چند متفرقات اور ماڈل ایان وغیرہ

غیر سیاسی کے عنوان سے سیاسی باتیں لکھتے لکھتے میں تنگ آ گیا ہوں اور مجھ سے زیادہ میرے مہربان سیاستدان تنگ آ گئے ہیں


Abdul Qadir Hassan March 28, 2015
[email protected]

غیر سیاسی کے عنوان سے سیاسی باتیں لکھتے لکھتے میں تنگ آ گیا ہوں اور مجھ سے زیادہ میرے مہربان سیاستدان تنگ آ گئے ہیں اس لیے یہ معرکہ فی الوقت سرد کر دینا چاہیے۔

حالات قابل برداشت ہونے تک انتظار، فریقین کوئی دوسری مناسب مصروفیت اختیار کر لیں لیکن کوئی دوسری مصروفیت نہ میرے پاس ہے اور نہ سیاستدانوں کے پاس۔ مجھے بسلسلہ روز گار کچھ نہ کچھ لکھنا ہی ہے ورنہ کھاؤں گا کہاں سے اور سیاستدان بھی سیاست نہ کریں تو وہ بھی کھائیں گے کیا کیونکہ ان کا ذریعہ روز گار بھی سیاست ہی ہے بس شکایت صرف اتنی ہے کہ وہ زیادہ کھا جاتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں سے بڑھ کر اربوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔

اس اعزاز سے کوئی بھی محروم نہیں اور ہم لوگ تو دور سے ہی سہی ان کی بے پایاں دولت کی مہک میں ہی مگن رہتے ہیں جس کی جھلک ہم لفظوں میں دیکھا کرتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے ان دنوں ہم ایک حسینہ کی تصویریں اور خبریں ہی دیکھ کر گم صم ہو چکے ہیں ہوش و حواس کھو چکے ہیں اور صرف تصویروں پر ہی گزر بسر کر رہے ہیں زیادہ کی توفیق نہیں۔

ہمارے ہاں گاؤں میں ایک محاورہ مشہور ہے کہ گورا رنگ وی کسی دا نہ ہو وے تے سارا جگ ویری پے گیا: یعنی خدا کسی کو گورا رنگ نہ دے کیونکہ اسے دیکھ کر ہر کوئی 'دشمن' ہو جاتا ہے۔ ہم بھی ایان علی کے ویری ہو گئے ہیں کیونکہ اس کا رنگ صرف گورا ہی نہیںاس کے غمزہ و ادا بھی جان لیوا ہیں اس قدر کہ اس کے ناز و ادا سے جیل کے سنگدل بھی دل ہار چکے ہیں اور خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جیل والے اس کی دلجوئی میں لگے رہتے ہیں۔

اب کراچی کی جیل والوں نے اصرار کیا ہے کہ اس کی وارداتیں چونکہ زیادہ تر کراچی سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے اس حسین ملزمہ کو ان کے حوالے کر دیا جائے اور دولت صرف حسن کی ہی نہیں مال و دولت کی بھی ہے کہ صرف ایک معمولی سا پھیرا پانچ لاکھ ڈالر کا تھا اور یہ ثابت ہو گیا کہ اس کے پیچھے ایک نامی گرامی سیاستدان بھی ہے۔ دولت حسن کی ہو یا روپے پیسے کی اس کے پیچھے کوئی سیاستدان ضرور ہوتا ہے۔ ایان علی وہ پہلی ماڈل ہیں جس نے اپنے حسن و جمال کا بھرپور استعمال کیا ہے اور اس چار دن کی چاندنی کو رائیگاں نہیں جانے دیا یوں آنے والے اندھیروں کا بھی کچھ سامان کر لیا ہے۔

یہ ایان علی کے سرپرست سیاستدان کی نالائقی ہے کہ وہ پکڑی گئی ہے اور جیل میں بند ہے جہاں جیل حکام کی فیاضی سے وہ مرغن کھانے زیادہ کھاتی ہے کہ وزن بڑھ گیا ہے جو کسی ماڈل کا دشمن نمبر ایک ہوتا ہے۔

جیل والوں کی طرف سے غیر معمولی خاطر تواضع سے شہ پا کر ایان نے وزن کم کرنے کے لیے ورزش کے آلات کی فرمائش کر دی ہے لیکن جیل والے بہرحال اتنے گئے گزرے اور سادہ بھی نہیں انھوں نے ان آلات کا پیشگی بل بنا کر دے دیا ہے اور کہا ہے کہ جب آپ اس جیل سے جائیں گی تو لاکھوں کا یہ سامان آپ کی طرف سے ہمارے لیے ایک تحفہ ہو گا۔ خیر وہ تو جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن جیل کی تاریخ میں پہلے ہی ایک حسین اضافہ ہو چکا ہے۔

ایان بھی کیا یاد کرے گی کہ اسے کن لوگوں سے واسطہ پڑا ہے جو کہتے ہیں کہ ''آؤ گے تو کیا لاؤ گے اور جاؤ گے تو کیا دے جاؤ گے''۔ یعنی ایان کو اس کے بھائی بند ٹکر گئے ہیں جو اس کی زبان بول رہے ہیں۔ ایان کا ذکر حسین ابھی جاری تھا کہ محترم عمران صاحب سے زیادہ برداشت نہیں ہو سکا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا چنانچہ انھوں نے ایان کے دبئی کے سفروں کی گنتی شروع کر دی ہے اور دبئی میں پاکستانیوں نے جتنے اربوں کی جائیداد خریدی ہے اس کا ذکر بھی کر دیا ہے گویا یہ رقم ایان اپنے دبئی کے پھیروں میں لے گئی تھی۔ اب ایان عمران خان کے حوالے، وہ جانیں ریحام خان جانے یا کوئی اور ہمیں اس عمر میں ایسی خوبصورت اور دلآویز کہانیوں سے کیا سروکار بس سن لینا ہی بہت ہے۔

پاکستان کے جعلی اور شوقیہ انقلابی ان دنوں بھگت سنگھ کا ذکر کرنے لگے ہیں۔ پاکستان بنانے میں بھگت سنگھ وغیرہ کا کوئی کردار نہیں تھا وہ تو ایک دہشت گرد تھا جس قسم کے ان دنوں ہمارے پاکستان میں سرگرم ہیں۔

اس نے دلی میں اسمبلی پر اس وقت بموں سے حملہ کیا جب اسمبلی میں قائداعظم بھی موجود تھے اس نے کئی بے گناہوں کو اپنی دہشت گردی سے قتل کیا تھا نہ معلوم وہ ہم پاکستانیوں کا ہیرو کب سے بن گیا اب تو لاہور کے شادمان کے علاقے میں اس کی یاد گار کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے جہاں اسے پھانسی دی گئی تھی۔ اگر بھگت سنگھ آزادی کی جنگ کا مجاہد تھا تو پھر پاکستان میں ان دنوں سرگرم دہشت گرد بھی کسی جنگ آزادی کے ہیرو ہیں اور ہماری فوج ان دہشت گردوں کی سرکوبی بلکہ ختم کرنے کے لیے جو قربانیاں دے رہی ہے وہ بھگت سنگھ جیسے لوگوں کو ختم کرنے کے لیے ہیں۔

ہمارے ہاں جعلی انقلابی کسی نہ کسی شعبدہ بازی کی تلاش میں رہتے ہیں اب کچھ عرصہ سے وہ ہر سال بھگت سنگھ کو یاد کرنے لگے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی نہیں بتاتا کہ قیام پاکستان سے اس کا کیا تعلق تھا۔وہ ان لوگوں میں سے تھا جو آزادی سے پہلے ایسی دہشت گردی کو اختیار کر کے اپنے آپ کو ہیرو سمجھتے تھے۔

یہ گمراہ لوگ تھے اور ہندوستان کی آزادی سے ان کا کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔ بھگت سنگھ جن لوگوں میں سے تھا وہ اس کی یاد منائیں تو بڑے شوق سے لیکن ہم پاکستانیوں کا اس سے کیا تعلق ہے کہ ہم خوامخواہ کسی کو ہیرو بنانے کی فکر میں ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو اپنے ذہن صاف کر لینے چاہئیں کہ ہماری جدوجہد آزادی کیا تھی اس کے لیڈر اور کارکن کون لوگ تھے ان کے نظریات کیا تھے اور وہ اپنے ملک کے قیام کے لیے بہت کچھ کرنے کو تیار تھے ان کا لیڈر ایک قانون پسند اور صاف ستھرے کردار کا مالک شخص تھا جسے قدرت نے اس مقصد کے لیے منتخب کیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں