ہم اپنے مجرم خود ہیں

کراچی کے مجرم اب بتا رہے ہیں کہ انھوں نے کس طرح اتنے انسانوں کو زندہ جلا دیا۔

Abdulqhasan@hotmail.com

انسان جب انسان کو قتل کرتا ہے تو یہ انسانیت سے دشمنی کرتا ہے اور جب کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کرتا ہے تو پوری اسلامی تعلیمات میں قرآن پاک سے لے کر احادیث تک میں اس گناہ کو ہر ممکن لفظ میں برا کہا گیا ہے اور اس کی کوئی معافی نہیں ہے اللہ کے ہاں کوئی بھی گناہ معاف کیا جا سکتا ہے مگر کسی مسلمان کے قتل کا گناہ ناقابل معافی ہے اور کسی انسان اور مسلمان کو زندہ سلامت جلا دینا تو ہم گناہگار مسلمانوں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہے۔

گزشتہ دنوں لاہور میں دو نوجوانوں کو زندہ جلا دیا گیا اور اس سے پہلے کراچی میں ایک پورے کارخانے کو اس کے عملے اور مزدوروں سمیت آگ لگا دی گئی جس میں ایک کم دو سو ساٹھ افراد زندہ جل گئے۔ لاہور کی واردات کے دن جب اس پر بے پناہ دکھ اور حیرت کا اظہار کیا جا رہا تھا تو ایک شریک محفل نے کہا اگر حضرت عمرؓ ہوتے تو کیا کرتے اس پر ایک گیارہ سالہ بچے نے بے ساختہ کہا کہ اگر وہ ہوتے تو یہ واقعہ ہوتا ہی کیوں۔ لاہور اور کراچی کا سانحہ ہماری حکومت کے ذمہ ہے۔

کراچی کے مجرم اب بتا رہے ہیں کہ انھوں نے کس طرح اتنے انسانوں کو زندہ جلا دیا۔ پہلے تو کیمیکل کو آگ لگائی اور پھر فیکٹری کے باہر جانے کے دروازے بند کر دیئے۔ اگر کافی عرصہ بعد کچھ لوگ اس واردات کا اعتراف نہ کرتے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ اور اس وقت کے حکمرانوں پر یہ داغ کبھی مٹ نہ سکتا کیونکہ انھوں نے مجرموں کو تلاش ہی نہیں کیا اور کیوں نہیں کیا اس کی وجہ بھی سیاسی تھی۔

جن لوگوں نے ہندوؤں سے تنگ آ کر پاکستان بنایا تھا ان کی روحیں اور اگر وہ زندہ ہیں تو آج ان کے وجود زندہ جل رہے ہوں گے۔ پاکستان کے بانی نے قاہرہ میں تقریر کرتے ہوئے عربوں کو بتایا تھا کہ اگر برصغیر میں پاکستان نہ بنا وہاں مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ایک ملک قائم نہ ہوا تو ہندو مسلمانوں کا وجود ہی ختم کر دیں گے مگر ہماری بداعمالی کی انتہا ہے کہ جس کام سے ہمارا قائد مسلمان دنیا کو غیرمسلم ہندوؤں سے ڈرا رہا تھا وہ کام اب ہم خود کر رہے ہیں۔

اگر بھارتی متعصب وزیراعظم اپنی گجرات کی وزارت اعلیٰ کے زمانے کی طرح وزارت عظمیٰ میں بھی مسلمانوں کو اپنی نگرانی میں قتل کراتا ہے تو ہم پاکستانی مسلمان کس منہ سے گلہ کریں گے کہ یہ تو وہی گناہ ہے جو ہمارے ہاں خود کیا جاتا ہے اور پاکستانی اسے برداشت کر رہے ہیں جس طرح اسے برداشت کر لیا جاتا ہے اگر کہا جائے کہ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جا رہا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات نے کیا ہمیں اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ ہم ایک معمول کی انسانیت سے بھی گر گئے ہیں۔ اپنے بھائیوں کو قتل ہی نہیں کر رہے انھیں زندہ جلا رہے ہیں۔ قلم اور زبان سے یہ بات کہی تو جا سکتی ہے لیکن عملی زندگی میں اس کا تصور ممکن نہیں کہ ہم قتل ہی نہ کریں زندہ جلا دیں۔ ہمارے ہندو پڑوسی تو مردوں کو جلاتے ہیں ہم نے ایک قدم بلکہ لاتعداد قدم آگے بڑھ کر اپنے زندہ بھائیوں کو جلانا شروع کر دیا ہے۔

جاہل عرب اپنی بچیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے اور اس فعل کو فوری طور پر اسلام نے ختم کر دیا۔ آج ہم کون سا اسلام کہاں سے لائیں جو ہمیں اپنے زندوں کو جلانے سے باز رکھ سکے۔ اس بھیانک صورت حال کی سب سے بڑی ذمے داری ہمارے حکمران طبقے کی ہے جس نے 1947ء سے لے کر اب تک ایک قوم کے لیے ملک تو بنا لیا مگر اس قوم کی تربیت نہیں کی اور اسے کسی آزاد جمہوری جدید ملک میں زندہ رہنے کا سلیقہ نہیں سکھایا۔


حکمران طبقہ نے خود بھی اور اپنے زیردست عوام کو بھی لوٹ مار پر لگا دیا جس کی جتنی ہمت تھی اور جس کو جتنا موقع ملا اس نے اس ملک کو بے دردی بلکہ بے حیائی کے ساتھ لوٹا اور اب تو یہ سب علانیہ ہو رہا ہے اور میڈیا میں ہمارے وزرائے اعظم تک کی لوٹ کھسوٹ کے کارنامے چھپ رہے ہیں اور خوبصورت لڑکیاں جو ماڈل کہلاتی ہیں حکمران طبقے کی لوٹی ہوئی قومی دولت کو بیرون ملک ٹھکانے لگا رہی ہیں۔ ان لڑکیوں کی علانیہ سرپرستی کی جا رہی ہے اور سرپرستوں کے نام اخباروں میں چھپ رہے ہیں مگر کسی میں حیا کا ذرہ بھی باقی نہیں ہے کہ کسی بہانے اس سے انکار ہی کر دے۔

ہم سب پاکستانیوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا وہ طبقہ جو شروع دن سے ہم پر حکمرانی کر رہا ہے ہماری تمام بداعمالیوں کا ذمے دار بلکہ ان کا سرپرست ہے۔ اس نے اپنی سہولت کے لیے قوم کو بھی کرپٹ کر دیا ہے اور جس قوم کا دین ایمان سرمایہ ہو وہ اپنے بھائیوں کو بھی کرپشن کے لیے زندہ نہیں جلائے گا تو کیا کرے گی۔

ہم دیکھ رہے ہیں اور دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ جس کا جتنا بڑا سیاسی عہدہ ہے وہ اتنا بڑا کرپٹ ہے۔ سرکاری دفتروں میں آپ کو اس گئے گزرے زمانے میں بھی کوئی اہلکار خوف خدا سے رشوت نہ لینے والا دکھائی دے جاتا ہے۔ یہ شخص اپنے دفتر میں سب سے زیادہ پسندیدہ شخص ہوتا ہے۔

ایک تو وہ خود رشوت نہ لے کر دوسرے ساتھیوں کو دل ہی دل میں سہی شرمندہ کرتا رہتا ہے دوسرے وہ رشوت کے چلتے ہوئے سلسلے میں رکاوٹ بھی بن جاتا ہے یعنی کسی ناجائز کام میں اگر چار و ناچار اس کو کوئی ذمے داری دینی پڑ جاتی ہے تو وہ اس کام کی رفتار میں رکاوٹ بن جاتا ہے لیکن ایسے لوگ بھی زندہ رہتے ہیں اور اطمینان اور سکون کی دولت سے رؤسا میں شمار ہوتے ہیں جو بہت کم لو گوں کو نصیب ہوتی ہے۔ میں کہیں پڑھ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کس قدر انصاف کرتا ہے کہ ہر میت کا کفن خواہ وہ کوئی بھی ہو ایک جیسا ہوتا ہے۔

ہمیں اپنے حکمرانوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے اگرچہ ہم بے بس لوگوں کی نظر کڑی ہو یا نرم سب بے فائدہ ہے لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہو گا کہ ہم اپنے مجرموں کو ذہن میں زندہ رکھیں گے اور ان سے نفرت کا ثواب کماتے رہیں گے۔ دنیا میں جو حکمران بھی نیک اور دیانت دار گزرے ہیں وہ سب کرپٹ حکمرانوں کی طرح دو ہاتھ ہی رکھتے تھے اور ان کی شکل و صورت عام انسانوں جیسی ہی تھی۔ آج بھی کوئی حکمران ان کی طرح کرپشن کو رد کر سکتا ہے۔

ہم مسلمانوں کی تاریخ ایسے نیک حکمرانوں سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے قائد محمد علی جناح بلاشبہ ایک نیک اور دیانت و امانت کا نمونہ انسان تھے۔ ان کی زندگی کل کی بات ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی مبالغہ۔ 1948ء تک جو انسان ایک نمونہ بن کر ہمارے درمیان زندہ رہا ہمارے اندر اگر نیکی کی کوئی ہلکی سی رمق بھی باقی ہو تو ہم اس کو ہی اپنا آئیڈل بنا لیں۔ سیکڑوں برس دور جانے کی ضرورت نہیں۔

یوں ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ ہماری ہی نسل میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہمیں ہمارے قائد سے متعارف کرا سکتے ہیں۔ اگر ہمارے حکمرانوں میں ذرہ بھر بھی شرم ہوتی تو وہ اس ہستی کو شرمندہ نہ کرتے جس نے ان کو ملک بنا کر دیا تھا مگر ہم نے حد ہی کر دی۔ ہم اپنے مجرم خود ہیں اپنے ہموطنوں کو زندہ جلانے والے۔
Load Next Story