’’عوامی آدمی ہوں‘‘
سابق صوبائی وزیر، شہریار خان مہر کے حالاتِ زیست
ترقی کے لیے تبدیلی شرط ہے، اور تبدیلی کی علامت ہیں نوجوان۔ ایسے نوجوان، جن کی آنکھوں میں ستاروں پر کمند ڈالنے کے سپنے ہوں، جن کی فکر، جن کا جذبہ کوئی رکاوٹ خاطر میں نہ لائے!
خوش قسمتی سے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح سیاست کے میدان میں بھی آج نئے چہرے نظر آرہے ہیں، جن کے حوصلے بُلند اور ارادے مضبوط ہیں۔ سابق صوبائی وزیر، شہریار خان مہر بھی اِس فہرست میں شامل ہیں، جو اپنی صلاحیتوں کے طفیل امیدوں کا مرکز بن گئے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ق کے پلیٹ فورم سے کام یابی حاصل کرنے کے بعد اُنھوں نے ماحولیات و متبادل توانائی کی وزارت سنبھالی، تاہم بلدیاتی نظام کے حوالے سے جنم لینے والے اختلافات کے بعد وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔
ضلع شکارپور کی تحصیل، لکھی غلام شاہ سے تعلق رکھنے والے مہر خاندان کا شمار ملک کے اُن سیاسی گھرانوں میں ہوتا ہے، جو قومی و صوبائی سطح پر کلیدی حیثیت کے حامل رہے۔ 6 فروری 1976 کو اِس خاندان کے ہونہار سپوت، الحاج غوث بخش خان مہر کو خدا نے ایک بیٹے سے نوازا، جس کا نام شہریار خان مہر تجویز کیا گیا۔ چھے بہن بھائیوں میں شہریار سب سے چھوٹے ہیں۔ بچپن میں کرکٹ اور والی بال اُن کے پسندیدہ کھیل تھے۔ کہتے ہیں،''آج بھی جب کبھی وقت ملتا ہے، ان سے لطف اندوز ہوتا ہوں!'' والد سے دوستانہ روابط رہے۔ پڑھائی کی جانب توجہ مبذول کروانے کی ذمے داری والدہ کے کاندھوں پر تھی۔ اسکول سے چھٹی کرنے یا ہوم ورک نہ کرنے پر مار بھی پڑا کرتی۔
اُنھوں نے پبلک اسکول، سکھر سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر داخلہ سینٹ پیٹرک برگ اسکول، کراچی میں کروایا دیا گیا، جہاں سے اُنھوں نے 1991 میں میٹرک کی سند حاصل کی۔ زمانۂ طالب علمی کی یادیں ذہن کے نہاں خانوں سے عیاں کرتے ہوئے کہتے ہیں، کبھی پڑھائی میں دل نہیں لگا، روز اول ہی سے کتابوں سے دُور رہے۔ ''میری توجہ کھیل کود پر مرکوز رہتی، تاہم تعلیم کو اتنی اہمیت ضرور دیتا کہ امتحان میں کام یابی حاصل کرکے اگلے مرحلے میں پہنچ سکوں۔'' اُنھوں نے ڈی ایچ اے کالج، کراچی سے 1993 میں انٹر کیا، جس کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی، کاکول میں داخلہ لے لیا، جہاں نہایت محنت و جاں فشانی سے دو سالہ تربیت مکمل کی۔
دوران تربیت، پہلی تن خواہ کے طور پر 800 روپے وصول کیے۔ تربیت کی تکمیل کے بعد کیپٹن کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ 2002 میں ریٹایرمنٹ لے لی۔ 2004 میں، والدین کی پسند سے، رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ اِس وقت ایک پانچ سالہ بیٹے، راد خان مہر اور ڈیڑھ سالہ بیٹی کے والد ہیں۔ کوشش کرتے ہیں کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں، مگر سیاسی مصروفیات آڑے آجاتی ہیں۔ ان کے بہ قول،''جب کبھی وقت میسر ہوتا ہے، اُن کے ساتھ کھیلتا ہوں۔''
سیاسی خاندان میں آنکھ کھولنے والے شہریار خان مہر نے ہوش سنبھالتے ہی والد کے نقوش پا کا تعاقب شروع کر دیا۔ علاقے میں منعقد ہونے والی سیاسی تقریبات میں آنے جانے لگے۔ اِن سرگرمیوں کے طفیل میدانِ سیاست میں قدم رکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی بساط پر چالیں چلنے، دوسروں کی چالیں سمجھنے کی قابلیت پیدا ہوئی۔ ''سیاست برائے خدمت'' کے نظریے کے تحت علاقہ مکینوں کی خدمت بھی جاری رکھی۔ 2008 میں مسلم لیگ ق کے پلیٹ فورم سے انتخابات میں حصہ لیا، اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔
2011 کے اواخر میں صوبائی وزیر برائے ماحولیات و متبادل توانائی کا منصب سنبھالا۔ اِس دوران ماحولیات کے میدان میں بہتری کی بھرپور کوششیں کیں، پورا سسٹم وضع کیا، لیکن حکومت سے الگ ہونے کے بعد اِس عمل میں تعطل آگیا۔ شہریار خان کے مطابق اُنھوں نے آٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے اپنے حلقے میں بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی کے منصوبے شروع کیے، سڑکیں تعمیر کیں، طبی مراکز قائم کیے۔ مستقبل میں بھی خدمت کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
بلوچستان کے مسئلے پر اُن کی گہری نظر ہے۔ اُن کے بہ قول،''بلوچستان کے حالات میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ وزیر اعظم ہر ماہ وہاں کھلی کچہری منعقد کریں۔ بلوچوں سے اُن کے مسائل معلوم کیے جائیں، اور اُنھیں موقعے پر حل کیا جائے۔'' ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں، بلوچستانی سیاسی راہ نمائوں کو حکومت کی جانب سے روز اول ہی سے اہمیت دی گئی، اور اِس وقت بھی رکن صوبائی اسمبلی، بلوچستان کو سالانہ 25 کروڑ روپے کا فنڈ ملتا ہے، جس کے مقابلے میں سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں ایم پی اے کی گرانٹ انتہائی کم ہے۔
سندھ میں بلدیاتی نظام کے نئے آرڈیننس کے متعلق شہریار خان مہر کہتے ہیں،''حکومت کی جانب سے نافذ کردہ بلدیاتی آرڈیننس کو ہم کسی صورت تسلیم نہیں کرتے۔ غیر جمہوری طریقے سے نافذ کردہ قانون پر سندھ کے عوام کے شدید تحفظات ہیں۔'' وہ اِسے دہرا نظام تصور کرتے ہیں۔ ''ناظمین کو چیف منسٹر کے اختیارات سونپ دیے گئے ہیں، جس سے مسائل جنم لیں گے۔'' اُنھیں موجودہ حالات میں بلدیاتی انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔ کہنا ہے،''پیپلز پارٹی کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ عام انتخابات سے قبل ایک ایسا خلا پیدا کیا جائے، جس سے انتخابات میں تاخیر ہو۔'' اُن کے نزدیک امن و امان کی بگڑتی صورت حال، بڑھتی لوڈشیڈنگ، اداروں کی تباہی سندھ کے بنیادی مسائل ہیں۔ وہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان جاری مذاکرات پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک موجودہ دور میں ہونے والی کرپشن، لوٹ کھسوٹ کا احتساب انتہائی ضروری ہے۔ کہتے ہیں،''اگر ایسا نہیں کیا گیا، تو حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔''
شہریار خان مہر کے مطابق وہ عوامی آدمی ہیں۔ اپنے حلقے کے عوام سے جُڑے ہوئے ہیں۔ جب بھی موقع ملتا ہے، دیہی علاقوں کے دورے پر نکل جاتے ہیں، جہاں لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں۔ بانی پاکستان، محمد علی جناح اور عبدالستار ایدھی سے متاثر شہریار سیاست میں والد کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ کھانے میں اُنھیں بریانی اور کڑاہی گوشت سے رغبت ہے۔ سرد موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ 2007 میں بیٹے کی پیدایش زندگی کا خوش گوار ترین لمحہ تھا۔ اپنے استاد، سر شاداب کو بہت اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ ''اُنھوں نے انتہائی محنت سے ہمیں پڑھایا۔ مجھے اردو، سندھی اور عربی پڑھنا سکھائی۔'' سیاسی گھرانے سے تعلق ہے، اخبارات کا مطالعہ معمولات کا حصہ ہے۔ باقاعدگی سے ہر صبح اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ عاطف اسلم کی گائیکی پسند ہے۔ دیگر گلوکاروں کی آواز سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
شاعری سے لگائو نہیں۔ سیاحت کے نقطۂ نگاہ سے اسپین کو بہترین پاتے ہیں۔ پاکستان کے سرسبز علاقوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ فلاحی تنظیموں کی بابت مثبت رائے رکھتے ہیں۔ کہنا ہے، این جی اوز مشکل لمحات میں عوام کے کام آتی ہیں۔ ''یہ بات حقیقت ہے کہ ہر کام حکومت نہیں کرسکتی۔ موجودہ حالات میں غیرسرکاری تنظیموں کی کارکردگی قابل ستایش ہے۔'' اُن کے مطابق تمام این جی اوز ایک سی نہیں ہوتیں، بعض میں خامیاں بھی ہیں، تاہم مجموعی طور پر فلاحی تنظیمیں عوام کے مسائل کے سدباب کے لیے اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ سیاسی ٹاک شوز کے بارے میں کہنا ہے، اینکر پرسن جان بوجھ کر مہمانوں کو آپس میں لڑاتے ہیں۔
''یہ رویہ دُرست نہیں۔ میری نظر میں میڈیا بے قابو ہو رہا ہے!'' روزمرہ کے معمولات کچھ یوں ہیں کہ صبح بیدار ہونے کے بعد ورزش اور تیراکی کرتے ہیں۔ لوگوں کے مسائل سُننا معمولات کا حصہ ہے۔ وزارت سنبھالنے کے بعد سہ پہر تین بجے تک دفتر میں رہا کرتے تھے، بعد کا وقت خاندان کے ساتھ گزرتا۔ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں، معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے، یہی خیال اُن کی زندگی کا ماخذ، اُن کی جدوجہد کا مقصد ہے۔
ایک شرارت، جو گلے پڑ گئی!!
کاکول اکیڈمی میں تربیت کے دوران وہ اپنی شرارتوں کی وجہ سے مشہور تھے۔ شرارتوں پر مبنی ایک قصّہ بھی سُناتے ہیں،''یہ کھاریاں کینٹ کا واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک سینئر سیکنڈ لیفٹنٹ اپنی گاڑی اسٹارٹ چھوڑ کر، فون کرنے ٹیلی فون بوتھ میں چلے گئے۔ گاڑی دیکھ کر مجھے اور میرے دوستوں کو شرارت سُوجھی۔ ہم چپکے سے اُن کی گاڑی میں جا بیٹھے، اُسے لے کر اُن کے گھر پہنچ گئے، اور اُن کی اہلیہ سے کہہ دیا، فی الحال ہماری اِس حرکت کے متعلق کسی کو کچھ نہیں بتائیں۔'' یہ شرارت اُن کے گلے پڑ گئی۔ بتاتے ہیں،''کچھ دیر بعد کھاریاں کینٹ میں ہل چل مچ گئی۔
کار چوری ہونے کی اطلاع وائرلیس کر دی گئی، اور بات اُس وقت کے کور کمانڈر، پرویز مشرف تک جا پہنچی۔ گھر پہنچنے پر سیکنڈ لیفٹنٹ نے کار موجود پائی، تو اپنی اہلیہ سے معلوم کیا۔ مجھ سمیت کئی نام سامنے آئے، تاہم اُنھوں نے درگزر کرتے ہوئے آیندہ اِس طرح کی حرکت نہ کرنے کی تنبیہہ کردی۔ یوں جان خلاصی ہوئی۔''
خوش قسمتی سے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح سیاست کے میدان میں بھی آج نئے چہرے نظر آرہے ہیں، جن کے حوصلے بُلند اور ارادے مضبوط ہیں۔ سابق صوبائی وزیر، شہریار خان مہر بھی اِس فہرست میں شامل ہیں، جو اپنی صلاحیتوں کے طفیل امیدوں کا مرکز بن گئے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ق کے پلیٹ فورم سے کام یابی حاصل کرنے کے بعد اُنھوں نے ماحولیات و متبادل توانائی کی وزارت سنبھالی، تاہم بلدیاتی نظام کے حوالے سے جنم لینے والے اختلافات کے بعد وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔
ضلع شکارپور کی تحصیل، لکھی غلام شاہ سے تعلق رکھنے والے مہر خاندان کا شمار ملک کے اُن سیاسی گھرانوں میں ہوتا ہے، جو قومی و صوبائی سطح پر کلیدی حیثیت کے حامل رہے۔ 6 فروری 1976 کو اِس خاندان کے ہونہار سپوت، الحاج غوث بخش خان مہر کو خدا نے ایک بیٹے سے نوازا، جس کا نام شہریار خان مہر تجویز کیا گیا۔ چھے بہن بھائیوں میں شہریار سب سے چھوٹے ہیں۔ بچپن میں کرکٹ اور والی بال اُن کے پسندیدہ کھیل تھے۔ کہتے ہیں،''آج بھی جب کبھی وقت ملتا ہے، ان سے لطف اندوز ہوتا ہوں!'' والد سے دوستانہ روابط رہے۔ پڑھائی کی جانب توجہ مبذول کروانے کی ذمے داری والدہ کے کاندھوں پر تھی۔ اسکول سے چھٹی کرنے یا ہوم ورک نہ کرنے پر مار بھی پڑا کرتی۔
اُنھوں نے پبلک اسکول، سکھر سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر داخلہ سینٹ پیٹرک برگ اسکول، کراچی میں کروایا دیا گیا، جہاں سے اُنھوں نے 1991 میں میٹرک کی سند حاصل کی۔ زمانۂ طالب علمی کی یادیں ذہن کے نہاں خانوں سے عیاں کرتے ہوئے کہتے ہیں، کبھی پڑھائی میں دل نہیں لگا، روز اول ہی سے کتابوں سے دُور رہے۔ ''میری توجہ کھیل کود پر مرکوز رہتی، تاہم تعلیم کو اتنی اہمیت ضرور دیتا کہ امتحان میں کام یابی حاصل کرکے اگلے مرحلے میں پہنچ سکوں۔'' اُنھوں نے ڈی ایچ اے کالج، کراچی سے 1993 میں انٹر کیا، جس کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی، کاکول میں داخلہ لے لیا، جہاں نہایت محنت و جاں فشانی سے دو سالہ تربیت مکمل کی۔
دوران تربیت، پہلی تن خواہ کے طور پر 800 روپے وصول کیے۔ تربیت کی تکمیل کے بعد کیپٹن کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ 2002 میں ریٹایرمنٹ لے لی۔ 2004 میں، والدین کی پسند سے، رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ اِس وقت ایک پانچ سالہ بیٹے، راد خان مہر اور ڈیڑھ سالہ بیٹی کے والد ہیں۔ کوشش کرتے ہیں کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں، مگر سیاسی مصروفیات آڑے آجاتی ہیں۔ ان کے بہ قول،''جب کبھی وقت میسر ہوتا ہے، اُن کے ساتھ کھیلتا ہوں۔''
سیاسی خاندان میں آنکھ کھولنے والے شہریار خان مہر نے ہوش سنبھالتے ہی والد کے نقوش پا کا تعاقب شروع کر دیا۔ علاقے میں منعقد ہونے والی سیاسی تقریبات میں آنے جانے لگے۔ اِن سرگرمیوں کے طفیل میدانِ سیاست میں قدم رکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی بساط پر چالیں چلنے، دوسروں کی چالیں سمجھنے کی قابلیت پیدا ہوئی۔ ''سیاست برائے خدمت'' کے نظریے کے تحت علاقہ مکینوں کی خدمت بھی جاری رکھی۔ 2008 میں مسلم لیگ ق کے پلیٹ فورم سے انتخابات میں حصہ لیا، اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔
2011 کے اواخر میں صوبائی وزیر برائے ماحولیات و متبادل توانائی کا منصب سنبھالا۔ اِس دوران ماحولیات کے میدان میں بہتری کی بھرپور کوششیں کیں، پورا سسٹم وضع کیا، لیکن حکومت سے الگ ہونے کے بعد اِس عمل میں تعطل آگیا۔ شہریار خان کے مطابق اُنھوں نے آٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے اپنے حلقے میں بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی کے منصوبے شروع کیے، سڑکیں تعمیر کیں، طبی مراکز قائم کیے۔ مستقبل میں بھی خدمت کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
بلوچستان کے مسئلے پر اُن کی گہری نظر ہے۔ اُن کے بہ قول،''بلوچستان کے حالات میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ وزیر اعظم ہر ماہ وہاں کھلی کچہری منعقد کریں۔ بلوچوں سے اُن کے مسائل معلوم کیے جائیں، اور اُنھیں موقعے پر حل کیا جائے۔'' ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں، بلوچستانی سیاسی راہ نمائوں کو حکومت کی جانب سے روز اول ہی سے اہمیت دی گئی، اور اِس وقت بھی رکن صوبائی اسمبلی، بلوچستان کو سالانہ 25 کروڑ روپے کا فنڈ ملتا ہے، جس کے مقابلے میں سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں ایم پی اے کی گرانٹ انتہائی کم ہے۔
سندھ میں بلدیاتی نظام کے نئے آرڈیننس کے متعلق شہریار خان مہر کہتے ہیں،''حکومت کی جانب سے نافذ کردہ بلدیاتی آرڈیننس کو ہم کسی صورت تسلیم نہیں کرتے۔ غیر جمہوری طریقے سے نافذ کردہ قانون پر سندھ کے عوام کے شدید تحفظات ہیں۔'' وہ اِسے دہرا نظام تصور کرتے ہیں۔ ''ناظمین کو چیف منسٹر کے اختیارات سونپ دیے گئے ہیں، جس سے مسائل جنم لیں گے۔'' اُنھیں موجودہ حالات میں بلدیاتی انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔ کہنا ہے،''پیپلز پارٹی کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ عام انتخابات سے قبل ایک ایسا خلا پیدا کیا جائے، جس سے انتخابات میں تاخیر ہو۔'' اُن کے نزدیک امن و امان کی بگڑتی صورت حال، بڑھتی لوڈشیڈنگ، اداروں کی تباہی سندھ کے بنیادی مسائل ہیں۔ وہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان جاری مذاکرات پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک موجودہ دور میں ہونے والی کرپشن، لوٹ کھسوٹ کا احتساب انتہائی ضروری ہے۔ کہتے ہیں،''اگر ایسا نہیں کیا گیا، تو حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔''
شہریار خان مہر کے مطابق وہ عوامی آدمی ہیں۔ اپنے حلقے کے عوام سے جُڑے ہوئے ہیں۔ جب بھی موقع ملتا ہے، دیہی علاقوں کے دورے پر نکل جاتے ہیں، جہاں لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں۔ بانی پاکستان، محمد علی جناح اور عبدالستار ایدھی سے متاثر شہریار سیاست میں والد کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ کھانے میں اُنھیں بریانی اور کڑاہی گوشت سے رغبت ہے۔ سرد موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ 2007 میں بیٹے کی پیدایش زندگی کا خوش گوار ترین لمحہ تھا۔ اپنے استاد، سر شاداب کو بہت اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ ''اُنھوں نے انتہائی محنت سے ہمیں پڑھایا۔ مجھے اردو، سندھی اور عربی پڑھنا سکھائی۔'' سیاسی گھرانے سے تعلق ہے، اخبارات کا مطالعہ معمولات کا حصہ ہے۔ باقاعدگی سے ہر صبح اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ عاطف اسلم کی گائیکی پسند ہے۔ دیگر گلوکاروں کی آواز سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔
شاعری سے لگائو نہیں۔ سیاحت کے نقطۂ نگاہ سے اسپین کو بہترین پاتے ہیں۔ پاکستان کے سرسبز علاقوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ فلاحی تنظیموں کی بابت مثبت رائے رکھتے ہیں۔ کہنا ہے، این جی اوز مشکل لمحات میں عوام کے کام آتی ہیں۔ ''یہ بات حقیقت ہے کہ ہر کام حکومت نہیں کرسکتی۔ موجودہ حالات میں غیرسرکاری تنظیموں کی کارکردگی قابل ستایش ہے۔'' اُن کے مطابق تمام این جی اوز ایک سی نہیں ہوتیں، بعض میں خامیاں بھی ہیں، تاہم مجموعی طور پر فلاحی تنظیمیں عوام کے مسائل کے سدباب کے لیے اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ سیاسی ٹاک شوز کے بارے میں کہنا ہے، اینکر پرسن جان بوجھ کر مہمانوں کو آپس میں لڑاتے ہیں۔
''یہ رویہ دُرست نہیں۔ میری نظر میں میڈیا بے قابو ہو رہا ہے!'' روزمرہ کے معمولات کچھ یوں ہیں کہ صبح بیدار ہونے کے بعد ورزش اور تیراکی کرتے ہیں۔ لوگوں کے مسائل سُننا معمولات کا حصہ ہے۔ وزارت سنبھالنے کے بعد سہ پہر تین بجے تک دفتر میں رہا کرتے تھے، بعد کا وقت خاندان کے ساتھ گزرتا۔ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں، معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے، یہی خیال اُن کی زندگی کا ماخذ، اُن کی جدوجہد کا مقصد ہے۔
ایک شرارت، جو گلے پڑ گئی!!
کاکول اکیڈمی میں تربیت کے دوران وہ اپنی شرارتوں کی وجہ سے مشہور تھے۔ شرارتوں پر مبنی ایک قصّہ بھی سُناتے ہیں،''یہ کھاریاں کینٹ کا واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک سینئر سیکنڈ لیفٹنٹ اپنی گاڑی اسٹارٹ چھوڑ کر، فون کرنے ٹیلی فون بوتھ میں چلے گئے۔ گاڑی دیکھ کر مجھے اور میرے دوستوں کو شرارت سُوجھی۔ ہم چپکے سے اُن کی گاڑی میں جا بیٹھے، اُسے لے کر اُن کے گھر پہنچ گئے، اور اُن کی اہلیہ سے کہہ دیا، فی الحال ہماری اِس حرکت کے متعلق کسی کو کچھ نہیں بتائیں۔'' یہ شرارت اُن کے گلے پڑ گئی۔ بتاتے ہیں،''کچھ دیر بعد کھاریاں کینٹ میں ہل چل مچ گئی۔
کار چوری ہونے کی اطلاع وائرلیس کر دی گئی، اور بات اُس وقت کے کور کمانڈر، پرویز مشرف تک جا پہنچی۔ گھر پہنچنے پر سیکنڈ لیفٹنٹ نے کار موجود پائی، تو اپنی اہلیہ سے معلوم کیا۔ مجھ سمیت کئی نام سامنے آئے، تاہم اُنھوں نے درگزر کرتے ہوئے آیندہ اِس طرح کی حرکت نہ کرنے کی تنبیہہ کردی۔ یوں جان خلاصی ہوئی۔''