دماغ آسٹریلیا دل نیوزی لینڈ کے ساتھ

جو کرکٹ کے کھیل کو پسند کرتے ہیں، ان کے لیے ابھی ایک امتحان باقی ہے۔


فہد کیہر March 28, 2015
ایک مرتبہ پھر دل اور دماغ کی رسہ کشی ہے اور اس مرتبہ دماغ آسٹریلیا کے ساتھ ہے اور دل نیوزی لینڈ کے حق میں۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان عالمی کپ میں اپنی تاریخ کے کمزور ترین دستے کے ساتھ شریک ہوا، دماغ کہہ رہا تھا کہ یہ ٹیم پہلے مرحلے کو ہی عبور کرجائے تو بڑی بات ہے لیکن دل کا کہنا تھا کہ 23 سال پرانی تاریخ دہرائی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ''1992ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا'' جیسی ''شاہکار'' مہم چلی جو بالآخر کوارٹر فائنل میں پاکستان کی شکست کے ساتھ تمام ہوگئی۔

اس کے بعد ایک، ایک کرکے تمام ایشیائی طاقتیں عالمی کپ سے باہر ہوتی چلی گئیں اور اب عالمی کپ میں صرف ایک مقابلہ باقی ہے، سب سے بڑا معرکہ، فائنل جو کل ملبورن میں کھیلا جارہا ہے جس میں کوئی اور نہیں میزبان آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کھیل رہے ہیں۔ جو صرف پاکستان کے لیے کرکٹ دیکھتے ہیں، ان کے لیے تو عالمی کپ ختم ہوئے کافی دن گزر گئے، لیکن جو کرکٹ کے کھیل کو پسند کرتے ہیں، ان کے لیے ابھی ایک امتحان باقی ہے۔ ایک مرتبہ پھر دل اور دماغ کی رسہ کشی ہے اور اس مرتبہ دماغ آسٹریلیا کے ساتھ ہے اور دل نیوزی لینڈ کے حق میں۔

آخر دماغ آسٹریلیا کا ساتھ کیوں دے رہا ہے؟ اس کی وجہ ہے اعدادوشمار۔ دونوں ٹیموں نے 1974ء سے لے کر 2015ء تک کل 126 ایک روزہ مقابلے کھیلے ہیں جس میں آسٹریلیا نے پورے 85 مقابلے جیتے ہیں اور نیوزی لینڈ کے نصیب میں صرف 35 فتوحات آئی ہیں۔ اندازہ لگا لیجیے کہ آسٹریلیا اپنے ''پڑوسی'' پر کتنا غالب ہے۔

ان 126 ایک روزہ مقابلوں میں سے آسٹریلیا نے 60 اپنے ملک میں کھیلے ہیں اور ان میں بھی 38 میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ نیوزی لینڈ ''بیچارہ'' صرف 18 جیتنے میں کامیاب ہوا ہے۔

یہاں تک کہ نیوزی لینڈ میں کھیلے گئے مقابلوں میں بھی آسٹریلیا کا غلبہ ہے۔ اپنے حریف کے میدانوں پر کھیلے گئے 47 مقابلوں میں آسٹریلیا نے 30 فتوحات حاصل کی ہیں اور نیوزی لینڈ کو صرف 16 مقابلے جیتنے دیے ہیں۔ جن میں اسی عالمی کپ کا گروپ مقابلہ بھی شامل ہے جہاں انتہائی اعصاب شکن معرکے کے بعد نیوزی لینڈ نے ایک وکٹ سے کامیابی حاصل کی تھی۔

اگر تیسرے مقامات پر کھیلے گئے مقابلوں کو دیکھا جائے تو یہاں تو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ 19 مقابلوں میں آسٹریلیا نے17 میں کامیابی حاصل کی ہے اور صرف اور صرف ایک شکست کھائی ہے۔

یعنی اعدادوشمار میں تو نیوزی لینڈ آسٹریلیا کا عشر عشیر بھی نہیں دکھائی دیتا۔ اگر عالمی کپ کی 40 سالہ تاریخ دیکھی جائے تو اس میں بھی آسٹریلیا آگے ہے۔ دنیائے کرکٹ کے اس سب سے بڑے ٹورنامنٹ میں دونوں ٹیمیں کل 9 مرتبہ آمنے سامنےآئی ہیں، 6 میں کامیابی نے آسٹریلیا کے قدم چومے جبکہ تین مرتبہ نیوزی لینڈ نے فتح حاصل کی۔

نیوزی لینڈ رواں عالمی کپ سے پہلے 1992ء میں آکلینڈ میں اور 1999ء کے عالمی کپ میں کارڈف کے مقام پر آسٹریلیا کو شکست دینے میں کامیاب ہوا تھا جبکہ 1987ء کے عالمی کپ میں دونوں بار شکست ہوئی۔ 1996ء کے عالمی کپ میں کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں باہر ہوا۔ سب سے بدترین شکست نیوزی لینڈ نے 2007ء کے عالمی کپ میں کھائی جب آسٹریلیا کے 348 رنز کے جواب میں وہ محض 133 رنز پر ڈھیر ہوگیا اور 215 رنز کی بدترین شکست کھائی۔

عالمی کپ 2015ء کا فائنل ملبورن کے تاریخی میدان میں کھیلا جارہا ہے کہ جہاں آج تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے 19 مقابلےکھیلے ہیں، جن میں سے 14 میں میزبان یعنی آسٹریلیا نے کامیابی حاصل کی جبکہ 4 میں نیوزی لینڈ فتح یاب ٹھیرا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کھیلے گئے آخری پانچ باہمی مقابلوں میں سے تین نیوزی لینڈ نے جیتے ہیں اور آسٹریلیا کو دو میں کامیابی ملی ہے۔ یعنی اس سے پہلے 14 مقابلوں میں نیوزی لینڈ نے صرف ایک میچ جیتا تھا لیکن اس کے بعد پانچ مقابلوں میں تین فتوحات حاصل کیں۔ آخری بار دونوں ٹیمیں یہاں فروری 2009ء میں مقابل آئی تھیں جب نیوزی لینڈ نے آسٹریلیا کو 6 وکٹوں سے شکست دی تھی اور اب 6 سال بعد نیوزی لینڈ اسی کارکردگی کو دہرانے کا خواہشمند ہوگا۔

اب آپ ہی بتائیں کہ آخر کیوں نا دماغ آسٹریلیا کے ساتھ ہو، لیکن دل آخر کیوں نیوزی لینڈ کے ساتھ ہے؟ کیونکہ بلیک کیپس کے جذبات عروج پر ہیں، ان کے کھلاڑیوں کے حوصلے آسمانوں کو چھو رہے ہیں، عالمی کپ میں لگن، محنت اور عالمی کپ میں کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ آسٹریلیا کے لیے لوہے کا چنا ثابت ہوں گے۔ آسٹریلیا تاریخ کے بل بوتے پر بلند عزائم کے ساتھ میدان میں اترے گا اور پانچواں عالمی کپ جیتنے کی کوشش کرے گا جبکہ پورے ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہنے والی واحد ٹیم نیوزی لینڈ ایک آخری مقابلہ جیت کر تاریخ میں پہلی بار عالمی چیمپئن بننے کی خواہشمند ہے۔ دیکھتے ہیں زور کتنا بازوئے ''قاتل'' میں ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں