تحفظ اور عدم تحفظ کا احساس
ہماری افواج پاکستان، رینجرز اور دوسری فورسز یقیناً قابل احترام اور قابل قدر ہے،
ہماری افواج پاکستان، رینجرز اور دوسری فورسز یقیناً قابل احترام اور قابل قدر ہے، پاکستان کا تحفظ، بقا اور سلامتی ان ھی کی شجاعت، دلیری، حب وطن، حب اسلام اور دیانت داری کی مرہون منت ہے، آج پاکستان اگر قائم و دائم ہے تو یہی مرد مومن و مرد آہن ہیں جو فولاد کی طرح دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔
1965 کی جنگ میں ہمارے فوجیوں کی للکار نے دشمن کو بھاگنے پر مجبور کیا تھا اور جب پاکستان کو مختلف قوتوں نے اپنے نرغے میں لے لیا تو ایسے میں اﷲ تعالیٰ کی مدد کی بدولت جنرل راحیل شریف پاکستان کی سلامتی اور قوت بن کر سامنے آئے اور ضرب عضب کی بدولت دہشت گردوں کا صفایا کردیا اور گھروں کو چھوڑنے والے واپس آنے لگے۔
سکون اور اطمینان کے ساتھ کہ اب کوئی ان کے گھروں، اسکولوں، اسپتالوں کو نشانہ نہیں بنائے گا انھیں بغیر کسی قصور کے ابدی نیند سلانے کی ہمت نہیں کرسکے گا، بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ آگے بڑھتی ہے اور کراچی میں ہونے والے آپریشن کا دائرہ وسیع تر ہوجاتا ہے اور ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب کراچی کے محلوں، علاقوں سے بیریئر ہٹانے کے احکامات جاری کردیے جاتے ہیں تاکہ ملزمان اور تخریب کاروں تک پہنچنے میں دیر نہ ہوسکے اور انھیں روپوش ہونے کا موقع نہ ملے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی ایک مسئلہ اور درپیش ہوا، وہ تھا کراچی کے مکینوں کا عدم تحفظ کا احساس، انھیں اس بات کا اچھی طرح ادراک تھا کہ بیریئر اور رکاوٹیں ڈاکوؤں اور چوروں کا راستہ روک دیتی ہیں، اس طرح پوری رات وہ اطمینان سے سوتے بھی ہیں اور دن میں گھر کے کام کاج بھی کرتے ہیں اگر دروازہ کھلا رہ جائے تو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہوتا ہے، گارڈ بھی محافظ کے طور پر اپنی بندوق کے ساتھ گلی کے چکر لگاتا رہتا ہے، اب سب یہ سوچ رہے ہیں کہ آنے والا وقت کہیں ان کے لیے اذیت ناک ثابت نہ ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ مال و دولت بھی جائے اور جانیں بھی محفوظ نہ رہیں۔
گزرے دنوں میں یہی ہوتا تھا، قاتل، ڈاکو گھروں میں داخل ہوتے خواتین کی عزت کو تار تار کرتے فرج سے نکال کر پھل اور دوسری اشیا پر ہاتھ صاف کرتے اور گھر کے مردوں کو لائن میں کھڑا کرکے شوٹ کردیتے۔ اس قسم کے حالات میں نہ اپنا وطن اور نہ اپنے لوگ لگتے یوں ہوتا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں یا دشمن کی سرزمین پر انھیں پھینک دیاگیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ رینجرز ہر علاقے میں اپنی چوکیاں پہلے قائم کرتی اور بیریئر بعد میں ہٹائے جاتے، تب اس قدر خوف و ہراس شاید نہ ہوتا۔
دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے لیاری اور سہراب گوٹھ جیسی جگہوں پر بڑی اہم عمارات تعمیر ہوسکتی ہیں۔ جیسے کورٹ، پولیس و رینجرز کا ہیڈ کوارٹر، مساجد، اسپتال اور وہاں کے مکینوں کو مختلف علاقوں میں جگہیں فراہم کردی جائیں، مکانات بھی تعمیر کرکے دیے جاسکتے ہیں، جگہ کی کمی نہیں ہے، بے شمار پلاٹوں اور جنگلوں و ویرانوں میں لینڈ مافیا کا قبضہ ہے اور غیر آباد علاقے بھی اپنے آباد ہونے کے منتظر ہیں۔
ان ھی حالات کے تناظر میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ رینجرز حکام ان علاقوں میں جہاں جرائم پروان نہیں چڑھتے ہیں، بیریئر دوبارہ لگانے کے احکام صادر کریں اور جہاں چھوٹے چھوٹے گلیوں میں بیریئرز کا جال بچھا ہوا ہے، وہاں صرف ایک بیریئر بیرونی راستے پر لگانا اہل محلے کا حق ہے، ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ اگر حکومت جان و مال کا تحفظ کرتی، پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنے فرائض ادا کرتا تو بیریئر کی ضرورت ہی نہیں تھی، ماہانہ تنخواہ سے گارڈ کے لیے پندرہ سو یا دو ڈھائی ہزار کی رقم نکالنا بھی اس مہنگائی کے بدترین دور میں آسان کام نہیں ہے۔
متوسط طبقے کے لوگ ہوں یا صاحب حیثیت دونوں ہی طرح کے لوگ بے جا ٹیکسوں اور پانی و بجلی کے بحران کی وجہ سے معاشی مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں، رہے غریب و مفلس وہ بے چارے تو دو وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر کر کھالیں تو بڑی بات ہے، بچوںکی تعلیم اور علاج معالجہ کرانا بھی ان کے بس کی بات نہیں لیکن وزیراعلیٰ سندھ خوش ہیں کہ سب ٹھیک ہے، وہ اکیلے ہی انجام دے رہے ہیں لیکن مشکلات پھر بھی ہیں، کراچی میں امن وامان کے لیے بے حد کوششیں کی جارہی ہیں لیکن اس کے باوجود بھتے کی پرچیاں تاجروں کو اب بھی وصول ہورہی ہیں اور دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں، پولیس مدد کرنے کو تیار نہیں، لہٰذا مجبوراً ایم اے جناح روڈ کے تاجروں نے پتھراؤ کرکے احتجاج کیا اور رینجرز کو صدا لگائی کہ وہ آکر ان کی مدد کریں۔
تو اب رینجرز تاجروں کو اس آفت سے نجات دلائے، ویسے ہمارا تو یہی مشورہ ہے کہ تاجر حضرات اپنی سمیں اور ای میل ایڈریس تبدیل کردیں اور اپنی مدد آپ کے تحت گارڈز بھی رکھیں۔ ویسے حالات اب بدل رہے ہیں، اگر جرائم پیشہ افراد کے لیے خواہ وہ پولیس اہلکار ہی کیوں نہ ہوں۔
سزائیں اور ان پر عمل درآمد ہونے لگے تو ملک سے لوٹ مار، قتل و غارت کا خاتمہ ممکن ہے، ہمیں اس وقت عہد شیر شاہ سوری یاد آگیا جس کا افغان خاندان سے تعلق تھا اس کے بچپن کا نام فرید تھا اور جو پنجاب میں 1486 میں پیدا ہوا تھا۔ شیر شاہ سوری نے اپنے دور سلطنت میں فتوحات بھی حاصل کیں اور ملکی نظام حکومت بھی ایسا رکھا جس سے رعایا مطمئن رہی، پولیس کا کام امن وامان قائم رکھنا تھا۔ ان افسران کا یہ فرض تھا کہ وہ چوروں اور ڈاکوؤں پر نظر رکھیں اور پتہ لگائیں اور پتہ نہ لگانے کی صورت میں ان کو سزائے موت دے دی جاتی تھی۔ اس طرح لٹیروں کا نام و نشان مٹ گیا مسافروں اور راہ گیروں کو لٹ جانے کا خوف نہ تھا وہ رات میں کسی بھی جگہ ڈیرہ ڈال سکتے تھے۔
چاہے وہ جگہ آباد ہو یا غیر آباد وہ اپنی قیمتی اشیا کو بلا خوف و خطر زمین پر رکھ دیتے اور خچروں کو چرنے کے لیے چھوڑدیتے اور میٹھی نیند سوجاتے، زمیندار اور افسران سزا کے خوف سے ان کی حفاظت کرتے تھے۔ شیر شاہ کی حکومت میں ایک لاغر بڑھیا بھی سونے کے زیورات ٹوکری میں رکھ کر بغیر کسی ڈر کے سفر کرتی تھی، مجال ہے کہ کوئی اس پر بری نگاہ ڈالے۔ شیر شاہ فوج کی اہمیت اور ضرورت سے اچھی طرح واقف تھا، اس نے فوجی طاقت کے بل پر ہی ہمایوں کو شکست فاش سے ہمکنار کیا تھا۔ شیر شاہ نے ملک کے کونے کونے سے افغانیوں کو فوج میں بھرتی ہونے کے لیے راہیں ہموار کی تھیں۔
آج افغانی معصوم اور خوبصورت بچے کچرے سے روٹی کے ٹکڑے چن چن کر کھاتے ہیں، ہوٹلوں اور چائے خانوں میں جھوٹے برتن دھوتے اور بیرے کے فرائض انجام دیتے ہیں، ان بچوں کو اور ان کے والد محترم کو فوج میں ملازمت دینا زیادہ بہتر ہے کہ وہ گلی کوچوں میں چھوٹے موٹے کام کریں وہ بہادر اور جری ہوتے ہیں، بڑے بچے کام کرسکتے ہیں اور چھوٹے بچوں کے لیے تعلیمی سرگرمیاں اور اسکولوں میں داخلہ دلوانا بھی صوبائی حکومتوں کا فرض ہوتا ہے۔
پورے ملک میں گداگری وطن کی پیشانی پر سیاہ دھبے کی مانند ہے ان فقرا اور خواجہ سراؤں کو کام کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ کیا ملک کے تمام کام جنرل راحیل شریف ہی انجام دیں گے؟ سوچیے اس نکتے پر۔