آبی ذخائر
پاکستان کا سب سے بڑا دریا، دریائے سندھ ہے جس کی لمبائی 2896 کلو میٹر ہے،
پاکستان کا سب سے بڑا دریا، دریائے سندھ ہے جس کی لمبائی 2896 کلو میٹر ہے، اس کے بعد دریائے ستلج ہے، جس کی لمبائی 1551 کلو میٹر ہے پھر تیسرا بڑا دریا دریائے چناب ہے جس کی لمبائی 1242 کلو میٹر ہے پھر راوی ہے جو کہ 901 کلو میٹر لمبائی کا حامل ہے جب کہ دریائے جہلم جو کہ 825 کلو میٹر طے کرتا ہوا پنجند کے مقام پر آ ملتا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد 3بڑے انتہائی اہم ترین ڈیم بنائے جا سکے جن کے نام تربیلا بند، منگلا بند اور وارسک ڈیم ہے جب کہ ملک بھر میں 19 بیراج ہیں، ملک کے اہم کینالز کی لمبائی ساڑھے 58 ہزار کلو میٹر ہے اس کے علاوہ ملک بھر میں ٹیوب ویلز کی تعداد 6 لاکھ 80 ہزار 5سو کے لگ بھگ ہے، پاکستان کی زراعت کا انحصار ان دریائوں، نہروں، ڈیمز، بیراج اور ٹیوب ویلوں پر ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت کا ذریعہ معاش ہی زراعت ہے، ملک کی کل جی ڈی پی کا 24 تا 26 فیصد شعبہ زراعت پر مشتمل ہے، یہی شعبہ ملکی افرادی قوت کو روزگار کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
ملک کے روزگار کا 44 فیصد اسی شعبے پر مشتمل ہے، سال بھر مختلف فصل کاشت کی جاتی ہے جس میں چاول، گندم، کپاس، گنا، مکئی، تمباکو اور مختلف اقسام کی دالیں وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں، اس کے علاوہ پھلوں کی مختلف اقسام بہت سی سبزیاں وغیرہ پیدا کی جاتی ہیں، ان تمام کا انحصار پانی پر ہے۔
سندھ طاس معاہدہ جو کہ 1961ء میں طے پایا تھا پاکستان 3 اہم دریائوں کا پانی استعمال کرنے سے محروم رہ گیا جب کہ اب صورتحال یہ ہے کہ وہ دریا جن کا پانی پاکستان کے ہی زیر استعمال آنا تھا ان پر بھارت بڑی تیزی کے ساتھ ڈیمز بنائے چلا جا رہا ہے، تربیلا بند کی تعمیر کے بعد آیندہ 10 سال کے اندر پاکستان کو ایک اور بڑا ڈیم بنانا تھا لیکن تربیلا بند جس کی تعمیر 1974ء میں ہوئی تھی اس کے بعد سے پاکستان مختلف مسائل میں گھرتا گیا۔
1977ء کا ابھی آغاز ہوا ہی تھا کہ ملک میں ایک بہت بڑے سیاسی اتحاد کی داغ بیل ڈال دی گئی پھر 7 مارچ 1977ء سے ملک بھر میں حکومت مخالف تحریک کا آغاز ہوا، 5 جولائی 1977ء کو ملک بھر میں مارشل لاء لگا دیا گیا اس کے ساتھ ہی عالمی قوتوں نے پاکستان میں بڑے ڈیمز کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنی شروع کر دی اس کے ساتھ ہی بڑے ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز کی فراہمی ناممکن ہوتی چلی گئی اور یوں پاکستان اپنے بڑے دریائوں پر بڑے ڈیمز کی تعمیر سے محروم ہو کر رہ گیا۔
تقریباً 40 سال کے بعد دریائے سندھ پر گلگت بلتستان کے علاقے میں دریائے سندھ پر ڈیمز کی تعمیر کے سلسلے میں فنڈز کی فراہمی ایک بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔ عالمی بینک جو کہ دنیا کے مختلف ممالک کو بڑے ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز تکنیکی معاونت انجینئرز، ماہرین فراہم کرتا ہے، پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے سلسلے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
گزشتہ دنوں عالمی بینک نے پاکستان کی معیشت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو 2 ارب ڈالر قرض کی سہولت کی پیش کش کی ہے، حکومت کو اس پیشکش سے فائدہ اٹھانے کے لیے عالمی بینک سے مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے کہ 2 ارب ڈالر قرض کی سہولت پاکستان میں گلگت بلتستان کے علاقوں میں بڑے ڈیمز کی تعمیر کے لیے فراہم کی جائے، اس سلسلے میں تمام تر ٹیکنالوجی فراہم کی جائے۔ طویل عرصے تک پاکستان نے نہ صرف بڑے ڈیمز کی تعمیر میں کوئی پیشرفت بھی نہ کی اور چھوٹے چھوٹے ڈیمز بھی تعمیر نہ کیے جب کہ گزشتہ کئی عشروں سے دنیا بھر میں چھوٹے ڈیمز کی تعمیر میں بڑی تیزی آئی ہے۔
پاکستان میں قلت آب پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں چھوٹے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر میں تیزی لائی جائے لیکن بد قسمتی سے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کا آغاز کیا جاتا ہے پھر سلسلہ درمیان میں روک دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے تعمیراتی لاگت میں کہیں زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے اور پھر فنڈز کی عدم دستیابی یا کم رقوم کی دستیابی کے باعث ڈیمز کی تعمیر کا کام سست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر ملک میں ڈیمز کی تعمیر میں رکاوٹیں نہ پیدا ہوتیں تو آج پاکستان میں توانائی کا بحران نہیں ہوتا۔
ملک میں پن بجلی کی پیداوار میں زبردست اضافہ ہوتا اور ڈیمز کے ذریعے پیدا کی جانیوالی بجلی سب سے سستی ہوتی ہے، 1994ء سے پاکستان نے تھرمل پاور سے بجلی کی پیداواری منصوبے شروع کیے پھر 2000ء کے بعد کچھ پاور پراجیکٹس کو گیس میں تبدیل کیا گیا پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے بہت ہی کم پاور یونٹ لگائے گئے حالانکہ وہ ممالک جہاں پانی کے وافر ذرایع موجود نہیں ہیں وہاں کوئلے سے بجلی پیدا کی جاتی ہے، سندھ کے کئی علاقوں کو دنیا کا بہترین ونڈ کوریڈور قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ونڈ انرجی کے منصوبے بہت ہی تاخیر سے شروع کیے گئے۔
اب ایل این جی درآمد کر کے پاور کمپنیوں کو فراہم کیا جائے گا جس سے توانائی پیدا کی جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ پہلے محمود کوٹ میں جو کہ کوٹ ادو شہر ضلع مظفر گڑھ کے قریب ہے جسے کوٹ ادو پاور کمپنی کا نام دیا جاتا ہے جہاں اب فرنس آئل کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔
فرنس آئل کے بجائے اب ایل این جی کے ذریعے بجلی پیدا کی جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سال مارچ کے ماہ میں جب یوم آب منایا جاتا ہے تو ہمیں اپنے آبی ذرایع کو ترقی دینے، ان سے بجلی پیدا کرنے، پانی کی فراہمی اور بھارت کے ڈیمز بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلے ہی ایک طویل عرصہ تساہل اور لاپرواہی میں گزر گیا، ایسی منصوبہ بندی اختیار کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنے آبی ذخائر میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر سکیں۔