کیا قائداعظم نے یہی کہا تھا

بانیِ پاکستان کی ذاتی اور سیاسی زندگی تو پاکستانی قوم کے لئے ایک کھلی کتاب کی طرح ہونی چاہیے۔


جاہد احمد March 28, 2015
قائد اعظم بھی ایک انسان اور سیاستدان تھے جن کی 23 مارچ 1940 سے پہلے کی سیاسی زندگی کہیں زیادہ دلچسپ اور فکر انگیز ہے۔

FAISALABAD:
جن کا دیں پیروی کذب و ریا ہے ان کو

ہمتِ کفر ملے جراتِ تحقیق ملے

قائداعظم کیا چاہتے تھے اور کیا نہیں! پاکستان کی تخلیق اور قائد اعظم کی وفات کے بعد سے ہی ریاستی امور پر قابض ہونے کی نیت سے مختلف گروہوں کے مابین مفادات کی جنگ میں بات اِس قدر الجھا دی گئی کہ آج تک سِرا تلاش کرنے کی کوشش ہی کی جارہی ہے۔ یوں بھی بطور قوم ہم نے پاکستان کے وجود کو لے کر قائد اعظم کے تمام خواب چھناکے سے توڑنے میں کبھی کوئی کمی بیشی نہیں کی۔

پاکستان کو ایک عدد مذہبی نظریاتی ریاست بنانے کی تائید کرنے والے حضرات قائد اعظم کی بطور صدر پہلی قانون ساز اسمبلی میں کی گئی 11 اگست 1947 کی تقریر سے یوں خوف کھاتے ہیں جیسے کمسن بچے اندھیرے کمرے میں جانے سے ڈرتے ہوں۔ حالانکہ ان کو تو یہ سمجھایا بجھایا جانا چاہیے کہ اندھیرے کمرے میں جا کر دیوار میں لگے سوئچ بورڈ پر برقی قمقمے کا سوئچ دباتے ہی کمرے میں اجالا پھیلے گا اور منظر صاف ہوتے ہی خوف اڑن چھو ہوجائے گا۔

لیکن ہائے یہ دنیا کہ بہت سے افراد کے مفادات کا رکھوالا اندھیرا ہی ہوتا ہے اور ایسوں کی خواہش رہتی ہے کہ ٹٹولنے والے ہاتھوں کو کبھی دیوار پر جڑا سوئچ بورڈ مل ہی نہ پائے یا یہ کہ سوئچ بورڈ میں اس حد تک خرابی پیدا کردی جائے کہ اس کے مل جانے کی صورت میں بھی برقی قمقمہ آسانی سے روشن نہ ہوسکے۔ انہیں روشنیوں سے نفرت ہے کیونکہ یہ اندھیروں کے بیوپاری ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قائد اعظم کی یہ تقریر پاکستان کے مستقبل کے آئین کو مرتب کیے جانے کے حوالے سے فریم ورک کا درجہ پاجاتی پر ہوا تو یہ کہ اس تقریر کو بنیاد پرست ٹولے کی جانب سے مکمل طور پر بلیک آوٹ کرنے کی ہرممکن کوشش کی گئی۔ سابق ڈی جی پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن جناب مرتضی سولنگی کے مطابق ان کی تحقیق کے تئیں اس تقریر کی آڈیو ریکارڈنگ اگر کبھی پاکستان کے پاس موجود بھی تھیں تو ان کو ارادتاً ضائع کردیا گیا کیونکہ آل انڈیا ریڈیو کے اہلکار خصوصاً ان تقاریر کی ریکارڈنگ کے لئے دہلی سے کراچی مدعو کیے گیے تھے بوجہ یہ کہ پاکستان میں اس وقت ریکارڈنگ کے حوالے سے ضروری تکنیکی سہولیات کی عدم دستیابی تھی اور یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کی اس ٹیم نے 11 اور 14 اگست 1947 کی دونوں تقاریر ریکارڈ کی تھیں۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ 14 اگست کی تقریر کی ریکارڈنگ پاکستان اور بھارت دونوں کے پاس موجود ہے لیکن 11 اگست کی تقریر کی ریکارڈنگ کا کوئی اتا پتا نہیں۔ مرتضی سولنگی صاحب کے مطابق یہ اپنی تاریخ کو جانتے بوجھتے ہوئے تباہ کر دینے کا مجرمانہ عمل ہے۔ بہرحال اس تقریر کے حوالے اور مکمل مندرجات مختلف کتب میں معتبر ذرائع نے درج کئے ہیں اور ذرائع ابلاغ کے اس جدید دور میں اب تو یہ تقریر اپنی مکمل ہیت میں ہر خاص و عام کو میسر ہے۔

مندجہ بالا واقعات کے علاوہ مذہبی نظریہ سازعناصر اس تقریر کی وسیع اشاعت رکوانے اور اس کے اثرات کو تلف کرنے میں بھی کامیاب رہے اور پھر مارچ 1949 میں قراردادِ مقاصد کو پاکستان نیشنل کانگریس کی تمام تر مدلل مخالفت کے منظور کرانے میں بھی بازی لے گئے۔ نہ صرف یہ کہ بازی لے گئے بلکہ تقسیم ہند کے یہ مخالف اب نئی ریاست کی مذہبی نظریاتی اساس کے خدائی فوجدار تک بن بیٹھے۔

قراردادِ مقاصد پاکستان کے مستقبل کی آئین سازی کا فریم ورک ٹھہری اور ایسی ریاست کی تخلیق کی بنیاد رکھ دی گئی جو مذہب کی بنیاد پر اپنے شہریوں کے حقوق میں تفریق کرے گی۔ اس تفریق کے ثمرات پاکستان تب سے اب تک بہت اچھے سے بھگت رہا ہے اور اس پر مزید الفاظ کا درج کرنا کاغذ کے منہ پر کالک ملنے کے مترادف ہے ۔

دورِ جدید میں ایک مضبوط ریاست محض انسانیت و شہریت کی بنیاد پر استوار کی جاسکتی ہے جہاں تمام افراد مذہب سے بالاتر ہو کر ریاست کے شہری ہونے کے ناطے برابری کے آئینی حقوق رکھتے ہوں اور یہ کہ ان حقوق کو بھرپور قانونی تحفظ بھی حاصل ہو۔ کسی ایک کے لئے مسکراتا چہرہ اور دوسرے کے لئے غصہ ریاست کا شیوا نہیں کیونکہ مذہب کسی بھی انسان کا ذاتی معاملہ ہے جبکہ ریاست کا تعلق اپنے ہر شہری سے سیاسی خطوط پر استوار ہوتا ہے نہ کہ مذہبی بنیاد پر۔ ریاست کی تعمیر کے حوالے سے اسی خیال کا احاطہ قائد اعظم نے 11 اگست کی تقریر میں کیا اور ریاست کے ایسے تخیل نے مذہب کو استعمال کرکے ریاست پر حاوی ہونے کے خواہشمند رجعت پسندوں کومتحد و متحرک کردیا۔ پر یہ بھی حقیقت ہے کہ رجعت پسندی تب تک ہی قائم رہتی ہے جب تک اندھیرا موجود رہے۔ جہاں ٹٹولنے والے ہاتھ موجود ہوں وہاں اُمید قائم رہتی ہے کہ یہ ہاتھ کسی وقت تو دیوار پر جڑے سوئچ بورڈ تک جا پہنچیں گے اور پھر روشنی ہوجائے گی۔

ایسے ہی ایک سوئچ بورڈ تک سندھ حکومت کا ہاتھ جا ٹکرایا ہے اور 11 اگست 1947 کی اس تاریخی تقریر کو بالآخر سندھ کے تعلیمی نصاب میں شامل کئے جانے کے اہم اور دلیرانہ فیصلے نے جھوٹ اور فریب کے اندھیرے میں امید کا قمقمہ روشن کردیا ہے۔ تعلیم کے شعبہ میں یہ ایسا تاریخی قدم ہے جو یقیناً سندھ کی زرخیز دھرتی ہی سے اُٹھایا جاسکتا تھا جس کی تاریخ ہے کہ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں ہر دور میں ایک سے بڑھ کر ایک باشعور اور دلیر ہستیوں کو جنم دیا ہے۔

پاکستان کی تاریخ، تقسیمِ ہند، قائد اعظم کی سیاسی جدوجہد اور دوقومی نظریہ کو فی الوقت جس مسخ شدہ حالت اور مخصوص و چنندہ پیرائے میں نظامِ تعلیم میں شامل کرکے پڑھایا جارہا ہے وہ نوجوان نسل میں صرف ایک محدود سوچ، مذہبی بنیادوں پر احساسِ برتری اور ایک مخصوص دشمن کے تصور کی نمو کا مقصد حاصل کرنے پر منتج ہو رہی ہے۔

اُمید ہے کہ بات محض اس تقریر اور سندھ کے تعلیمی نصاب تک محدود نہیں رہے گی! بانیِ پاکستان کی ذاتی اور سیاسی زندگی تو پاکستانی قوم کے لئے ایک کھلی کتاب کی طرح ہونی چاہیے جس کا ہر پہلو پاکستان بھر میں تمام جماعتوں کے نصاب میں درجہ بہ درجہ پڑھایا جانا ضروری ہے۔ سمجھنا پڑے گا کہ قائد اعظم بھی ایک انسان اور سیاستدان تھے جن کی 23 مارچ 1940 سے پہلے کی سیاسی زندگی کہیں زیادہ دلچسپ اور فکر انگیز ہے۔

قائداعظم نے شیروانی اور ٹوپی زندگی کے آخری چند سال زیب تن کی ہے جبکہ پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے پہلے اسپیکرجناب جگندر ناتھ منڈل تھے جنہیں قائد اعظم نے ہی اس عہدہ پر فائز کیا تھا۔ قارئین قائد اعظم کے موضوع پر خود سے تحقیق کریں تو بہت سی باتیں شیشے کی طرح صاف ہوتی چلی جائیں گی۔ قائد اعظم کی ذات کے بارے بھی اور سیاسی افکار بارے بھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں