پولیس… گونگی بیوی اور ظالم شوہر

سری کرشن جی مہاراج کا ایک بڑا مشہور قول ہے کہ ’’کرم کر پھل کی چنتا نہ کر‘‘ یعنی تم عمل کرو پھل کی فکر نہ کر


Saad Ulllah Jaan Baraq March 29, 2015
[email protected]

اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کا اعتراف نہ کرنا از حد قدر ناشناسی ہو گی کہ خیبر پختون خوا پولیس کی سربراہی کا عہدہ جب سے جناب ناصر خان درانی صاحب نے سنبھالا ہے وہ اس ''کنویں'' سے بلکہ اندھے کنویں سے مسلسل ڈول نکالے جا رہے ہیں لیکن کنواں صاف ہونے کی منزل ابھی دور ہے کیوں کہ اگر ایک طرف صفائی ہو رہی ہے تو دوسری طرف سے نہایت گہری دراڑوں میں سے اردگرد بہنے والے گٹڑوں کا بدبودار اور گندا پانی بھی برابر رِس رہا ہے۔

ظاہر ہے کہ اس کا علاج صرف اور صرف یہ ہے کہ پہلے ان درازوں، دراڑوں اور سوراخوں کو بند کر دیا جائے لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اس کے لیے کنویں میں اترنا پڑے گا وہ بھی بہت گہرائی میں، لیکن بھرے ہوئے کنویں میں اتنی گہرائی تک اتر کر درازوں، دراڑوں اور سوراخوں کو بند کرنا جان لیوا بھی ہو سکتا ہے ۔

اس لیے بے چارے ناصر خان درانی صاحب چرخی پکڑے ہوئے ڈول پر ڈول نکالنے کا کام ہی کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں اور بڑی محنت اور خلوص کے ساتھ کر رہے ہیں اور ایک انسان کو اتنا ہی کرنا چاہیے کہ جتنی اس کی پہنچ اس کی رسائی اور ہاتھوں کی لمبائی ہوتی ہے اب اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کیا نہیں نکالتا یہ الگ بات ہے۔

سری کرشن جی مہاراج کا ایک بڑا مشہور قول ہے کہ ''کرم کر پھل کی چنتا نہ کر'' یعنی تم عمل کرو پھل کی فکر نہ کرو... ہمارے دین میں بھی بار بار اس پر زور دیا گیا ہے کہ تمہارا فرض صرف ''نیکی'' کرنا ہے اجر دینا خدا کا کام ہے اب اگر کوئی اس خدشے میں پڑ جائے کہ اس کام سے کیا فائدہ ہو گا یا ہو گا بھی کہ نہیں اور نتیجہ اچھا نہ دیکھ کر کام ہی نہ کرے تو دنیا میں کوئی کچھ بھی نہ کرے، کاشت کار کا کام ہے بونا اسے سرسبز کرنا فضل پیدا کرنا اور پھل لگانا اس کے بس میں نہیں ہے تو کیا لوگ اسے خدشے سے کہ کہیں سوکھا نہ پڑے۔

پانی نہ ملے یا فلاں فلاں آفت نہ آ جائے کچھ بونا یا کاشت کرنا ہی چھوڑ دے گا حالانکہ ایک حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ ''اگر تمہارے ہاتھ میں بیج ہے اور خبر آئے کہ قیامت آنے کو ہے تو بھی تم اس بیج کو بو ڈالو'' جو مومن بھی درخت لگائے گا انسان جانور چرند پرند اس سے فائدہ اٹھائیں گے اس کے حق میں صدقہ جاریہ ہو جائے گا اور یہ صرف زراعت یا کاشت کاری تک محدود بات نہیں ہے کوئی بھی نیک کام اگر انسانوں کے حق میں ہے۔

نتائج یا ذاتی فائدے سے بالاتر ہو کر کرنا چاہیے یہ آج ہم جن کھیتوں باغوں اور درختوں کا پھل کھا رہے ہیں کنوؤں کا پانی پی رہے ہیں راستوں پر سفر کر رہے ہیں یا کوئی بھی ایجاد یا دریافت یا اوزار یا آلہ استعمال کر رہے ہیں یہ ایسے ہی لوگوں کا دین ہے جو اگر نتیجے یا صرف اپنے ذاتی فائدے کے بارے میں سوچتے تو کچھ بھی نہ ہوتا حتیٰ کہ ایک سوئی بھی نہ ہوتی یہ تو کوئی ابتداء کرتا ہے دوسرا اس پر دوسری اینٹ رکھتا ہے یوں اینٹ کے اوپر اینٹ رکھنے سے عمارت بن جاتی ہے، مطلب یہ کہ کام کی ابتداء ضروری ہے یہ نہیں کہ

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

پولیس کا محکمہ بھی بے شک بہت بدنام ہو چکا ہے اور اس کا اتنا غلط استعمال کیا جا چکا ہے کہ عام آدمی کا یقین اس پر سے اٹھ چکا ہے لیکن اس سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پولیس کا محکمہ ایک معاشرے کے لیے کتنا ضروری ہوتا ہے آج اگر کوئی اپنے گھر میں آرام سے سو سکتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کہ کوئی اس کی حفاظت کر رہا ہے کوئی محافظ موجود ہے۔

کوئی پہرہ دار حفاظت کے لیے کھڑا ہے... ہاں یہ ممکن ہے اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ اس پہرہ دار اس محافظ اور اس رکھوالے کو دوسرے ایسے کاموں میں الجھایا گیا ہے کہ پہرے کا کام ٹھیک سے انجام نہیں پاتا، اگر آپ کسی چوکیدار یا رکھوالے کو اس کی اصل ڈیوٹی سے ہٹا کر یہاں وہاں دوڑائیں گے کبھی ایک کبھی دوسرے کام پر لگائیں گے اور تھکا ٹھکا کر اسے چور چور کریں گے تو یقیناً وہ پہرے پر سو جائے گا کیوں کہ آخر وہ کوئی مشین نہیں انسان ہوتا ہے، آج کل ادھر ادھر نظر ڈالیے کہ پولیس سے کیا کیا غیر نصابی کام لیے جا رہے ہیں۔

وزیروں، افسروں، ممبروں، کونسلروں کی حفاظت پر کتنی نفری ضایع کی جاتی ہے حالانکہ یہی ''قیمتی متاع'' جب انتخاب سے اور انتخاب کے بعد پھرتی ہے تو ایک سپاہی بھی اس کے گرد نہیں ہوتا لیکن آج تقریباً ہر وی آئی پی کی حفاظت پر چالیس چالیس پولیس والے ضایع کیے جاتے ہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے اور کہنے والے ہم خود ہیں کہ یہ لوگ ایسے اعمال کرتے ہی کیوں ہیں جو خطرے کا باعث ہوتے ہیں اتنے ہی ڈرتے ہیں تو آرام سے گھر بیٹھے رہیں۔

لیکن یہ تو اب ایک فیشن بن چکا ہے کہ جیسے ہی کوئی ہماری اور اس ملک کی بدقسمتی سے لیڈر بن جاتا ہے ''قوم'' کی ''متاع عظیم'' بن جاتا ہے چاہے وہ ملک و قوم کے لیے ''نقصان عظیم'' ہی کیوں نہ ہو اور یہ تو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ اس نقصان عظیم کے پاس حرام کی کمائی بھی بہت ہوتی ہے ورنہ حرام کی کمائی کے بغیر کوئی جائز آمدنی میں اپنے ہی ''خاندان'' کا سربراہ بھی بن کر دکھائے تو ہم اس وقت اس کے پیر چھو کر بیعت کر لیں گے، یہ قوم کی متاع عظیم یا جو کچھ بھی کہیے ''عظیم'' سیاسی کاروبار میں اگر کروڑوں انوسٹ کرتے ہیں سیکڑوں ملازم رکھ سکتے ہیں تو اپنی ''حفاظت'' کے لیے چند محافظ نہیں رکھ سکتے بلکہ ان کے پاس تو چمچوں کی ایک کیٹرنگ ہی نہیں پورا باورچی خانہ ہوتا ہے ان میں سے دو چار کانٹے اپنی حفاظت کے لیے بھی رکھ لے لیکن نہیں ابھی کل ہی کی ایک خبر ہے کہ ایک لیدڑ کو جو نہ وزیر ہے نہ کوئی سرکاری عہدہ رکھتا ہے چالیس سرکاری محافظوں کا بیڑا عطا کیا گیا ہے۔

ایسے میں پولیس اپنا اصل کام اصل ڈیوٹی اور اصل فریضہ ادا کرے بھی تو کیسے؟ جب کہ عوام کی ذہنیت... بہت زیادہ ''سیاسی بیداری'' کی برکت سے ایسی بنائی گئی ہے کہ اگر کسی کی مرغی ایک دن انڈا نہ دے تو شور مچ جاتا ہے کہ یہ پولیس کیا کر رہی ہے، ایک تھانہ ہوا کرتا تھا جسے پولیس والے چلاتے تھے لیکن اب تھانوں کو بھی تقریباً سیاسی چمچے ہی چلاتے ہیں اور یہ چمچے اتنے پاکیزہ ہوتے ہیں کہ دریا تو دریا گٹڑ کی ''لہریں گننے'' میں بھی طاق ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں