فوج سعودیہ بھیجنے کا فیصلہ دانشمندانہ نہیں پاکستان سفارتی کرداراد کرےایکسپریس فورم
فوج اشارہ دے چکی اسے شامل نہ کیاجائے، جنرل(ر) نشاط، سعودیہ کومعاملہ بات چیت سے حل کرنا چاہیے تھا، ڈاکٹر فاروق حسنات
عسکری و سیاسی تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں فوج بھیجنے کا پاکستانی فیصلہ دانشمندانہ نہیں ہوگا، اس پرپارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے، اس وقت پاکستان سیاسی اور سفارتی کردار ادا کرسکتا ہے۔
مغرب اس مسئلے کو جان بوجھ کر فرقہ واریت کا نام دے رہا ہے،ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایکسپریس فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کیا جبکہ احسن کامرے نے معاونت کی۔ جنرل(ر) نشاط احمدنے کہا کہ ہماری فوج اس وقت اپنے ملک میں مصروف ہے اور اس نے کسی حد تک یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اسے اس جنگ میں شامل نہ کیا جائے۔
پاکستان کو فوجی کارروائی کے بجائے مسئلہ صلح صفائی سے حل کروانے کی کوشش کرنی چاہیے، ہماری فوج ضرب عضب و دیگر کارروائیوں میں مصروف ہے اور اسے وہاں سے نکالنا بہتر نہیں ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹرفاروق حسنات نے کہا کہ یہ مسئلہ فرقہ واریت کا نہیں لیکن مغرب جان بوجھ کر اسے فرقہ واریت کا نام دے رہا ہے، یمن میں 5فریق ہیں اور اب داعش بھی وہاں آچکی ہے جبکہ وہاں القاعدہ پرامریکا ڈرون حملے بھی کرتا ہے۔ 90 کی دہائی میں11 ہزار پاکستانی فوج سعودیہ گئی جن میں سے 6ہزارفوج یمنی بارڈر پر تعینات کی گئی ۔ ایک ہفتہ قبل ریاض میں میٹنگ بلائی گئی جس میں حوثی اورصالح کو بھی بلایا گیا لیکن پھرسعودیہ نے اچانک حملہ کردیا، سعودیہ کوبات چیت سے معاملہ حل کرنا چاہیے تھا۔
وہ اپنی سافٹ پاورکو استعمال کرے کیونکہ مکہ اور مدینہ وہاں ہے، اس کے علاوہ سعودیہ عرب نے اربوں ڈالرزکا اسلحہ امریکا سے خریدا ہے تو پھر اسے کس بات کا ڈر ہے۔ پاک فوج کووہاں نہیں بھیجنا چاہیے، پاکستان کو چاہیے کہ ترکی اور دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر معاملہ حل کرنے کی کوشش کرے۔ ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ اسلامی دنیا میں انتشاربڑھتا جارہا ہے اور پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں فرقہ واریت ایک مسئلہ ہے۔ اس سے وسائل ضائع ہورہے ہیں اور فائدہ امریکا کو ہورہا ہے۔
مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان شیعہ سنی فسادات سے ہوا ہے، ایسی کوئی لیڈر شپ نظر نہیں آرہی جو مسلم دنیا کواس کا احساس دلائے، پاکستان سیاسی اور سفارتی کردار ادا کرسکتا ہے جواس نے ماضی میں کیا، فوج بھیجنا دانشمندی نہیں ہوگی اوراس کے اثرات اندرونی صورتحال پر بھی ہوں گے۔ معاملے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اگر فرقہ واریت کی نئی لہر آئی تو بہت نقصان ہوگا۔ سعودی عرب پاکستان سے براہ راست مدد مانگے اور فوج بھیجنے کی اپیل کرے تو پاکستان کواس پر پارلیمنٹ میں بحث کرنی چاہیے اور سب کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
پروفیسر شبیراحمد خان نے کہا کہ اسے شیعہ سنی فسادات کا رنگ نہ دیا جائے ۔ یہ سیاسی مسئلہ ہے ، ایران میں بھی لوگوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا لیکن بعدازاں یہ اسلامی انقلاب بن گیا، اسی طرح یہاں بھی یمن کے مغرب اور شمال کے لوگوں کو احساس محرومی ہوا جس کے بعد انھوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا اور اس کے پیچھے اقتصادی محرکات بھی شامل ہیں۔ سیاسی استحکام کے لیے اسلامی ممالک میں بھی جمہوریت بہت ضروری ہے لیکن سعودیہ عرب میں بادشاہت کا نظام ہے اورانھیں اس سے خطرہ ہے۔ سعودیہ کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور وہ سارا اسلحہ موجود ہے جوامریکا کے پاس ہے اس لیے یہ واضح نہیں کہ وہ پاکستان سے کس قسم کی مدد چاہتا ہے، سعودیہ کے ساتھ 10ممالک کا الائنس ہے لہٰذا یمن کا مسئلہ بین الاقوامی بن جائے گا کیونکہ ایران، روس اور چین بھی اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔
مغرب اس مسئلے کو جان بوجھ کر فرقہ واریت کا نام دے رہا ہے،ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایکسپریس فورم میں گفتگو کرتے ہوئے کیا جبکہ احسن کامرے نے معاونت کی۔ جنرل(ر) نشاط احمدنے کہا کہ ہماری فوج اس وقت اپنے ملک میں مصروف ہے اور اس نے کسی حد تک یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اسے اس جنگ میں شامل نہ کیا جائے۔
پاکستان کو فوجی کارروائی کے بجائے مسئلہ صلح صفائی سے حل کروانے کی کوشش کرنی چاہیے، ہماری فوج ضرب عضب و دیگر کارروائیوں میں مصروف ہے اور اسے وہاں سے نکالنا بہتر نہیں ہوگا۔ پروفیسر ڈاکٹرفاروق حسنات نے کہا کہ یہ مسئلہ فرقہ واریت کا نہیں لیکن مغرب جان بوجھ کر اسے فرقہ واریت کا نام دے رہا ہے، یمن میں 5فریق ہیں اور اب داعش بھی وہاں آچکی ہے جبکہ وہاں القاعدہ پرامریکا ڈرون حملے بھی کرتا ہے۔ 90 کی دہائی میں11 ہزار پاکستانی فوج سعودیہ گئی جن میں سے 6ہزارفوج یمنی بارڈر پر تعینات کی گئی ۔ ایک ہفتہ قبل ریاض میں میٹنگ بلائی گئی جس میں حوثی اورصالح کو بھی بلایا گیا لیکن پھرسعودیہ نے اچانک حملہ کردیا، سعودیہ کوبات چیت سے معاملہ حل کرنا چاہیے تھا۔
وہ اپنی سافٹ پاورکو استعمال کرے کیونکہ مکہ اور مدینہ وہاں ہے، اس کے علاوہ سعودیہ عرب نے اربوں ڈالرزکا اسلحہ امریکا سے خریدا ہے تو پھر اسے کس بات کا ڈر ہے۔ پاک فوج کووہاں نہیں بھیجنا چاہیے، پاکستان کو چاہیے کہ ترکی اور دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر معاملہ حل کرنے کی کوشش کرے۔ ڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ اسلامی دنیا میں انتشاربڑھتا جارہا ہے اور پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں فرقہ واریت ایک مسئلہ ہے۔ اس سے وسائل ضائع ہورہے ہیں اور فائدہ امریکا کو ہورہا ہے۔
مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان شیعہ سنی فسادات سے ہوا ہے، ایسی کوئی لیڈر شپ نظر نہیں آرہی جو مسلم دنیا کواس کا احساس دلائے، پاکستان سیاسی اور سفارتی کردار ادا کرسکتا ہے جواس نے ماضی میں کیا، فوج بھیجنا دانشمندی نہیں ہوگی اوراس کے اثرات اندرونی صورتحال پر بھی ہوں گے۔ معاملے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ اگر فرقہ واریت کی نئی لہر آئی تو بہت نقصان ہوگا۔ سعودی عرب پاکستان سے براہ راست مدد مانگے اور فوج بھیجنے کی اپیل کرے تو پاکستان کواس پر پارلیمنٹ میں بحث کرنی چاہیے اور سب کو اعتماد میں لینا چاہیے۔
پروفیسر شبیراحمد خان نے کہا کہ اسے شیعہ سنی فسادات کا رنگ نہ دیا جائے ۔ یہ سیاسی مسئلہ ہے ، ایران میں بھی لوگوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا لیکن بعدازاں یہ اسلامی انقلاب بن گیا، اسی طرح یہاں بھی یمن کے مغرب اور شمال کے لوگوں کو احساس محرومی ہوا جس کے بعد انھوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا اور اس کے پیچھے اقتصادی محرکات بھی شامل ہیں۔ سیاسی استحکام کے لیے اسلامی ممالک میں بھی جمہوریت بہت ضروری ہے لیکن سعودیہ عرب میں بادشاہت کا نظام ہے اورانھیں اس سے خطرہ ہے۔ سعودیہ کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور وہ سارا اسلحہ موجود ہے جوامریکا کے پاس ہے اس لیے یہ واضح نہیں کہ وہ پاکستان سے کس قسم کی مدد چاہتا ہے، سعودیہ کے ساتھ 10ممالک کا الائنس ہے لہٰذا یمن کا مسئلہ بین الاقوامی بن جائے گا کیونکہ ایران، روس اور چین بھی اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔