چین کا بڑا اقتصادی قدم

معاشی ماہرین کو یقین ہے کہ انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک دنیا میں ترقیاتی عمل کا نیا دور شروع کرے گا،


شعیب واجد March 28, 2015

MONTERREY: چوبیس اکتوبر 2014 کو چین کی جانب سے ایک ایسا قدم اٹھایا گیا، جس نے امریکی پالیسی سازوں کو حیران اور سخت پریشان کردیا۔ اس روزچین میں ہوئے اکیس ممالک کے ایک اجلاس میں ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے قیام کی یادداشت پر دستخط ہوگئے۔ چین کے اس قدم پر امریکا میں تنقید کی گئی اور اسے غیر ضروری قدم قرار دیا گیا۔ دوسری طرف بہت سے یورپی اور ایشیائی ملکوں نے اس اقدام کی حمایت بھی کی۔ لیکن امریکا اے آئی آئی بی کے قیام کی مخالفت کیوں کررہا ہے، اسے غیر ضروری قدم کیوں قرار دے رہا ہے؟

ماہرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اس نئے بین الاقوامی بینک کے قیام سے سے ورلڈ بینک اور ایشین بینک غیر موثر ہوسکتے ہیں، جن میں امریکا، یورپ اور جاپان کی عملداری ہے، یوں دنیا میں امریکا کا سیاسی اثر و رسوخ بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

نیا بینک چین کی علاقائی سطح پر سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی خواہش کے علاوہ امریکا کے ساتھ اس کے مسابقت پر مبنی تعلقات کا بھی عکاس ہے۔ یہ بینک ایشیا میں سڑکوں، ریلوے، پاور پلانٹس اور ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس کی تعمیر جیسے منصوبوں کے لیے سرمایہ فراہم کرے گا۔ اجلاس میں چین نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ اس بینک کے پچاس ارب ڈالرز کے ابتدائی سرمائے کا بڑا حصہ خود فراہم کرے گا۔ جن ممالک نے اس نئے بینک کے قیام کی یادداشت پر دستخط کیے، ان میں چین اور بھارت کے علاوہ پاکستان، سنگاپور، ویت نام، فلپائن، بنگلہ دیش، برونائی، کویت، نیپال، قطر، سری لنکا، تھائی لینڈ اور ازبکستان اور دیگر شامل ہیں۔ تاہم جو ممالک اس ایم او یو میں شریک نہیں ہوئے، ان میں امریکا کے اتحادی جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا شامل ہیں، حالانکہ چین ان ممالک کو بھی اس بینک کے قیام میں شریک کرنے کا خواہاں ہے۔

ایشیئن انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے قیام کے پانچ ماہ بعد ہی اس کی اہمیت کے حوالے سے ایک بہت اہم پیش رفت سامنے آئی جب فرانس اور جرمنی نے اس میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ یورپی یونین کے ان دو اہم ترین ملکوں کی شمولیت نے بینک کو نئی سیاسی اہمیت بھی عطا کردی۔

فائنینشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یورپی اتحاد کے رکن ممالک کے اس فیصلے پر امریکا بہت ناخوش ہے۔ کیونکہ اس بینک کا قیام چین اور امریکا کے درمیان مقابلہ بازی مانا جارہا ہے۔ دونوں ممالک ایشیا میں معیشت اور تجارت کے اصول وضع کرنے کے خواہاں ہیں۔ ادھر امریکی اتحادی جنوبی کوریا، سوئٹزرلینڈ اور لکسمبرگ بھی ایشیا انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک میں شامل ہونے پر غور کررہے ہیں۔

جرمنی اور فرانس کی اے آئی آئی بی میں شمولیت کو بڑا واقعہ تو قرار دیا ہی جارہا تھا، ایسے میں ایک دھماکا اور ہوگیا، جسے امریکا کے لیے انتہائی غیر متوقع قرار دیا جارہا ہے۔ یعنی یہ کہ امریکا کے سب سے بڑے اتحادی برطانیہ نے بھی چینی قیادت میں قائم کیے گئے بینک کا رکن بننے کی درخواست دیدی۔ برطانیہ اس بینک کا رکن بننے والا سب سے بڑا اور طاقتور مغربی ملک ہوگا۔ برطانیہ کی شمولیت نے امریکا کو سخت پریشان کردیا ہے۔ اس نے آسٹریلیا، جنوبی کوریا اور جاپان سمیت اپنے تمام اتحادیوں کو اس بینک سے دور رکھا، لیکن خاص اتحادی برطانیہ ہی کی چینی بینک میں شمولیت کی درخواست نے اسے سخت تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے بڑے یورپی ممالک کی اے آئی آئی بی میں شمولیت دراصل یورپی یونین کی بینک میں شمولیت کے مترادف ہے، جس سے خاص طور پر ورلڈ بینک کا وجود خطرے میں نظر آرہا ہے، اسی لیے امریکا نے نئے بینک کے قیام کو ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں کا غیر ضروری حریف تیار کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نئے ایشیائی بینک کے قیام کی یادداشت پر دستخط کیے۔ یہ بینک پاکستان کے انفرااسٹرکچر کے منصوبوں میں پرکشش شرائط پر فنڈز فراہم کرے گا۔ چونکہ پاکستان نے بینک میں کم سے کم رقم جو ایک ارب ڈالر سے بھی زیادہ تھی جمع نہیں کرائی تھی، اس لیے پاکستان کو بینک کے بورڈ کے اجلاس میں ویٹو پاور حاصل نہیں ہوگی، جبکہ ہندوستان نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ فنڈز بینک کو فراہم کرکے ویٹو پاور حاصل کرلی ہے۔

معاشی ماہرین کو یقین ہے کہ انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک دنیا میں ترقیاتی عمل کا نیا دور شروع کرے گا، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کو پروجیکٹس کے لیے قرضوں کے حصول میں آسانی ہوگی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ غریب ملکوں کو عالمی ساہوکاروں کی غیر منصفانہ شرائط سے نجات مل جائے گی، جو وہ قرضہ دینے سے قبل عائد کرتے ہیں، لیکن اس کے برخلاف امریکا نے اس بات پر الٹا تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ نیا بینک معاشی، ماحولیاتی اور انسانی حقوق جیسے معاملات میں عالمی معیار پر عمل نہیں کراسکے گا، یعنی یہ وہی معیارات ہیں جن کا بہانہ بنا کر قرض لینے والے ملکوں سے کڑی شرائط منوائی جاتی ہیں۔

انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کا قیام ایشیائی اور افریقی ممالک کے لیے خاص طور پر خوش خبری قرار دیا جارہا ہے، جنھیں اب زیادہ آسان اور غیر سیاسی قرضے میسرآسکیں گے۔ پاکستان کی اس بینک میں شمولیت بھی نیک شگون ہے اور امید ہے کہ پاک چین بہترین تعلقات کی بدولت بینک سے منسلک پاکستانی مفادات کی عمدہ نگہبانی ہوسکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں