میں نے پڑھنے کے بعد ایک لمحے کے لئے گہری سانس لی اور سوچا کہ اس بیچاری قوم کے ساتھ کتنے عجیب و غریب مذاق ہر روز ہوتے ہیں اور چینی زبان کی تعلیم اِس میں ایک نیا اضافہ ہے۔ بہرحال وقت کی اہم ضرورت، یعنی چینی زبان میں تعلیم کے
مردہ گھوڑے کو ایک دفعہ پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی گئی گویا اس کے بغیر ترقی کا حصول ممکن نظر نہیں آتا۔
سندھ حکومت کے اس بروقت اور انتہائی اہم قدم کے بعد اب ذرا تعلیم سے جڑے تلخ حقائق اور اعداد و شمار پر بات کرلی جائے تو بہتر ہے کہ پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے میں جو مثالی قدم اٹھایا گیا وہ آخر ایک عجیب سا مذاق کیوں ہے؟ پہلے تو یہ ذھن نشین کیا جائے کہ سندھ صرف کراچی کا نام نہیں ہے جیسا کہ لاہور کو پورا پنجاب سمجھ لیا گیا ہے۔
ساڑھے چار کروڑ آبادی کے اس صوبے میں شہروں سے زیادہ دور دراز گاؤں، قصبے اور دیہات ہیں۔ جہاں نظام تعلیم کی حالت بد سے بدتر ہے۔ عوام وڈیروں کے رحم و کرم پر ہیں تو اسکول جانوروں کے۔ جہاں مزدور دن بھر کی تھکن اتارنے کے لئے کسی ویران پڑے اسکول میں پناہ لے لیتے ہیں کہ وہاں کونسا علم و نور کے چشمے پھوٹ رہے ہیں جو انکے وہاں سونے سے بنجر ہوجائیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ میڈیا وہاں ایک تو جاتا نہیں ہے اور اگر جاتا ہے تو ایک آدھی خبر سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے بھلا۔
ادارہ آگہی تعلیم کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر کے 138 اضلاح کے 2,49,832 طالب علموں سے مختلف سوالات پوچھے گئے، پانچویں جماعت کے %57 طلباء دوسری جماعت کے اسباق پڑھ کر نہ سنا سکے۔ انگریزی ہی نہیں، پشتو، اردو اور سندھی میں بھی یہی حال ہے۔جنوری 2015 کی رپورٹ کے مطابق سندھ بھر میں
40 ہزار گھوسٹ اساتذہ اور 5200 گھوسٹ اسکول ہیں۔
یونیسیف کے مطابق سندھ بھر میں پرائمری سطح پر 10,268 اسکول ایسے ہیں جن کی چھت ہی نہیں ہے، 4724 ایسے اسکول ہیں جن کی حالت انتہائی تشویشناک ہے، آدھے سے زیادہ پرائمری اسکولوں میں ٹائلٹ، پینے کا پانی، باؤنڈری وال ہی موجود نہیں ہے، جبکہ صرف 13 فیصد میں بجلی کا کنکشن موجود ہے۔یونیسیف کے مطابق پاکستان میں 65 لاکھ بچے دائرہ تعلیم سے باہر ہیں، جن میں سے زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔ اسکول میں تعلیم سے محروم بچوں پر نظر دوڑائی جائے تو
نائجیریا کے بعد پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے جس میں
ساڑھے چھ ملین بچے تعلیم جیسی سہولت سے محروم ہیں۔
پاکستان میں ناخواندہ افراد کی شرع بھی بھارت اور چین کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں سرکاری اور نجی اسکولوں کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہے اور جو لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھی نہیں بھیج سکتے وہ انھیں مزدوری پر لگا دیتے ہیں تا کہ چار پیسے بنتے رہیں۔ صوبائی سطح پر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ہونہار طلباء مستقبل کے خواب سمیٹے کسی ہوٹل، چائے خانے یا پھر حمام پر نوکری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
جس ملک میں پہلے سے یہ حال ہو کہ تعلیم کا بجٹ آٹے میں نمک سے بھی کم ہو، سرکاری اور نجی اسکولوں کے معیار میں زمین آسمان کا فرق ہو، نصاب ادنیٰ لوگ بناتے ہوں، درسی کتب میں آدھا جھوٹ آدھا سچ لکھا جاتا ہو، تعلیمی اداروں کی نگرانی کا کوئی معیار نہ ہو، مدارس کے طلباء معاشرے کا حصّہ بنتے ہوں نہ انگریزی اسکولوں کا، دینی طلباء ماضی میں جیتے ہوں اور انگلش میڈیم والے مغربی تہذیب میں، وہاں ہم ساری دنیا سے الٹ اپنی زبان چھوڑ کر سرحد پار سے چینی زبان درآمد کرلیں تو ہمیں عقلمند کون کہے گا؟
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقرا سے ہوا تھا
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔