اوم پوری جب پاکستان کا دورہ کرکے بھارت جاتے ہیں تو نہ صرف پاکستان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ
''آئندہ کسی پاکستان مخالف فلم میں کام نہیں کروں گا''۔

بھارتی گلورکار ہنس راج ہنس جب پاکستان کا دورہ کرکے واپس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ
''پاکستان میں جو پیار ملا اسے بھول نہیں سکوں گا''۔

ایک اور معروف ترین بھارتی فنکار انوپم کھیر بھی پاکستان کے بارے میں کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کرچکے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ ایک بھارتی فنکارہ دیویا دتہ کہتی ہیں کہ
وہ پاکستان میں گزارے لمحات کبھی نہیں بھلا سکتی اور جب بھی پاکستان میں کام کرنے کا موقع ملا اسے ضائع نہیں کروں گی''۔

معزز قائین ایک لمحے کو ہندوستانی حکومت اور میڈیا کا پاکستان کے حوالے سے رویہ سامنے لائیں اور دوسرے لمحے پاکستان کا دورہ کرنے والے ان فنکاروں کے بیانات کو سامنے رکھیں۔ کیا آپکو ایک کھلا تضاد نظر نہیں آتا؟ اِس تضاد کی حقیقت آپکو نصیر الدین شاہ کے بیان میں ملے گی جنہوں نے ہمت کرکے ایک بہت بڑا سچ بول دیا کہ
''بھارت میں پاکستانیوں کو دشمن سمجھنے کے لیے اکسایا جاتا ہے''۔


بلکہ انہوں نے ''برین واشنگ '' کا لفظ بھی استعمال کیا کہ پاکستان کو دشمن سمجھنے کے لیے بھارتیوں کی ''برین واشنگ'' کی جاتی ہے۔ یہ بیان محض نصیرالدین شاہ کی طرف سے آیا ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ شاید وہ کچھ مبالغے سے کام لے گئے لیکن بھارت سے جو بھی فنکار پاکستان آیا وہ بھارت جا کر پاکستان کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتا ہوا نظر آیا۔

اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ نہایت سادہ سی ہے کہ ہندوستان میں اب بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو نہایت طاقتور ہیں جن کا تعلق یا تو سیاست سے ہے یا پھر وہ دفاعی اسٹبلشمنٹ کا حصہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارتی عوام کو پاکستان سے جنگ کے لیے آمادہ رکھنے کی خاطر پاکستان کا ایک مخصوص دہشتگردانہ امیج قائم رکھنا انکی شاید مجبوری ہے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ آخر ایسا کب تک چلے گا؟ اور ایسا کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا مقصد جنگ ہے؟ لیکن وہ تو پہلے بھی 3 بار ہوچکی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اُس سے کیا حاصل ہوا۔

اگر ایسا ہی چلتا رہا تو 2 ہی نتائج نکل سکتے ہیں۔ یا تو آپ لوگ ہمیں ماروگے ہم آپ کو ماریں گے۔ ہم جنازے اٹھائیں گے اور آپ چتائیں جلائیں گے۔ اور دنیا؟ وہ تو اب بھی ترقی کررہی ہے اور آگے بھی کرتی رہے گی جبکہ ہم یونہی لڑتے جھگڑتے رہینگے اور آنے والی نسلوں کو نفرت کی آگ میں جلاتے رہیں گے۔۔۔

اب تو تقسیم کو بہت وقت گزرچکا، اب تو ہمیں سب بھول بھال کر ایک نئے سفر کا آغاز کرلینا چاہیے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ ہمارا مقابلہ جنگ کے میدانوں میں ہی ہو۔ کیا یہ بہتر نہ ہو کہ ہم تعلیم کے میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں۔ کیوں بیروزگاری کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے کا مقابلہ کریں، کیوں امن کے ذریعے خطے کا ماحول سازگار کریں کہ یہی ایک راستہ ہے جس کے سبب عام لوگوں کا بھلا ہوگا اور جب عام لوگوں کا بھلا ہو تو اِس سے بڑھ کر خوشی اور اطمینان کی بات کیا ہوسکتی ہے ۔۔۔۔۔ کیونکہ بھارت کے سیاست دان اور بھارتی میڈیا پاکستان کو جتنا مرضی بُرا بنا کر پیش کرتا رہے مگر جب بھی ہندوستان کا کوئی فنکار پاکستان کا دورہ کرنے آئے گا وہ واپس جاکر ضرور بتائے گا کہ پاکستان ویسا ہرگز نہیں ہے جیسا بھارت عوام کو بتایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ وہاں بھی ایسی ہی پرسکون صبح ہوتی ہے، جیسی ہندوستان میں، وہاں بھی لوگ پیار کرتے ہیں بس ضرورت ہے اُس پیار کو سمجھنے کی۔

[poll id="318"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story