ہنرمند پاکستان کی جانب ایک قدم
کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ہنرمند افرادی قوت ایک کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ہنرمند افرادی قوت ایک کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ پوری دنیا میں نظر دوڑائی جائے تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ہنرمند افراد کی مرہون منت اور ترقی پذیر و پسماندہ ممالک کی حالت زار ہنرمند افراد سے محرومی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا نظام تعلیم ایسا ہے کہ جس میں صرف بابو صاحبان، دفتری کلرکوں کی بھیڑ ہی پیدا ہو رہی ہے۔
تحقیق، تخلیق اور اجتہاد سے محرومی ہمارے نظام تعلیم کی بدولت ہمیں دوسروں کا دست نگر کرتی جارہی ہے۔ پاکستان میں ترقی اور خوشحال مستقبل کے مواقع کم میسر آنے کی وجہ سے غیر ہنرمند افرادی قوت کی بنا پر بے روزگاری کا ایک سیلاب امڈا ہوا ہے، جن کی کامل توجہ سفارشی کلچر پر لگی ہوتی ہے، رشوت یا سفارش کے بل بوتے پر سرکاری نوکری کا حصول یا کوٹہ سسٹم کے تحت والدین سے اولاد کو سرکاری نوکری کی وراثت ہمارے معاشرے کا حصہ بن گیا ہے۔
پاکستان میں اقتدار کے کمزور نظام کی بنا بھی پارلیمانی حکومتوں کی جانب سے دیرپا منصوبے اور پالسیاں مرتب نہ کیے جانا یا پھر پالیسوں پر عمل نہ کیا جانا اور نظر انداز کردینا بھی دیگر مسائل کی وجہ بنا ہوا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ افرادی قوت کی تعداد بیس لاکھ تک پہنچ جائے گی، ہر سال محنت کشوں کی تعداد میں بارہ لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں ملازمتوں کے بھرپور مواقع ہیں لیکن توانائی اور امن وامان کی مخدوش صورتحال کے باعث ان کی ترقی کا عمل بھی متاثر ہورہا ہے۔
موجودہ حکومت نے ہنرمندی اور مہارت یافتہ افرادی قوت کے حوالے سے وسط مدتی ترقیاتی فریم ورک پالیسی کے تحت ساڑھے نو لاکھ افراد کی افرادی قوت تیار کرنے کا عندیہ دیا ہے تاکہ تربیت یافتہ افراد کو اندرون و بیرون ملک روزگار کے مواقع فراہم کیے جاسکیں۔ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنکل ایجوکیشن (نیوٹک) نے ہنرمندی کی ایک حکمت عملی برائے 2009-13 مرتب کی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان شعبوں پر قوی توجہ دی جائے جنھیں ماضی میں نظرانداز کیا گیا، جن میں قومی پالیسیوں، مہارت کے معیارات اور نصاب، انسٹرکٹر ٹریننگ، کارکردگی جائزہ کا نظام، قومی اور بین الاقوامی رابطے، لیبر مارکیٹ انفارمیشن سسٹم، فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے روڈ شو، مشترکہ کانفرنسوں، سمپوزیم، دوروں، ورکشاپوں اور نمائشوں کے اہتمام کی ضرورت ہے۔
ضروری یہ بھی ہے کہ اہلیت پر مبنی تربیت، نجی شعبہ کے وسیع تر کردار، مراکز مہارت، تربیتی اداروں کی انتظامی اصلاحات، تحقیق و ترقی، خواتین کے لیے ہنر، پیشہ کے انتخاب میں رہنمائی، فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کی فراہمی اور ہنرمند بنانے کے لیے انتظامات کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔
اس ضمن میں قومی ادارے پی آئی اے کے حوالے سے حکومت نے 5 اکتوبر 2014 کو پی آئی اے کمپلیکس لاہور ائیرپورٹ پر ٹریننگ سینٹر کے افتتاح پر اعلان کیا تھا کہ پی آئی اے ملک کے بارہ شہروںمیں ٹریننگ سینٹر کھولے گی اور اگلے چھ ماہ میں پشاور، کوئٹہ، نواب شاہ، سوات، مظفرآباد، سکھر، ملتان، فیصل آباد اور حیدرآباد میں نوجوانوں کی تربیت کے لیے ٹریننگ کے آغاز کا اعادہ کیا گیا۔ ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ مملکت پاکستان کے سب سے اہم ادارے قومی ائیر لائن کو 27 ارب روپے سالانہ خسارے کا سامنا ہے۔
دنیا میں گراؤنڈ ہنڈلنگ، ٹیکنیکل سپورٹ، فلائٹ کچن، مینٹینس رپئیرنگ، ٹریننگ سینٹرز کے کام آؤٹ ریسورس پر ہوتے ہیں لیکن یہ کام پی آئی اے کو کرنا پڑے، جس کی سرگرمیوں پر سالانہ ساڑھے پانچ ارب روپے خرچ کیے جاتے رہے۔ جب کہ قرضوں اور سود کی واپسی کی مد میں ماہوار تین ارب روپے سے زائد ادا کرنے پڑتے ہیں۔ چھبیس جہازوں پر 16 ہزار 6 سو ملازمین ہیں جب کہ 600 ملازمین ایک جہاز پر کام کرتے ہیں، جب کہ دنیا میں ایک جہاز پر 120 سے 170 ملازمین کام کیا کرتے ہیں۔ یہ قومی ادارے میں سیاسی دخل اندازیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایوی ایشن انڈسٹری دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے۔ بوئنگ کی مارکیٹ آؤٹ لک 2014 کے مطابق 10 سال میں 35 ہزار سے زائد ہوائی جہاز تجارتی ہوا بازی کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر میں ضرورت ہوگی۔ ہوا بازی کے پیشہ ور افراد کی بڑی تعداد کے تکینکی ماہرین کی زبردست مانگ میں اضافہ ہورہا ہے اور انجینئرز اور تکینکی ماہرین کی معقول تعداد منافع بخش پیکیجز حاصل کرکے نامور فضائی کمپنیوں میں شامل ہورہے ہیں۔
پیشہ ور افرادی ہنرمند قوت بنانے کے حوالے سے قومی ائیر لائن نے اپنے تمام تر خسارے اور سنگین مالیاتی مسائل کے باوجود پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے ہوائی جہاز کی بحالی پر تمام تربیتوں کا تربیتی ڈھانچہ شروع کیا ہے، جس کی خاص بات یہ ہے کہ اب سات سے آٹھ سال کے بجائے ہوائی جہاز بحالی انجینئر بننے کے لیے صرف چار سے پانچ سال لگیں گے، کورس کی مدت دوسال رکھی گئی ہے۔
پی آئی اے کے تربیتی مرکز کو 1998 میں پہلی مرتبہ جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) کے تعاون سے پاکستان کی حکومت کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کے لیے سول ائیر ٹرانسپورٹ کورس عمل کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ مثبت صورتحال یہ ہے کہ لاہور، اسلام آباد/ راولپنڈی، نواب شاہ اور سوات میں ٹریننگ دی جارہی ہے جب کہ کراچی کے تربیتی مرکز کی صلاحیت میں 650 طلبا کو 350 طالب علموں سے اضافہ کردیا گیا ہے۔ سیلف فنانس اسکیم کے تحت لاہور میں 84 طالب علم، جب کہ راولپنڈی میں 82 طالب علم تربیت حاصل کررہے ہیں۔
پاکستان کے جنت نظیر علاقے سوات میں میں بھی ایک ٹریننگ سینٹر کا افتتاح کیا ہے۔ 1.5 ملین اس آبادی کا تقریباً 42.04% فیصد 15 سے 40 سال کی عمر کے افراد ہیں، سوات کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے دوردراز علاقوں میں سفر کرنا پڑتا تھا جب کہ سوات میں ائیر کرافٹ انجینئر ٹریننگ کی فیس ساڑھے چار لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔
فیس کے حوالے سے یہاں اس امر پر حکومت کو غور کی ضرورت ہے کہ ملک کے ذہن اور محنتی ان نوجوانوں کو بھی اہمیت دی جائے جو مالی طور پر کمزور پائے جاتے ہیں لیکن ٹیلنٹ وافر مقدار میں موجود ہے، اہم فنی شعبے کا سوات میں قیام بہرحال عوام کے لیے خوش آئند اقدام ہے، اسی طرح نواب شاہ میں بھی تیسرے کیمپس کا افتتاح فنی افرادی قوت کے لیے اہم قدم ہے۔
پشاور، کوئٹہ، فیصل آباد، مظفرآباد اور ملتان میں اسی طرح کے ادارے قائم کرنے کا عمل ملک میں بڑھتی بے روزگاری کے خاتمے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ اس عمل سے جہاں قومی ادارے کو معقول آمدنی ملے گی تو دوسری جانب بیرون ملک ان نوجوانوں کی ملازمتوں سے قیمتی زر مبادلہ بھی پاکستان آئے گا۔
جہاں سیاسی وابستگیوں، اقربا پروری اور رشوت ستانی کا ماحول ہو وہاں اس قسم کے اقدامات کا ہونا حوصلہ افزا خبر ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک کے دیگر قومی اداروں کو بھی اس قسم کی پلاننگ کرنی چاہیے جس میں ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ایک پرمنافع تربیت میسر آسکے۔
جہاں ہر سال محنت کشوں کی تعداد میں جہاں بارہ لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہو وہاں ان کی مناسب تربیت کے لیے حکومت وسط مدتی اور طویل مدتی کے علاوہ مختصر دورانیے کے بھی منصوبے بنائے، نیز تعلیم یافتہ نوجوان بھی فنی مہارت حاصل کریں اور سفارشی و روایتی کلچر سے باہر نکلیں جو ہنرمند پاکستان کے لیے ایک اہم قدم ہوگا۔
تحقیق، تخلیق اور اجتہاد سے محرومی ہمارے نظام تعلیم کی بدولت ہمیں دوسروں کا دست نگر کرتی جارہی ہے۔ پاکستان میں ترقی اور خوشحال مستقبل کے مواقع کم میسر آنے کی وجہ سے غیر ہنرمند افرادی قوت کی بنا پر بے روزگاری کا ایک سیلاب امڈا ہوا ہے، جن کی کامل توجہ سفارشی کلچر پر لگی ہوتی ہے، رشوت یا سفارش کے بل بوتے پر سرکاری نوکری کا حصول یا کوٹہ سسٹم کے تحت والدین سے اولاد کو سرکاری نوکری کی وراثت ہمارے معاشرے کا حصہ بن گیا ہے۔
پاکستان میں اقتدار کے کمزور نظام کی بنا بھی پارلیمانی حکومتوں کی جانب سے دیرپا منصوبے اور پالسیاں مرتب نہ کیے جانا یا پھر پالیسوں پر عمل نہ کیا جانا اور نظر انداز کردینا بھی دیگر مسائل کی وجہ بنا ہوا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ افرادی قوت کی تعداد بیس لاکھ تک پہنچ جائے گی، ہر سال محنت کشوں کی تعداد میں بارہ لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ملک بن سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار میں ملازمتوں کے بھرپور مواقع ہیں لیکن توانائی اور امن وامان کی مخدوش صورتحال کے باعث ان کی ترقی کا عمل بھی متاثر ہورہا ہے۔
موجودہ حکومت نے ہنرمندی اور مہارت یافتہ افرادی قوت کے حوالے سے وسط مدتی ترقیاتی فریم ورک پالیسی کے تحت ساڑھے نو لاکھ افراد کی افرادی قوت تیار کرنے کا عندیہ دیا ہے تاکہ تربیت یافتہ افراد کو اندرون و بیرون ملک روزگار کے مواقع فراہم کیے جاسکیں۔ نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنکل ایجوکیشن (نیوٹک) نے ہنرمندی کی ایک حکمت عملی برائے 2009-13 مرتب کی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان شعبوں پر قوی توجہ دی جائے جنھیں ماضی میں نظرانداز کیا گیا، جن میں قومی پالیسیوں، مہارت کے معیارات اور نصاب، انسٹرکٹر ٹریننگ، کارکردگی جائزہ کا نظام، قومی اور بین الاقوامی رابطے، لیبر مارکیٹ انفارمیشن سسٹم، فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے روڈ شو، مشترکہ کانفرنسوں، سمپوزیم، دوروں، ورکشاپوں اور نمائشوں کے اہتمام کی ضرورت ہے۔
ضروری یہ بھی ہے کہ اہلیت پر مبنی تربیت، نجی شعبہ کے وسیع تر کردار، مراکز مہارت، تربیتی اداروں کی انتظامی اصلاحات، تحقیق و ترقی، خواتین کے لیے ہنر، پیشہ کے انتخاب میں رہنمائی، فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کی فراہمی اور ہنرمند بنانے کے لیے انتظامات کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔
اس ضمن میں قومی ادارے پی آئی اے کے حوالے سے حکومت نے 5 اکتوبر 2014 کو پی آئی اے کمپلیکس لاہور ائیرپورٹ پر ٹریننگ سینٹر کے افتتاح پر اعلان کیا تھا کہ پی آئی اے ملک کے بارہ شہروںمیں ٹریننگ سینٹر کھولے گی اور اگلے چھ ماہ میں پشاور، کوئٹہ، نواب شاہ، سوات، مظفرآباد، سکھر، ملتان، فیصل آباد اور حیدرآباد میں نوجوانوں کی تربیت کے لیے ٹریننگ کے آغاز کا اعادہ کیا گیا۔ ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ مملکت پاکستان کے سب سے اہم ادارے قومی ائیر لائن کو 27 ارب روپے سالانہ خسارے کا سامنا ہے۔
دنیا میں گراؤنڈ ہنڈلنگ، ٹیکنیکل سپورٹ، فلائٹ کچن، مینٹینس رپئیرنگ، ٹریننگ سینٹرز کے کام آؤٹ ریسورس پر ہوتے ہیں لیکن یہ کام پی آئی اے کو کرنا پڑے، جس کی سرگرمیوں پر سالانہ ساڑھے پانچ ارب روپے خرچ کیے جاتے رہے۔ جب کہ قرضوں اور سود کی واپسی کی مد میں ماہوار تین ارب روپے سے زائد ادا کرنے پڑتے ہیں۔ چھبیس جہازوں پر 16 ہزار 6 سو ملازمین ہیں جب کہ 600 ملازمین ایک جہاز پر کام کرتے ہیں، جب کہ دنیا میں ایک جہاز پر 120 سے 170 ملازمین کام کیا کرتے ہیں۔ یہ قومی ادارے میں سیاسی دخل اندازیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایوی ایشن انڈسٹری دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے۔ بوئنگ کی مارکیٹ آؤٹ لک 2014 کے مطابق 10 سال میں 35 ہزار سے زائد ہوائی جہاز تجارتی ہوا بازی کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر میں ضرورت ہوگی۔ ہوا بازی کے پیشہ ور افراد کی بڑی تعداد کے تکینکی ماہرین کی زبردست مانگ میں اضافہ ہورہا ہے اور انجینئرز اور تکینکی ماہرین کی معقول تعداد منافع بخش پیکیجز حاصل کرکے نامور فضائی کمپنیوں میں شامل ہورہے ہیں۔
پیشہ ور افرادی ہنرمند قوت بنانے کے حوالے سے قومی ائیر لائن نے اپنے تمام تر خسارے اور سنگین مالیاتی مسائل کے باوجود پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے ہوائی جہاز کی بحالی پر تمام تربیتوں کا تربیتی ڈھانچہ شروع کیا ہے، جس کی خاص بات یہ ہے کہ اب سات سے آٹھ سال کے بجائے ہوائی جہاز بحالی انجینئر بننے کے لیے صرف چار سے پانچ سال لگیں گے، کورس کی مدت دوسال رکھی گئی ہے۔
پی آئی اے کے تربیتی مرکز کو 1998 میں پہلی مرتبہ جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) کے تعاون سے پاکستان کی حکومت کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کے لیے سول ائیر ٹرانسپورٹ کورس عمل کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ مثبت صورتحال یہ ہے کہ لاہور، اسلام آباد/ راولپنڈی، نواب شاہ اور سوات میں ٹریننگ دی جارہی ہے جب کہ کراچی کے تربیتی مرکز کی صلاحیت میں 650 طلبا کو 350 طالب علموں سے اضافہ کردیا گیا ہے۔ سیلف فنانس اسکیم کے تحت لاہور میں 84 طالب علم، جب کہ راولپنڈی میں 82 طالب علم تربیت حاصل کررہے ہیں۔
پاکستان کے جنت نظیر علاقے سوات میں میں بھی ایک ٹریننگ سینٹر کا افتتاح کیا ہے۔ 1.5 ملین اس آبادی کا تقریباً 42.04% فیصد 15 سے 40 سال کی عمر کے افراد ہیں، سوات کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے دوردراز علاقوں میں سفر کرنا پڑتا تھا جب کہ سوات میں ائیر کرافٹ انجینئر ٹریننگ کی فیس ساڑھے چار لاکھ روپے رکھی گئی ہے۔
فیس کے حوالے سے یہاں اس امر پر حکومت کو غور کی ضرورت ہے کہ ملک کے ذہن اور محنتی ان نوجوانوں کو بھی اہمیت دی جائے جو مالی طور پر کمزور پائے جاتے ہیں لیکن ٹیلنٹ وافر مقدار میں موجود ہے، اہم فنی شعبے کا سوات میں قیام بہرحال عوام کے لیے خوش آئند اقدام ہے، اسی طرح نواب شاہ میں بھی تیسرے کیمپس کا افتتاح فنی افرادی قوت کے لیے اہم قدم ہے۔
پشاور، کوئٹہ، فیصل آباد، مظفرآباد اور ملتان میں اسی طرح کے ادارے قائم کرنے کا عمل ملک میں بڑھتی بے روزگاری کے خاتمے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ اس عمل سے جہاں قومی ادارے کو معقول آمدنی ملے گی تو دوسری جانب بیرون ملک ان نوجوانوں کی ملازمتوں سے قیمتی زر مبادلہ بھی پاکستان آئے گا۔
جہاں سیاسی وابستگیوں، اقربا پروری اور رشوت ستانی کا ماحول ہو وہاں اس قسم کے اقدامات کا ہونا حوصلہ افزا خبر ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک کے دیگر قومی اداروں کو بھی اس قسم کی پلاننگ کرنی چاہیے جس میں ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ایک پرمنافع تربیت میسر آسکے۔
جہاں ہر سال محنت کشوں کی تعداد میں جہاں بارہ لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہو وہاں ان کی مناسب تربیت کے لیے حکومت وسط مدتی اور طویل مدتی کے علاوہ مختصر دورانیے کے بھی منصوبے بنائے، نیز تعلیم یافتہ نوجوان بھی فنی مہارت حاصل کریں اور سفارشی و روایتی کلچر سے باہر نکلیں جو ہنرمند پاکستان کے لیے ایک اہم قدم ہوگا۔