یمن کا بحران اور پاکستان

یمن میں اقتدار کے حصول کے لیے جو جنگ ہو رہی ہے اس میں سیاسی نظریات سے زیادہ مسلکی معاملات آڑے آ رہے ہیں۔

سعودی عرب نے ہر آڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ اسی طرح ایران کے ساتھ بھی پاکستان کے گہرے مراسم وابستہ ہیں۔ فوٹو : اے ایف پی

وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے سعودی عرب اور یمن کی جنگ میں فوج بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، فوج بھجوانے کے حوالے سے کسی بھی فیصلہ پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ ادھر سرتاج عزیز اور خواجہ آصف کا دورہ سعودی عرب بھی موخر کر دیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ مشرق وسطیٰ کی جنگ میں پاکستان کے شامل ہونے کے خدشات مکمل بے بنیاد ہیں، جنگ میں سعودی عرب کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو مملکت سعودی عرب کا بھرپور دفاع کریں گے، سیاسی و عسکری قیادت آئندہ چند روز میں عرب لیگ کے اجلاس میں شرکت کرے گی۔ انھوں نے کہا وہ ایوان کو یقین دلاتے ہیں کہ حکومت کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گی جس سے پاکستان کے لیے خطرات موجود ہوں، عرب لیگ کا اجلاس ایک دو دنوں میں ہونے والا ہے، آئندہ چند روز میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال واضح ہو جائے گی۔

یمن کی صورت حال خاصے عرصے سے خراب چلی آ رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یمن کے حوالے سے مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلم ممالک کی پالیسی الگ الگ ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے شام اور عراق کے حوالے سے تقسیم موجود تھی۔ یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے، لازمی بات ہے کہ اس کے اثرات اردگرد کے ممالک پر بھی پڑیں گے اور یہ اثرات پڑوسی ممالک پر مرتب بھی ہو رہے ہیں۔ یمن میں اقتدار کے حصول کے لیے جو جنگ ہو رہی ہے اس میں سیاسی نظریات سے زیادہ مسلکی معاملات آڑے آ رہے ہیں۔

اس صورت حال نے مشرق وسطیٰ اور دیگر مسلم ممالک کو بھی متاثر کیا ہے۔ یمن سعودی عرب کا ہمسایہ ملک ہے۔ یہاں ہونے والی گڑبڑ کے اثرات سعودی عرب پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے مشرق وسیٰ میں جو سیاسی اتار چڑھاؤ آئے ہیں ان کا کسی نہ کسی حوالے سے سعودی عرب پر اثر پڑا ہے اور سعودی عرب بھی ان معاملات میں ڈائریکٹرلی یا ان ڈائریکٹرلی شامل رہا ہے۔ عراق میں بدنظمی اور خانہ جنگی کے اثرات بھی سعودی عرب پر پڑے۔ شام کی خانہ جنگی کے اثرات بھی سعودی عرب پر مرتب ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب میں اس کے باوجود امن و امان قائم ہے اور یہ ملک اپنی معیشت کو بھی مستحکم رکھے ہوئے ہے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ یمن کے حالات اس قدر بگڑے کہ سعودی عرب کو وہاں فضائی کارروائی کرنا پڑی۔ اگر اس خطے کے مسلم ممالک بہت پہلے یمن، عراق اور شام کے بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالا دینے میں کامیاب ہو جاتے تو آج معاملات شاید اس قدر گھمبیر نہ ہوتے۔


یمن کے معاملات میں ایران اور عراق کا سعودی عرب سے الگ مؤقف ہے جب کہ مشرق وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک سعودی عرب کے حامی ہیں۔ یمن کے جھگڑے میں امریکا اور دیگر عالمی قوتوں نے تو شریک ہونا ہی تھا لیکن اصل ناکامی یمن کے پڑوسی ممالک کی بھی ہے۔ اس سچائی کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایران اور سعودی عرب یمن اور شام کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے حامی گروپوں کو سپورٹ کیا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ یہ کہہ کر کہ امریکا، اسرائیل اور یورپی ممالک مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے سازشیں کر رہے ہیں، اپنی ناکامی کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ بڑے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔

سعودی عرب نے ہر آڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ اسی طرح ایران کے ساتھ بھی پاکستان کے گہرے مراسم وابستہ ہیں۔ ادھر یمن کے ساتھ پاکستان کے کبھی بھی بہت اچھے تعلقات نہیں رہے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان خاصی مشکل پوزیشن میں ہے۔ اگر سعودی عرب پاکستان سے مدد کی اپیل کرتا ہے تو اسے انکار کرنا بھی خاصا مشکل کام ہے۔

اگر پاکستان سعودی عرب کی مدد کے لیے جاتا ہے تو ایران ناراض ہو سکتا ہے۔ اس صورت حال کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان مشرق وسطیٰ کے جھگڑے میں نہ پڑے اور غیرجانبدار رہے لیکن اس پالیسی سے سعودی عرب اور اس کی حامی عرب حکومتوں کو مایوسی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ صورت حال مشکل بنی ہوئی ہے۔

زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ پاکستان یمن کے بحران کے حل کے حوالے سے سعودی عرب اور ایران کو ایک پیج پر لائے۔ جب تک یہ دونوں ممالک ایک پیج پر نہیں آتے، یمن میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو گا۔ پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف کا یہ کہنا درست ہے کہ ماضی میں ہم نے افغانستان کی جنگ میں جو شرکت کی تھی، ہم اس کے نتائج ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تضادات کو ہرگز ہوا نہیں دینا چاہتے بلکہ ہم تعمیری کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔

دریں اثناء ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور وزیر دفاع خواجہ آصف کا سعودی عرب کا دورہ موخر کر دیا گیا ہے۔ جمعہ کو ترجمان دفتر خارجہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ اب فی الحال وزیر دفاع اور مشیر خارجہ سعودی عرب نہیں جائیں گے ۔ اس سلسلے میں کسی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیاگیا۔ بہرحال یمن کے بحران کے حوالے سے پاکستان کو کوئی نہ کوئی واضح پالیسی اختیار کرنی پڑے گی۔
Load Next Story