جب یہ تمہاری طرف بڑھیں گے
ٹراٹسکی نے کہا تھا کسی شیطان نے آج تک اپنے پنجے رضاکارانہ طور پر نہیں کاٹے،
KARACHI:
ٹراٹسکی نے کہا تھا کسی شیطان نے آج تک اپنے پنجے رضاکارانہ طور پر نہیں کاٹے، لوگوں کو اپنے بہتر کل کے لیے خود شیطان کے پنجوں کو کاٹنا پڑتا ہے۔ جب کہ چی گویرا کہتا ہے کہ انسانوں کی اکثریت اس طرح سے زندگی گزارتی ہے جیسے یہ کوئی عادت ہو جس سے نجات حاصل کرنا ممکن نہ ہو۔
ابھی کچھ عرصے ہی قبل ہمارے سماج میں شادی کی تقریب بڑی دلچسپ ہوتی تھی، بارات میں دولہا گھوڑے پر سوار ہو کر آتا تھا، اس کے سر پر سہرہ سجا ہوتا تھا، اس نے رومال اپنے ہونٹوں پر رکھا ہوتا تھا، بارات کے آگے ایک بینڈ فلمی دھنیں بجا رہا ہوتا تھا، بینڈ والوں کا ڈریس ایک ہی ہوتا تھا جو مختلف بھڑکتے رنگوں پر مشتمل ہوتا تھا، دولہا کے گھوڑے کے پیچھے باراتی چل رہے ہوتے تھے، دولہا کا کوئی قریبی رشتے دار پیسوں کے سکے باربار دولہا پر نچھاور کرتا رہتا تھا، نچھاور کیے گئے پیسوں کے سکوں کو لوٹنے کے لیے غریب لوگ ایک دوسرے کو تمام راستے کچلتے اور روندتے رہتے تھے، ایک دوسرے پر جھپٹتے رہتے تھے۔
ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے رہتے تھے، سکے پھینکنے والے اور باراتی اس منظر سے انتہائی فاتحانہ اور شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ لطف اندوز ہوتے رہتے تھے، جب پھینکے گئے سکے لٹ جاتے تو لوٹنے والے انتہائی بے بسی سے اور ہانپتے کاپنتے سکے لٹانے والے کے ہاتھ کی طرف دیکھتے رہتے کہ وہ کب چند اور سکے پھینکے گا۔ یہ منظر میں بھلانے سے نہیں بھول پاتا، وہ مجبور، بے بس، بے کس چند سکوں کے لیے تڑپتی، ترستی زندہ لاشیں، آج تک میرے ذہن سے نہیں نکل پاتی ہیں۔
آج جب میں اپنے 18 کروڑ ہم وطنوں کو ایک ایک روپے، ایک ایک روٹی کے لیے تڑپتے، ترستے اور بلکتے دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہو تا ہے کہ برسوں بعد بھی کچھ نہیں بدلا، آج بھی 18 کروڑ انسانوں کی حیثیت، حالت اور اوقات برسوں پہلے بارات میں چند سکے لوٹنے والوں جیسی ہی ہے، یہ 18 کروڑ انسان ان ہی بارات میں چند سکے لوٹنے والوں کا ہی تسلسل ہیں۔
یہ 18 کروڑ آج بھی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاست دانوں، بیوروکریٹس کے بچے کچھے خیرات اور صدقے میں نکالے گئے چند روپوں کے منتظر بیٹھے رہتے ہیں اور ان چند روپوں کے لیے یہ 18 کروڑ زندہ لاشیں ایک دوسرے کو روندنا اور کچلنا شروع کردیتی ہیں، ایک دوسرے کو نوچنا شروع کر دیتی ہیں اور وہ شیطان اپنی شیطانہ مسکراہٹ کے ساتھ لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔
گزرے برسوں میں دنیا بدل گئی، دنیاکے لوگوں کے نصیب بدل گئے، لیکن ہمارے عام آدمیوں کے لیے کل بھی بدترین دور تھا، آج بھی بدترین دور ہے، ہمارے شیطانوں کے نزدیک عام آدمی کے معنی ہی حقیر فقیر، ذلیل وخوار، رسوا، بیمار کے ہیں، ایسے لاوارث جن کو بلاوجہ گالیاں دینے میں سب کو سکون ملتا ہے، تسکین ملتی ہے۔
ہیگل کے مطابق جانوروں کی طرح انسان کی فطری ضرورت اور خواہش بھی اپنی ذات سے الگ اشیا سے وابستہ ہوتی ہے اسے روٹی، پانی اور سر چھپانے کے لیے چھت چاہیے ہوتی ہے اور اپنے آپ کو محفو ظ رکھنے کی حاجت ہوتی ہے۔ انسان بنیادی طور پر جانوروں سے الگ اس طرح ہے کہ اسے دوسرے انسان کی خواہش یا خیال کی بھی ضرورت درپیش رہتی ہے، وہ اپنی شناخت چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اسے پہنچانا جائے، خاص طور پر اسے بحیثیت انسان تسلیم کیا جائے، یعنی یہ مانا جائے کہ اس کی کوئی قدر و قیمت ہے، اس کے اندر عزت نفس اور انا ہے۔
وہ اپنی عزت کے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہے اور یہ کام صرف انسان ہی کر سکتا ہے اور ساتھ ہی وہ اپنی جبلی ضرورت کے خلاف اعلیٰ اصولوں اور اونچے نصب العین کے لیے بھی اپنی جان کی قربانی دے سکتا ہے اور جان کی قربانی لے سکتا ہے۔ شناخت کی اسی خواہش نے ابتدا ہی میں دو انسانوں کو لڑنے پر مجبور کر دیا، فطر ی طور پر موت کے خوف نے ایک کو ہار ماننے پر آمادہ کیا۔ یاد رہے کہ تاریخ کی ابتدا کی خونی لڑائی، روٹی، مکان اور تحفظ کے بجائے عزت کے لیے شروع ہوئی تھی۔
اس کی وضاحت افلاطون نے اپنی ری پبلک میں یوں کی، انسانی شخصیت کے تین اجزا ہیں ایک خواہش کا حصہ، دوسرا سو چ سمجھ کا جزو اور تیسرے کو اس نے تھائی موس کا نام دیا ہے، جس سے مراد خودداری، خودی یا انا ہے۔ انسان پر سب سے شدید حملہ ناانصافی کا ہوتا ہے، جس سے اس کے اندر اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصور بھی محال ہے۔
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ انسان کی عزت نفس پر ہوتا ہے، وہ ہر چیز برداشت کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے اپنی عزت نفس کی بے حرمتی قابل برداشت نہیں ہے۔ یاد رہے اپنی ذات کا درد کسی دور دراز کے ملک کے اس قحط سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے جو لاکھوں افراد کی موت کا باعث ہوتا ہے، اپنی گردن کا پھوڑا افریقہ کے چالیس زلزلوں سے زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے، تمام بغاوتیں، ناانصافی، جبر اور استحصال کے خلاف سرکشی سے شروع ہوتی ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ تمام انقلابات یا تبدیلی کی منشا کے پیچھے ریاستی خدمت کے چار اہداف ہوتے ہیں یعنی تحفظ، روٹی، انصاف اور سچائی۔
دنیا کے ابتدائی انقلابات پر پہلے دو اہداف کا غلبہ رہا، 1789ء کے انقلاب فرانس کی ابتدا روٹی کے لیے بغاوت سے ہوئی اور 1917ء کا روسی انقلاب بھی روٹی اور امن عامہ کی صورتحال کی وجہ سے برپا ہوا۔ اس کے بعد کے بیشتر انقلابات امن اور خوشحالی اور سچائی کے پس منظر میں واقع ہوئے۔ 1989ء میں پراگ میں جلوسوں کے شرکا نے انصاف اور سچائی والے بینرز اٹھا رکھے تھے۔ آج کے انقلاب سچائی اور انصاف پر منتج ہوتے ہیں، اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو، پاکستان کے لٹیروں، جس طرح تم نے لوگوں کے چین کو لوٹا ہے۔
جس طرح انھیں زندہ درگور کیا ہے، جس طرح انھیں ذلیل وخوار کیا ہے، ان لٹنے والوں کی آہیں، صدائیں اور بددعائیں تمہارے چین کو بھی لوٹ لیں گی، تم بھی چین کے لیے تڑپو گے، لیکن تمہیں کہیں بھی چین نصیب نہیں ہو گا۔ یہ خدا کا قانون ہے جو کبھی بدل نہیں سکتا، انسان کے دل سے نکلی بددعا اور آہیں عرش کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔
تم تو فقط بے حقیر مٹی ہو، جس طرح آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے تک کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ اس کے اندر کتنا خوفناک اور ہولناک لاوا پک رہا ہے اسی طرح تمہیں یہ احساس نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام کس طرح اندر سے پک رہے ہیں، جب وہ پھٹیں گے تو تمہارا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔ یاد رکھو بظاہر یہ کیڑے مکوڑے، کمزو لاغر نظر آنے والے انسان جب اٹھیں گے اور تمہاری طرف بڑھیں گے تو دنیا انقلاب فرانس اور انقلاب روس کو بھول جائے گی۔
ٹراٹسکی نے کہا تھا کسی شیطان نے آج تک اپنے پنجے رضاکارانہ طور پر نہیں کاٹے، لوگوں کو اپنے بہتر کل کے لیے خود شیطان کے پنجوں کو کاٹنا پڑتا ہے۔ جب کہ چی گویرا کہتا ہے کہ انسانوں کی اکثریت اس طرح سے زندگی گزارتی ہے جیسے یہ کوئی عادت ہو جس سے نجات حاصل کرنا ممکن نہ ہو۔
ابھی کچھ عرصے ہی قبل ہمارے سماج میں شادی کی تقریب بڑی دلچسپ ہوتی تھی، بارات میں دولہا گھوڑے پر سوار ہو کر آتا تھا، اس کے سر پر سہرہ سجا ہوتا تھا، اس نے رومال اپنے ہونٹوں پر رکھا ہوتا تھا، بارات کے آگے ایک بینڈ فلمی دھنیں بجا رہا ہوتا تھا، بینڈ والوں کا ڈریس ایک ہی ہوتا تھا جو مختلف بھڑکتے رنگوں پر مشتمل ہوتا تھا، دولہا کے گھوڑے کے پیچھے باراتی چل رہے ہوتے تھے، دولہا کا کوئی قریبی رشتے دار پیسوں کے سکے باربار دولہا پر نچھاور کرتا رہتا تھا، نچھاور کیے گئے پیسوں کے سکوں کو لوٹنے کے لیے غریب لوگ ایک دوسرے کو تمام راستے کچلتے اور روندتے رہتے تھے، ایک دوسرے پر جھپٹتے رہتے تھے۔
ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے رہتے تھے، سکے پھینکنے والے اور باراتی اس منظر سے انتہائی فاتحانہ اور شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ لطف اندوز ہوتے رہتے تھے، جب پھینکے گئے سکے لٹ جاتے تو لوٹنے والے انتہائی بے بسی سے اور ہانپتے کاپنتے سکے لٹانے والے کے ہاتھ کی طرف دیکھتے رہتے کہ وہ کب چند اور سکے پھینکے گا۔ یہ منظر میں بھلانے سے نہیں بھول پاتا، وہ مجبور، بے بس، بے کس چند سکوں کے لیے تڑپتی، ترستی زندہ لاشیں، آج تک میرے ذہن سے نہیں نکل پاتی ہیں۔
آج جب میں اپنے 18 کروڑ ہم وطنوں کو ایک ایک روپے، ایک ایک روٹی کے لیے تڑپتے، ترستے اور بلکتے دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہو تا ہے کہ برسوں بعد بھی کچھ نہیں بدلا، آج بھی 18 کروڑ انسانوں کی حیثیت، حالت اور اوقات برسوں پہلے بارات میں چند سکے لوٹنے والوں جیسی ہی ہے، یہ 18 کروڑ انسان ان ہی بارات میں چند سکے لوٹنے والوں کا ہی تسلسل ہیں۔
یہ 18 کروڑ آج بھی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سیاست دانوں، بیوروکریٹس کے بچے کچھے خیرات اور صدقے میں نکالے گئے چند روپوں کے منتظر بیٹھے رہتے ہیں اور ان چند روپوں کے لیے یہ 18 کروڑ زندہ لاشیں ایک دوسرے کو روندنا اور کچلنا شروع کردیتی ہیں، ایک دوسرے کو نوچنا شروع کر دیتی ہیں اور وہ شیطان اپنی شیطانہ مسکراہٹ کے ساتھ لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔
گزرے برسوں میں دنیا بدل گئی، دنیاکے لوگوں کے نصیب بدل گئے، لیکن ہمارے عام آدمیوں کے لیے کل بھی بدترین دور تھا، آج بھی بدترین دور ہے، ہمارے شیطانوں کے نزدیک عام آدمی کے معنی ہی حقیر فقیر، ذلیل وخوار، رسوا، بیمار کے ہیں، ایسے لاوارث جن کو بلاوجہ گالیاں دینے میں سب کو سکون ملتا ہے، تسکین ملتی ہے۔
ہیگل کے مطابق جانوروں کی طرح انسان کی فطری ضرورت اور خواہش بھی اپنی ذات سے الگ اشیا سے وابستہ ہوتی ہے اسے روٹی، پانی اور سر چھپانے کے لیے چھت چاہیے ہوتی ہے اور اپنے آپ کو محفو ظ رکھنے کی حاجت ہوتی ہے۔ انسان بنیادی طور پر جانوروں سے الگ اس طرح ہے کہ اسے دوسرے انسان کی خواہش یا خیال کی بھی ضرورت درپیش رہتی ہے، وہ اپنی شناخت چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اسے پہنچانا جائے، خاص طور پر اسے بحیثیت انسان تسلیم کیا جائے، یعنی یہ مانا جائے کہ اس کی کوئی قدر و قیمت ہے، اس کے اندر عزت نفس اور انا ہے۔
وہ اپنی عزت کے لیے اپنی جان بھی دے سکتا ہے اور یہ کام صرف انسان ہی کر سکتا ہے اور ساتھ ہی وہ اپنی جبلی ضرورت کے خلاف اعلیٰ اصولوں اور اونچے نصب العین کے لیے بھی اپنی جان کی قربانی دے سکتا ہے اور جان کی قربانی لے سکتا ہے۔ شناخت کی اسی خواہش نے ابتدا ہی میں دو انسانوں کو لڑنے پر مجبور کر دیا، فطر ی طور پر موت کے خوف نے ایک کو ہار ماننے پر آمادہ کیا۔ یاد رہے کہ تاریخ کی ابتدا کی خونی لڑائی، روٹی، مکان اور تحفظ کے بجائے عزت کے لیے شروع ہوئی تھی۔
اس کی وضاحت افلاطون نے اپنی ری پبلک میں یوں کی، انسانی شخصیت کے تین اجزا ہیں ایک خواہش کا حصہ، دوسرا سو چ سمجھ کا جزو اور تیسرے کو اس نے تھائی موس کا نام دیا ہے، جس سے مراد خودداری، خودی یا انا ہے۔ انسان پر سب سے شدید حملہ ناانصافی کا ہوتا ہے، جس سے اس کے اندر اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصور بھی محال ہے۔
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ انسان کی عزت نفس پر ہوتا ہے، وہ ہر چیز برداشت کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے اپنی عزت نفس کی بے حرمتی قابل برداشت نہیں ہے۔ یاد رہے اپنی ذات کا درد کسی دور دراز کے ملک کے اس قحط سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے جو لاکھوں افراد کی موت کا باعث ہوتا ہے، اپنی گردن کا پھوڑا افریقہ کے چالیس زلزلوں سے زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے، تمام بغاوتیں، ناانصافی، جبر اور استحصال کے خلاف سرکشی سے شروع ہوتی ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ تمام انقلابات یا تبدیلی کی منشا کے پیچھے ریاستی خدمت کے چار اہداف ہوتے ہیں یعنی تحفظ، روٹی، انصاف اور سچائی۔
دنیا کے ابتدائی انقلابات پر پہلے دو اہداف کا غلبہ رہا، 1789ء کے انقلاب فرانس کی ابتدا روٹی کے لیے بغاوت سے ہوئی اور 1917ء کا روسی انقلاب بھی روٹی اور امن عامہ کی صورتحال کی وجہ سے برپا ہوا۔ اس کے بعد کے بیشتر انقلابات امن اور خوشحالی اور سچائی کے پس منظر میں واقع ہوئے۔ 1989ء میں پراگ میں جلوسوں کے شرکا نے انصاف اور سچائی والے بینرز اٹھا رکھے تھے۔ آج کے انقلاب سچائی اور انصاف پر منتج ہوتے ہیں، اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لو، پاکستان کے لٹیروں، جس طرح تم نے لوگوں کے چین کو لوٹا ہے۔
جس طرح انھیں زندہ درگور کیا ہے، جس طرح انھیں ذلیل وخوار کیا ہے، ان لٹنے والوں کی آہیں، صدائیں اور بددعائیں تمہارے چین کو بھی لوٹ لیں گی، تم بھی چین کے لیے تڑپو گے، لیکن تمہیں کہیں بھی چین نصیب نہیں ہو گا۔ یہ خدا کا قانون ہے جو کبھی بدل نہیں سکتا، انسان کے دل سے نکلی بددعا اور آہیں عرش کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔
تم تو فقط بے حقیر مٹی ہو، جس طرح آتش فشاں کے پھٹنے سے پہلے تک کسی کو یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ اس کے اندر کتنا خوفناک اور ہولناک لاوا پک رہا ہے اسی طرح تمہیں یہ احساس نہیں ہے کہ پاکستان کے عوام کس طرح اندر سے پک رہے ہیں، جب وہ پھٹیں گے تو تمہارا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔ یاد رکھو بظاہر یہ کیڑے مکوڑے، کمزو لاغر نظر آنے والے انسان جب اٹھیں گے اور تمہاری طرف بڑھیں گے تو دنیا انقلاب فرانس اور انقلاب روس کو بھول جائے گی۔