اے فرشتو بشریت سیکھو

میرے ذہن میں قاسمی صاحب سے پہلی ملاقات کی فلم چلنے لگی۔

h.sethi@hotmail.com

میں اپنے استاد اور گائیڈ جناب احمد ندیم قاسمی کی کتب کو الماری میں ترتیب دے رہا تھا کہ ان کی منہ بولی بیٹی منصورہ احمد کی بیاض ''طلوع'' میرے ہاتھ میں آ گئی۔ اب یہ دونوں اس جہان فانی سے عالم بقا کو سدھار چکے ہیں۔

میرے ذہن میں قاسمی صاحب سے پہلی ملاقات کی فلم چلنے لگی۔ ملاقات سے پہلے قریباً ایک سال تک میں بذریعہ خط و کتابت جوابی لفافہ بھیج کر ان سے اپنے اشعار اور کہانیوں پر اصلاح لیتا رہا۔ وہ میرا کالج میں تھرڈ ایئر تھا۔ مرے کالج سیالکوٹ میں موسم گرما کی تعطیلات ہوئیں تو میں قاسمی صاحب سے ملاقات کے شوق میں لاہور پہنچ گیا لیکن قاسمی صاحب کی کتابیں دیکھتے ہوئے میرے ہاتھ سے ان کی منہ بولی بیٹی کی کتاب کا بھی ایک صفحہ کھل گیا ہے۔ کتاب کے اس کھلے صفحے پر قاسمی صاحب کے بارے میں اس کی ''نظم ہے جس کا عنوان ہے ''اپنے بابا کے لیے''

''یہ کیسا اسم اعظم ہے/ یہ کیسا خواب سا دنیا کا جادو ہے
مرے بابا کے ہونٹوں پر ''مری بیٹی'' ابھرتا ہے/ تو میرا سر فلک کو چھونے لگتا ہے/ سبھی کھوئی ہوئی گڑیاں، غبارے، مری جھولی میں آ گرتے ہیں، سارے/ کسی لوری سا یہ امرت مرے کانوں میں گھلتا ہے/ تو گزری عمر کے سب پل/ بہت سے فاصلوں پر چھوٹ جاتے ہیں/ بس ایک نازوں کی پالی لاڈلی بچی/ بنا بچپن کی اس دنیا میں/ بچپن اوڑھ لیتی ہے''

میں جس ایڈریس پر قاسمی صاحب کو خط لکھتا تھا، لاہور پہنچا تو اس کے مطابق نسبت روڈ کی عقبی گلی میں جا پہنچا اور مکان نمبر تلاش کر کے دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ یوں میری ملاقات اپنے استاد اور آئیڈیل سے ہو گئی۔

یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی جس نے تواتر کا طول کھینچا تو آخری ملاقات ان کے انتقال سے دو دن پہلے تک رہی۔ ملازمت میں آنے کے بعد میں کسی بھی شہر میں تعینات ہوتا میری حاضری میں وقفہ طویل نہ ہوتا۔ اگرچہ میں اپنے اسی مرے کالج کے دور میں اپنی نظموں اور غزلوں کی کتاب محترم قتیل شفائی کو دکھا کر ان کے مشورے پر شاعری سے تائب ہو چکا تھا لیکن شعر سے تعلق پڑھنے سننے تک قائم رکھا۔

کالج کے فرسٹ ایئر سے تھرڈ ایئر تک کے جناب احمد ندیم قاسمی، عبدالمجید سالک اور قتیل شفائی کے بے شمار جوابی خطوط اور تصحیح شدہ نظمیں اور غزلیں میری ایک متروک شدہ الماری میں محفوظ ہیں۔

گوجرانوالہ میں سن 1976ء میں ایک عظیم الشان مشاعرے کا انعقاد مطلوب تھا۔ تمام بندوبست ایک تنظیم کے ذمے تھا صرف لاہور کے شعراء کو مدعو کرنا ان کے لیے ٹرانسپورٹ و قیام کا انتظام مجھے کرنا تھا۔ میری درخواست پر ندیم اور قتیل صاحب نے دس پندرہ شعرا کو تیار کر لیا اور تمام شعراء بشمول ندیم و قتیل صاحب نے اس کو ایک یادگار مشاعرہ بنا دیا۔

اخراجات کے ضمن میں مَیں نے جس تاجر و کارخانہ دار کو فون کیا اور جو کچھ اس کے ذمے لگایا جواباً وعدہ نبھایا گیا اور تمام شعراء کا ان کی حیثیت سے بڑھ کر خیال رکھا گیا چونکہ سبھی ندیم و قتیل صاحب کی تحریک پر تشریف لائے تھے خوش اور مطمئن لوٹے، مجھے قاسمی صاحب اور قتیل صاحب کا تعاون آج تک نہیں بھولا۔ دراصل آج احمد ندیم قاسمی صاحب کی یاد آئی ہے تو بہت سی باتیں یاد آ رہی ہیں۔

ایک ایسا ہی کامیاب مشاعرہ 1979ء میں میری ساہیوال تعیناتی کے دنوں ہوا تھا جو قاسمی صاحب کے تعاون کا مرہون منت تھا۔ اتفاق سے ندیم و قتیل نے مشاعرے کے بعد میرے ہی غریب خانے یعنی اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس میں شب بسری کی تھی اور سونے سے پہلے جو باتیں ہوئیں مجھے سب ہیں یاد ذرا ذرا۔

میرا تبادلہ لاہور ہوا تو قاسمی صاحب انجمن ترقی اردو کے ڈائریکٹر تھے۔ ان کا دفتر ادیبوں اور شاعروں کے لیے بڑا گھر تھا جہاں ان کی فرصت کے اوقات میں یہ لوگ کچھ دیر کے لیے رک کر آگے جاتے تھے لیکن سبھی نے خود پر ان کا وقت ضایع نہ کرنے کی پابندی عائد کر رکھی تھی۔

یہیں پر میری ملاقات ڈپٹی ڈائریکٹر یونس جاوید سے ہوئی جو ڈرامہ نویس، ناولسٹ اور معروف افسانہ نگار ہیں۔ میری کالم نویسی کی ابتدا بھی لاہور تبادلے کے بعد 1992ء میں ہوئی اور قاسمی صاحب سے دس پندرہ دن کے بعد ان کے دفتر میں ملاقات ایک معمول کی صورت اختیار کر گئی۔


سن 1999ء میں ادارہ سنگ میل پبلشرز کے نیاز احمد صاحب نے میرے منتخب کالموں کی کمپوزنگ مکمل کروائی تو اپنی پہلی کتاب کا نام رکھنے کا مرحلہ بھی احمد ندیم قاسمی کے توسط سے طے پاپا۔ انھوں نے نہ صرف ''دیواروں پہ لکھتے رہنا'' کتاب کا نام تجویز کیا بلکہ سوا صفحے کا تعارف بھی لکھ کر میرے سپرد کیا۔ اس کا پہلا پیرا گراف درج ذیل ہے۔

''جس طرح زندگی بو قلموں ہے اسی طرح حمید احمد سیٹھی کے اخباری کالم متنوع ہیں۔ ہمارے معاشرے کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جو سیٹھی کے مطالعے اور مشاہدے سے بچ نکلا ہو۔ جب بھی وہ اخبار کے صفحات پر نمودار ہوتے ہیں زندگی کا ایک نیا رخ پیش کرتے ہیں اور صرف پیش ہی نہیں کرتے اس کے بطون میں اتر کر اس کا تجزیہ کرتے ہیں اور اپنے مشاہدات و تجربات کو ایسی سلیس اور رواں زبان میں بیان کر دیتے ہیں کہ اس تحریر سے صرف اعلیٰ تعلیمیافتہ لوگ مستفید نہیں ہوتے بلکہ اخبار کے عام قارئین بھی اس سے ذہنی اور روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے کہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر، جسے عمر بھر یقینا انگریزی تحریروں، انگریزی احکام اور انگریزی مراسلوں سے واسطہ رہا ہو ایسی صاف ستھری، آسان، با محاورہ اور فوری طور پر سمجھ میں آنے والی اردو لکھنے پر اتنی استادانہ حد تک کیسے قادر ہو سکتا ہے۔''

میرے ذہن میں اس وقت احمد ندیم قاسمی صاحب کے چند شعر مچل رہے ہیں۔ انھیں نذر قارئین کرتا ہوں۔
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
میں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں
مرے ہمراہ دریا جا رہا ہے
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
درگزر کرنے کی عادت سیکھو
اے فرشتوں بشریت سیکھو
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں تو شامل ہوں محبت کے گنہگاروں میں
انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی
سر پہ تاج رکھا ہے بیڑیاں ہیں پاؤں میں
Load Next Story