ٹیم ٹپاؤ…
کسی ٹونٹی میں سے قطرہ قطرہ پانی ٹپکنے لگے تو ہم کیا کرتے ہیں؟
SINGAPORE:
کسی ٹونٹی میں سے قطرہ قطرہ پانی ٹپکنے لگے تو ہم کیا کرتے ہیں؟ ذرا سا دبا کر اسے بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، نہ ہو تو اس پر ربڑ بینڈ چڑھا کر اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، ربڑ بینڈ نہ ہو توکپڑے کی پٹی بنا کر اسے باندھ لیتے ہیں مگر ٹونٹی کی چوڑی ڈھیلی ہو چکی ہوتی ہے اور کوئی تدبیر کام نہیں کرتی، سو ہم اس ٹونٹی کے نیچے ایک برتن رکھ دیتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ کسی وقت پلمبر کو بلا کر اس کی مرمت کروا لی جائے گی، مگر وہ وقت نہیں آتا۔
چلتے چلتے اچانک ذرا سا پاؤں مڑتا ہے اور جوتا ٹوٹ جاتا ہے، ہم دائیں بائیں دیکھتے ہیں، کوئی اور مدد گار نظر نہیں آتا تو چند قدم جیسے جیسے چل کر کسی ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں بیٹھ کر تسلی سے اس مسئلے کو حل کر سکیں، اپنا بیگ کھول کر اس میں سے جو کچھ مل جائے، سوئی، دھاگہ، ٹیپ، سیفٹی پن، اس کی مدد سے ہم جوتے کو اس وقت تک کے لیے قابل استعمال بنا لیتے ہیں جب تک کہ ہم دوسرا جوتا نہ بدل لیں، گھر پہنچ کر یا کہیں نہ کہیں سے خرید کر۔ اتارا ہوا جوتا کئی دن تک ہماری نظر کرم کا منتظر پڑا رہتا ہے، اسے مرمت کروانے کی ہمیں ضرورت نہیں پڑتی تو کبھی وقت نہیں نکل پاتا۔
کبھی بے فکری کے ساتھ، اپنے انداز سے اپنے گھروں میں پھیلاوا پھیلا کر بیٹھے ہوتے ہیں تو اچانک کسی کی کال آتی ہے کہ ہم چند منٹ میں پہنچ رہے ہیں، بسا اوقات توگھر کے باہر کی گھنٹی بجتی ہے، جھانکنے پرمعلو م ہوتا ہے کہ کوئی مہمان آئے ہیں، جھانکنے سے لے کر، دروازے تک پہنچنے کے وقفے کی یہ چند گھڑیاں قیامت کی چال کی ہوتی ہیں، ایمرجنسی کا اعلان ہوتا ہے، ہم آدھا پھیلاوا فوراً پلنگ کے نیچے کر دیتے ہیں اور باقی آدھے کو پلنگ کے اوپر ہی کسی چادر یا کمبل سے ڈھک دیتے ہیں اور اس کے بعد کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اس پلنگ کے نیچے جھانکے نہ اوپر سے پول کھلے۔
کبھی آپ کہیں جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں، سب سے آخر میں جوتے اور جرابیں پہنتے ہیں، ایک جراب پہن کر دوسری جراب پھٹی ہوئی نظر آتی ہے، بجائے اسے تبدیل کرنے یا اتار کر مرمت کرلینے کے، آپ اسے گھما کر پاؤں کی نچلی طرف کر لیتے ہیں، کون سا کہیں آپ کو جوتے اتارنا ہوں گے... واپس آ کر اسے مرمت کروا لیں گے، سوچتے ہیں آپ مگر اس پر عمل کبھی نہیں ہو پاتا۔
خواتین کے اپنے مسائل ہیں، تیاری کے آخری مراحل میں میک اپ کر کے، جب قمیص پہننے کی باری آتی ہے تو قمیص اتنی پھنسی ہوئی ہوتی ہے کہ گردن سے اترتی نہیں کیونکہ پچھلی بار اس قمیص کی باری پانچ سال پہلے آئی تھی اور پانچ سالوں میں تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ جاتا ہے، کوشش میں قمیص کی زپ اکثر ٹوٹ جاتی ہے، اس وقت نہ تو قمیص تبدیل ہو سکتی ہے نہ ذہن کہ کوئی دوسری قمیص پہن لی جائے کیونکہ سب کچھ اس سے میچنگ کا تیار ہوتا ہے۔
عین آخر میں دھوکہ دے جانے والی زپ کو اس وقت مرمت کرنا تو ممکن نہیں ہوتا سو ہم اس پر کچھ نہ کچھ ایسا پہن لیتے ہیں کہ بدن ڈھک جائے اور کسی کو'' اندر کی خبر '' نہ ہو۔ اسی طرح کوئی بٹن عین وقت پرٹوٹ جائے یا دریافت ہو کہ بٹن ٹوٹا ہوا ہے، جانے میں چند لمحے رہ گئے ہیں، بٹن کی جگہ فوراً سیفٹی پن لگا لی جاتی ہے، دل میں عہد کیا جاتا ہے کہ واپس آ کر بٹن بھی لگانا ہے اور زپ بھی مرمت کرنا ہے... نہ صرف یہ بلکہ کئی قمیصیں ایسی ہیں جو اسی ناپ کی ہیں انھیں پہن کر دیکھ کر مرمت کرنا ہو گا ، دل میں کیا گیا یہ عہد کبھی خود سے بھی وفا نہیں ہو پاتا۔
اپنے بچوں کو ہم اتنے کھلونے لے دیتے ہیں کہ کمروں میں انھیں سنبھالنے کو جگہ نہیں ہوتی، ان کے کھلونے، کتابیں اور کئی طرح کے کھیل ان کے کمروں میں ناقدری سے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، معمول میں تو ہم انھیں نظر انداز کرتے رہتے ہیں مگر جب '' ہنگامی حالات '' ہوتے ہیں، خصوصاً ایسے بچے آ رہے ہوں کہ جن سے تخریب کاری کا اندیشہ ہو اور بچوں کی چیزوں کے نقصان کا احتمال ہو، تو ہم انھیں بھی یہی کہتے ہیں کہ سب کچھ اکٹھا کر کے ڈبے میں ڈال کر بیڈ کے نیچے کر دیں تاکہ کسی آنے والے کو باہر کچھ نظر نہ آئے۔
چھوٹا سا یہ حفاظتی اقدام ، ہماری پہلی غلطی ہوتی ہے جو کہ ہم بچوں کی تربیت کے سلسلے میں کرتے ہیں ۔ اسی مزاج کے ساتھ ہمارے بچے اپنے بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی کی حدود میں قدم رکھتے ہیں، ان ھی عادات کے ساتھ وہ اپنے اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں میں وقت گزارتے ہیں، عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، ملازمتیں کرتے ہیں اور پھر ان کی شادیوں کا وقت آ جاتا ہے۔
ان کی بنیادی تربیت میں رکھی گئی پہلی غلط اینٹ، عمر بھر ان کی شخصیت کو سیدھا نہیں ہونے دیتی۔ ان پر کوئی بھی مشکل آئے تو وہ اس کا عارضی حل فوراً کر لیتے ہیں، درست یا غلط طریقے سے، انھیں اپنا ہر مسئلہ عارضی طور پر حل کرنا آتا ہے، پنسل نہ ہو تو ایک سے مانگ لی، اس نے واپس مانگی تو دوسرے سے مانگ کر اسے واپس کر دی، یہی معاملہ نوٹس کے ساتھ ہوتا ہے، پھر رقم کے ساتھ ، پھر سواری کے ساتھ، ادھر مسئلہ پیدا ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ اس کا حل بنا لیتے ہیں مگر عارضی۔
دفتر کے معاملات ہوں یا گھریلو زندگی کے، ان کا رویہ اور اہم معاملات کو نبھانے کا انداز ایک سا ہی ہوتا ہے۔ ایک مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اسے اس طرح حل کیا جاتا ہے کہ اگلے لمحے اس کے بطن سے ایک اور مسئلہ جنم لے لیتا ہے، اسے بھی کوئی نہ کوئی عارضی حل دے دیا جاتا ہے اورا گلے مسئلے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔
ہم ماں باپ، عمر بھر بچوں کے مسائل کو اسی طرح نمٹاتے چلے جاتے ہیں کہ ان سے کبھی نجات نہیں پاتے کسی بچے کا بیاہ کا مسئلہ ہے، کسی کا ملازمت کا، کسی کا اپنے بیوی سے تو کسی کا شوہر سے، کوئی اپنے باس سے تنگ ہے اور کوئی ماتحتوں سے اور ہر وقت کی چخ چخ رہتی ہے۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے مسائل عمر بھر ختم کیوں نہیں ہوتے ؟؟ کیونکہ ان مسائل کی ماں ... ہماری سوچ اور ہمارا منفی رویہ اور کردار ہے جب تک یہ تبدیل نہیں ہوتا، ہمارے ارد گرد کچھ تبدیل ہونے والا نہیں ہے۔
جیسے ہی کچھ بچے جب عملی زندگی میں پہنچتے ہیں تو اس ملک کے اہم اداروں کے سربراہ بنتے ہیں، اس ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں، ہماری زندگیوں کو آسان یا مشکل کرنے کے اہل ہوتے ہیں، آسانیاں پیدا کرنا آسان اور مشکلات کھڑی کرنا مشکل کام ہے مگر ہم بد قسمتی سے ایک مشکل پسند قوم ہیں۔
کرسی اقتدار پر بھی بیٹھ جائیں تو اپنے آپ کو درست نہیں کر سکتے، اپنے اندر سے ان مسائل کی ماں کو نہیں مار سکتے جو کہ ہر مسئلے کا عارضی حل کرنے کا کہتی ہے۔ مسائل اندرون ملک کے ہوں یا بیرون ملک کے، لسانی ہوں یا صوبائی، سیاسی ہوں یا مذہبی، گروہی ہوں یا انفرادی، ان کی جڑ نہیں کھوجی جاتی۔ زبان خلق کو بند کرنے کو کوئی نہ کوئی فوری حل سوچا جاتا ہے، مذ ہبی جماعتوں کو خوش کرنے کو کوئی حل کیا جاتا ہے تو وہ سیاسی جماعتوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔
اسے کسی نہ کسی طرح ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو اس میں صوبائی تعصب کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مسائل کا جو حل سوچا جاتا ہے وہ عوام کو بے بس کر دیتا ہے، عوام کا مسئلہ حل کرنے کا یوں تو کوئی سوچتا ہی نہیں مگر جو کوئی سوچ لے توسارے ادارے سڑکوں پر مارچ کرنے کو نکل پڑتے ہیں۔ حکومتی کارندے ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے مسائل کے عارضی حل سوچنے میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں اگرچہ ان کا کوئی حل آج تک ہوا نہیں ہے۔
ضرورت ہے خود کو درست کرنے کی، اپنی سمت کو صحیح کرنے کی۔ سیکڑوں اور ہزاروں مسائل بھی ہوں تو ان سے نمٹا جا سکتا ہے، سب سے پہلے خود کو درست کریں کیونکہ آپ سب سے بڑا مسئلہ ہیں،اپنی نیت کو درست کریں اور پھر ترجیحات سیٹ کریں ۔ کس حیثیت میں ہیں آپ، کیا حقوق ہیں اور کیا فرائض، توقعات کیا ہیں اور حقائق کیا، خود سے پوچھیں کہ کیا واقعی آپ مسائل کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں یا '' ٹیم ٹپاؤ'' (time)کے کلیے کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
آپ خود کو اور دوسروں کو سکون، اطمینان اور خوشی فراہم کرنا چاہتے ہیں یا لڑاؤ اور حکومت کرو کے مقولے پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں ؟ ایک عام آدمی سے لے کر، ملک کے سربراہان تک، سب کے لیے یہی کلیہ ہے، یہی کامیابی کی کنجی ہے اور یہی اصل حل۔
کسی ٹونٹی میں سے قطرہ قطرہ پانی ٹپکنے لگے تو ہم کیا کرتے ہیں؟ ذرا سا دبا کر اسے بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، نہ ہو تو اس پر ربڑ بینڈ چڑھا کر اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، ربڑ بینڈ نہ ہو توکپڑے کی پٹی بنا کر اسے باندھ لیتے ہیں مگر ٹونٹی کی چوڑی ڈھیلی ہو چکی ہوتی ہے اور کوئی تدبیر کام نہیں کرتی، سو ہم اس ٹونٹی کے نیچے ایک برتن رکھ دیتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ کسی وقت پلمبر کو بلا کر اس کی مرمت کروا لی جائے گی، مگر وہ وقت نہیں آتا۔
چلتے چلتے اچانک ذرا سا پاؤں مڑتا ہے اور جوتا ٹوٹ جاتا ہے، ہم دائیں بائیں دیکھتے ہیں، کوئی اور مدد گار نظر نہیں آتا تو چند قدم جیسے جیسے چل کر کسی ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں بیٹھ کر تسلی سے اس مسئلے کو حل کر سکیں، اپنا بیگ کھول کر اس میں سے جو کچھ مل جائے، سوئی، دھاگہ، ٹیپ، سیفٹی پن، اس کی مدد سے ہم جوتے کو اس وقت تک کے لیے قابل استعمال بنا لیتے ہیں جب تک کہ ہم دوسرا جوتا نہ بدل لیں، گھر پہنچ کر یا کہیں نہ کہیں سے خرید کر۔ اتارا ہوا جوتا کئی دن تک ہماری نظر کرم کا منتظر پڑا رہتا ہے، اسے مرمت کروانے کی ہمیں ضرورت نہیں پڑتی تو کبھی وقت نہیں نکل پاتا۔
کبھی بے فکری کے ساتھ، اپنے انداز سے اپنے گھروں میں پھیلاوا پھیلا کر بیٹھے ہوتے ہیں تو اچانک کسی کی کال آتی ہے کہ ہم چند منٹ میں پہنچ رہے ہیں، بسا اوقات توگھر کے باہر کی گھنٹی بجتی ہے، جھانکنے پرمعلو م ہوتا ہے کہ کوئی مہمان آئے ہیں، جھانکنے سے لے کر، دروازے تک پہنچنے کے وقفے کی یہ چند گھڑیاں قیامت کی چال کی ہوتی ہیں، ایمرجنسی کا اعلان ہوتا ہے، ہم آدھا پھیلاوا فوراً پلنگ کے نیچے کر دیتے ہیں اور باقی آدھے کو پلنگ کے اوپر ہی کسی چادر یا کمبل سے ڈھک دیتے ہیں اور اس کے بعد کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اس پلنگ کے نیچے جھانکے نہ اوپر سے پول کھلے۔
کبھی آپ کہیں جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں، سب سے آخر میں جوتے اور جرابیں پہنتے ہیں، ایک جراب پہن کر دوسری جراب پھٹی ہوئی نظر آتی ہے، بجائے اسے تبدیل کرنے یا اتار کر مرمت کرلینے کے، آپ اسے گھما کر پاؤں کی نچلی طرف کر لیتے ہیں، کون سا کہیں آپ کو جوتے اتارنا ہوں گے... واپس آ کر اسے مرمت کروا لیں گے، سوچتے ہیں آپ مگر اس پر عمل کبھی نہیں ہو پاتا۔
خواتین کے اپنے مسائل ہیں، تیاری کے آخری مراحل میں میک اپ کر کے، جب قمیص پہننے کی باری آتی ہے تو قمیص اتنی پھنسی ہوئی ہوتی ہے کہ گردن سے اترتی نہیں کیونکہ پچھلی بار اس قمیص کی باری پانچ سال پہلے آئی تھی اور پانچ سالوں میں تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ جاتا ہے، کوشش میں قمیص کی زپ اکثر ٹوٹ جاتی ہے، اس وقت نہ تو قمیص تبدیل ہو سکتی ہے نہ ذہن کہ کوئی دوسری قمیص پہن لی جائے کیونکہ سب کچھ اس سے میچنگ کا تیار ہوتا ہے۔
عین آخر میں دھوکہ دے جانے والی زپ کو اس وقت مرمت کرنا تو ممکن نہیں ہوتا سو ہم اس پر کچھ نہ کچھ ایسا پہن لیتے ہیں کہ بدن ڈھک جائے اور کسی کو'' اندر کی خبر '' نہ ہو۔ اسی طرح کوئی بٹن عین وقت پرٹوٹ جائے یا دریافت ہو کہ بٹن ٹوٹا ہوا ہے، جانے میں چند لمحے رہ گئے ہیں، بٹن کی جگہ فوراً سیفٹی پن لگا لی جاتی ہے، دل میں عہد کیا جاتا ہے کہ واپس آ کر بٹن بھی لگانا ہے اور زپ بھی مرمت کرنا ہے... نہ صرف یہ بلکہ کئی قمیصیں ایسی ہیں جو اسی ناپ کی ہیں انھیں پہن کر دیکھ کر مرمت کرنا ہو گا ، دل میں کیا گیا یہ عہد کبھی خود سے بھی وفا نہیں ہو پاتا۔
اپنے بچوں کو ہم اتنے کھلونے لے دیتے ہیں کہ کمروں میں انھیں سنبھالنے کو جگہ نہیں ہوتی، ان کے کھلونے، کتابیں اور کئی طرح کے کھیل ان کے کمروں میں ناقدری سے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں، معمول میں تو ہم انھیں نظر انداز کرتے رہتے ہیں مگر جب '' ہنگامی حالات '' ہوتے ہیں، خصوصاً ایسے بچے آ رہے ہوں کہ جن سے تخریب کاری کا اندیشہ ہو اور بچوں کی چیزوں کے نقصان کا احتمال ہو، تو ہم انھیں بھی یہی کہتے ہیں کہ سب کچھ اکٹھا کر کے ڈبے میں ڈال کر بیڈ کے نیچے کر دیں تاکہ کسی آنے والے کو باہر کچھ نظر نہ آئے۔
چھوٹا سا یہ حفاظتی اقدام ، ہماری پہلی غلطی ہوتی ہے جو کہ ہم بچوں کی تربیت کے سلسلے میں کرتے ہیں ۔ اسی مزاج کے ساتھ ہمارے بچے اپنے بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی کی حدود میں قدم رکھتے ہیں، ان ھی عادات کے ساتھ وہ اپنے اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں میں وقت گزارتے ہیں، عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، ملازمتیں کرتے ہیں اور پھر ان کی شادیوں کا وقت آ جاتا ہے۔
ان کی بنیادی تربیت میں رکھی گئی پہلی غلط اینٹ، عمر بھر ان کی شخصیت کو سیدھا نہیں ہونے دیتی۔ ان پر کوئی بھی مشکل آئے تو وہ اس کا عارضی حل فوراً کر لیتے ہیں، درست یا غلط طریقے سے، انھیں اپنا ہر مسئلہ عارضی طور پر حل کرنا آتا ہے، پنسل نہ ہو تو ایک سے مانگ لی، اس نے واپس مانگی تو دوسرے سے مانگ کر اسے واپس کر دی، یہی معاملہ نوٹس کے ساتھ ہوتا ہے، پھر رقم کے ساتھ ، پھر سواری کے ساتھ، ادھر مسئلہ پیدا ہوتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ اس کا حل بنا لیتے ہیں مگر عارضی۔
دفتر کے معاملات ہوں یا گھریلو زندگی کے، ان کا رویہ اور اہم معاملات کو نبھانے کا انداز ایک سا ہی ہوتا ہے۔ ایک مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اسے اس طرح حل کیا جاتا ہے کہ اگلے لمحے اس کے بطن سے ایک اور مسئلہ جنم لے لیتا ہے، اسے بھی کوئی نہ کوئی عارضی حل دے دیا جاتا ہے اورا گلے مسئلے کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔
ہم ماں باپ، عمر بھر بچوں کے مسائل کو اسی طرح نمٹاتے چلے جاتے ہیں کہ ان سے کبھی نجات نہیں پاتے کسی بچے کا بیاہ کا مسئلہ ہے، کسی کا ملازمت کا، کسی کا اپنے بیوی سے تو کسی کا شوہر سے، کوئی اپنے باس سے تنگ ہے اور کوئی ماتحتوں سے اور ہر وقت کی چخ چخ رہتی ہے۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے مسائل عمر بھر ختم کیوں نہیں ہوتے ؟؟ کیونکہ ان مسائل کی ماں ... ہماری سوچ اور ہمارا منفی رویہ اور کردار ہے جب تک یہ تبدیل نہیں ہوتا، ہمارے ارد گرد کچھ تبدیل ہونے والا نہیں ہے۔
جیسے ہی کچھ بچے جب عملی زندگی میں پہنچتے ہیں تو اس ملک کے اہم اداروں کے سربراہ بنتے ہیں، اس ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں، ہماری زندگیوں کو آسان یا مشکل کرنے کے اہل ہوتے ہیں، آسانیاں پیدا کرنا آسان اور مشکلات کھڑی کرنا مشکل کام ہے مگر ہم بد قسمتی سے ایک مشکل پسند قوم ہیں۔
کرسی اقتدار پر بھی بیٹھ جائیں تو اپنے آپ کو درست نہیں کر سکتے، اپنے اندر سے ان مسائل کی ماں کو نہیں مار سکتے جو کہ ہر مسئلے کا عارضی حل کرنے کا کہتی ہے۔ مسائل اندرون ملک کے ہوں یا بیرون ملک کے، لسانی ہوں یا صوبائی، سیاسی ہوں یا مذہبی، گروہی ہوں یا انفرادی، ان کی جڑ نہیں کھوجی جاتی۔ زبان خلق کو بند کرنے کو کوئی نہ کوئی فوری حل سوچا جاتا ہے، مذ ہبی جماعتوں کو خوش کرنے کو کوئی حل کیا جاتا ہے تو وہ سیاسی جماعتوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔
اسے کسی نہ کسی طرح ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو اس میں صوبائی تعصب کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مسائل کا جو حل سوچا جاتا ہے وہ عوام کو بے بس کر دیتا ہے، عوام کا مسئلہ حل کرنے کا یوں تو کوئی سوچتا ہی نہیں مگر جو کوئی سوچ لے توسارے ادارے سڑکوں پر مارچ کرنے کو نکل پڑتے ہیں۔ حکومتی کارندے ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے مسائل کے عارضی حل سوچنے میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں اگرچہ ان کا کوئی حل آج تک ہوا نہیں ہے۔
ضرورت ہے خود کو درست کرنے کی، اپنی سمت کو صحیح کرنے کی۔ سیکڑوں اور ہزاروں مسائل بھی ہوں تو ان سے نمٹا جا سکتا ہے، سب سے پہلے خود کو درست کریں کیونکہ آپ سب سے بڑا مسئلہ ہیں،اپنی نیت کو درست کریں اور پھر ترجیحات سیٹ کریں ۔ کس حیثیت میں ہیں آپ، کیا حقوق ہیں اور کیا فرائض، توقعات کیا ہیں اور حقائق کیا، خود سے پوچھیں کہ کیا واقعی آپ مسائل کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں یا '' ٹیم ٹپاؤ'' (time)کے کلیے کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
آپ خود کو اور دوسروں کو سکون، اطمینان اور خوشی فراہم کرنا چاہتے ہیں یا لڑاؤ اور حکومت کرو کے مقولے پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں ؟ ایک عام آدمی سے لے کر، ملک کے سربراہان تک، سب کے لیے یہی کلیہ ہے، یہی کامیابی کی کنجی ہے اور یہی اصل حل۔