پھر وہی کہانی
پاکستانی منصوبہ سازوں کےمتضاد رویوں کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کی جڑیں پیوست ہیں۔
گزشتہ جمعرات کو حکومت پاکستان کی یمن کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کی حمایت نے ملک پر چھائے مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے بادلوں کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کی مجموعی صورتحال پر اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں اسی نوعیت کے اقدامات نے ملک کے سیاسی و سماجی Fabric کو کس حد تک متاثر کیا تھا؟
پاکستان نے عرب حکمرانوں کے لیے ہمیشہ تن، من، دھن کی بازی لگائی ہے، چاہے اس کے نتیجے میں خود ملک کو کس قدر نقصانات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑا ہو۔
پاکستانی منصوبہ سازوں کے متضاد رویوں کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کی جڑیں پیوست ہیں۔ 1956ء میں جب مصر کے مرد آہن جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو قومیایا، تو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مل کر مصر پر حملہ کر دیا۔ امریکا نے اس لڑائی کو اقوام متحدہ کے ذریعے رکوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کی اس وقت کی حکومت کے اس بحران پر رویہ اور بیانات خاصے مضحکہ خیز تھے۔ پہلے پاکستان نے مصر کی حمایت کا اعلان کیا۔
پھر بیروت ائیرپورٹ پر پاکستانی وزیر خارجہ نے اس قضیہ کو متنازعہ قرار دیا۔ جب کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں برطانیہ کی حمایت کر دی۔ چنانچہ جب اقوام متحدہ کے دستے متعین کرنے کے لیے مختلف ممالک کی افواج بھیجنے کا معاملہ درپیش ہوا، تو جمال ناصر نے پاکستان کا نام سرخ پینسل سے کاٹ دیا، کیونکہ ان کی نظر میں پاکستان کی غیر جانبداری مشکوک تھی۔ شکوک و شبہات کی یہ فضا ان کے انتقال تک جاری رہی۔ انوار السادات کے دور میں جا کر تعلقات بہتر ہو سکے۔
اب دوسری طرف آئیے۔ افغانستان میں بحران کا آغاز اس وقت ہوا، جب 17 جولائی 1973ء میں سردار داؤد نے اپنے کزن ظاہر شاہ کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کیا۔ اس وقت کے پاکستانی حکمران ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جلسے میں سردار داؤد کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے۔ اس کے بعد انھوں نے بعض مذہبی شخصیات جن میں پروفیسر ربانی، گلبدین حکمت یار وغیرہ شامل تھے، کو اسلام آباد مدعو کیا۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے مذہبی حلقوں کو پاکستان نے اسی زمانے سے امداد دینا شروع کر دی تھی۔
28 اپریل 1978ء کو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ثور انقلاب کے نتیجے میں جب سردار داؤد قتل ہو گئے، تو پاکستانی منصوبہ سازوں نے مذہبی شدت پسند عناصر کو نئی ترقی پسند حکومت کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ دسمبر 1979ء میں جب ببرک کارمل نے روسی فوجوں کو اپنی حکومت کے تحفظ کی خاطر مدعو کیا، تو قبائلی سرداروں اور مذہبی عناصر نے ببرک کارمل کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ یہاں پھر پاکستان کا کردار غیر مناسب تھا، جس کے نتیجے میں پورا خطہ مذہبی شدت پسندی کے نئے مظہر کے زیر اثر آ گیا۔
اسی اثنا میں ایران میں انقلاب آ گیا اور مذہبی طبقہ اقتدار میں آ گیا۔ امریکا کے علاوہ سعودی عرب بھی ایران کے نئے حکمرانوں کے خلاف صف آرا ہو گیا۔ کیونکہ اسے خطرہ پیدا ہو گیا کہ جس طرح ایران میں بادشاہت ختم ہوئی، اس کے یہاں بھی ایسا ہی انقلاب آ سکتا ہے۔ عالمی اور علاقائی سطح پر تبدیل ہوتے اس منظرنامے میں پاکستانی منصوبہ ساز اگر خاموشی نہیں تو کم از کم فعال کردار سے گریز ضرور کر سکتے تھے۔ مگر پاکستان نے امریکا اور سوویت یونین کے درمیان ہونے والی پراکسی جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا، جس نے عالمی سطح پر پاکستان کے کردار کو خاصی حد تک متنازع بنا دیا۔
دوسری غلطی یہ کی گئی کہ دنیا بھر سے جنگجو پاکستان کے راستے افغانستان بھیجنے کا اہتمام کیا گیا۔ پھر ایک مخصوص مسلک کے مدارس میں ان کی عسکری تربیت کا بندوبست اور قبائلی علاقے میں انھیں رہائش فراہم کی گئی۔ فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان میں مختلف عقائد و مسالک کے درمیان جو بقائے باہمی کا غیر تحریری توازن قائم تھا، وہ ختم ہوگیا اور ایک مخصوص مسلک سیاسی طور پر مضبوط ہوتا چلا گیا۔
اس کے ردعمل میں دیگر عقائد کے ماننے والوں نے بھی اپنے عقائد و نظریات کو سیاسیانے (Politicise) پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی۔ یوں پاکستان میں نئے فرقہ وارانہ تضادات شروع ہوئے، جو وقت گزرنے کے ساتھ متشدد ہوتے چلے گئے۔ جس کا خمیازہ آج تک پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں۔ اب یمن کے اندرونی معاملات میں سعودی حکومت کا ساتھ دے کر ایک نئے بحران کو اپنے ملک میں دعوت دی جا رہی ہے، جس کے نتائج تصور سے زیادہ بھیانک نظر آ رہے ہیں۔
اب تھوڑی کی گفتگو یمن کی موجودہ صورتحال کے بارے میں۔ یمن کی تقریباً 40 فیصد آبادی زیدیہ شیعہ عقیدے کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔ یہ ابتدائی دور کا فرقہ ہے، جس کے ماننے والوں نے بنو امیہ کی حکمرانی کے خلاف کھل کر جدل کیا تھا۔ ابتدا میں یہ شیعہ مسلمانوں کا سب سے بڑا گروہ ہوا کرتا تھا۔ بعد میں اثناء عشری (12 اماموں پر یقین رکھنے والے) اکثریت میں آ گئے اور یہ لوگ یمن تک محدود ہو کر رہ گئے۔ یمن پر ان کی حکومت کا دورانیہ خاصا طویل یعنی 1964ء میں مصر کے حملے تک یمن پر زیدیوں ہی کی حکمرانی تھی۔ مگر اس وقت ان کے سعودی حکمرانوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ جب کہ مصر کے جمال ناصر ان کے مخالف ہوا کرتے تھے۔ یہی تاریخ کے وہ دلچسپ موڑ ہیں، جو عالمی اور علاقائی سیاست کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔
1979ء میں آنے والے ایرانی انقلاب کے نتیجے میں مسلم دنیا کو دو پیغامات ملے۔ اول، پشتینی بادشاہتوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ دوئم، مذہبی رہنما اور جماعتیں عوامی حمایت سے اقتدار میں آ سکتی ہیں۔ ان دونوں پیغامات کے اثرات آنے والے دنوں میںکرہ ارض پر موجود 56 ممالک کی سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں واضح طور پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ اول، وہ تمام ممالک جہاں پشتینی بادشاہتیں یا شیوخ کی حکمرانی ہے، وہ ایران کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ دوئم، مسلمانوں کے دیگر عقائد کے ماننے والے گروہ بھی سیاسی بنیادوں پر مجتمع ہونے لگے۔ یوں مذہب کو سیاسیانے (Politicise) اور عسکریت پسندی کے ذریعے اقتدار میں آنے کا رجحان پروان چڑھنے لگا، جس کے نتیجے میں مذہب (Religion) سے زیادہ مذہبیت (Religiosity) کو اہمیت حاصل ہو گئی۔ اس صورتحال کے نتیجے میں مسلم دنیا میں تقسیم در تقسیم کا ایک ایسا ماحول پیدا ہو گیا ہے، جس کے آنے والے دنوں میں بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا ماضی کے تجربات اور موجودہ عالمی منظرنامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ، سیاسیات اور عمرانیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر ہم حکومت پاکستان کو یہ مشورہ دینا اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں کہ خدارا اس قضیے سے دور رہنے کی کوشش کریں۔ وطن عزیز پہلے ہی مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کی دلدل میں بری طرح دھنسا ہوا ہے، حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں ملک کے اندر فقہی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگی کو روکنا اگر ناممکن نہیں تو کم از کم مشکل ضرور ہو جائے گا۔ ویسے بھی ہمیں ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان نے عرب حکمرانوں کے لیے ہمیشہ تن، من، دھن کی بازی لگائی ہے، چاہے اس کے نتیجے میں خود ملک کو کس قدر نقصانات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑا ہو۔
پاکستانی منصوبہ سازوں کے متضاد رویوں کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کی جڑیں پیوست ہیں۔ 1956ء میں جب مصر کے مرد آہن جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو قومیایا، تو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مل کر مصر پر حملہ کر دیا۔ امریکا نے اس لڑائی کو اقوام متحدہ کے ذریعے رکوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کی اس وقت کی حکومت کے اس بحران پر رویہ اور بیانات خاصے مضحکہ خیز تھے۔ پہلے پاکستان نے مصر کی حمایت کا اعلان کیا۔
پھر بیروت ائیرپورٹ پر پاکستانی وزیر خارجہ نے اس قضیہ کو متنازعہ قرار دیا۔ جب کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں برطانیہ کی حمایت کر دی۔ چنانچہ جب اقوام متحدہ کے دستے متعین کرنے کے لیے مختلف ممالک کی افواج بھیجنے کا معاملہ درپیش ہوا، تو جمال ناصر نے پاکستان کا نام سرخ پینسل سے کاٹ دیا، کیونکہ ان کی نظر میں پاکستان کی غیر جانبداری مشکوک تھی۔ شکوک و شبہات کی یہ فضا ان کے انتقال تک جاری رہی۔ انوار السادات کے دور میں جا کر تعلقات بہتر ہو سکے۔
اب دوسری طرف آئیے۔ افغانستان میں بحران کا آغاز اس وقت ہوا، جب 17 جولائی 1973ء میں سردار داؤد نے اپنے کزن ظاہر شاہ کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کیا۔ اس وقت کے پاکستانی حکمران ذوالفقار علی بھٹو نے ایک جلسے میں سردار داؤد کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے۔ اس کے بعد انھوں نے بعض مذہبی شخصیات جن میں پروفیسر ربانی، گلبدین حکمت یار وغیرہ شامل تھے، کو اسلام آباد مدعو کیا۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے مذہبی حلقوں کو پاکستان نے اسی زمانے سے امداد دینا شروع کر دی تھی۔
28 اپریل 1978ء کو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ثور انقلاب کے نتیجے میں جب سردار داؤد قتل ہو گئے، تو پاکستانی منصوبہ سازوں نے مذہبی شدت پسند عناصر کو نئی ترقی پسند حکومت کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔ دسمبر 1979ء میں جب ببرک کارمل نے روسی فوجوں کو اپنی حکومت کے تحفظ کی خاطر مدعو کیا، تو قبائلی سرداروں اور مذہبی عناصر نے ببرک کارمل کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ یہاں پھر پاکستان کا کردار غیر مناسب تھا، جس کے نتیجے میں پورا خطہ مذہبی شدت پسندی کے نئے مظہر کے زیر اثر آ گیا۔
اسی اثنا میں ایران میں انقلاب آ گیا اور مذہبی طبقہ اقتدار میں آ گیا۔ امریکا کے علاوہ سعودی عرب بھی ایران کے نئے حکمرانوں کے خلاف صف آرا ہو گیا۔ کیونکہ اسے خطرہ پیدا ہو گیا کہ جس طرح ایران میں بادشاہت ختم ہوئی، اس کے یہاں بھی ایسا ہی انقلاب آ سکتا ہے۔ عالمی اور علاقائی سطح پر تبدیل ہوتے اس منظرنامے میں پاکستانی منصوبہ ساز اگر خاموشی نہیں تو کم از کم فعال کردار سے گریز ضرور کر سکتے تھے۔ مگر پاکستان نے امریکا اور سوویت یونین کے درمیان ہونے والی پراکسی جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا، جس نے عالمی سطح پر پاکستان کے کردار کو خاصی حد تک متنازع بنا دیا۔
دوسری غلطی یہ کی گئی کہ دنیا بھر سے جنگجو پاکستان کے راستے افغانستان بھیجنے کا اہتمام کیا گیا۔ پھر ایک مخصوص مسلک کے مدارس میں ان کی عسکری تربیت کا بندوبست اور قبائلی علاقے میں انھیں رہائش فراہم کی گئی۔ فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان میں مختلف عقائد و مسالک کے درمیان جو بقائے باہمی کا غیر تحریری توازن قائم تھا، وہ ختم ہوگیا اور ایک مخصوص مسلک سیاسی طور پر مضبوط ہوتا چلا گیا۔
اس کے ردعمل میں دیگر عقائد کے ماننے والوں نے بھی اپنے عقائد و نظریات کو سیاسیانے (Politicise) پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دی۔ یوں پاکستان میں نئے فرقہ وارانہ تضادات شروع ہوئے، جو وقت گزرنے کے ساتھ متشدد ہوتے چلے گئے۔ جس کا خمیازہ آج تک پاکستانی عوام بھگت رہے ہیں۔ اب یمن کے اندرونی معاملات میں سعودی حکومت کا ساتھ دے کر ایک نئے بحران کو اپنے ملک میں دعوت دی جا رہی ہے، جس کے نتائج تصور سے زیادہ بھیانک نظر آ رہے ہیں۔
اب تھوڑی کی گفتگو یمن کی موجودہ صورتحال کے بارے میں۔ یمن کی تقریباً 40 فیصد آبادی زیدیہ شیعہ عقیدے کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔ یہ ابتدائی دور کا فرقہ ہے، جس کے ماننے والوں نے بنو امیہ کی حکمرانی کے خلاف کھل کر جدل کیا تھا۔ ابتدا میں یہ شیعہ مسلمانوں کا سب سے بڑا گروہ ہوا کرتا تھا۔ بعد میں اثناء عشری (12 اماموں پر یقین رکھنے والے) اکثریت میں آ گئے اور یہ لوگ یمن تک محدود ہو کر رہ گئے۔ یمن پر ان کی حکومت کا دورانیہ خاصا طویل یعنی 1964ء میں مصر کے حملے تک یمن پر زیدیوں ہی کی حکمرانی تھی۔ مگر اس وقت ان کے سعودی حکمرانوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ جب کہ مصر کے جمال ناصر ان کے مخالف ہوا کرتے تھے۔ یہی تاریخ کے وہ دلچسپ موڑ ہیں، جو عالمی اور علاقائی سیاست کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔
1979ء میں آنے والے ایرانی انقلاب کے نتیجے میں مسلم دنیا کو دو پیغامات ملے۔ اول، پشتینی بادشاہتوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ دوئم، مذہبی رہنما اور جماعتیں عوامی حمایت سے اقتدار میں آ سکتی ہیں۔ ان دونوں پیغامات کے اثرات آنے والے دنوں میںکرہ ارض پر موجود 56 ممالک کی سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں واضح طور پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ اول، وہ تمام ممالک جہاں پشتینی بادشاہتیں یا شیوخ کی حکمرانی ہے، وہ ایران کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ دوئم، مسلمانوں کے دیگر عقائد کے ماننے والے گروہ بھی سیاسی بنیادوں پر مجتمع ہونے لگے۔ یوں مذہب کو سیاسیانے (Politicise) اور عسکریت پسندی کے ذریعے اقتدار میں آنے کا رجحان پروان چڑھنے لگا، جس کے نتیجے میں مذہب (Religion) سے زیادہ مذہبیت (Religiosity) کو اہمیت حاصل ہو گئی۔ اس صورتحال کے نتیجے میں مسلم دنیا میں تقسیم در تقسیم کا ایک ایسا ماحول پیدا ہو گیا ہے، جس کے آنے والے دنوں میں بھیانک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا ماضی کے تجربات اور موجودہ عالمی منظرنامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ، سیاسیات اور عمرانیات کے ایک ادنیٰ طالب علم کے طور پر ہم حکومت پاکستان کو یہ مشورہ دینا اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں کہ خدارا اس قضیے سے دور رہنے کی کوشش کریں۔ وطن عزیز پہلے ہی مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کی دلدل میں بری طرح دھنسا ہوا ہے، حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں ملک کے اندر فقہی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر خانہ جنگی کو روکنا اگر ناممکن نہیں تو کم از کم مشکل ضرور ہو جائے گا۔ ویسے بھی ہمیں ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔